دین کے سیاست سے جداھونے کا دعوی کرنےوالوں کی دلائل کا جواب دینے سے دین کی سیاست میں مداخلت ثابت ھوتی ہے-
ان کی دین اور سیاست کی ذات جدا ھونے کی دلیل اور اسی وجہ سے ان دو کے ایک ساتھ جمع نہ ھونے کے جواب میں کہنا چاہیئے: دینی سیاست، یعنی انسان کے لئے حقیقی سعادت کی ضمانت کے لئے معاشرہ کو دینی معیاروں اور قدروں کی بنیادوں پر ادارہ کرنے کے سلسلہ میں عقلی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بہ الفاظ دیگر " دینی سیاست" کے متحقق ھونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے-
دینی امور کے مصلحتی ھونے کے استدلال کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ یہ امر صرف دین اور سیاست کے بارے میں دینی احکام سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام قوانین کا مجموعہ ایساہی ہوتا ہے، یعنی اس کے اکثر قضایا مصلحتی ہیں-
یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ: دین ثابت ہے اور دنیااور اس کی سیاست متغیر ہے ایک ثابت امر کے ذریعہ متغیر امور کا ادارہ نہیں کیا جاسکتا ہے ، اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ : دین اور دنیا دونوں کے بعض امور ثابت اور بعض متغیر ہیں اور دین کا ہر حصہ دنیا کے کسی نہ کسی حصہ پر ناظر ھوتا ہے- فقہی مدیریت کا کار آمد نہ ھونے کے الزام کے بارے میں کہنا چاہئیے کہ اسلامی فقہ میں آفاقی عناصر کی موجود گی اور اس کے انسان کی زندگی اور معاشرہ میں ثابت اورمتغیر حالات کے پیش نظر فقہ ایک راہنمائی کا رول ادا کرسکتا ہے- اجتہاد کا وجود فہم دین کا ایک طریقہ کار ہے، اجتہاد دینی اعتقادات کے صحیح ھونے کو پورا کرتا ہے اور نئے سوالات کا جواب دینے کا امکان بھی فراہم کرتا ہے – اس طرح انسان کے علم سے دینی مقاصد اور نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے فقہی مدیریت، استفادہ کرتی ہے-
سیکو لرازم کے حامی دین کی سیاست میں مداخلت کے مخالف ہیں اور دین کے سیاست سے جدا ھونے کا دعوی کرتے ہیں- وہ اس سلسلہ میں ایسی دلائل پیش کرتے ہیں کہ ان کی ان دلائل کا جواب دے کر دین کے سیاست میں مداخلت کے ضروری ھونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے – ذیل میں ہم سیکو لرازم کی بعض دلائل اور ان پر تنقید کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱-سیاست اور دین کے درمیان ذاتی فرق
۲-دینی امور، مصلحتی قضایا ہیں
۳-دین ثابت اور دنیا متغیر ہے-
۴-فقہی مدیریت کا کار آمد نہ ھونا
ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر ان دلائل کو بیان کرکے ان کی جانچ کریں گے-
۱-سیاست اور دین کے درمیان ذاتی فرق
بعض سیکو لرازم کے حامیوں نے ذات پر [1] تاکید کرتے ھوئے کہا ہے کہ: ذات اور ماہیت کی اپنی خصوصیت ہے اور دین کی ذات، سیاست کی ذات سے فرق رکھتی ہے- اس لحاظ سے " دینی سیاست" نا ممکن ہے-
اس کے جواب میں کہنا چاہئیے: سیاست کی ماہیت، معاشرہ کو ادارہ کرنا اور دین کی ماہیت ، انسان کی حقیقی سعادت کی طرف خداوند متعال کی طرف سے راہنمائی ہے – اس توصیف کے پیش نظر " دینی سیاست" یعنی دینی معیاروں اور قدروں پر مبنی معاشرہ کا نظم و نسق چلانا ہے تاکہ انسان کو حقیقی سعادت حاصل ھوجائے – پس " دینی سیاست" کے متحقق ھونے میں عقلی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے-
۲-دینی امور، مصلحتی قضایا ہیں:
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ: دینی امور، مصلحتی قضایا ہیں کہ انھیں ہر خاص حادثہ کے بارے میں راہنما قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، جبکہ سیاست اور معاشرہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے خاص قسم کی راہنمائی کی ضرورت ہے، اس لئے دین کو، سیاست میں ایک مرجع اور راہنما کے عنوان سے پیش نہیں کیا جاسکتا ہے-[2]
اس دعوی کی تشریح کے لئے مصلحتی قضایا کی وضاحت کرنا ضروری ہے- احکام و قضایا کو ہر شعبہ میں، من جملہ دین، میں تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱-سببی احکام: یہ وہ احکام ہیں کہ تمام حالات میں ایک ہی صورت میں ھوتے ہیں- جیسے: ظلم حرام ہے یا عدل واجب ہے کہ یہ احکام کسی صورت میں تبدیل نہیں ھوتے ہیں-
۲-اقتضائی احکام: یہ وہ احکام ہیں جو کسی رکاوٹ سے مواجہ نہ ھونے کی صورت میں اپنی خاص صورت میں باقی رہتے ہیں، جیسے: سچ بولنا واجب ہے، اوراگر کسی رکاوٹ سے مواجہ ھوجائیں، مثال کے طور پر،اگر سچ بولنا کسی کی جان کے لئے خطرہ ھوتو واجب نہیں ہے-
۳-حالات کے تحت احکام: یہ وہ احکام ہیں جو مختلف حالات میں خاص صورت میں متحق ھوتے ہیں، مثال کے طور پر کسی دلیل کے بغیر جسمانی اذیت صحیح نہیں ہے، لیکن اخلاقی گمراہی کے سد باب کے طور پر ایک صحیح امر ھوسکتی ہے-
اگرچہ مذکورہ تینوں صورتیں دین میں قابل تصور ہیں، بلکہ موجود ہیں، لیکن اکثر احکام شرعی اقتضائی قضایا ہیں کہ رکاوٹ سے مواجہ نہ ھونے کی صورت میں اپنی خاص صورت میں باقی رہتے ہیں-
لیکن قابل توجہ ہے کہ یہ امر صرف دین یا شعبہ سیاست میں دینی احکام سے مخصوس نہیں ہے، بلکہ ہر قانونی مجموعہ اسی صورت میں ہے، یعنی ان کے اکثر قضایا اقتضائی اور مصلحتی ھوتے ہیں- اور کلی طور پر ایک ایسا قانون وضع نہیں کیا جاسکتا ہے جس میں ہر مسئلہ کے بارے میں افراد کا فریضہ ایک خاص صورت میں مشخص ھو – قانون ہمیشہ کلی صورت میں وضع ھوتا ہے اور یہ کلیات ممکن ہے رکاوٹ سے مواجہ ہونے کی صورت میں بدل جائیں - قبل تصور رکاوٹیں مختلف ہیں ، لیکن شائد ان میں سے سبسے اہم اور مشہور ترین رکاوٹ یہ ہے کہ حکم دوسرے حکم کے نفاذ میں رکاوٹ بنے- اس امر کو فقہ اسلامی میں " تزاحم احکام" کہا جاتا ہے، اس سلسلہ میں دونوں احکام میں سے ایک کے دوسرے پر ترجیح کا معیار موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اہم حکم کو کم اہم حکم پرترجیح دی جاتی ہے- دوسری جانب سے، شرع میں کچھ ضوابط اہمیت کے طور پر بیان کئے گئے ہیں، من جملہ افراد کی جان کی حفاظت ان کے مال کی حفاظت سے اہم تر ہے-
خلاصہ یہ کہ، اکثر قوانین کے اقتضائی ھونے کی خصوصیت، صرف دین سے مخصوص نہیں ہے، فریضہ واضح ھونے کے لئے ہر مورد میں جس چیز کو انجام دیا جاسکتا ہے _ یعنی مختلف حالات کے لئے معیار کا معین کرنا_ ایک ایسا کام ہے جو دین میں انجام پایا ہے- لہذا اس لحاظ سے دینی احکام یا دینی سیاست میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے-[3]
۳-دین ثابت اور دنیا متغیر ہے:
سیکو لرزم کے حامیوں کی سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ سیاسی امور میں دین مرجع نہیں بن سکتا ہے، یعنی وہ دین کو ثابت اور دنیا کو متغیر جانتے ہیں اس بحث کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا- [4]ان کے اس استدلال کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ: دین ایک مقدس امر ہے اور مقدس امور ثابت اور ناقابل تغیر ھوتے ہیں- جبکہ دنیا مسلسل تغییر کی حالت میں ہے اور اس میں موجود مناسبات مسلسل تبدیل ھوتے رہتے ہیں، اس وصف کے پیش نظر، دین، دنیوی امور اور سیاست کے لئے مرجع نہیں ھوسکتا ہے-
اگر مذکورہ مطالب پر غور کیا جائے تو واضح ھوتا ہے کہ اس استدلال میں دو نقص پائے جاتے ہیں کہ ان کا مجموعہ ایک مغالطہ ہے-
پہلا نقص: یہ ہے کہ خیال کیا گیا ہے کہ دین میں کوئی بھی متغیر عنصر نہیں پایا جاتا ہے، جبکہ ہم نے اس سے پہلے والی بحث میں دین میں موجود متغیر عناصر کو بیان کیا ہے اور نتیجہ حاصل کیا ہے کہ دین انسان کی ھویت کے ثابت پہلو کے لئے آفاقی راہنمائی رکھتا ہے اور انسان کے متغیر پہلو کے لئے عارضی تعلیمات رکھتا ہے- بعد والی کوششوں میں اسلام میں آفاقی اور عارضی عناصر کی کیفیت، اور انسانی زندگی میں " مدون نظریہ" کے عنوان سے ان کے آپسی رابطہ کو بیان کریں گے-
دوسرا نقص: مذکورہ استدلال اس سلسلہ میں ہے کہ دعوی کیا گیا ہے کہ دنیا متغیر ہے، یعنی کوئی چیز دنیا میں ثابت نہیں ہے اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ دنیا کی تمام چیزیں تبدیل ھونے والی ہیں- جبکہ انسان کی فطرت کے مطابق دنیا میں کچھ جلوے ثابت اور ناقابل تغییر ہیں جو ان کے درمیانی رابطہ کے جوہر کو تشکیل دیتے ہیں اور اس کے علاوہ دنیا قابل تعبیر پہلو بھی رکھتی ہے جو روابط کی صورت میں ہے- اس لحاظ سے دین اور دنیا دونوں کے ثابت اور قابل تغییر پہلو ہیں-
۴-فقہی مدیریت کا کار آمد نہ ھونا:
بعض لوگ فقہی مدیریت کو ماضی میں قبول کرکے اب اسے ختم شدہ ایک امر جانتے ہیں اور عصر جدید کو علمی مدیریت کا زمانہ اعلان کرتے ہیں- اس بیان کی بنیاد ان کی نطر میں فقہ کا ناساز گار ہونا ہے، بہ الفاظ دیگر دین و دانش کا کار آمد نہ ھونا ہے- گویا دین نادانی کے عالم میں تشکیل پایا ہے اور سائنس کے زمانہ میں بوریا بسترہ گول کرچکا ہے-
اس لحاظ سے کہتے ہیں:" فقہ کی مشکل کشائی ایک سادہ اور غیر ترقی معاشرہ سے مخصوص تھی اور انسانوں کے مختصر مسائل کو حل کیا جاتا تھا: اس زمانہ میں ابھی معاسرتی زندگی کے لئے قانون مندی، بازار، خاندان، نظام حکومت ابھی کشف نہیں ہوا تھا اور اس کی جگہ سلطان اور فقیہ کی فرمانروائی نے لی تھی، اس لئے خیال کیا جاتا تھا جہاں پر کوئی مشکل پیدا ھوجائے فقہی احکام سے ان کو حل کیا جائے گا- زخیرہ اندوزوں کے لئے فقہی حکم موجود ہے تاکہ زخیرہ اندوزی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے- مفسدین، گراں فروشوں اور دوسرے مجرموں کا فقہی حکم سے علاج کیا جاسکتا تھا- لوگ مسائل کو حل کرنے کے لئے علمی طریقہ کار اور معاشرہ کی علمی مدیریت سے نا آگاہ تھے- معروف ترین مدیریت، صرف فقیہ کی مدیریت تھی- لیکن کیا آج کے زمانہ میں اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ صنعت و تجارت کی ترقی اور عالمی سیاسی روابط جیسے مسائل کو فقہ حل نہیں کرسکتی ہے؟؛"[5]
اس قسم کا نظریہ ایک جانب سے اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے کا نتیجہ ہے اور دوسری جانب سے فقہ کی قدرت ار توانائیوں سےغفلت اور اسلام کی طرف سے دوسرے علوم سے مختلف ابعاد میں استفادہ کرنے کی تاکید کے بارے میں بے تو جہی ہے-
اسلامی فقہ، اس کے ثابت اور متغییر ابعاد میں آفاقی اور مصلحتی عناصر کے وجود کے پیش نظر انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے راہنما و مرجع ھوسکتی ہے- اجتہاد کا وجود دین کو سمجھنے کے معیار کا طریقہ ہے- اجتہاد، دین کے بارے میں صحیح نظریہ پیش کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نئے سوالات کا جواب دینا بھی ممکن بناتا ہے- دوسری جانب سے، فقہ سے استفادہ کرنا اور اس کی طرف رجوع کرنا، علوم و دانش سے منہ موڑنے کے معنی میں نہیں ہے- بلکہ ضروریات کے مطابق مختلف علوم سے استفادہ کرنے کی بھی فقہ اجازت دیتی ہے اور دین کے متغییر امور کی تعلیمات کے سلسلہ میں سائنس دین کے آفاقی عناصر کے متحقق ھونے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے-[6]
اس لئے نہ فقہ کی طرف رجوع کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے اور نہ فقہ ، علوم سے استفادہ کرنے میں رکاوٹ ہے، بلکہ حقیقت میں فقہی مدیریت، دینی نصب العین اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئےانسانی علوم کی توانائیوں سے استفادہ کرنا ہے-[7]
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سائٹ کے سوال: 26833{ سائٹ: fa7977}، عنوان:" دخالت دین در سیاست" کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
[1] Essentialism
[2]ملاحظہ ھو : عادل ظاهر، الاسس الفلسفيية للعلمانية، ص 178 - احمد واعظى، حكومت دينى، ص 70.
[3] کتاب ولایت و دیانت «جستارهایی در اندیشه سیاسی اسلام»، استاد مهدی هادوی تهرانی، صص 42 – 45.
[4] ایضا، مبحث «ثبات دين و تغيير دنيا».
[5] . عبدالكريم سروش، قصه ارباب معرفت، صص 55 - 54.
[6] مهدى هادوى تهرانى، مبانى كلامى اجتهاد، صص 404 - 403 و مهدى هادوى تهرانى، ولايت فقيه، صص 64 - 61.
[7] . کتاب ولایت و دیانت «جستارهایی در اندیشه سیاسی اسلام»، استاد مهدی هادوی تهرانی، صص 47- 45.