گناھوں کے بخشنے کے طریقے مختلف ھیں، جن میں سے بعض کی جانب یھاں پر ھم اشاره کریں گے۔
۱۔ توبھ اور خدائے متعال کی جانب لوٹنا پورے شرائط کے ساتھه۔
۲۔ زیاده نیک اعمال بجالانا۔ جو برے اعمال کو بخشنے کا سبب بنتا ھے۔
۳۔ کبیره گناھوں سے دوری اختیارکرنا جو چھوٹے گناھوں کو بخشنے کا سبب بنتا ھے۔
۴۔ دنیاوی سختیوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنا ، برزخ کی سختیاں اور محشر کی ابتدائی مشکلات مؤمنوں کی غیر شفافیت کو مٹادیتی ھیں۔
۵۔ شفاعت، کے سلسلے میں توجھ کرنا چاھئے کھ شفاعت گناھگاروں کی گزشتھ حالت میں تبدیلی اور تغیر کا سبب بنے اور اس میں بخشے جانے اور گناھوں سے پاک ھونے کی صلاحیت پیدا ھوجائے۔
۶۔ عفو الھی ، ان افراد کو شامل ھوتا ھے، جو اُس کے شرائط اور قابلیت رکھتے ھوں ، یعنی عفو ان مؤمنوں کو شامل ھوتا ھے جو عمل میں برے اور آلوده تھے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات سے یھ سمجھا جاتا ھے۔ کھ گناھوں کی معافی اور بخشے جانے کے طریقے راھیں متعدد ھیں جن کی طرف یھاں پرھم اشاره کرتےھیں۔
۱۔ توبھ اور خدا کی جانب لوٹنا جو گزشتھ گناھوں سے ندامت اور آئنده گناه نھ کرنے کے عزم ، کے ساتھه ھو ۔ برے اعمال کی نیک اعمال انجام دینے سے تلافی کرنا۔ قرآن مجید کی بھت سی آیات اس پر دلالت کرتی ھیں لیکن اختصار کے پیش نظر ھم صرف ایک آیت کی طرف اشاره کریں گے
" ھو الذی یقبل التوبۃ عں عباده و یعفوا عن السیئات " [1] ، :"وه (خدا) وھی ھے جو اپنے بندوں کی توبھ کو قبول کرتا ھے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ھے "
توبھ کی حقیقت گناھوں سے نادم ھونا ھے۔ جس کا لازمھ مستقبل میں گناه نھ کرنے کا اراده کرنا ھے اور جو اعمال تلافی کے قابل ھوں ان کی تلافی کرنا اور استغفار کھنے کا مطلب بھی یھی ھے۔ اس ترتیب کے ساتھه ارکان توبھ کا پانچ چیزوں میں خلاصھ کیا جاسکتا ھے۔
۱۔ گناه کو ترک کرنا۔
۲۔ نادم اور پشیمان ھونا۔
۳۔ آئنده گناه نھ کرنے کا عھد کرنا۔
۴۔ گزشتھ گناھوں کی تلافی کرنا۔
۵۔ استغفار کرنا [2]
۲۔ زیاده نیک کام انجام دینا جو برے اعمال کے بخشنے کا سبب بنتا ھے جیسا کھ قرآن کریم نے فرمایا ھے
" ان الحسنات یذھبن السیئات " [3] نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ھیں۔
۳۔ گناھان کبیره سے دور رھنا جو صغیره گناھوں کو بخشنے کا سبب بنتا ھے ۔ "ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنھ نکفر عنکم سیئاتکم و ندخلکم مدخلا کریما " [4] اگر تم بڑے بڑے گناھوں سے جن سے تمھیں روکا گیا ھے پرھیز کرلو گے تو ھم دوسرے گناھوں کی پرده پوشی کریں گے اور تمھیں با عزت منزل تک پھنچا دیں گے۔ [5]
۴۔ دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں پر صبر کرنا مؤمنوں کے گناھوں کے بوجھه کو ھلکا بنادیتا ھے اور برزخ کی سختیوں اور قیامت کے ابتدائی مراحل میں مؤمنوں کو پاک کردیتا ھے۔[6]
۵۔ شفاعت ، جس کی حقیقت ، ایک ضعیف موجود کا ایک طاقتور موجود میں ضم ھونا ھے تا کھ اس سے مدد حاصل کرسکے، یھ مدد ممکن ھے اس کی طاقت کو زیاده کرنے کے لئے ھو یا اس کا ضعف دور کرنے کے لئے ھو۔ [7]
اسلام اور قرآن [8] میں شفاعت کا مفھوم ، تبدیلی اور تغیر کے مرکز کے گرد گھومتا ھے ، یعنی شفاعت حاصل کرنے والا اپنے اندر تبدیلی اورتغیر پیدا کرے ، اور ایسے اسباب فراھم کرے کھ وه سزا کی مستحق حالت سے نکلے اور شفیع کے ساتھه رابطھ قائم کرکے اپنے آپ کو بخشش کی مستحق حالت تک پھنچا دے۔
شفاعت کے اس معنی پر ایمان رکھنا ، حقیقت میں تربیت کا بلند مکتب اور گناھگار اور آلوده افراد کی اصلاح کا اچھا وسیلھ اور انکی آگاھی اور بیداری کا موجب ھے۔[9]
متعدد روایات کے مطابق " مقام محمود" جس کا قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم سے وعده کیا گیا ھے ، یھی مقام شفاعت ھے اور اس طرح آیھ شریفھ " و لسوف یعطیک ربک فترضی" کھ تمھارا پروردگار تمھیں اتنا عطا کرے گا کھ تم خوش ھوجاؤ گے ، گناھگاروں کو بخشنے کی جانب اشاره ھے جو کھ آنحضرت کی شفاعت کے ذریعے مستحق افراد کو شامل ھوتا ھے۔
پس گناھگاروں کی سب سے بڑی اور آخری امید شفاعت ھے اور اسلام میں مطمح نظر ایسی شفاعت ھے جو اپنے خاص شرائط کے ساتھه انسانوں کی تربیت کا ایک طریقه ، اور گناھوں سے پاک ھونے کے لئے ھر طرح کی کمی کو پورا کرنے کی ایک امید اور اعلی اقدار کی جانب حرکت کرنے کا ایک راستھ ھے۔
۶۔ " خدا کا عفو"[10] ایسے افراد کو شامل ھوتا ھے، جو اس کی صلاحیت رکھتے ھوں یعنی وه ایسے مؤمن ھیں جو عمل میں برے یا آلوده تھے۔ اگر ان کو عفو الھی شامل ھوجائے تو وه بھشت میں جانے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے اور اگر عفو الھی ان کو شامل ھوجائے تو وه دوزخ کی طرف جائیں گے لیکن ان کا آخری ٹھکانا وھاں نھیں ھوگا اور ھمیشھ وھاں نھیں رھیں گے۔ [11]
ایک مرتبھ پھر تاکید کرتے ھیں کھ عفو الھی ، خدا کی مشیت سے متعلق ھے اور یھ ایک عمومی اور بے قید و شرط مسئلھ نھیں اور اس کی مشیت اور ارداه صرف ان افراد کے بارے میں ھے جو عملی میدان میں اپنی صلاحیت کو ثابت کرتے ھیں ، پس خداوند متعال جو انسان کا خالق اور اس کی خصوصیات سے آگاه ھے۔ اس کے چھوٹے یا بڑے سب گناھوں سے پاک ھوجانے کو ممکن ٹھهراتا ھے اور سب کو اپنے گناھوں سے پاک ھوجانے کی دعوت دیتا ھے اور ان سے بخشش اور عفور کا وعده کرتا ھے ، یھاں تک کھ خدا کی بخشش سے نا امیدی کو سب سے بڑا گناه شمار کیا ھے ، سب الھی پیغمبر لوگوں کو خدا کی رحمت کے بحر بیکراں تک پھنچاننے کیلئے مبعوث ھوئے ھیں یھاں تک که پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو پیغمبر رحمت کا لقب عطا کیا گیا ھے۔
آخر میں جس نکتھ پرھم پھر تاکید کرتے ھیں وه یھ ھے کھ اگر مومن شخص موت آنے تک اپنے ایمان کو بچائے رکھے اور گناھوں کا ارتکاب نھ کرے که جو اس سے سلبِ توفیق کا باعث بنے اور سر انجام شک اور تردید اور انکار و کفران کا موجب ھو، ایک جملھ میں کھھ سکتے ھیں که " اگر وه با ایمان دنیا سے چلا جائے " تو وه ابدی عذاب میں مبتلا نھیں ھوگا۔ بلکھ بڑے گناھوں سے دور رھنے کے سبب اس کے چھوٹے گناه بخش دئے جائیں گے اور اس کےبڑے گناه ، کامل اور مقبول توبھ کرنے سے معاف کئے جائیں گے۔ اور اگر وه اس طرح توبھ کرنے میں کامیاب نھ ھوا تو دنیاوی مشکلات و مصائب اس کو گناھوں سے ھلکا کردیں گے۔ اور برزخ کی سختیاں اور قیامت کے ابتدائی مراحل اس کی غیر شفافیت کو مٹادیں گی اور اگر تب بھی گناھوں سے پاک نھ ھوا ، تو شفاعت کے ذریعے ( جو اولیاء خدا خصوصا حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اور ائمھ طاھرین علیھم السلام میں خدائی رحمت کی بھتریں تجلّی ھے) جھنم کی آگ سے نجات پائے گا۔ لیکن ھر حال میں اسے خدا سے خوف رکھنا چاھئے تا کھ اس سے ایسا کام صادر نھ ھوجائے جو اس کے سوء عاقبت اور سلب ایمان کا موجب بنے اورموت کے وقت دنیاوی امور سے محبت اس کے دل میں ایسا رسوخ نھ کرے کھ (نعوذ باللھ ) خدا کے غضب کے ساتھه اس دنیا سے چلا جائے۔[12]
[1] سوره شوری / ۲۵۔
[2] تفسیر نمونھ ، ج ۲۴ ص ۲۹۰۔
[3] سوره ھود / ۱۱۴۔
[4] سوره نساء / ۳۱۔
[5] مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش عقاید ، ص ۴۷۷۔
[6] آموزش عقاید ، ص ۴۸۱۔
[7] مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں ، اسلام میں شفاعت کا مفھوم ، سوال ۳۵۰۔ عنوان : شفاعت اور خدا کی رضا ، سوال نمبر ۱۲۴۔
[8] سوره سجده / ۴ ، سوره زمر / ۴۴۔ سوره بقره / ۲۵۵۔ سوره سبا / ۲۳۔ وغیره
[9] تفسیر نمونھ ج۱ ص ۲۳۲۔
[10] سوره شوری / ۲۵۔
[11] تفسیر نمونھ ، ج ۲۶ ص ۱۱۱۔
[12] آموزش عقاید ، ص ۴۸۱ اور ۴۸۲۔