شادی بیاه کی بنیاد،اس استحکام اور استمرار، دوستی، محبت آپسی تعاون، ایک دوسرے کے احترام ، اور باهمی حقوق کے خیال رکھنے پر مبنی ھے۔
دین اسلام نے گھریلو ماحول اور اس چھوٹے سے سماج کی بنیادیں مستحکم کرنے کے لئے، اس میں رھنے والے مرد اور عورت کے حقوق کو بیان کیا ھے۔ اور ان حقوق کے تئیں ان دونوں کے لئے کچھه فرائض اور ذمھ داریاں معین کی ھیں ، کیونکھ خداوند متعال نے جھاں پر بھی کسی طرح کے حق کو معین کیا ھے اس کے لئے ایک فرض بھی مقررکیا ھے ، ھم اس مقالے میں مردوں کے تئیں عورتوں کی ذمھ داریوں کے متعلق سوال کئے جانے پر، شوھر کے تئیں عورت کی بعض اھم دینی اور قانونی ذمھ داریوں کو بیان کریں گے اور عورتوں کے تئیں مردوں کے حقوق کا بھی ذکر کریں گے۔
۱۔ شوھر کی سرپرستی کو ماننا: اگر شادی بیاه میں کوئی گھریلو مسئلھ پیش آیا،تو اس کا حل ، شوھر کی آخری منشاء کے مطابق ھوتا ھے۔ البتھ شوھر کی یھ ذمھ داری ، نیک اسلوبی کے دائرے سے باھر اور شرع و قانوں کی مخالفت پر مبنی نھیں ھونی چاھئے ، اور شوھر کے لئے سوء استفاده کرنے کا سبب نھ بنے۔
۲۔ عورت کا مرد کی فرمانبرداری کرنا : عورت کو مرد کی شھوانی خواھش پوری کرنے کے لئے اپنے اندر ھر طرح کی تیاری رکھنی چاھئے ، البتھ یھ تیاری اس کی جسمانی اور روحانی طاقت کے مطابق اور عرف کی حد تک ھونی چاھئے ، سواے اس کے کھ کوئی شرعی یا قانونی عذر موجود ھو ، جیسے ماھواری یا کسی طرح کی بیماری وغیره۔
۳۔ اپنی قیام گاه اور گھر بسانےمیں مرد کی تابعداری: بجز اس کے کھ مرد اس اختیار کو اپنی بیوی پر چھوڑ دے ، یا عورت کی سماجی شان کے مخالف ھو یا اس کیلئے جان اور جسم کو خطره ھو۔
۴۔ گھر سے نکلنے کے لئے اور کسی اور گھر میں بلانے کیلئے مرد کے تابع رھنا سواے اس کے کھ کسی دینی واجب کو انجام دینے کیلئے جیسے واجب حج کی انجام دھی، یا علاج کرنے کے لئے یا گھر میں رھنے سے جان یا عزت کا خطره ھو۔
۵۔ کام کرنے میں یا کوئی پیشھ انتخاب کرنے میں مرد کے تابع ھونا: سواے اس کے کھ عرف ، زمان اور مکان اور مرد اور عورت کے حالات کے خلاف ھو۔
خداوند متعال نے مرد اور عورت کو جسمانی اور روحانی لحاظ سے اس طرح خلق کیا ھے کھ ایک دوسرے کے بغیر ان کی خلقت اور ان کا باقی رھنا ممکن نھیں ھے۔ اور نه ھی ان میں سے ایک کی جسمانی اور روحانی ضرورتیں دوسرے کے بغیر پوری ھوتی ھیں۔ ان میں سے کسی کا روحانی اور دینی کمال انفرادی اور اجتماعی صورت میں دوسرے کے بغیر ممکن نھیں ھے۔ وه ایک کامل موجود کے دو حصوں کے مانند ھیں جو ایک دوسرے کے بغیر ناقص ھیں اور مل کر ھی اس موجود کو کامل کرتے ھیں۔ [1]
خداوند متعال نے مرد اور عورت کو اس طرح خلق کرکے ان کے روحانی اور جسمانی اختلاف کو مد نظر رکھتے ھوئے ، ان کے لئے گھریلو زندگی میں انفرادی اور مشترک طور پر ازدواجی زندگی کے حقوق اور فرائض[2] قرار دیئے ھیں تا کھ وه ایک دوسرے کی دنیوی اور اخروی ضروریات کو مکمل طور پر پوری کرسکیں۔
یھ حقوق اور فرائض: فقھی،[3] اخلاقی[4]، قانونی[5] تینوں نقطھٔ نظر سے دینی علماء کے مطمح نظر رھے ھیں۔ اور چونکھ یھاں پر شوھر کے تئیں عورت کے قانونی فرائض کے بارے میں سوال پوچھا گیا ھے اور چونکھ اخلاقی فرائض، قانونی فرائض کو مکمل کرنے والے، ان کی روح اور ضامن ھیں [6] ، نیز فقھی فرائض بھی عورت کے قانونی فرائض کے ساتھه زیاده فرق نھیں رکھتے ھیں۔ لھذا ھم مختصر طور پر ان حقوق اور فرائض کو اخلاقی اور حقوقی نقطھ نظر سے بیان کریں گے۔
پھلی قسم : اخلاقی فرائض:
روایات میں عورت کے اخلاقی فرائض دو حصوں میں تقسیم کئے گئے ھیں:
۱۔ شوھرداری کے فرائض کی اھمیت اور ان کی قیمت۔
۲۔ شوھرداری کے فرائض۔
۱۔ شوھر داری کے فرائض کی اھمیت اور قیمت
الف ) پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے فرمایا: اگر غیر خداکیلئے سجده کرنا جائز ھوتا تو میں عورتوں کو امر کرتا کھ وه اپنے شوھروں کا سجده کریں۔
ب ) شوھر کا عورت پر حق ، سب حقوق سے زیاده ھے۔
ج) عورت کا جھاد ، شوھر کی تکلیفوں پر صبر کرنا ھے۔
د) عورت اپنے شوھر کو غصھ نھ دلائے اگر چھ شوھر نے اس کو تکلیف بھی پھنچائی ھو۔
ھ) جس عورت کا شوھر اس سے ناراض ھو اس کے اعمال مقبول نھیں ھوتے۔
و ) جو عورت اپنے شوھر کی قدردانی نھیں کرتی اس کے اعمال پر کوئی ثواب نھیں ھے۔[7]
۲۔ شوھر داری کے اخلاقی فرائض:
الف ) عورت کا شوھر کے علاوه کسی اور کی طرف میلان نھیں ھونا چاھئے ورنھ وه خدا کے پاس زناکار محسوب ھوتی ھے۔
ب ) عورت کو مرد کی جسمانی ضرورتوں اور شھوانی لذات کو پورا کرنا چاھئے اگرچھ اونٹ کی کاٹھی پر ھی ھو اور ھر صبح و شام میں مرد کی خواھش کو پورا کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھے ورنھ وه فرشتوں کی طرف سے مورد ملامت واقع ھوتی ھے۔
ج ) عورت کو اپنے شوھر کی اجازت کے بغیر ، مستحبی روزه نھیں رکھنا چاھئے واضح رھے که یھ مثال کے طور پر بیان ھوا ھے ورنھ ھر مستحب کام اسی طرح ھے۔
د ) عورت کی نماز کا طولانی ھونا، مرد کی خواھش پوری کرنے میں رکاوٹ نھ بنے۔
ھ) عورت کو اپنے شوھر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز حتیٰ که صدقھ بھی، کسی کو نھیں دینا چاھئے۔
و) عورت کو اپنے شوھرکی اجازت کے بغیر گھر سے باھر نھیں نکلنا چاھئے ورنھ وه آسمان اور زمین کے فرشتوں اور رحمت اور غضب کے فرشتوں کی لعنت کی مستحق بنتی ھے۔ [8]
ط) عورت اپنے شوھر کے لئے بناؤ سنگھار کرے اور شوھر کے علاوه کسی اور کیلئے عطر نھ لگائے ورنھ اس کی نماز قبول نھیں ھوتی ھے۔ [9]
دوسرا حصھ ، قانونی اور حقوقی فرائض
عورت کے قانونی فرائض دو قسم ، مرد اور عورت کے مشترک فرائض اور عورتوں کے مخصوص فرائض پر مشتمل ھیں۔
الف) مشترک فرائض
۱۔ نیک کردار: مرد اور عورت دونوں کا یه فرض بنتا ھے کھ وه مشترک گھریلو اور ازدواجی زندگی میں نیک کردار ، نیک مزاج ، اور نیک اطوار ھوں اور ھر طرح کی بدسلوکی ، بد کرداری ، اور بد گوئی سے پرھیز کریں، جب تک که کوئی شرعی اور قانونی اور عرفی عذر نه ھو۔
۲۔ تعاون : مرد اور عورت کو زندگی کی ترقی اور گھرکےاستحکام کے لئے ، آپس میں تعاون کرنا چاھئے اور اس تعاون کا معیار بھی عرف اور ثقافت' زمان اور مکان اور دونوں کی حیثیت کے مطابق ھو۔ مثال کے طور پر اگر عرف میں خانھ داری ، بچھ داری ، بچے کو دودھ پلانا، عورت کے ذمھ جانتےھیں اور گھر سے باھر کام کو مرد کےذمھ جانتے ھیں تو دونوں کو اس سلسلے میں اپنی اپنی ذمھ داریوں کو نپٹانا چاھئے۔
۴۔ وفاداری: مرد اور عورت کو دوسروں کے ساتھه غیر شرعی رابطھ نھیں رکھنا چاھئے۔
ب ) مرد کے تئیں عورت کے فرائض :
۱۔ شوھر کی سرپرستی اور حکمرانی کو ماننا: اگر شادی بیاه میں کوئی گھریلو مسئلھ پیش آیا تو اس کا حل ، شوھر کی آخری منشاء کے مطابق ھوتا ھے البتھ شوھر کا یھ فرض ، نیک اسلوبی کے دائرے میں اور شرع و قانون کی مخالفت پر مبنی نھیں ھونا چاھئے ، اور شوھر کے لئے سوء استفاده کرنے کا سبب نھ بنے۔
۲۔ عورت کو مرد کی فرمانبرداری[10] کرنا : عورت کو مردکی شھوانی خواھش پوری کرنے کے لئے اپنے اندر ھر طرح کی تیاری رکھنی چاھئے ، البتھ یھ تیاری اس کی جسمانی اور روحانی طاقت کے مطابق اور عرف کی حد تک ھونی چاھئے ، سواے اس کے کھ کوئی شرعی یا قانونی عذر موجود ھو ، جیسے ماھواری یا کسی طرح کی بیماری وغیره۔
۳۔ اپنی قیام گاه اور گھر بسانےمیں مرد کی تابع ھو ، سواے اس کے کھ مرد اس اختیار کو اپنی بیوی پر چھوڑ دے ، یا عورت کی سماجی شان کے مخالف ھو یا اس کے لئے جان اور جسم کا خطره ھو۔
۴۔ گھر سے نکلنے کے لئے اور کسی اور گھر میں بلانے کے لئے مرد کے تابع رھنا مگر یھ کھ کسی دینی واجب کو انجام دینے کے لئے جیسے واجب حج کو انجام دینے یا علاج کرنے کے لئے یا گھر میں رھنے سے کسی جانی جسمانی یا عزت کا خطره ھو۔
یھاں تک مرد کے تئیں عورت کی ذمھ داری مختصر طورپر بیان ھوئی ، اس کے آگے خلاصھ کے طور پر عورت کے تئیں میں مرد کی ذمھ داریوں کو بیان کیا جاتا ھے۔
تیسرا حصھ:
عورتوں کے تئیں مردوں کی ذمھ داری:
عورت کے مقابلے میں مردوں کے فرائض بھی دو حصوں ، اخلاقی فرائض اور قانونی فرائض میں تقسیم ھوتے ھیں۔
الف ) روایات کی نظر میں اخلاقی فرائض : اس کو بھی دو حصوں میں بیان کیا جائے گا۔
۱۔ عورتوں کے ساتھه حسن معاشرت کی اھمیت ۔
۲۔ اخلاقی فرائض اور ذمھ داریاں۔
۱۔ عورتوں کے ساتھه حسن معاشرت کی اھمیت:
الف ) عورتوں کو دوست رکھنا انبیاء کا شیوه ھے ۔ [11]
ب) ان کی دوستی کا اظھار، انبیاء کا طریقھ ھے۔
ج ) اگر عورتیں برے کام کی مرتکب ھوں تو ان کو درگزر کرنا اور بخش دینا ۔
د ) عورتوں کے ساتھه خوش روی اور نیک سلوکی۔
ح) خداوند متعال کے پاس سب سے بھترین فرد وه ھے جس کا عورتوں کے ساتھه بھترین سلوک ھو۔
و) سب سے محبوب وه مرد ھے جو اپنی عورت کی نسبت سب سے زیاده نیکی کرے۔
ذ) خداوند متعال سے ڈرنا کھ کھیں اپنی بیوی کا حق ادا نھ کر پا ئے۔
۲۔ اخلاقی فرائض :
۱۔ عورت کو پھول کی نظر سے دیکھے نھ کھ خدمتگار کی نظر سے تا کھ اس کی شادابی برقرار رھے ، اورمعمول سے زیاده کام عورت سے نھ لیا جائے۔
۲۔ مختلف مناسبتوں پر سجانے ، پھننے اور کھانے کے وسائل مھیا کرنا خصوصاً ایام عید پر ۔
۳۔ زندگی کے اھم پھلوؤں پر عورت کے ساتھه مشورت کرنا۔
۴۔ عورت کے ساتھه ھم بستری کے اخلاق اور حقوق کا خیال رکھنا۔
۳۔ قانونی فرائض :
یھ فرائض دو صورتوں میں مشترک اور مخصوص ھیں کھ جس کی پھلی قسم مرد اور عورت کے مشترک حقوق میں گزر گیٔ ۔
چوتھا حصھ: عورت کی نسبت مرد کے خاص حقوق:
مالی فرض اور نفقھ کا اداکرنا۔
۱۔ عورت کی حیثیت کی بنا پر، زمان اورمکان کے مطابق کھانا مھیا کرنا۔
۲۔ عورت کی حیثیت کی بنا پر، زمان اورمکان کے مطابق کپڑوں کو مھیا کرنا۔
۳۔ بناؤ ، سنگھار کے وسائل کو عورت کی حیثیت کے مطابق مھیا کرنا۔
۴۔ عورت کی حیثیت کے مطابق گھر مھیا کرنا۔
۵۔ عورت کی حیثیت کے مطابق گھریلو اسباب فراھم کرنا۔
۶۔ عورت کی حیثیت کے مطابق اور اس کی سماجی اور گھریلو شان کے مطابق اس کےلئے نوکر رکھنا۔
۷۔ عورت کی بیماری کا علاج اگر وه بیمار ھو۔ [12]
ب) عورت کی نسبت ، مرد کے اوپر شادی بیاه اور ھم بستری کے فرائض ۔
اس سلسلے میں قانون میں کوئی خاص بات بیان نھیں کی گئی ھے اور صرف حسن معاشرت کی عبارت پر اکتفاء کیا گیا ھے ۔ لیکن فقھاء نے اس کو دو حصوں میں بیان کیا ھے۔
۱۔ عورت کا حق اس کے شوھر پر یھ ھے کھ اگر عورت باکره ھے تو شادی کے بعد سات دن تک اس کے پاس رھے اور اگر وه ثیبھ ھے ( یعنی اسکی دوسری شادی ھے ) تو تین رات تک رھے۔ اگر مرد کی صرف ایک بیوی ھے تو ھر چار راتوں میں اس کے پاس ایک رات گزارے اور تین رات تک وه آزاد ھے۔ [13]
اور اگر اس کی کئی بیویاں ھیں تو اسے ھر چار رات میں کسی ایک بیوی کے پاس ایک رات رھنا چاھئے۔
۲۔ جنسی مباشرت : شوھر کے اوپر یھ فرض ھے کھ ھر چار مھینوں میں اپنی بیوی سے مباشرت کرے اور یھ عورت کا حق ھے۔
[1] جزوه حقوق زن در اسلام ، جلسھ ۲۰۹۔ ص ۲۰۹۶۔ استاد مصباح یزدی۔
[2] سوره بقره / ۲۳۳۔ سوره نساء / ۴۔ سوره نحل ، ۷۲ اور ۲۱۔ سوره روم اور قرآن مجید کی دوسری آیات جو مرد اور عورت کے حقوق اور تکالیف کے متعقل ھیں۔
[3] فقھاء اورمراجع عظام نے عورت کے قانونی فرائض کی بحث کو نکاح کے عقد دائم کے احکام میں بیان کیا ھے،
[4] جو کچھه اس جواب میں اخلاقی فرائض کے تحت ذکر ھوا ھے وه روایات ھیں جو معصومین علیھم السلام سے ھم تک پھنچی ھیں ان کو ھم نے حلیۃ المتقین سے نقل کیا ھے ، باب چھارم فصل ششم، اور یھ روایات عورت اور مرد کے آپسی حقوق اور ان کے احکام سے لی گئ ھیں۔
[5] یھاں پر مناسب ھے کھ اخلاقی فرائض اور قانونی فرائض کے آپس میں فرق کو ذکر کریں گے۔ ۱۔ اخلاقی حکم دین اور عقل کے مطابق ھے جبکھ قانون ، صلاحیت رکھنے والے نظام جیسے قوه عدلیھ ، اجرایھ ، قانونگذار نظام یا کسی اوربا صلاحیت نظم کے ذرایع بنائے جائے ھیں۔ ۲۔ اخلاقی احکام ، ایک فرد کا خدا کے ساتھه رابطھ یا اپنے ساتھه رابطھ یا دوسروں کے ساتھه رابطھ کے مطابق ھوتے ھیں لیکن حقوقی قوانین معاشرے مین فرد کے دوسروں کے ساتھه روابط سے متعلق ھیں ۔ ۳۔ اخلاق کا آخری مقصد انسان کا کمال اور خدا سے تقرب حاصل کرنا ھے لیکن قانون کا مقصد دنیاوی مصلحت اور نظم اور ایک آرام ده زندگی کو تشکیل دینا ھے۔ ۵۔ اخلاقی قواعد مثبت اھمیت کے حامل ھیں ۔ لیکن حقوقی قوانین کو فائده کے قصد سے بھی انجام دیا جاسکتا ھے۔ ۶۔ اخلاقی احکام واجب بھی ھیں اور مستحب بھی لیکن حقوقی قوانین سب واجب ھیں۔ ۷۔ اخلاق احکام کے اجراء کا ضامن اندرونی اور آخرتی ھے لیکن حقوقی قوانین حکومت کی طرف ضروری ھیں ، مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے فلسفھ اخلاق کی کتابوں اورمعارف قرآن کے اسباق کی طرف رجوع کریں۔ جلسھ نمبر ۱۷۷۔
[6] اس جواب میں قانون کے سب موارد ۱۱۱۲ ماده لے لے کر ۱۱۱۷ ماده ، قانونی مدنی اور عدلیھ کے قوانین جو اس بحث سے متعلق ھیں کتاب حقوق مدنی ج ۴ ص ۵ ڈاکٹر حسین امامی اور کتاب " حقوق خانواده " ج ۱ ڈاکٹر حسن صفایی اور اسد اللھ امامی سے لئے گئے ھیں۔
[7] حلیۃ المتقین ، مجلسی ، فصل ۶ ص ۷۶۔ ۷۷۔
[8] ان میں سے ایک فرق یھ ھے کھ فقھاء کے نظریھ کے مطابق عورت گھر کے کام کاج کرنے کے لے اپنے شوھر سے مزدوری مانگ سکتی ھے لیکن ماھرین قانون یا کں کی ایک جماعت کھتی ھے که یھ تعاون کرنے کے طور پر ایک ذمھ دراری ھے اور اپنی ذمھ داری نبھانے میں مزدوری نھیں لینی چاھئے۔ کتاب حقوق خانواده ، صفائی اور امامی ، ج ۱ ص ۱۶۲۔
[9] حلیۃ المتقین ، علامھ مجلسی ، فصل ۶ ص ۷ ۔ ۷۹۔
[10] تمکین عام اور خاص کے معانی کیلئے رجوع کریں ، کتاب حقوق مدنی ، ص ۱۷۳۔
[11] عروۃ الوثقی ، مرحوم طباطبائی ، یزدی ، ج ۳ کتاب نکاح۔ ص ۶۲۶۔
[12] اکثر فقھاء ، اس کو مرد کے فرائض میں سے نھیں جانتے ھیں۔ کتاب حقوق مدنی ، ص ۳۴۳۔
[13] یھ مشھور نظریھ ھے اس کے مقابلے میں دوسرا نظریھ ھے جو کھتاھے کھ معیار دوری اختیار نھ کرنا ھے ۔ ایضا ص ۴۴۶۔