پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے اھل بیت ، جو پنج تن آل عبا، یعنی حضرت محمد صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم حضرت علی، حضرت فاطمھ زھرا، حضرت حسن ، حضرت امام حسین علیھم السلام کی فضیلت کے بارے میں کثرت سے روایات ، ھیں، شیعھ اور اھل سنت کی کتابوں میں نقل ھوئی ھیں ۔ ان افراد کے مقام اور ان کی منزلت کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی تاکید صرف رشتھ داری کی بناء پر نھیں تھی۔ بلکھ ان کی لیاقت اور ان کی رفعت کی وجھ سے تھی۔ جس کا سبب ان کی فکری بلندی، سوچ ، اعمال اھداف و مقاصد تھے ، وہ خدا اور اس کی رضا کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں نھیں سوچتے تھے اور ھمیشھ اسلام کی بقا اور اس کے احیاء کے لئے احکام و دستور کی تفسیر کرکے انھیں بیان کرنے میں خاص کردار ادا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کی ھدایت اور ، ان کے کمال کے لئے ھمیشھ کوشاں رھتے تھے اور اس طرح کی ذمھ داری انجام دینے کی روشنی میں ان کے مقام کی اتنی تاکید کی گئی ھے۔
اھل بیت علیھم السلام ایک قرآنی ، حدیثی ، کلامی اصطلاح ھے جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے گھرکے افراد کے بارے میں استعمال ھوتی ھے۔ یھ اصطلاح اس معنی قرآن کریم کی آیھ تطھیر (سورہ احزاب/ آیھ 33 ) میں استعمال کی گئ ھے ، "بس اللھ کا ارادہ یھ ھے ، اے اھل بیت ! کھ آپ سے ھر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا کا حق ھے ۔ [1]
مفسریں اس آیھ کی تفسیر میں کھتے ھیں کھ ؛ اس آیت میں خدا کے " ارادہ" کا مطلب " تکوینی اور تخلیقی ارادہ" ھے [2] کیوں کھ خداوند متعال کا تشریعی ارادہ سب انسانوں کی پاکی اور طھارت سے متعلق ھے یعنی سب انسان پروردگار متعال کی تعلیم اور دستور پر عمل کرکے اور سب گناھوں سے دوری کرکے پاک دامنی تک پھنچ سکتے ھیں ۔ لیکن خداوند متعال کا تکوینی ( تخلیقی ) ارادہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے اھل بیت علیھم السلام کی طھارت اور پاکی سے متعلق ھو اھے۔ جس کے معنی یھ ھیں کھ کسی بھی طرح کی خطا اور سھو اس گھر میں ممکن نھیں اور یھ صرف اس لئے ھے کھ اسلام کے مقدس اھداف و مقاصد تک پھنچنے میں اھم کردار اس گھر کے افراد کے شانوں پر رکھا گیا ھے۔
اس کے علاوہ اھل بیت علیھم السلام کے منفرد مقام اور ان کی لیاقت پر قرآن مجید اور روایات میں تاکید کی وجہ ، ان بزرگوں کی فکری بلندی ، اندیشھ ، اعمال اور نصب العین ھے انھیں صرف خدا اور اس کی رضا کا خیال ھے ۔ قرآن مجید سورہ دھر میں اھل بیت کے ایثار کا ایک نمونھ پیش کرتا ھے اور ان کی توصیف میں فرماتا ھے : " یھ اس کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ھیں اور کھتے ھیں ھم صرف اللھ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ھیں ورنھ نھ تم سے کوئی بدلھ چاھتے ھیں اور نھ شکریھ [3]
اھل بیت کی زندگی کی تاریخ اور ان کی عملی سیرت اور ان کی تعلیمات بھترین گواہ ھیں کھ ان بزرگوں کا مقصد کلمھ طیبھ توحید کی سربلندی اور ھر طرح کی شرک اور گمراھی کی نفی کے سوا اور کچھہ نھیں ھے ۔ اھل بیت نے ھمیشھ دین اسلام کی بقاء اور اس کے اقدار کی حفاظت کے لئے، آیات قرآنی کی تفسیر اور احکام و دستور کو بیان کرکے لوگوں کی ھمدردی اور راھنمائی اور ان کے رشد اور کمال کی جانب کی ذمھ داری پوری کی ھے۔
مسائل اور احکام کی تئیں ان کا اھتمام ان تائیدات کی وجھ سے تھا، کھ لوگ ان کے بلند مقام کی طرف متوجھ رھیں اور کمال اور ھدایت کی جانب حرکت میں ان کی پیروی کریں ،کیونکھ کھ قرآن کا اصلی مقصد انسان کی ھدایت ھے " الم ، ذلک الکتاب لا ریب فیھ ھدی ً للمتقین"[4] جو بھی آیات قرآن میں غور کرے گا واضح طور پر اس نتیجھ کی تصدیق کرسکتا ھے۔ چونکھ شیعوں کے امام اور امت کے رھبر اور راھنمایی ھیں ۔ اس لئے اھل بیت علیھم السلام کا عنوان ان کے مطابق ھے اور رسول اکرم جو حقیقی طور پر قرآن کے مفسیر اور بیان کرنے والے ھیں جب اپنےبعد دینی مرجعیت امامت ، اور رھبری کو بیان کرتے تھے تو اسی لفظ اھل بیت کا استعمال کرتے تھے جیسا کھ فرماتے ھیں۔
میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑدیتا ھوں ایک کتاب اللھ اور دوسری میری عترت اھل بیت اگر ان کا دامن تھام لو گے تو کبھی گمراہ نھیں ھو گے اور یھ ایک دوسرے سے الگ نھیں ھوں گی یھاں تک قیامت کے دن حوض کوثر پر وارد ھوں گی۔ [5]
اسی طرح آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے حدیث سفینھ میں فرمایا:
"بے شک میرے اھل بیت کی مثال نوح کی کشتی کے مانند ھے جو بھی اس میں سوار ھوگا نجات پائے گا اور جو بھی تخلف کرے گا وہ ڈوب جائے گا"۔ [6]
پس دین کی حفاظت ، احکام کی تفسیر و تبیین میں اوردینی دستور لوگوں کی سرپرستی اور سماج کی ھدایت میں اھل بیت علیھم السلام کا اتنا اھم کردار ھے کھ ان سے الگ رھنا اور ان کے دستور کو ترک کرنا تباھی اور نابودی کے سمندر میں ڈوبنے کا اور انسان کی ھلاکت کا موجب بنتا ھے ۔ اور ان کا مقصد خداوند متعال کی جانب دعوت کے علاوہ اور کچھہ بھی نھیں ھے۔ [7]