بیشک قرآن مجید پیغمبر اکرم(ص)کے قلب مبارک پر دفعتا شب قدر (ماه مبارک رمضان کی ایک رات)میں نازل هوا هے .بعض روایات اور قراین کے مطابق،اس احتمال کو تقویت ملتی هے که شب قدر ماه مبارک رمضان کی وهی ٢٣ ویںشب هےاور قرآن مجید کا دفعتا نزول بعثت کے تقریبا ٥٦ دن بعد انجام پایا هے.
قرآن مجید کے تدریجی نزول کے بارے میں ،کافی اختلافات پایے جاتے هیں .معلوم هو تا هے که اس سلسله میں دو بنیادیں زیاده اهمیت کے حامل هیں:
١.قرآن مجید کا تدریجی نزول بعثت کے زمانے میں شروع هوا هے اور پیغمبر اسلام(ص)کی آخری عمر تک جاری رها .مشهور نظریه کے مطابق پیغمبر اسلام (ص)٢٧/رجب مطابق یکم فروری ٦١٠ء میںرسالت پر مبعوث هویے هیں اور ٢٨/صفر ١١ه کو آپ(ص) نے رحلت فر مایی هے.
٢.اگر چه بعثت کے زمانے میں ،قرآن مجید کی چند آیات نازل هوئی هیں لیکن کتاب آسمانی کے عنوان سےقرآن مجید کا تدریجی نزول،بعثت کے تین سال بعد ،شب قدر سے شروع هوا هے اور پیغمبر اکرم(ص)کی آخری عمر تک جاری رها.
اس بناپر،چونکه هم اس وقت فر وری ٢٠٠٧ء میں هیں ،اس لیے قرآن مجید کے تدریجی نزول کےآج تک گزرے سالوں کے بارے میں آسانی کے ساته حساب کر سکتے هیں.
هم قرآن مجید کے دفعتا نزول کے بارے میں صرف اتنا جا نتے هیں که شب قدر میں نازل هوا هے[1] اور چونکه قرآن مجید فر ماتا هے:[2] ماه رمضان ،وه مهینه هے جس میں قرآن مجید نازل هوا هے ،لهذا شب قدر بهی ماه رمضان میں هے.
لیکن یه شب قدر ماه رمضان کی راتوں میں سے کونسی رات هے،پورے طور پر نهیں هے اور اس سلسله میں اختلافات پایے جاتے هیں[3]، لیکن ایسا لگتا هے که اس سلسله میں موجود احتمالات کے در میان ،شب قدر کے ٢٣ویں شب کو هو نے کا احتمال قوی تر هے،کیونکه اس شب کی زیاده روایات اور قراین سے تایید هو تی هے[4].
پھر بهی مشخص نهیں هے که کس سال میں یه مبارک امر انجام پایا هے.لیکن اتنا ضروری کها جاسکتا هے که:اگر چه شب قدر،فطری طور نزول قرآن کی شب تهی ،لیکن پیغمبر اکرم(ص)کے معراج کی رات بهی شب قدر شمار هوتی تهی ،کیونکه قرآن ام لکتاب کی صورت میں ،پروردگار عالم کے پاس مو جود هے.[5] اور جب تک انسان معراج نه کرے قرآن کو ام الکتاب میں نهیں پاسکتا هے.[6] یهاں سے معلوم هو سکتا هے که قرآن مجید کا دفعتا نازل هو نا اس زمانه میں انجام پایا هے جب پیغمبر(ص)کمال کے اس مرحله پر پهنچ گیے تھے .اس بناپر کھا جاسکتا هے که یه ظھور رسالت کے اسی پهلے سال ،یعنی بعثت کے تقریبا ٥٦ روز بعد واقع هوا هے.
یه عدد بعثت کا زمانه (٢٧/رجب)اور شب قدر(٢٣/رمضان)کو مد نظر رکھنے اور رجب و شعبان کے هر مهینه کے ٣٠دن کے فرض کرنے پر حاصل هوا هے .
قرآن مجید کے تدریجی نزول[7] کے سلسله میں،جو بعثت کے زمانه میں تھا ،بعثت کی صحیح تاریخ کے سلسله میں اختلافات کی وجه سے[8] بهی اختلاف نظر پایا جاتا هے.
مشهورنظریه هے که پیغمبرعظیم الشان(ص)سوموار،٢٧رجب مطابق یکم فروری ٦١٠ء کو رسا لت پر مبعوث هو.ے هیں[9] اس وقت آنحضرت (ص)پر سوره علق کی پهلی پانچ آیات نازل هوییں.[10] اس کے بعد قرآن مجید کی دوسری آیات کا نزول تدریجا آنحضرت(ص)کی آخری عمر تک یعنی ٢٣سال تک انجام پایا.
بعض لوگوں کا یه عقیده هےکه ایک آسمانی کتاب کے عنوان سے بعثت کے زمانه اور قرآن مجید کے تدریجی نزول کےزمانه کے در میان ،فرق هے .ان کی نظر میں اگر سوره علق کی پهلی پانچ آیتیں بعثت کے زمانه میں آنحضرت (ص)پر نازل هویی هیں ،لیکن آنحضر(ص)عام تبلیغ کر نے پر مامور نهیں تهے .آپ(ص)تین سال تک مخفی طور دعوت کے بعد عام دعوت کے لیے مامور ھوئے [11] اور اس زمانه سے قرآن مجید آسمان سے نازل هو نے والی کتاب کے عنوان سے کتابت کی ھوئی صورت میں رونما هویی اور...اس لحاظ سے اگرچه بعثت ماه رجب میں تهی ،لیکن قرآن مجید کا تدریجی نزول،تین سال کے بعد ،ماه رمضان میں شب قدر میں شروع هوا هے.[12]
اس عقیده کی تا یید وه روایات کرتی ھیں جو قرآن مجید کے تدریجی نزول کو بیس سال کی مدت بتاتی هیں.[13] اس نظریه و عقیده کے مطابق.[14] کتاب آسمانی کے عنوان سے قرآن مجید کے تدریجی نزول کا زمانه بعثت کا چوتھا سال تها ،یعنی بعثت کے تین سال اور چهپن دن بعد تها اور آنحضرت(ص)کی آخری عمر یعنی ٢٨صفر١١هجری تک جاری رها.
نتیجه کے طور پر،چونکه آج تک پیغمبر اکرم(ص)کی هجرت کو ١٤٢٨سال گزرے هیں اور پیغمبر(ص)کی بعثت،هجرت سے تقریبا تیره سال پھلے تهی ،لهذا اگر پهلے نظریه کو قبول کریں تو پهلی آیت کو نازل هو نے سے آج تک ١٤٤٠قمری سال گزرے هیں اور اگر دوسرے منبا کو قبول کریں تو پهلی آیت کے نزول سے آج تک ١٤٣٧سال گزرے هیں .
قابل ذکربات هےکه بعض مورخین کے بیان کے مطابق آنحضرت(ص)کی بعثت کا زمانه یکم فروری ٦١٠ء تهااورچونکه اس وقت ٢٠٠٧ء هے.اس لیے پهلی آیت کے نزول کے زمانه کا عیسوی سال کے مطابق بهی آسانی کے ساته حساب کر سکتے هیں.
[1] دخان/٣، قدر/١، مزید مطالعه کے لیے ملاحظه هو: المیزان، ج٨، ص١٣٠-١٣٤، ج٢، ص١٤-٢٣,ج١٣، ص٢٢٠ و ٢٢١.
[2] بقره/١٨٥.
[3] ملاحظه هو:تاریخ طبری،ج٢،ص٣٠٠،سیری ای ابن هشام،ج١،ص٢٣٦و٢٣٩و٢٤٠،آیت الله معرفت،التمهید فی علوم القرآن ،ص١٢٩.١٠٠،آیت الله خویی،البیان،ج١،ص٢٢٤،مجمع البیان، ج٩، ٢٢٤،مجمع البیان،ج٩،ص٦١وج١٠،ص٥٢٠.٥١٨.،تاریخ ابی الفداء،ج١،ص١١٥،تاریخ یقوبی،ج٢،ص١٧،شیخ طوسی،التبیان،ج٩،ص٢٢٤،محمد بن جریرطبری،جامع البیان، ٢٥، ١٠٧و١٠٨، المیزان ،ج٢،ص٢٩.
[4] وسایل الشیعه ، باب ٣٢ از ابواب احکام ماه رمضان ، ٧، ٢٦٢، ١٦،خصال صدوق،ج٢،ص١٠٢،محمد باقر حجتی ،تاریخ قرآن پر ایک تحقیق ص٦٢.٣٨.
[5] سوره زخرف/٤.
[6] ملاحظه هو:آیت الله جوادی ،تفسیر موضوعی ،ج٣،ص١٣٩.١٥٣.
[7] سوره اسراء/١٠٦،سوره فرقان/٣٢،سوره محمد/٢٠،سوره توبه/١٢٧،مزید معلومات کے لیے ملاحظه هو:المیزان ،ج٢،ص١٤.٢٣.
[8] تاریخ یعقوبی ،ج٢،ص١٧،تاریخ الخمیس ،ج١،ص٢٨٠و٢٨١،تاریخ ابی الفداء،ج١،ص١١٥.
[9] تاریخ قرآن پر ایک تحقیق ص٣٦،بحار،ج١٨ ،ص١٨٩،ح٢١،فروع الکافى، ٤، ١٤٩،ح١و٢،وسایل الشیعه، ج٧،ص٣٢٩،باب ١٥ازابواب صوم مندوب،السیره الحلبیه، ١، ٢٣٨،التمهید فی علوم القرآن، ١٠٧.١٠٠.
[10] بحار الانوار،ج١٨،ص٢٠٦،ح٣٦.
[11] سوره حجر/٩٤،تفسیرقمی،ص٣٥٣،بحار،ج١٨، ص٥٣، ح٧وص١٧٩، ح١٠وص١٧٧، ح٤وص١٩٣،ح٢٩،ترجمعه آیتی ،ج١،ص٣٧٩،تاریخ یعقوبی،ج١،ص٣٤٣،السیره ابن هشام، ج١، ص٢٨٠، المناقب، ج١، ص٤٠، شیخ طوسی،الغیبه، ص٢١٧.
[12] ملاحظه هو: مجمع البیان، ج٢، ص٢٧٦, الاتقان، ج١، ص٤٠، تفسیر کبیر امام رازى، ج٥، ص٨٥، المناقب، ج١، ص١٥٠، شیخ مفید شرح عقاید صدوق، ص٥٨، سید مرتضى در جواب المسایل الاطرابلسیات الثلاثه، ص٤٠٥-٤٠٣
[13] الاصول من الکافى ، ج٢، ص٦٢٨، ح٦، تفسیر عیاشى، ج١، ص٨٠، ح١٨٤، صدوق، الاعتقادات، ص١٠١، بحار، ج١٨، ص٢٥٠، ح٣وص٢٥٣، الاتقان، ج١، ص٤٠و٤٥، تفسیر شبر، ص٣٥٠، مستدرک الحاکم، ج٢، ص٦١٠، اسباب النزول، ص٣، البدایه والنهایه، ج٣،ص٤، تاریخ یقوبى ، ج٢، ص١٨
[14] مزید آگاهى کے لیے ملاحظه هو: کتاب: التمهید فى علوم القرآن، ص١٠٠ -١٢٩.