ذکر رکوع کے سلسله میں یه کهنا چاهئے که رکوع میں انسان جو بھی ذکر کرے کافی هے اور احتیاطاً [1] وه ذکر ایک مرتبه (( سبحان ربی العظیم و بحمده)) یا تین مرتبه (( سبحان الله)) کے بقدر هونا چاهئے [2]
حالت رکوع میں جو ذکر پڑھے جا سکتے هیں ان سے متعلق کچھ روایتیں هم تک پهنچی هیں :
پیغمبر اکرم(صل الله علیه و آله وسلم) سے منقول هے که آپ نے فرمایا :
مجھے رکوع و سجده میں قرائت سے منع کیا گیا هے ، لهذا حالت رکوع میں خداوند عالم کی تعظیم کرو اور سجده میں زیاده دعا کرو که مستجاب هوگی [3] ۔
امام صادق (علیه السّلام) نے اپنے آبائے کرام اور انھوں نے امیر المومنین(علیه السّلام) سے روایت کی هے :
(( رکوع و سجده میں کوئی قرائت نهیں هے ، اس میں فقط خداوند عالم کی حمد و ثنا هے اور اس کے بعد دعا هے ، لهذا دعا سے پهلے خداوند عالم کی حمد و ثنا کرو پھر دعا کرو ))[4]
اس سے معلوم هوتا هے که رکوع میں دعا سے منع نهیں کیا گیا هے اور یه کها جا سکتا هے که رکوع میں هر دعا مطلوب هے ۔
علامه مجلسی اس حدیث کے ذیل میں فرماتے هیں : (( یه حدیث حالت رکوع میں دعا و ذکر کے مستحب هونے پر دلالت کر رهی هے ۔[5]اور رکوع میں ذکر سے پهلے یا بعد[6] صلوات پڑھنا بھی مستحب هے جو خود ایک قسم کی دعا هے ))
اسی طرح امام باقر (علیه السّلام) سے ایک حدیث میں ذیل کی دعا پڑھنا نقل هوا هے ((جب تم رکوع کا اراده کرو تو قیام کی حالت میں الله اکبر کهو پھر رکوع میں جاؤ اور تین مرتبه کهو : [اللّھم لک رکعتُ و لکَ اسلمتُ و بکَ آمنتُ و علیکَ توکّلتُ و انتَ ربّی خشع َ لک َ قلبی و سمعی و بَصری و شَعری و بشَری و لحمی دَمی و مخّی و عِظامی و عصبی و ما أقلَّتهُ قَدَمَایَ غیرَ مُستَنکفٍ و لا مُستَکبرٍ و لا و لا مُستَحسِر، سبحان ربّیَ العظیم وبِحَمدهِ] ۔[7]
آخری بات : اگر همیں یه معلوم هو که یه عالم عارف اپنی نماز میں جو عمل انجام دیتا هے وه صحیح روایات کی بنیاد پر هے اور وه توضیح المسائل میں موجود مراجع عظام کے فتوے کی رعایت کرتا هے تو اس میں کوئی مضائقه نهیں هے ورنه اس عالم یا عارف کی طرف منسوب کر کے اس پر عمل نهیں کیا جا سکتا هے ۔
[1] اس مقام پر احتیاط امام خمینی (ره) کی نظر میں احتیاط واجب هے ۔
[2] تو ضیح المسائل مراجع ، ج 1 ، ص 562 ۔
[3] وسائل الشیعۃ ، ج 6 ، ص 309 ۔ ۔ و عن محمّد بن ھارون الزنجانی عن علی بن عبدُ العزیز عَن ابی عُبیدِ القاسم بن سلّام باسانیدَ المتّصلۃ الی النّبی ص قال انّی قد نھیتُ عن القراءۃِ فی الرکوع و السّجود فأمّا الرّکوع فعظّموا الله فیهِ و أمّا السّجود فأکثِروا فیه الدُّعا ءَ فانّهُ قمن ان یُستَجابَ لکُم ای جَدیرٌ و حریِّ أن یُستجابَ لکُم ۔
[4] عبد الله بن جعفر حمیری قمی ، قرب الاسناد ، ص 66 ، وسائل الشیعۃ ، ج 6 ، ص 309 ۔ 8046 ۔ عبدُ الله بنُ جعفر فی قُربِ الاسنادِ عنِ السَّندی بنِ محمّدٍ عن ابی البختَری عن جعفرٍ عن ابیه أنَّ علیّاً ع کانَ یقولُ لَاقِراءَۃَ فی رکوع ٍ و لا سجودٍ انَّما فیهما المدحَۃُ للهِ عزَّ وجلَّ ثمَّ المسألۃَ فابتَدِءوا قَبلَ المسألۃِ بالمدحۃِ لله عزَّ و جلَّ ثُمَّ أسألوا بَعدَهُ ۔
[5] علامه مجلسی ، بحار الانوار ، ج 82 ، ص 105
[6] سید یزدی ، العروۃ الوثقیٰ ، ج 2 ، ص 553
[7] محمد بن یعقوب کلینی ، الکافی ، ج 3 ، ص 319