۲۔ حدیث کے اسناد میں سے کتنے صحیح هونے چاهئیے تاکه وه حدیث "متواتر معنوی" شمار هوجائے؟
۳۔ حدیث کے اسناد میں سے کتنے صحیح هونے چاهئیے تاکه وه حدیث "متواتر اجمالی" شمار هو جائے؟
شیعه علماء، اس خبر کو متواتر جانتے هیں، که سند کے سلسله کے راویوں کی تعداد اس حد میں هو که اس روایت کے معصوم {ع} سے صادر هونے کے بارے میں علم و یقین پیدا کرنے کے لیے وه تعداد مفید هو اور افراد کی تعداد کو هر طبقه میں ، مواقع کے مطابق، مختلف شمار کیا گیا هے اور راویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی خاص عدد معین نهیں کی گئی هے، بلکه کلام کے معصوم سے صادر هونے کے سلسله میں علم و یقین حاصل هونے کو معیار قرار دیا گیا هے- اور اس لحاط سے متواتر لفظی ، متواتر معنوی اور متواتر اجمالی میں کوئی فرق نهیں هے-
لیکن ، متواتر لفظی سے مراد، روایات میں الفاظ کا مشترک هونا هے اور متواتر معنوی کا مراد، روایات کا معنی میں مشترک هونا هے {اگرچه ان کے الفاظ مختلف بھی هوں} اور متواتر اجمالی، ان روایتوں کو کها جاتا هے، جو وسعت اور تنگی کے لحاظ سے آپس میں فرق رکھتی هوں لیکن همه گیر قدروقیمت رکھتی هوں-
لیکن علماءے اهل سنت ، روایات متواتره کے راویوں کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے هیں اور اس اختلاف نظر کے پیش نظر خبر متواتر کے لیے راویوں کی کم از کم تعداد ۴ افراد اور زیاده سے زیاده تعداد ۳۱۳ جانتے هیں-
راویوں کی تعداد کے مطابق احادیث هر طبقه میں "متواتر" اور "واحد" میں تقسیم هوتی هیں- متواتر کا لفظ "وتر" یعنی واحد هے اور "تواتر" پے در پے یا یکے بعد از دیگرے کے معنی میں هے- چناچه آیه شریفه : " ثم ارسلنا رسلنا تتراً[1]" میں {اس کے بعد هم نے اپنے رسولوں کو یکے بعد دیگرے بھیجا} "تترا" اسی معنی میں هے[2]-
اصطلاح میں، متواتر روایت، " وه خبر هے، که هر طبقه میں اس کے راویوں کا سلسله اس قدر هو که ان کا جھوٹ پر توافق کرنا عام طور پر محال اور نا ممکن هو اور ان کی خبر علم حاصل هونے کا سبب بن جائے[3]-"
متواتر روایتیں اگرچه تعداد میں کم هیں، لیکن اهم اور با محتویٰ خبر کو بیان کرتی هیں،مثال کے طور پر غدیر کی روایت کی صرف صحابه کے طبقه میں ۱۰۰ سے زیاده افراد نے روایت کی هے-
خبر متواتر کی قسمیں:
ایک لحاظ سے متواتر خبریں، "متواتر لفظی" اور "متواتر معنوی" میں تقسیم هوتی هیں-
متواتر لفظی، وه خبر هے که " اس کے تمام راوی، اس کے مضمون کو ایک هی قسم کے الفاظ سے نقل کریں[4]-" مثال کے طور پر یه حدیث: " من کذب علیّ متعمّدا فلیتبوّء مقعده من النار[5]" که صحابیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کو نقل کیا هے اور ان کی تعداد چالیس سے ساٹھه تک بتائی گئی هے[6]-
متواتر معنوی، وه خبر هے که "تمام راوی ایک هی مضمون کو مختلف عبارتوں میں نقل کریں که ان کے معانی میں مطابقت کو تضمنی یا التزامی دلالت سے جانا جائے[7]-
متواتر حدیث کے لیے ایک اور تقسیم بھی هے اور وه تواتر تفصیلی اور تواتر اجمالی هے- "تواتر تفصیلی" ، تواتر لفظی و تواتر معنوی پر مشتمل هے، لیکن "تواتر اجمالی" اس صورت میں هے که کئی روایتیں ایک موضوع میں نقل کی جائیں اور دلالت کے لحاظ سے یکساں نه هوں لیکن وه روایتیں مشترک قدروقیمت کی حامل هوں که ان کے مجموعے سے ان میں سے ایک کے صادر هونے کے بارے میں قطع و یقین پیدا هو جائے، مثال کے طور پر، خبر واحد کی حجیت کے بارے میں روایت کی گئی خبر[8]-
لیکن خبر واحد۔ " وه روایت هے، که اس کے راوی تمام طبقات میں تواتر کی حد تک نه پهنچے هوں[9]- اس قسم کی روایتیں اکیلے هی علم کے لیے مفید نهیں هوتی هیں، بلکه دوسرے قرائن کی مدد ان کی حجیت کو ثابت کرسکتی هے- اس لحاظ سے اگر کوئی روایت چند طبقوں میں تواتر کی حد تک پهنچے، لیکن صرف ایک طبقه میں تواتر تک نه پهنچی هو، تو وه خبر متواتر نهیں هے، بلکه خبر واحد شمار هوگی، کیونکه نتیجه مقدمات کے طابع هوتا هے-
خبر متواتر کے راویوں کی تعداد کے بارے میں شیعه علماء نے کوئی معین تعداد ذکر نهیں کی هے، بلکه ان کے نزدیک تواتر کا معیار علم حاصل کرنے میں مفید هونا هے اور اس خبر کو متواتر جانتے هیں، که سند کے لحاظ سے هر طبقه کے راویوں کی تعداد اس حد میں هو که اس خبر کے امام{ع} سے صادر هونے کے بارے میں علم و یقین پیدا هو جائے اور دوسری جانب سے ان راویوں کا جھوٹ پر توافق کرنا ناممکن هو- اس لحاظ سے متواتر لفظی ، متواتر معنوی اور متواتر اجمالی میں کوئی فرق نهیں هے-
لیکن اهل سنت علماء خبر متواتره کے بارے میں راویوں کی تعداد کو شرط جانتے هیں اور اس سلسله میں مختلف اقوال پائے جاتے هیں:
۱۔ قاضی ابی بکر باقلانی کا نظریه یه هے که راویوں کی تعداد کم از کم چار هونی چاهئیے-
۲۔ اصطخری کا نظریه یه هے که راویوں کی کم از کم تعداد دس افراد هونی چاهئیے-
۳۔ اهل سنت کے کئی علماء کا نظریه هے که راویوں کی کم از کم تعداد ۱۲ هونی چاهئیے {یعنی بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد کے برابر}-
۴۔ ابو ھزیل علاف کا نظریه هے که راویوں کی کم از کم تعداد ۲۰ افراد هونی چاهئیے-
۵۔ ایک اور نظریه کے مطابق راویوں کی کم از کم تعداد ۴۰ افراد بتائی گئی هے-
۶۔ ایک اور گروه نے راویون کی کم از کم تعداد ۷۰ افراد بتائی هے-
۷۔ آخری نظریه، یه هے که راویوں کی کم از کم تعداد ۳۱۳ افراد، یعنی اصحاب بدر کی تعداد کے برابر هونی چاهئیے[10]-
[1] مومنون، 44.
[2] راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، ص 853.
[3] مامقانی، عبدالله، مقباس الهدایه، ج 1، ص 89 - 90؛ شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، ص 28.
[4] مقباس الهدایه، ج 1، ص 115.
[5] کافی، شیخ کلینی، ج 1، ص 62.
[6] الرعایه فی علم الدرایه، ص 29.
[7] مقباس الهدایه، ج 1، ص 115.
[8] مودب، سیدرضا، علم الدرایه تطبیقی، ص 37؛ مقباس الهدایه، ج 1، ص 115.
[9] مقباس الهدایه، ج 1، ص 125؛ شهید ثانی، الرعایه فی علم الدرایه، ص 29.
[10] سبحانی، جعفر، اصول الحدیث و احکامه صص 25 - 35، مؤسسه النشر الاسلامی، 1420 ه ق.