حضرت علی علیه السلام نے ایسی بات نهیں کهیں هے که مرد، عقل و احساس دونوں اعتبار سے عورتوں سے بالاتر هیں۔
عورتوں کے نقص عقل کے بارے میں جو نهج البلاغه میں آیا هے اس کی نسبت اگر حضرت علی علیه السلام کی طرف صحیح مان بھی لی جائے تو وه ایک خاص واقعه کے سلسله میں هے یعنی جنگ جمل کے بارے میں، اور تمام خواتین کے بارے میں ایک عام حکم نهیں هے جیسا که بعض موارد میں خود مردوں کی بھی مذمت کی گئی هے۔ حضرت خدیجۃ الکبری اور حضرت فاطمه علیهما السلام جیسی اپنے زمانے کے مردوں سے زیاده عاقل اور نوابغ روزگار شخصیتیں همارے مدعی پر بهترین دلیل هوسکتی هیں۔
البته امام کے مذکوره جملے کے بارے میں دوسرے احتمالات بھی دئے گئے هیں۔ مثلاً یه که یهاں پر امام علیه السلام کی مراد عقل اجتماعی اور عقل محاسب هے، نه که عقل اقداری جو که الله سے قربت اور معنوی مقامات کے حصول کا سبب بنتی هے۔ اس عقل کے اعتبار سے مرد و زن میں کوئی فرق نهیں هے۔ یا امام نے کهنا چاها هے که نفسیاتی اعتبار سے عورت کے جذبات اس کی عقل پر غالب رهتے هیں که اگر یه خصوصیت نه هوتی تو عورت ایک ماں کے اعتبار سے اپنا کردار نه نبھا پاتی، اس اعتبار سے مرد، عورت کے برخلاف هے یعنی اس کی عقل اس کے جذبات پر غالب رهتی هے۔ اور فطرت کے کارخانے کا یه فرق در اصل الله کی حکمت هے اور ان فرقوں کا هونا بھی ضروری هے۔ لهذا امام کا مقصد یه نهیں تھا که اقدار و معنویت کے اعتبارسے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیں بلکه ایک تکوینی اور قدرتی فرق کو بیان کرنا چاهتے تھے۔
اصل سوال پر بحث کرنے سے پهلے کچھ نکات پر توجه مفید هوگی:
۱۔ انسانی معاشره کی تربیت و ترقی میں ماں، زوجه یا تلخ و شیرین زندگی کی شریک حیات کے طور پر خواتین کے اهم اور بے مثل کردار کا انکار نهیں کیا جاسکتا۔ یهاں تک که قرآن نے والدین کی اطاعت کو الله کی اطاعت کے بعد قرار دیا هے اور یهاں پر ماں باپ کے درمیان کوئی فرق نهیں رکھا هے۔ رسول الله صلّی الله علیه وآله بھی حضرت خدیجه اور حضرت فاطمه کے لئے ایک خاص احترام کے قائل تھے۔ یه وهی حقیقت هے جس پر بانی جمهوری اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے بھی کافی تاکید کرتے هوئے فرمایا هے: تاریخ اسلام رسول الله صلّی الله علیه وآله کی طرف سے اس مولود [حضرت فاطمه] کے بے حد احترام پر شاهد هے، تاکه یه بتا سکے که معاشرے میں عورت ایک خاص مرتبه رکھتی هے اور اگر مرد سے زیاده نهیں تو کم بھی نهیں هے۔[1]
۲۔ مرد و زن کے یکسان و برابر هونے کا نظریه قرآنی نظریه هے جو که قرآنی آیات سے بآسانی حاصل کیا جاسکتا هے۔ قرآن کی نگاه میں روحانی اور جسمانی اعتبار سے عورت اسی گوهر سے پیدا هوئی هے جس سے مرد پیدا هوا هے اور دونوں کی جنس حقیقت و ماهیت میں ایک هیں۔
قرآن کا فرمان هے: انسانو! اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا هے اور اس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا هے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئے هیں[2]۔
وهی خدا هے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا هے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا هے تاکه اس سے سکون حاصل هو۔[3]
ان آیات میں قرآن نے انسانی اقدار کے اعتبار سے عورت کو مرد کے برابر سمجھا هے لهذا اس لحاظ سے مرد کو عورت پر کوئی برتری حاصل نهیں هے۔
انسان کی حقیقت کو اس کی روح تشکیل دیتی هے نه که اس کا بدن۔ انسان کی انسانیت کو اس کی جان اپنی حفاظت میں رکھتی هے نه که اس کا جسم۔ اور نه هی اس کی جسم و جان ملکر[4]۔
لهذا ان دونوں کو ذکوریت اور انوثیت کی صورت سے پهچاننے کو کوشش نه کیجئے بلکه انسانیت کے چهرے سے پهچانئے۔
اسی طرح قرآن کی رو سے عورت، مرد کے قدم بقدم تکامل پذیر هے اور عرفان و عمل کے سائے میں تکامل کے راستے کو طے کرسکتی هے قرآن جب بھی ان اعلی اقدار کی بات کرتا هے جس تک انسان پهنچتا هے تو خواتین کو مردوں کے ساﭠﮭ قرار دیتا هے۔[5]
قرآن نه صرف یه که انسانیت میں مرد و زن کی یکسانیت پر تاکید کرتا هے بلکه بنیادی طور پر اسے الهی آیات میں قرار دیتا هے اور اسی برابری کو سکون، انس اور محبت کا سبب قرار دیتا هے۔[6]
یهی وجه هے که رهبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) بھی مرد و زن کے انسانی حقوق کی برابری کے قائل هیں۔ آپ اس سلسله میں فرماتے هیں:
حقوق انسانی (کے لحاظ) سے مرد و زن میں کوئی فرق نهیں هے؛ کیونکه دونوں هی انسان هیں اور عورت بھی مرد کی طرح اپنے مستقبل کے انتخاب کا حق رکھتی هے بلکه بعض جگهوں پر مرد و زن کے درمیان ﮐﭼﮭ فرق هیں که ان کے انسانی مقام سے جن کا کوئی ربط نهیں هے۔[7]
۳۔ حضرت علی علیه السلام کے کسی خطبه میں یه نهیں آیا هے که مرد، عقل اور جذبات دونوں اعتبار سے عورتوں سے برتر هیں۔
جو چیز حضرت علی علیه السلام سے منسوب هے وه یه هے که جذبات و احساسات کے اعتبار سے خواتین مردوں سے برتر هیں۔
هاں نهج البلاغه کے 89ویں خطبه میں حضرت علی علیه السلام نے خواتین کے نقص عقلی کے بارے میں ﮐﭼﮭ بات کهی هے، جو کئی جهات سے قابل غور هے:
الف: حضرت علی سے اس نسبت کی صحت کو درست ماننے کی صورت میں یه کها جانا چاهئے که: یه تمام عورتوں کے سلسله میں ایک عام قانون نهیں هے۔ تاریخ سے پته چلتا هے که یه خطبه جنگ جمل کے بعد سے متعلق هے اور اس جنگ میں عائشه نے ایک اهم کردار ادا کیا تھا اور در حقیقت زوجه پیغمبر کی حیثیت سے ان کی سماجی شخصیت کو طلحه و زبیر نے استعمال کیا تھا اور حضرت علی علیه السلام کے خلاف ایک بڑی جنگ بصره میں چھیڑ دی تھی۔ حضرت علی علیه السلام نے جنگ کے اختتام پر دشمنوں کی شکست کے بعد اس خطبه کو عورتوں کی مذمت میں ارشاد فرمایا تھا۔[8] لهذا قرائن و شواهد کی بنیاد پر یه بات مسلم هے که اس خطبه میں ﮐﭼﮭ خاص عورتیں مراد هیں نه که دنیا کی تمام خواتین؛ کیونکه اس میں شک نهیں که ایسی عورتیں بھی گذری هیں اور اب بھی موجود هیں جو نوابغ روزگار اور اپنے زمانے کے مردوں سے کهیں زیاده عقلمند رهی هیں۔ دین کی پیش رفت اور راه دین میں جد جهد کو لیکر کلمه توحید کی سربلندی کے لئے کون هے جو حضرت خدیجه، حضرت فاطمه، حضرت زینب علیهم السلام وغیره کی عقل و درایت کا انکار کرسکے یا انھیں مردوں سے کمتر سمجھے؟ اس لئے کیسے کها جاسکتا هے که اس قول سے حضرت علی علیه السلام تمام خواتین کی مذمت کرنا چاهتے هیں؟
اس کے علاوه حضرت علی علیه السلام نے بعض جگه کوفه اور بصره کے لوگوں کی کم عقلی کا شکوه کیا هے اور ان کی مذمت و سرزنش میں بھی ﮐﭼﮭ باتیں بیان کی هیں مثلا نهج البلاغه کے 14ویں خطبه میں فرماتے هیں: تمهاری عقلیں هلکی اور تمهاری سوچیں احمقانه هیں۔[9]
34ویں خطبه میں فرماتے هیں: اُف هو تمهارے (مردوں کے) اوپر… تم اپنی عقلوں کو استعمال نهیں کرتے هو۔[10]
97 ویں خطبه میں فرماتے هیں: اے وه لوگ جن کے بدن موجود اور عقلیں غائب هیں…[11]
131ویں خطبه میں فرمایا هے: اے الگ الگ جان والو! اے پراکنده دل والو! جن کے بدن موجود اور عقلیں غائب هیں…۔[12]
اس موقع پر حضرت علی علیه السلام صراحتا ﮐﭼﮭ مردوں کی مذمت کرتے هیں اور ان کو کم عقل اور هلکی سوچ والا بتاتے هیں۔ جبکه کوفه اور بصره نے بهت سے علماء اور دانشمند دنیائے اسلام کو پیش کئے هیں۔
دوسرے لفظوں میں ممکن هے ایک خاص زمانے کے حالات، ستائش کی زمین هموار کردیں اور دوسرے خاص زمانے میں مذمت کا باعث بنیں۔[13] اور زمانے کے گذرنے کے ساﭠﮭ ساﭠﮭ ستائش و مذمت دونوں کے حالات ختم هوجائیں۔[14] اس طرح کها جاسکتا هے که نهج البلاغه میں خواتین یا مردوں کی مذمت ایک طرح کے خاص حالات میں هوئی هے۔[15]
اس کی ایک اور دلیل یه هے که حضرت علی علیه السلام نے دوسری جگهوں پر بهت سے دوسرے مردوں کی طرف نقص عقل کی نسبت دی هے۔ ایک جگه حضرت علی علیه السلام فرماتے هیں: انسان کی خود پسندی اس کی کم عقلی پر دلیل هے۔[16] اس حدیث اور اس طرح کی دوسری احادیث[17] میں خودپسندی، شهوت، هوس پرستی و غیره کو کم عقلی کی دلیل سمجھا گیا هے۔ لهذا بعید نهیں هے که عورتوں کی طرف کم عقلی کی نسبت بھی اسی باب سے هو اور اس سے مراد عارضی اسباب هوں جو خاص طور سے اس زمانے میں موجود هوں جس کے سبب ان کی عقلیں ناقص هوئی هیں۔ یه اسباب و علل چونکه عورت کی طینت اور سرشت میں داخل نهیں هیں لهذا ان کو تربیت اور تهذیب نفس کے ذریعه کنٹرول کیا جاسکتا هے۔
اس طرح کی مذمتیں در حقیقت عورت کی ذات اور اس کے جوهر کی طرف نهیں پلٹتیں جیساکه مردوں کی مذمتیں بھی ذات کی طرف نهیں پلٹتیں۔
اور پھر یه اور اس طرح کی روایات، تربیتی عنصر لئے هوتی هیں۔ یعنی مردوں کو خبردار کیا جاتا هے که عورتوں کی رنگین و متنوع خواهشات اور احکام کی پیروی نه کریں که ممکن هے که ان کو متعدد آفتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کردے اور ضروری هے که مرد ایک خاص حد تک اپنا استقلال برقرار رکھیں۔ خصوصا یه که جنگ اور دیگر سخت حالات میں ان کی خواهشات اور احکام کی پیروی جمود اور سستی کا باعث بن سکتی هے۔ اور یه بات حضرت علی علیه السلام کے زمانے سے ایک گهرا ربط بھی رکھتی هے۔[18]
ب: ایک اعتبار سے کها جاسکتا هے که عقل کی دو قسمیں هیں:
۱۔ عقل محاسب یا عقل اجتماعی
۲۔ عقل اقداری
ممکن هے که خواتین پر مردوں کی برتری سے حضرت علی علیه السلام کی مراد عقل محاسب هو نه که عقل اقداری۔
دوسرے الفاظ میں: باهمی امتیازات کی بنا پر مرد کی عورت پر برتری در اصل عقل محاسب میں هے۔ لیکن عقل اقداری جو الله سے تقرب اور جنت کے حصول کا سبب بنتی هے[19] اس میں عورت پر مرد برتری نهیں رکھتا۔[20]
ج: هم هر چیز کا انکار کرسکتے هیں لیکن اس کا انکار نهیں کرسکتے که ان دونوں جنسوں کے درمیان جسمانی اور روحانی دونوں ا عتبار سے ﮐﭼﮭ فرق ضرور هیں جس کا تذکره مختلف کتب میں هوا هے اور اس کا خلاصه یه هے که کیونکه عورت انسان کے وجود و ولادت کا مرکز هے اور بچوں کی تربیت کا اهم کام اس کی آغوش میں انجام پاتا هے، اس لئے جس طرح اس کا جسم ایسے بنا هے که وه بعد کی نسل کو اٹھا سکے اور اس کی پرورش کرسکے اسی طرح روحانی اعتبار سے بھی احساسات، جذبات اور همدردی میں اس کا حصه زیاده هے۔
لهذا ماں کی منزلت، تربیت اولاد، گھر میں مهر ومحبت کی تقسیم بھی عورت هی کے سپرد کی گئی هے۔[21] دوسرے لفظوں میں اگرچه مرد و زن میں انسانی اقدار کے لحاظ سے کوئی فرق نهیں هے لیکن اپنے صنفی تقاضوں کے اعتبار سے دونوں الگ الگ طرح سے عمل کرتے هیں۔ الله نے موجودات کو حکمت اور ان کے مقام و فرض کے اعتبار سے پیدا کیا هے، اور مرد و زن بھی اس قاعده سے مستثنی نهیں هیں۔ مرد و عورت بعض زاویوں سے مثلا جسم، نفسیات اور جذبات و احساسات کے اعتبار سے الگ الگ هیں۔ گھر سے عورت کی محبت اور گھرانے سے اس کا لگاؤ لاشعوری طور پر مرد سے زیاده هے۔ عورت مرد سے زیاده نرم دل هے۔ اور حضرت علی علیه السلام کا قول بھی مرد و عورت کے ان نفسیاتی اور جذباتی فرقوں کے پیش نظر هے۔ یعنی آپ فرمانا چاهتے هیں که: عورت کے جذبات اس کی عقل پر غالب رهتے هیں اور اگر یه نه هوتا تو عورت اپنے مادری فرائض بھی ادا نهیں کرسکتی تھی۔ اور اس لحاظ سے مرد، عورت کے بالمقابل هے اور مرد کی عقل اس کے جذبات پر غالب رهتی هے اور خلقت کا یه فرق الله کی حکمت کے سبب هے۔ اور ان فرقوں کا هونا بھی ضروری هے۔ لهذا حضرت علی علیه السلام ان میں سے ایک کو دوسرے پر اقداری اعتبار سے برتری دینے کے درپے نهیں هیں بلکه ایک قدرتی اور فطری حقیقت کو بیان کرنا چاهتے هیں اور یه که جذبات و احساسات اگرچه اپنی جگه مطلوب هیں لیکن فیصله کرنے اور مستقبل سازی میں ان کی بات آخری بات نهیں هوتی۔
[1] صحیفه نور، ج۱۴، ص۲۰۰
[2] یَأَیهَُّا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِى خَلَقَکمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَْا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنهُْمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَ نِسَاء؛ نساء۱
[3] هُوَ الَّذِى خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ جَعَلَ مِنهَْا زَوْجَهَا لِیَسْکُنَ إِلَیهَْا؛ اعراف۱۸۹
[4] جوادی آملی، عبد الله، زن در آئینه جلال و جمال، ص۷۶
[5] احزاب۳۵؛ آل عمران۱۹۵
[6] روم۲۱
[7] صحیفه نور، ج۳، ص۴۹
[8] معادیخواه، خورشید بی غروب (ترجمه نهج البلاغه)، خ۷۹
[9] خفّت عقولکم و سفهت حلومکم…
[10] اُف لکم… فانتم لاتعقلون…
[11] ایها القوم الشاهدۃ ابدانهم الغائبۃ عنهم عقولهم…
[12] ایتها النفوس المختلفۃ والقلوب المتشتتۃ الشاهدۃ ابدانهم و الغائبۃ عنهم عقولهم…
[13] یعنی بعض موقعوں پر تعریفیں یا مذمتیں کسی خاص حوادث اور حالات کے سبب هوتی هیں۔
[14] جوادی آملی، عبد الله، زن در آئینه جلال و جمال، ص۳۶۸ و ۳۶۹
[15] معادیخواه، عبد المجید، خورشید بی غروب، خ۱۳و ۱۴
[16] اعجاب المرء بنفسه دلیل علی ضعف عقله؛ الکافی، ج۱، ص۲۷، ح۳۱، کتاب العقل و الجهل
[17] مثل اعجاب المرء بنفسه حمق؛ شرح غرر الحکم و درر الحکم، ج۱، ص۳۱۱
[18] دیکھئے: زن در آئینه جلال و جمال
[19] اصول کافی، ج۱، کتاب عقل جهل، باب۱، ج۳، ص۱۱، العقل ماعبد به الرحمن و اکتسب به الجنان
[20] زن در آئینه جلال و جمال ص۲۶۸ تا ۳۶۹
[21] دیکھئے: تفسیر نمونه، ج۲، ص۱۶۴