یه عید، ایراینیوں کی قدیم قومی عیدوں میں سے هے، جس کا رواج اسلام سے پهلے تھا-
حدیث کی کتابوں میں نوروز کی فضیلت کے بارے میں حضرت امام جعفرصادق علیه السلام سے ایک روایت نقل کی گئ هےاور عصر جدید کے مشهور فقها نے اس روایت پر عمل کر کے نوروز کے دن غسل کے مستحب هونے کا فتویٰ صادر کیا هے لیکن بعض دوسرے فقها نے اس روایت پر مناقشه اور نزاع کیا هے-
اس بنا پر، یقینی طور پر اس عید کو، دینی رنگت نهیں دی جا سکتی هے اور اسے دینی عیدوں میں شمار نهیں کیا جا سکتا هے، لیکن قابل توجه بات هے که معصومین علیه السلام کی طرف سے اس عید کے سلسله میں کوئی ممانعت بھی نهیں کی گئی هے- اس لحاظ سے یه مسئله مباحات میں شمار هوتا هے، خاص کر جبکه اس عید کے ایام میں پرودرگار عالم موسم کی تبدیلی انجام دیتا هے اور اس کے علاوه لوگ ان دنوں ایسے کام انجام دیتے هیں که شارع مقدس نے ان کاموں کی تشویق اور همت افزائی کی هے، مثال کے طور پر: گھروں کی صفائی کرنا، صله ارحام، مومنین کو مسرور کرنا، دشمنیوں، کدورتوں اور کینوں کو دور کرنا، قیدیوں کو آزاد کرنا وغیره- اور هم یه بھی جانتے هیں که امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام نے فرمایا هے: " هر وه دن جس میں خدا کی نافرمانی اور معصیت انجام نه پائے وه عید کا دن هے"- البته غلط رسومات، جیسے آگ پر سے چھلانگ لگانا وغیره بھی ان دنوں انجام پاتا هے که نه صرف اس کے صحیح هونے کے سلسله میں کوئی شرعی دلیل نهیں هے بلکه یه کام بجائے دین کےخرافات کے زیاده نزدیک هے، اور اس کو نابود کرنے کے لیے کوشش کی جانی چاهئیے-
عید نوروز، ان عیدوں میں سے ایک عید هے که ایران اور اس کے همسایه ملکوں کے فارسی زبان لوگ اور ایران، عراق اور ترکیه کے ترک زبان لوگ اس کا احترام کرتے هیں اور اسے عید کے طور پر مناتے هیں-
یه عید، ایران کی قدیم قومی عیدوں میں سے ایک عید هے جو اسلام سے پهلے رائج تھی-
هم اس سلسله میں موجود منابع کی طرف رجوع کرنے پر کوئی ایسی روایت نهیں پاتے هیں جو اس کی تائید کرتی هو یا کوئی فقیه اس کا معترض هو- صرف شیخ طوسی کے زمانه {۴۶۰ هجری} میں کتاب "مصباح التهجد" میں مندرجه ذیل روایت نقل کی گئی هے که:
" معلی بن خنیس نے امام صادق علیه اسلام سے روایت کی هے که نوروز کے دن غسل کرنا، پاکیزه ترین لباس زیب تن کرنا، خوشبو لگانا، روزه رکھنا، ظهروعصر کی نماز اور ان کے نوافل پڑھنے کے بود چار رکعت نماز بجا لانا، اس نماز کی پهلی رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه سوره "انا انزلنا" پڑھیں اور دوسری رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه "قل یا ایھا الکافرون" اور تیسری رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه " قل ھو الله احد" اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبه سوره حمد کے بعد دس مرتبه "قل اعوذ برب الناس" اور "قل اعوذ برب الفلق" پڑھیں اور نماز ختم کرنے کے بعد سجده میں جائیں اور بارگاه الهٰی میں شکر بجا لائیں اور خداوندمتعال سے پچاس سال کے گناهوں کو بخش دینے کی درخواست کریں[1]-
اس کے علاوه کتاب "مهذب" میں مذکوره راوی سے نقل کیا گیا هے که امام صادق علیه السلام نے فرمایا: "نوروز وهی دن هے جس دن پیغمبراسلام {صلی الله علیه وآله وسلم} نے غدیرخم میں حضرت علی {علیه السلام } کے لیے لوگوں سے بیعت لے لی اور ان کی ولایت کا اقرار کرایا اور مبارک هو ان لوگوں پر جو اس پر ثابت قدم رهے، اور افسوس هے ان لوگوں پر جنهوں نے اس کی عهدشکنی کی ، اور یه وه دن هے، جس دن رسول خدا {صلی الله علیه وآله وسلم} نے علی {علیه السلام } کو جنات کی وادی میں بھیجا تاکه ان سے بیعت لی لیں اور یه وه دن هے جس دن حضرت علی {علیه السلام} نے اهل نهروان پر فتح حاصل کی اور ذوالثدیه کو قتل کر ڈالا، اور یه وه دن هے جس دن همارے قائم {عج} اپنے کارندوں کے همراه ظهور کریں گے اور خداوندمتعال انهیں دجال کو شکست دینے میں کامیابی عطا کرے گا اور دجال کو کوفه میں سولی پر چڑھائیں گے، کوئی ایسا نوروز نهیں هے جس میں هم اپنے امام {عج} کے ظهور کی امید نهیں رکھتے هیں، کیونکه یه دن همارا دن هے، جسے ایرانیوں نے محفوظ رکھا هے اور آپ نے اسے ضائع کیا هے{اس کے بعد کلام کو جاری رکھتے هوئے فرمایا:} بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی نے خداوندمتعال سے درخواست کی که هزاروں افراد پر لوگوں کی ایک جماعت، جو موت کے ڈر سے گھروں سے بھاگ گئے تھے، خداوندمتعال نے انهیں موت سے دوچار کیا تھا، انهیں دوباره زنده کرے اور خداوندمتعال نے اس نبی کو وحی بھیجی که ان پر پانی چھڑکے، اور اس نبی نے اس دن ان پر پانی چھڑکا اور وه سب زنده هوئے، ان کی تعداد تیس هزار افراد تھی، اس دن پانی چھڑکنا ایک دائمی سنت بنی اور اس کا سبب علم میں پائداری رکھنے والے هی جانتے هیں، اور وه ایرانیوں کے سال کا پهلا دن هے،" معلی کهتا هے: " امام {ع} نے مجھے اس کا املا فرمایا اور میں نے لکھا[2]-"
عصر جدید کے مشهور فقها نے اس روایت پر عمل کیا هے اور نوروز کے دن غسل کے مستحب هونے کا فتوٰی دیا هے- صاحب جواهر کهتے هیں" " نوروز کے دن غسل کرنا متاخرین میں مشهور هے یه معلی بن خنیس کی امام صادق علیه السلام سے روایت کی وجه سے هے جو کتاب مصباح سے نقل کی گئی هے، هم نے اس سلسله میں کوئی مخالفت نهیں پائی[3]-
لیکن مرحوم آیت الله خوئی نے روایت کے مرسل هونے کی وجه سے اس پر عمل نهیں کیا هے اور کها هے: " معلی بن خنیس کی روایت مرسله هے، اس لیے اس پر اعتماد نهیں کیا جا سکتا هے مگر یه که ادله سنن میں قول تسامح کی بنا پر، که هم اسے قبول نهیں کرتے هیں[4]-"
اس بنا پر کها جا سکتا هے که اس عید کو سو فیصدی دینی رنگت نهیں دی جا سکتی هے اور اسے دینی عیدوں میں شمار نهیں کیا جا سکتا هے-
لیکن یه سوال پیدا هوتا هے که فرض کریں که شارع مقدس نے اس عید کو ایک دینی عید کے طور پر قبول نهیں کیا هے، لیکن کیا کهیں پر اس کی ممانعت اور نهی کی هے؟ اور اسے حرام قرار دیا هے؟ تاکه اسے منعقد کرنا جائز نه هو؟
هم اس کے جواب میں کهتے هیں: ابن شهر آشوب اپنی کتاب "مناقب" میں ایک روایت نقل کرتے هوئے لکھتے هیں : " نقل کیا گیا هے که منصور دوانقی نے کسی کو امام موسی بن جعفر {علیه السلام} کی خدمت میں بھیجا تاکه ان سے اجازت حاصل کرے که جب لوگ نوروز کے دن اس کے پاس مبارکبادی کے لیے هدایا اور تحفے لے کر آتے هیں اس کے پاس بیٹھیں، حضرت{ع} نے فرمایا: " مجھے اس سلسله میں اپنے جد بزرگوار کی کوئی روایت نهیں ملی اور یه ایرانیوں کی سنت هے، اسلام نے اسے ختم کیا هے، خدا کی پناه هو که ایک ایسی چیز کو زنده کرنا چاهئیں، جسے اسلام نے ختم کیا هے؛"
منصور نے کها: هم اس کام کو اپنے لشکر کے لیے سیاسی طور پر انجام دیتے هیں آپ کو خدا کی قسم هے که تشریف رکھئے اور اس کے بعد حضرت {ع} بیٹھه گئے، اور وزراء، امراء، گورنر اور فوجی هدایا کے ساتھه داخل هوئے اور اسے مبارکبادی دیتے تھے۔ ۔ ۔ [5]"
واضح هے که اس روایت کی سند ضعیف هے، کیونکه ابن شهرآشوب نے روایت کی سند کو بیان نهیں کیا هے بلکه اسے "وحکی" کی تعبیر سے نقل کیا هے اور یه اس روایت کے ضعیف هونے اور اس سے استناد نه کرنے کی دلیل هے-
قابل ذکر بات هے که عید نوروز کے دن جشن منانا ایک وسیع مسئله اور ایک رائج رسم تھی، اگر نوروز اسلام اور دین کے خلاف هوتا تو قطعاً ائمه معصومین {علیهم السلام } واضح طور پر تاکید کے ساتھه اس کی ممانعت فرماتے اور بے شک وه ممانعت هم تک پهنچتی اور واضح هے که ائمه {ع} کی خدمت میں نوروز کا ذکر هوتا تھا لیکن انهوں نے اس کی ممانعت اور نهی نهیں فرمائی هے اور اسے باطل قرار نهیں دیا هے[6]- واضح هے که ایک ایسی پائدار رسم کو ایک مرسل روایت پر اعتماد کر کے نابود نهیں کیا جا سکتا هے- اس لیے اس مسئله کو مباحات میں داخل کرنا چاهئیے- خاص کر اس عید کی تقریب موسمی لحاظ سے طبیعت کے بهترین ایام، یعنی بهار میں منعقد کی جاتی هے جن دنوں معاد کی یاد تازه هو جاتی هے اور اس کے علاوه اس دن لوگ ایسے کام انجام دیتے هیں، جن کی شارع مقدس نے تائید کی هے، مثال کے طور پر : گھروں کی صفائی کرنا، صله ارحام ، مومنین کو مسرور کرنا، دشمنیوں، کینوں اور کدورتوں کو دور کرنا، قیدیوں کو آزاد کرنا وغیره- البته غلط رسومات، جیسے آگ پر سے چھلانگ لگانا وغیره بھی ان دنوں انجام پاتے هیں که نه صرف ان کے صحیح هونے کے سلسله میں کوئی شرعی دلیل نهیں هے بلکه یه کام بجائے دین کے خرافات کے زیاده نزدیک هے اور اس کو نابود کرنے کے لیے کوشش کی جانی چاهئیے-
اس سلسله میں هم حسن ختام کے طور پر امیرالمومنین{علیه السلام } کے کلام کی طرف اشاره کرتے هیں که آپ {ع} نے فرمایا هے: " هر وه دن، جس دن خدا کی نافرمانی اور معصیت نه هو، وه عید هے[7]-"