اخلاقی ذمه داریاں کهاں سے پیدا هوئی هیں؟ اس سلسله میں مختلف نظریات اور مبانی سامنے آئے هیں اور همارے اخلاقی نظام کی بنیاد پر مندرجه بالا تمام منابع اخلاق کی ایک خاص سمت کو استحکام بخشتے هیں اور اس باغ کے ایک گوشه کو آباد کرتے هیں۔ عقل همارے لئے اخلاق کے اساسی پایوں اور لزوم و عدم لزوم کو بیان کرتی هے (مثلا کهتی هے که اخلاق کو هونا چاهئے ورنه امن و امان کے ساﭠﮭ اور بهتر طریقه سے زندگی نهیں گذاری جاسکتی) یا مستقلات عقلیه میں اخلاقی لزوم یا عدم لزوم اور اخلاق کے اصول کلی کو بیان کرتی هے قرآن همارے لئے اخلاق کی پوشیده باریکیوں کو بیان کرتا هے؛ اهل بیت (ع)عمل (سنت) کی شکل میں همارے سامنے اصول اخلاق کو پیش کرتے هیں۔ عقل و وحی جن کا حکم لگا چکی هیں ان کے حدود اور قلمروؤں کو اپنے عمل اور بیان کے ذریعه کھولتے هیں اور همیں اس قابل بناتے هیں که هم جان و دل اور اپنی آنکھوں سے اپنے اعمال کی حقیقت کو درک کرسکیں اور محسوس کرسکیں۔
اس سلسله میں مختلف نظریات پائے جاتے هیں که اخلاقی احکام کا منبع کیا هے؟ آیا اس میں اخلاقی مسائل کا دخل هے؟ یا عقل؟ یا معاشره؟ یا پھر اور کوئی سبب؟
ظاهر هے که هم اپنے اخلاقی نظام میں کسی چیز کو بھی بنیاد بنائیں اور کسی بھی مبنا کو اختیار کریں بالآخر اخلاقی دستورات اور احکام کے حصول کے لئے همیں نظام اخلاقی سے هٹکر کسی منبع کو ماننا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں که: نظام اخلاقی اور منابع اخلاقی میں ایک منطقی اور عقلائی رابطه پایا جاتا هے۔ یه نهیں هوسکتا که کسی اخلاقی نظام میں سے کوئی حکم یوں هی نکال دیا جائے یا یونهی داخل کردیا جائے۔[1]
مذکوره منابع کے کردار کو صحیح طور سے واضح کرنے کے لئے هم پهلے عقل و نقل (قرآن و سنت) کو کلی طور سے اور اس کے بعد مذکوره منابع یعنی عقل، قرآن، سنت و شهود پر الگ الگ بحث کریں گے:
اخلاق میں عقل و نقل کا مقام
اسلامی تاریخ میں عقل و نقل (قرآن و سنت) کے مقام کے سلسله میں تین زاویه نظر دکھائی دیتے هیں: نقل محوری، عقل مداری اور درمیانه راسته ۔
۱۔ پهلے زاویه نظر کے مطابق هر طرح کی اچھائی اور برائی کے سلسله میں فیصله الله کے هاﭠﮭ میں هے۔ لهذا اچھائی وهی هے جس کا شارع حکم کردے اور برائی وه هے جس سے شارع روک دے۔ کیونکه یه کام (اچھائی اور برائی کا فیصله کرنا) عقل کی توان سے باهر هے۔[2]
اهل سنت میں سے اهل حدیث، حشویه، حنابله، اور اهل تشیع میں سے اخباریین اس زاویه نظر کے حامل هیں، اس نظریه کی بنیاد پر عقل صرف دین کی خدمت گذار کی حیثیت رکھتی هے اور دین کے مفاهیم و مقاصد کو سمجھنے کا ایک ذریعه هے۔[3]
۲۔ دوسرے زاویه نگاه کے اعتبار سے شرع سے بے نیاز هوکر عقل اچھائی اور برائی کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی هے۔ اس نظریه کو [افراطی عقل محوری] بھی کها جاتا هے اور یه همیشه مذکوره بالا عقل ستیز نظریه کے مقابله میں رها هے اور بد قسمتی سے (حاکمان وقت کی حمایت کے سبب) اس کے مقابل میں ناکامی کی وجه سے اسلامی افکار کے سلسله میں ایک غلط نتیجه دے گیا هے۔[4]
۳۔ اچھائی اور برائی کی شناخت اور اخلاقی میدان میں مذکوره دو ناقص نظریوں کے ساﭠﮭ ساﭠﮭ ایک تیسرا درمیانه نظریه بھی پایا جاتا هے جو تشیع کا عمیق عقلی نظریه هے اور اسلامی معتدل عقل پسندی سے عبارت هے۔ اس نظریه کے بیان کے لئے مختصر طور پر هی صحیح لیکن ﮐﭼﮭ نکات کا ذکر ناگزیر هے:
الف) انسان کی شناخت کی راهیں (عام انسان کے پیش نظر اور وحی و شهود سے قطع نگاه) حس اور عقل میں منحصر هیں۔
ب) حسی ادراک در حقیقت ظاهری حواس کے ذریعه اور مادی دنیا سے رابطه کے نتیجه میں وجود پاتا هے۔ اس ادراک کا قلمرو کافی محدود هوتا هے لهذا اس سے یه امید نهیں لگائی جاسکتی که اس کے ذریعه هم زندگی کے تمام راستوں کو پهچان سکیں۔[5] اس کے علاوه خود حس بھی بهت جگهوں پر غلطی کرتی هے اور جانچ پرﮐﮭ سے عاجز هے۔
ج) ادراک عقلی بھی مفاهیم کلی اور بدیهیات اولیه کے درک کا واحد راسته هے۔ یه بھی زندگی کے راستوں کی تعیین اور شناخت میں کوئی فائده نهیں دیتے۔ ایسی شناختوں کا زیاده سے زیاده یه فائده هے که ﮐﭼﮭ محض فلسفی قسم کے مثلا خدا کے وجود کو ثابت کرسکتے هیں۔[6]
د) ایک طرف تو شناخت کے سلسله میں مذکوره تمام تر ناتوانیوں کے هوتے هوئے اور زندگی کے مفید اور صحیح منصوبوں کو لیکر ان کی بے بسی کے پیش نظر، اخروی اور ابدی کمال کا سبب نهیں بن سکتے؛ اور دوسری طرف خدائے حکیم سے یه بعید بلکه محال هے که وه انسان کو اختیاری اعمال کے ذریعه ابدی سعادت تک پهنچنے کے لئے خلق کرے اور پھر تمام انسانوں کو اس سلسله کی ضروری شناخت فراهم نه کرے۔
لهذا اس سے یه نتیجه نکلتا هے که الهی حکمت کا تقاضا یه هے وه ضروری شناخت کو تمام انسانوں کے اختیار میں قرار دے اور ایسے راستے کو معین کرے که اس سے انسان هدف کو اور اس تک پهنچنے کے طریقه کو پهچان سکے اور یه راه وحی و نبوت کے سوا ﮐﭼﮭ نهیں هے۔[7] قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کی طرف اشاره فرمایا هے : رُسُلًا مُّبَشرِِّینَ وَ مُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلىَ اللَّهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُلِ: یه سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکه رسولوں کے آنے کے بعد خدا پر انسانوں کی حجت قائم نه هونے پائے۔[8]
ه) دوسرے زاویه سے زندگی کی راهنمائی میں عقل کی ناقص کارکردگی کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا هے که اچھائی اور برائی اور ان کی تشخیص کا منبع نه تو جذبات و احساسات هیں اور نه هی محض باهمی سمجھوته اور قرار داد اور نه هی امر الهی بلکه خارجی اور حقیقی مفاهیم هیں۔ البته مفاهیم ماهوی کے لحاظ سے نهیں جو عینی اور مستقل اشیاء کے لحاظ سے هیں بلکه مفاهیم فلسفی کی طرح کے حقائق مد نظر هیں جو خارجی منشا انتزاع رکھتے هیں یعنی حسی جمال کے سلسله میں اس نظریه کے عین مطابق جو که جمال و زیبائی کو دو چیزوں کے درمیان کا تناسب سمجھتا هے، وه بھی دو اشیاء عینی و خارجی کا تناسب نه که دو ذوق اور دو مزاجوں کا تناسب۔ اخلاق اور اچھائی اور برائی کی تشخیص کے سلسله میں بھی اسی طرح کی بات هے حقیقت عینی و خارجی جو که ایک طرف انسان کا اختیاری فعل هے اور دوسری سمت عینی و حقیقی کمال بھی هے ایسی حقیقت کے بارے میں کهیں گے که جو عمل بھی انسان کے مطلوبه کمال تک پهنچانے میں کام آجائے وهی اچھا هے اور جو عمل انسان کو مطلوبه کمال سے دور کرے وهی برا هے۔ اس بنیاد پر انسان کے اختیاری عمل کی خوبی، در حقیقت خود اس عمل اور مطلوبه کمال کے درمیان مقایسه کے ذریعه ﺳﻣﺟﮭ میں آتی هے اور انسان کے ذوق و مزاج اور سمجھوته و قرارداد کی تابع نهیں هے۔
یهاں تک، اچھائی برائی کی تشخیص کا معیار اگرچه عقل سمجھی گئی لیکن چونکه کمال کی تشخیص میں هم دشواری سے روبرو هیں اور پھر بهت سی جگهوں پر افعال اور نتائج کا رابطه همیں معلوم نهیں هے، کیونکه هر شخص اپنے اعتبار سے کمال نهائی کو ﮐﭼﮭ بھی ﺳﻤﺟﮭ سکتا هے مثلا ارسطو نے انسان کے کمال کو تین قوا یعنی غضبیه، شهویه اور عاقله کے اعتدال میں سمجھا هے۔ خلاصه یه که اس بات کی کوئی ضمانت نهیں هے که انسان کی عقل کمال نهائی کو درست ﺳﻤﺟﮭ لے یا پھر کمال نهائی اور انسانی افعال کے درمیان کے رابطه کو صحیح طور سے درک کرلے یعنی یه ﺳﻤﺟﮭ لے که فلاں عمل مطلوبه کمال تک پهنچنے میں کون سی خاص تاثیر رکھتا هے؟ آیا وه عمل اس سے دور کرتا هے یا اس سے قریب کرتا هے۔ یهی وجه هے که مذکوره دو طرح کی خطاؤں سے بچنے کے لئے یعنی مطلوبه کمال اور اس تک پهنچنے کے راستے کی شناخت کے لئے شریعت کا دامن اور وحی کا هاﭠﮭ پکڑنا چاهئے۔[9] خلاصه یه که اعمال اور کمال نهائی کے باهمی رابطه کے سلسله میں جو چیز عقل کے هاﭠﮭ لگتی هے وه ایک کلی مفهوم هے جو کسی مصداق اور اخلاقی دستور کی تعیین میں کسی خاص کام کی نهیں مثلا عقل سے یه ﺳﻤﺟﮭ سکتے هیں که عدل و انصاف اچھی چیز هے یا عبادت اچھی چیز هے لیکن فلاں جگه پر عدل و انصاف کا کیا تقاضا هے اور کس جگه پر کونسا کام منصفانه هے اس کے لئے عقل همیں کوئی واضح راسته نهیں دکھا سکتی۔ یا عقل کهتی هے که الله اور صاحب نعمت کی عبادت اور شکر کرنا چاهئے لیکن یه عبادت اور شکر کس طرح هونا چاهئے؟ اس کو عقل اکیلی نهیں بتا سکتی۔
اس کلی بیان کے بعد اب هم تمام منابع کو ایک ایک کرکے بیان کرتے هیں:
عقل:
گذشته بیان کی بنیاد پر عقل اگرچه اخلاقی احکام کے صحیح نتائج حاصل کرنے کے لئے وحی کی محتاج هے لیکن اس سے مراد یه نهیں هے که عقل کا کوئی فائده هی نهیں هے کیونکه عقل کے مفید اور متعدد کارنامے بھی هیں جن میں سے بعض کو هم ذکر کررهے هیں:
عقل اور اخلاقی احکام کا بامعنی هونا:
کیا حقائق همیشه ایک هی رهتے هیں اور کبھی بدلتے نهیں یعنی اگر کوئی چیز حقیقت رکھتی هے تو همیشه کے لئے حقیقت هے اور اگر نهیں هے تو همیشه کے لئے جھوٹ هے۔ اس سلسله میں مسلم دانشمندوں کی نظر یه هے که اخلاقی احکام همیشه ایک مفهوم رکھتے هیں؛ یه ایک عقلی بحث هے اور اس کے سمجھنے کے لئے عقل هی ذریعه هے که اخلاقی مفاهیم، مطلق هیں یا نسبی هیں۔
عقل کا تمام احکام کی تحصیل کا ماخذ هونا:
اخلاقی احکام کے بامعنی هونے اور اسی طرح قرآن و سنت سے ایک حکم اخلاقی کی تحصیل کے بعد اس پر عمل کے وجوب کے لئے عقل کے محتاج هیں۔ مثلا شریعت نے والدین کے احترام کو واجب قرار دیا هے اور جو اس پر عمل نه کرے وه دنیوی اور اخروی عذاب میں مبتلا هوگا، یه در حقیقت ایک عقلی قضیه هے اگرچه اس کے مقدمه کو شریعت سے لیا گیا هے۔ اسی طرح عقل همارے لئے اخلاق پر عمل پیرا هونے کو لازم قرار دیتی هے که اگر اخلاق نه هو تو معاشره اور سماجی روابط سرد پڑجائیں گے اور امن و امان کے ساﭠﮭ اچھی زندگی نهیں گزاری جاسکتی۔
لهذا اخلاق میں عقل کے منبع هونے کا مطلب یه هے که مستقلات عقلیه میں عقل هی اوامر و نواهی اور اخلاق کے کلی اصول کو بیان کرتی هے۔
اس کے علاوه خود ایک مومن انسان کا ایمان بھی عقلی، حقیقی اور استدلال پر استوار هونا چاهئے۔[10]
قرآن:
قرآن کو دین کی شناخت کے لئے اصلی منبع کے طور پر دیکھا جاتا هے، قرآن میں اس بات کی متعدد مقامات پر تاکید کی گئی هے که الله بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا هے که: میرے رسول نے تمهیں ایسی چیز سکھائی اور ایسے مطالب کو بیان کیا جن تک تم خود نه پهنچ سکتے تھے اور نه هی انھیں حاصل کرسکتے تھے [یُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُون][11] الله نے یه نهیں کها که [عَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا: ایسی چیز سکھائی جو تم جانتے نهیں تھے] بلکه کها که ایسی چیز تم کو سکھائی جس کے سیکھنے کا تهمارے پاس کوئی راسته نهیں تھا یعنی ایسے مطالب تھے جو تمهارے عام ادراک سے بالاتر تھے۔ انسانی حس، خود انسان، انسانی خیال اور انسانی عقل اس تک دسترس نهیں رکھتی تھی۔ قرآن میں یه تعبیر کبھی ایک حکم کے بیان کے بعد آئی هے یعنی پهلے ایک حکم بیان کیا گیا هے پھر یه عبارت یا اس مضمون کی آیت که تم ان احکام و دستورات تک اپنی عقل کے ذریعه نهیں پهنچ سکتے تھے۔[12] اور یه اس بات کی دلیل هے که انسانی عقل تمام انسانی ضروریات کو پورا کرنے پر قادر نهیں تھی اور اگر آسمانی کتاب نه هوتی تو انسان اپنی عقل کے ذریعه کسی طرح بھی بهت سے حقائق تک نهیں پهنچ سکتا تھا۔
اسی طرح یه کتاب اپنے اندر عالم فطرت کی طرح بهت سے رموز چھپائے هوئے هے اس فرق کے ساﭠﮭ که یه تشریعی دنیا هے اور عالم تکوین و فطرت کے برخلاف اپنے اسرار کے اظهار کے لئے ایک زبان بھی رکھتی هے اور سالها سال سے اپنی گویا زبان کے ذریعه انسان کو بهترین راه کی دعوت دیتی رهی هے اور دے رهی هے۔
لهذا عقل هم کو صرف بعض حقائق تک پهنچاتی هے اور عقل کی هدایت کرده چیزوں میں سے یه هے که: میں بهت سی چیزوں کے درک سے عاجز هوں چونکه اس کے درک کے مقدمات میرے اختیار میں نهیں هیں، لهذا یهی عقل همارے هاﭠﮭ کو اپنے خالق کے هاﭠﮭ میں دے دیتی هے اور کهه دیتی هے که اگر اس سے آگے جانا هے تو اس کتاب کی راهنمائی میں جائیں۔
خلاصه یه که اگرچه عقل، مستقلات عقلیه میں اوامر و نواهی اور اخلاق کے اصول کلی کی تعریف کرتی هے لیکن اخلاقی مصادیق کی تعیین اور باریک اور ظریف نکات کے لئے هم قرآن و سنت کے محتاج هیں۔
سنت:
اگرچه سنت بھی دین اور منجمله اخلاق کی شناخت کا ایک منبع هے لیکن ذهن میں رکھنا چاهئے که سنت در حقیقت قرآن هی کی شرح هے چاهے یه سنت اقوال معصوم هو اور چاهے ان کے افعال؛ سنت هر حال میں قرآن کریم کی آیات کے مضامین کا بیان اور ان کی هی شرح هے کیونکه قرآن نے اپنی جامعیت پر خود شهادت دی هے که قیامت تک جس چیز کی بھی انسان کو ضروت پڑے گی وه سب اس میں نے بیان کردیا هے۔[13]
البته شریعت کے اس منبع سے استفاده اور اس سے قوانین احکام کی تحصیل کے لئے اس کی روش اور طرز و طریق سے آگاه هونا ضروری هے۔ اور قرآن سے استفاده اور بهره مندی کے طریقه کو سنت میں تلاش کرنا چاهئے۔
اس میں شک نهیں هے که سنت کے بغیر قرآن انسان کی سعادت کے لئے کافی نهیں هوگا؛ چونکه :
اولا: قرآن، کلی قوانین سے سرشار هے اور قرآن سے استفاده کے طریقه کو سنت سے سمجھنا چاهئے؛
ثانیا: صرف اچھا قانون سعادت کے لئے کافی نهیں هوسکتا بلکه باریکی اور ماهرانه طریقه سے اس کا نفاذ ضروری هے۔ اور در حقیقت هے که قرآن میں پیغمبر صلّی الله علیه وآله اور ائمه علیهم السلام کو اسوه حسنه کے طور پر پیش کرنا اسی بات کی طرف اشاره هے که بهترین قانون ایک ماهر اور سمجھدار نافذ کرنے والے کا ضرورتمند هے، جب تک کوئی قانون عملی نه هوجائے تب تک اس کی شیرینی اور قدر و قیمت کا اندازه نهیں هوسکتا لیکن جب نافذ کرنے والے قانون اور اس کے مقام کو درک کرتے هوئے اسے اچھی طرح معاشره میں عملی کردیں گے اور سب اس کے بابرکت پھل کو اپنی آنکھوں سے دﻴﮐﮭ لیں گے تو سب کو اس کی خوبی اور بزرگی کا اندازه هوجائے گا۔
شهود:
اشراق و شهود تیسری راه هے جو حس و تعقل کے بعد هے۔ گویا ظاهر بین لوگ حس کے ذریعه، تفکر کرنے والے استدلال کے ذریعه اور روشن بین لوگ عالم بالا کے الهام و اشراق کے ذریعه حقائق تک پهنچنے کی کوشش کرتے هیں۔[14]
شهود ایک نوری حقیقت شناسی هے اور علمی راهوں سے اس کے امکان کا انکار نهیں کیا جاسکتا۔ یعنی تجرباتی مطالب کو حواس کے ذریعه، عقلانی مطالب کو منطقی اور ریاضی افکار کے ذریعه اور حس و استدلال کے ماورا مطالب کو الهام اشراق کے ذریعه پهچانا جاتا هے۔
مغربی دانشمندوں میں سے [الکسیس کارل] وه هے جس نے شهود کو کافی اهمیت دی هے۔ اس نے لکھا هے که: یه بات یقینی هے که علمی اکتشافات صرف انسانی فکر کا نتیجه اور ثمره نهیں هے اور مطالعه و قضایا فهمی کی قوت کے علاوه نوابغ کے پاس دیگر خصوصیات مثلا اشراق بھی هوتا هے۔ اشراق کے ذریعه ان چیزوں کو پالیتے هیں جو دوسروں پر پوشیده هیں، ان قضایا کے درمیان کے ارتباط کو ﺳﻤﺟﮭ لیتے هیں جو آپس میں ظاهرا کوئی ربط نهیں رکھتے، اور مجهولات کی گره کو بھی اپنی فراست کے ذریعه دﻴﮐﮭ لیتے هیں۔ اس طرح کبھی هم کو عقل و وحی وغیره کے علاوه دوسرے راستوں سے بھی خارجی دنیا اور اخلاقی اصول سے آشنائی حاصل هوجاتی هے۔
آج انسان کے وجود و روح کے ان زاویوں کے لئے علم [میٹافیزک] هے۔ خصوصا انسانی وجود کے ان پهلؤں کا مطالعه کرتا هے جو ابھی اچھی طرح پهچانے نهیں گئے هیں یعنی بعض لوگوں کے زیاده اور اچھے درک و ادراک کو همارے لئے مدلل کرتا هے۔[15]
کبھی ﮐﭼﮭ حقائق اور پنهاں امور انسان کے دل میں اتر جاتے هیں اور انسان کا ذهن اس طرح روشن هوجاتا هے که اسے یقین هوجاتا هے که جو وه ﺳﻤﺟﮭ رها هے وهی صحیح اور یقینی هے یعنی کشف کرده چیز کی حقیقت کو دیکھ لیتا هے۔ حقیقت اس طرح اس کے سامنے هوتی هے که انسان کے لئے کچھ شک و شبهه نهیں رهتا۔
البته چونکه ممکن هے که جو انسان کے لئے کشف هورها هے وه حقیقت کا صرف ایک جز هو یا ممکن هے که روحانی پیچیدگیوں اور غلط خیالات کے سبب اس چیز کی ماهیت کو هم اچھی طرح درک نه کرسکیں دوسرے لفظوں میں ممکن هے الهام شده شے همارے ذهن و روح میں بر عکس، اثر چھوڑے؛ اس وجه سے یه توجه رکھنا چاهئے که علم شهودی اور باطنی ادراکات میں بھی خطا کا امکان هے، لهذا مکاشفات کے صدق و کذب اور جن کا صادق هونا ضروری نهیں هے ان نتائج کے صدق و کذب کو جاننے کے لئے خاص قسم کی تحقیق اور معیارات کی ضروت هے۔[16]
شهود جس طرح مغربی مکاتب فکر مثلا [ٹومس ریڈ][17] یا [ایکونیس اور ایگوسٹین][18] کے مکتب میں پیش کیا گیا هے ویسا همارے اخلاقی مکتب میں پیش نهیں کیا گیا۔ هم شهود کو عرفان اسلامی میں زیر بحث لاتے هیں اور اسے اس علم کا ایک مسئله شمار کرتے هیں۔
بهرحال تهذیب نفس اور عرفان اسلامی میں آئے شهود کے ذریعه اخلاقی مفاهیم کا کشف اور مشاهده کیا جاسکتا هے مثلا ایک انسان اپنے دل کی آنکھ سے خود کو اور تمام موجودات عالم کو فقر محض پاتا هے۔
جو لوگ خلوص کے ساﭠﮭ اور دین کی بنیاد پر الله کی شناخت کے درپے هیں ان کے سلسله میں قرآن فرماتا هے: جو لوگ همارے لئے جهد و کوشش کرتے هیں۔ بیشک هم ان کو اپنی راه کی هدایت کریں گے اور یقینا الله نیکی کرنے والوں کے ساﭠﮭ هے۔[19]
پیغمبر اسلام صلّی الله علیه وآله فرماتے هیں: اگر کوئی اس پر عمل کرے جو جانتا هے تو خدا اس کا علم بھی اسے عنایت فرماتا هے جو وه نهیں جانتا۔[20]
اس مسئله کے اچھی طرح واضح هونے کے لئے هم عرفان اسلامی کی طرف هلکا سا شاره کرتے هیں:
عرفان اسلامی کی دو قسمیں هیں: عملی اور نظری؛
عرفان نظری عالم هستی یعنی الله، کائنات اور انسان کی تفسیر کرتا هے اور ان موارد کے علمی و عملی مسائل کو زیر بحث لاتا هے۔ عرفان اس لحاظ سے فلسفه کی طرح هے۔ اس کا دوسرا حصه عرفان عملی هے جو اخلاق کی طرح هے اور وه انسان میں تبدلی لانا اور اسے آگے بڑھانا چاهتا هے؛ عرفان عملی یه بتاتا هے که انسان کو توحید کے بلند و بالا چوٹی تک پهنچنے کے لئے کهاں سے ابتدا کرنا چاهئے اور کن کن منزلوں کو بالترتیب طے کرنا چاهئے اور اسے ان منزلوں کے درمیان کن حالات سے دوچار هونا پڑے گا اور کون سےواقعات پیش آئیں گے۔ اور ان مراحل اور منازل کو ایک ایسے انسان کامل کی نگرانی میں انجام پانا چاهئے جو پهلے اس راه کو طے کرچکا هو اور منزلوں کی راه و رسم سے آگاه هو۔ اور اگر ایک کامل انسان اس کا راهنما نه هو تو بھٹکنے کا خطره اس کی تاک میں هے:
ترک این مرحله بی همرهی خضر مکن
ظلمات است بترس از خطر گمراهی[21]
[اس مرحله کو ایک خضرِ راه کے بغیر ترک نه کرنا۔ اندھیرا هے لهذا بھٹکنے کے خطرے سے ڈرو]
نتیجه یه هوا که: اخلاق تین میدانوں: ۱۔ بامعنی هونے ۲۔اخلاقی احکام کے استنباط و استخراج ۳۔اعمال کی حقیقت کے درک اور نفاذ کی ضمانت کے لئے سعی و کوشش میں مذکوره منابع کا ضرورتمند هے۔ اگرچه ممکن هے که ضرورت هر منابع میں الگ الگ طرح کی هو یعنی تینوں منابع میں ایک منبع کا ضرورتمند هو لیکن دوسرے منبع کی ضرورت صرف ایک یا دو میدانوں میں هو۔
[1] استاد ھادی تھرانی ، باور ها و پرسشها قم ،خانه خرد ، ص ۹۵ ۔
[2] زابینه اشمیکته ، اندیشه ھای کلامی علامه حلی ، ترجمه احمد نمایی ، ص ۱۱۶ بنیاد پژوھش ھای اسلامی رضوی ۱۳۷۸۔
[3] عباس مرتضوی ، علم و عقل از دیدگا مکتب تفکیک ، ص ۱۸۹ ، مرکز جھانی علوم اسلامی ۱۳۸۱۔
[4] ایضا
[5] محمد تقی مصباح یزدی ، معارف قرآن ، ج۴و۵ راھنما شناسی (ص۱۰، مؤسسه آ موزشی و پژوھشی امام خمینی ۱۳۸۲۔
[6] ایضا ص ۱۱۔
[7] ایضا ص ۱۵
[8] نساء آیه ۱۶۵
[9] محمد تقی مصباح یزدی ، فلسفه اخلاق ، ص ۸۰ ۔ ۸۲،موسسه آموزشی و پژوھشی امام خمینی ۱۳۸۱
[10] مارتین مکدرموت ، اندیشه ھای کلامی شیخ مفید ،ص ۷۱ مؤسسه مطالعات اسلامی دانشگاه مک گیل شعبه دانشگاه تھران، ۱۳۶۳۔
[11] بقره، ۱۵۱۔
[12] ھادونی تھرانی ،باورھا و پرسشھا ، قم خانه خرد ،چاپ سوم ۱۳۸۲ ص ۴۸
[13] " و نزلنا علیک الکتاب تبیاً لکل شی " ؛ نحل ، ۸۹ ۔
[14] انسان موجود ناشناخته ص ۱۳۵ تا ص ۱۳۷ به نقل جعفر سبحانی اگاھی سوم ص ۵۰ ۔
[15] ایضا ۔
[16] آیت الله جودی آملی ، شریعت در آینه معرفت، قم ، مرکز نشر فرھنگی رجاء ، چاپ دوم ۱۳۷۲، ص ۱۳۷۔
[17] شھریاری ، حمید ، فلسفه اخلاق در تفکر غرب از دیدگاه السدیر مک اینتاید ، تھران ، سمت ، چاپ اول ۱۳۸۵ ص ۲۱۵ ۔
[18] ایضا ص ۱۵۵ و ص ۱۵۶
[19] عنکبوت ۶۹۔
[20] حر عاملی ، وسائل شیعه ۔ ج ۲۷ ص ۱۶۴ ؛ علامه مجلسی ، بحار الانوار ج ۲، ص ۳۰، و ج ۶۵، ص ۳۱۲ ۔
[21] مزید معلومات کے لئے دیکھئے: مطھری ،آشنائی با علوم اسلامی ، تھران ، چاپ سیزدھم ، ۷۳ ج ۲ ص ۸۵ تا ص ۸۷۔