شریعت اور معصومین{ع} کی روایتوں کے مطابق تمام اذکار مستحب ہیں اور ان کے بہت سے اثرات ھوتے ہیں، اس کے باوجود تمام شرعی اعمال ، من جملہ ایمان، نماز، قرائت قرآن، اوراد و اذکار کی معرفت اور عمل کے بغیر صرف دعوی کرنے سے ان کا مطلوبہ اثر حاصل نہیں ھوسکتا ہے، لہذا ان تمام اعمال میں ، اولا: با معرفت شخص کو اپنے عمل کی نسبت معرفت ھونی چاہئے اور ثانیا: اس کے دل و زبان ایک ھونے چاہئیں اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ قول کا اعمال کے ساتھ تضاد نہیں ھونا چاہئے کیونکہ نیک بات صرف عمل صالح سے بلند مقام پر جاتی ہے-
تمام اذکار الہی مبارک ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کی مادی اور معنوی برکتیں ہیں-
ذکر " لا الہ الا اللہ" کے اثرات اور برکتوں کے بارے میں متعدد روایتیں نقل کی گئی ہیں- من جملہ، امام صادق {ع} سے نقل کی گئی ایک مفصل روایت میں " لا الہ الا اللہ" کے ذکر کی اہمیت کے بارے می یوں آیا ہے: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَال: ...فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص ... مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِائَةَ مَرَّةٍ كَانَ أَفْضَلَ النَّاسِ عَمَلًا ذَلِكَ الْيَوْمَ إِلَّا مَنْ زَاد ...[1]؛ امام صادق {ع} نے فرمایا کہ:- - - پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا ہے:- - - جو شخص ایک سو بار ذکر " لا الہ الا اللہ" پڑھے، جس دن اس نے یہ ذکر پڑھا ھوگا، عمل کے لحاظ سے اس دن وہ لوگوں میں بہترین شخص شمار ھوگا مگر یہ کہ کسی نے اس سے زیادہ یہ ذکر پڑھا ھو{ کہ اس کا اجر زیادہ ہے}-- - -
کلی طور پر اذ کار ، خاص کر ذکر مقدس " لا الہ الا اللہ" کے مستحب ھونے کے علاوہ یہ ذکر دین اسلام کا کلمہ طیبہ اور اصلی نعرہ ہے- ایسا لگتا ہے کہ ضروری ھو کہ ہم یہاں پر عرفان عملی میں اوراد و اذکار کے باب میں بیان کئے گئے چند مطالب کی طرف بھی اشارہ کریں ، کیونکہ بہت سے شبہات پیدا ھونے کی وجہ، مباحث کو ان امور کے بارے میں مخلوط کرنا اور عدم معرفت ھوتی ہے-
بعض کتابوں، خاص کر علوم غربیہ سے متعلق کتابوں میں مختلف مطالب حاصل کرنے کے لئے اوراد و اذکار کے بارے میں کچھ مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اکثر مواقع پر عام لوگ ان کی طرف توجہ کرتے ہیں- ان اوراد و اعمال میں سے بعض مادی مطالب حاصل کرنے کے لئے اور بعض باطنی اور غیبی مطالب حاصل کرنے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ انھیں ایک خاص ریاضت اور خاص مدت کے اندر، مثال کے طور پر چالیس دن تک ایک خاص تعداد میں انجام دیا جائے-
اوراد و اذکار کا طریقہ ، حقیقت میں ایک روحانی فن اور عرفانی طریقہ شمار ھوتا ہےکہ اس کے انسان کی روح میں اور اس کے نتیجہ میں عالم میں خاص اثرات رونما ھوتے ہیں – ان اصولوں کی بنا پر ہر ذکر اور ہر ورد کا اپنا خاص اثر ھوتا ہے جو دوسرے اذکار میں نہیں ھوتا ہے-
اس کے علاوہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مذکورہ مطالب ان مطالب کے علاوہ ہیں جو شریعت میں بیان کئے گئے ہیں ، اور شریعت میں اوراد و اذکار کو کلی طور پر مستحب شمار کیا گیا ہے، کیونکہ تمام اذکار، خدا کی یاد کے عنوان سے ، تقرب الہی کا سبب بنتے ہیں اور ان کے اپنے خاص اثرات ھوتے ہیں-
اس بحث کے بارے میں مذکورہ دو مقام لوگوں میں کچھ شبہات پیدا ھونے کا سبب بنے ہیں اور مثال کے طور پر لوگ خیال کرنے لگے ہیں کہ اگر ذکر " لا الہ الا اللہ" کو ایک سو بار پڑھیں تو ضرور فقر و تنگ دستی سے دوچار ھوں گے، اس لئے ایسے اذکار سے استفادہ کرنا چاہئے جس سے ثروت مند بن جائیں اور مالی فوائد کے ساتھ ساتھ دینی فوائد بھی ھوں-
معلوم ھوتا ہے کہ یہ طرز تفکر، عملا ذکر و نام خدا کو ایسے وسائل میں تبدیل کرچکا ہے جو اوراد و اذکار کے عرفانی طریقہ کو دنیوی امور سے مخلوط کرتے ہیں اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ھوگا، بقول مولانا رومی:
حرف درویشان بدزدد مرد دون تا بخواند بر سلیمی زان فسون[2]
ایک اور نکتہ جو بیان کرنا ضروری ہے وہ اوراد و اذکار کا قلبی معرفت کے بغیر ایک وسیلہ کے عنوان سے استفادہ کرنا ہے جو اوراد و اذکار کے معرفتی پہلو کے لئے ایک چیلینج ہے ، کیونکہ بنیادی طور پر ہر شرعی عمل جو انسان کے قلب و اعمال سے ٹکراتا ھو، اس کا نتیجہ نفاق کے علاوہ کچھ نہیں ھو گا-
اس نظریہ کے مطابق، اس سوال کا جواب کہ، کیا کسی خاص ذکر کا استعمال کرنا ممکن ہے کسی امتحان و آزمائش کا سبب بنے؟ کہنا ہے کہ قرآن مجید کے نظریہ کے مطابق خود ایمان بھی آز مائش و ابتلا کے بغیر نہیں ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا؟"[3]
اس بنا پر جو افراد خاص اذکار کو زبان پر جاری کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کسی مسئولیت کا احساس نہیں کرتے ہیں ، انھیں بنیادی طور پر اپنے عمل کے بارے میں نظر ثانی کرنی چاہئے-
تمام عبادی و شرعی اعمال اور خاص کر ایک مسلمان کی نماز اور تلاوت قرآن جیسے مقدس اعمال اگر قلبی اثرات کے ہمراہ نہ ھوں تو نہ صرف ان کا کوئی نتیجہ نہیں ھوگا بلکہ ان کے منفی اثرات بھی رونما ھوں گے– مثال کے طور پر جو شخص ہر روز قرآن مجید کی طرف سے منع کئے گئے اعمال بجا لاتا ہے اور مسلسل طور پر قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتا ہے ، اس کی مثال اس شخص کی جیسی ہے کہ جو ہر بار قرآن پڑھتا ہے، لیکن خود قرآن مجید اس پر لعنت کرتا ہے اور اسے قرآن مجید کی لعنت کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ملے گا بلکہ اس عمل کے برے نتائج بھی اسے ملیں گے:" ربّ تالی القرآن و القرآن یلعنه[4].
اس کے علاوہ اگر نماز، خدا کی عبادت کے لئے صدق دل سے نہ ھو، تو وہ منافقوں کی جیسی نماز ھوگی ، جس کی مثال :" الذین فی صلاتھم ساھون" [5] جیسی ہوگی، اور وہ نماز اس کے لئے "ویل" و عذاب کا سبب بنے گی-
زبانی اوراد و اذکار بھی، خاص کر بعض دستور العمل کے مطابق مسلسل اور خاص تعداد میں بجالانا اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہے- اور اسی لئے اس طریقہ کے لئے ایک معنوی استاد کا ھونا ضروری ھوتا ہے –
اس مقام پر بعید نہیں ہے کہ بعض اذکار اگر اپنی خاص معنوی کیفیت و کمیت کے ساتھ بجا لانے کے باوجود قلب و عمل کے خلاف انجام پائیں، تو قدرتی طور پر اپنے دعوی کی صداقت کے لئے کچھ امتحان بھی دینے ھوں گے کہ یہ بذات خود خدا کی مہربانی شمار ھوتی ہے اور اس سلسلہ میں بزرگوں کا کلام {جنھوں نے کہا ہے کہ " لا الہ الا اللہ" حقیقی موحد کا ورد ہے} اس مقام کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے معنی استجاب ذاتی اور اذکار کی مطلوبیت کی نفی نہیں ہے- کیونکہ " لا الہ الا اللہ" کے معنی یہ ہیں کہ انسان اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں رکھتا ہے اور وہ خدا کے علاوہ ہر چیز سے دلی تعلق توڑ نا چاہتا ہے اور توحید کا یہ دعوی دنیااور دنیوی تعلقات کے منافی ہے- یہ ایک واضح اور روشن حقیقت ہے کہ اخلاص توحید کی شرط ہے- اور اس امر کا نتیجہ اذکار سے پرہیز کرنا نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ھوتا تو نہ ایمان لانا چاہئے اور نہ قرآن پڑھنا چاہئے اور نہ نماز پڑھنی چاہئے کیونکہ ان سب اعمال کے ضمن میں امتحانات ہیں، بلکہ اس کے برعکس اپنے مقصد کو خداوند متعال سے جوڑ دینا چاہئے اور مسلسل اپنے اخلاص کو بڑھانا چاہئے-
قرآن مجید کی تاکید کے مطابق، اکثر لوگ جو فقر سے خائف ہیں- کہ خود یہ خوف شیطان کی ایک اہم ایجاد ہے-[6] اس خوف کے بارے میں کوئی چارہ جوئی کرنی چاہئے، کیونکہ یہ ایمان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے ، نہ یہ کہ ایسے اوراد کے پیچھے پڑیں جو ثروت بڑھانے کا سبب بنتے ہیں یا ان کے ساتھ امتحانات الہی نہیں ھوتے ہیں – اس خوف اور شرک پر غلبہ پانا ایمان و معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس سلسلہ میں صرف زبانی ذکر کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا ہے-
اس بنا پر بحث کا خلاصہ یہ ھوگا کہ شریعت اور معصومین{ع} کی روایت کے مطابق تمام اذکار الہی مستحب ہیں اور ان کا کوئی منفی اور نامطلوب اثر نہیں ہے، اس کے باوجود معرفت اور عمل کے بغیر دعوی کرنا ، تمام شرعی اعمال کے قلبی اور معنوی پہلو کے منافی ہے، من جملہ ایمان، قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھنا اور اسی طرح اوراد و اذکار کے بجالانے کے مطلوبہ اثرات نہیں ھوں گے اور ان معنوی امور کے ساتھ کھیلنا خطرناک کھیل ہے کہ بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں- لہذا ان تمام اعمال میں، اولا: انسان کو اپنے عمل کے بارے میں معرفت حاصل کرنی چاہئے اور ثانیا: اس کی زبان اور دل ہم آہنگ ھونے چاہئیں اور اس سے اہم تر یہ کہ اس کا قول اس کے اعمال کے منافی نہیں ھونا چاہئے کیونکہ نیک بات، صرف عمل صالح سے بلند مقام حاصل کر سکتی ہے-
«إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ»[7].
[1] کلینی ،محمد بن یعقوب ،الكافي ج 2، ص 505، بَابُ التَّسْبِيحِ وَ التَّهْلِيلِ وَ التَّكْبِيرِ، حدیث1، نشر دار الکتب الاسلامیه، تهران، 1365ه-ش (8 جلدی).
[2] مثنوی معنوی، دفتر اول، بیت 319
[3] "أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ" ، عنکبوت، 2
[4] ممکن قرآن پڑھنے والے پر خود قرآن مجید لعنت بھیجے گا"،جامع الاخبار، ص48، انتشارات رضی، قم ، 1363
[5] "فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُون" ماعون، 4 و 5.
[6] " الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ "، بقره ، 268
[7] فاطر، 10