Please Wait
کا
6489
6489
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2010/07/26
سوال کا خلاصہ
کیا کراٹا جیسی ورزش کرنا جائز ہے، جبکہ اس میں بعض اوقات ایک دوسرے کو شدید ضرب لگتی ہے؟ اگر یہ ضرب زخمی ھونے یا بدن کو نقصان پہنچنے کا سبب بنے تو کیا ضرب لگانے والے کو دیہ دینا اور اپنے مد مقابل سے معافی مانگنا ضروری ہے؟
سوال
ایک مدت سے میں کراٹا کھیل رہا ھوں اور بعض اوقات مجھ پر شدید ضربیں لگتی ہیں۔ کیا اس قسم کی ورزش کرنے میں کوئی حرج ہے؟ اگر میں دوسرے کسی فرد پر ضرب لگادوں تو کیسا ہے؟ کیا مجھے ان سے معافی مانگنی چاہئیے؟
ایک مختصر
مذکورہ سوال کے بارے میں مراجع محترم تقلید کے دفاتر سے موصول ھوئے جوابات حسب ذیل ہیں:
دفتر آیت اللہ العظمی خامنہ ای (مدظلہ العالی):
اگر قابل توجہ ضررب نہ ھو اور جان کو خطرہ پہنچنے کا خوف نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر دیہ کا سبب متحقق ھو جائے، اگر صدمہ برداشت کرنے والا رضامندی کا اظہار کرے تو دیہ دینے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ورنہ ضامن ہے۔
دفتر آیت اللہ العظمی سیستانی (مد ظلہ العالی):
اگر کھیل کود کے حدود سے آگے نہ بڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی (مد ظلہ العالی):
اس قسم کی کھیلوں میں اگر مد مقابل دشمن کے مقابلے میں دفاعی صورت اور رزمی و جسمانی آمادگی کو بڑھانا مقصد ھوتو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر مقابلہ کے طرفین نے اس کھیل کے ممکنہ نتائج کے بارے میں رضامندی ظاہر کی ھو تو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔
دفتر آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی (مدظلہ العالی):
مذکورہ سوال میں بیان کی گئی ورزش بدن کو ضرر پہنچنے کی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ اور اگر اس ورزش کے دوران کسی کو صدمہ اور ضرر پہنچے، مثال کے طور پر مد مقابل دونوں افراد میں سے کسی ایک کے یا دونوں کے جسم پر گہرا نیلا، سرخ، سیاہ رنگ ھو جائے یا زخم لگ جائے تو جائز نہیں ہے اور اس کا دیہ بھی دینا ہے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہران (دامت برکاۃ )کا جواب:
۱۔ اگر یہ ورزش عقلائی مقصد کی حامل ھو، جیسے دشمن کے مقابلے میں جسمانی قوت بڑھانا، تو قابل توجہ ضرر نہ پہنچنے کی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
۲۔ اگر ضربات قابل دیہ زخمی ھونے پر منتہی ھوں تو ضرب لگانے والے پر دیہ ادا کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ کہ زخمی ھونے سے پہلے یا بعد میں مجروح شخص نے ضرب لگانے والے کو بری الذمہ قرار دیا ھو۔ البتہ احتیاط اس میں ہے کہ زخم لگنے کے بعد بری الذمہ ھونے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جائے اور اگر طرف مقابل راضی نہ ھو تو دیہ یا ارش [حرجانہ] ادا کرنا ضروری ہے۔
اس موضوع سے متعلق عنوان:
سوال ۳۶۸ سائٹ ۳۶۸ " جائز بودن ونہ بود بوکس آماتور"
دفتر آیت اللہ العظمی خامنہ ای (مدظلہ العالی):
اگر قابل توجہ ضررب نہ ھو اور جان کو خطرہ پہنچنے کا خوف نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر دیہ کا سبب متحقق ھو جائے، اگر صدمہ برداشت کرنے والا رضامندی کا اظہار کرے تو دیہ دینے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ورنہ ضامن ہے۔
دفتر آیت اللہ العظمی سیستانی (مد ظلہ العالی):
اگر کھیل کود کے حدود سے آگے نہ بڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی (مد ظلہ العالی):
اس قسم کی کھیلوں میں اگر مد مقابل دشمن کے مقابلے میں دفاعی صورت اور رزمی و جسمانی آمادگی کو بڑھانا مقصد ھوتو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر مقابلہ کے طرفین نے اس کھیل کے ممکنہ نتائج کے بارے میں رضامندی ظاہر کی ھو تو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔
دفتر آیت اللہ العظمی صافی گلپائیگانی (مدظلہ العالی):
مذکورہ سوال میں بیان کی گئی ورزش بدن کو ضرر پہنچنے کی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ اور اگر اس ورزش کے دوران کسی کو صدمہ اور ضرر پہنچے، مثال کے طور پر مد مقابل دونوں افراد میں سے کسی ایک کے یا دونوں کے جسم پر گہرا نیلا، سرخ، سیاہ رنگ ھو جائے یا زخم لگ جائے تو جائز نہیں ہے اور اس کا دیہ بھی دینا ہے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہران (دامت برکاۃ )کا جواب:
۱۔ اگر یہ ورزش عقلائی مقصد کی حامل ھو، جیسے دشمن کے مقابلے میں جسمانی قوت بڑھانا، تو قابل توجہ ضرر نہ پہنچنے کی صورت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
۲۔ اگر ضربات قابل دیہ زخمی ھونے پر منتہی ھوں تو ضرب لگانے والے پر دیہ ادا کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ کہ زخمی ھونے سے پہلے یا بعد میں مجروح شخص نے ضرب لگانے والے کو بری الذمہ قرار دیا ھو۔ البتہ احتیاط اس میں ہے کہ زخم لگنے کے بعد بری الذمہ ھونے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جائے اور اگر طرف مقابل راضی نہ ھو تو دیہ یا ارش [حرجانہ] ادا کرنا ضروری ہے۔
اس موضوع سے متعلق عنوان:
سوال ۳۶۸ سائٹ ۳۶۸ " جائز بودن ونہ بود بوکس آماتور"
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے