Please Wait
9192
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای{مدظلہ العالی}:
اگر مرد مہر کی مقدار معین کرنے میں مکمل اختیار رکھتا تھا، سوال کے فرضیہ کے مطابق اگر عقد پڑھنے میں شرائط کی رعایت کی گئی ہے، مثلاً اگر لڑکی کنواری ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کے ولی{باپ یا دادا} کی اجازت حاصل ہوئی تھی، تو عقد صحیح ہے اور وہی مہر مبلغ مہر کے طور پر محسوب کیا جائے گا۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی{مدظلہ العالی}:
عقد صحیح ہے اگر مہر معین کرنے کے بارے میں آپس میں مفاہمت نہ ہو پائے تو حاکم شرع کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی{مدظلہ العالی}:
اگر مہر معین کرنے کے سلسلہ میں بھی اس کو وکیل قرار دیا ہو، تو عقد صحیح ہے اور وہی مہر ثابت ہوگا ورنہ یہ عقد "فضولی" ہوگا، یعنی اگر عورت اجازت دیدے تو صحیح ہے ورنہ باطل ہے اور باطل ہونے کی صورت میں ، مذکورہ عمل زنا نہیں ہے بلکہ وطی بہ شبہہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اگر لڑکی کنواری ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا عقد اس کے باپ یا دادا کی اجازت سے انجام پانا چاہئیے۔
دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی{مدظلہ العالی}:
مذکورہ عقد باطل ہے اور آپ کو ایسے عقد کے بارے میں مہر المثل ادا کرنا چاہئیے۔
حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی{دامت برکاتہ} کا جواب حسب ذیل ہے:
۱۔ اگر عقد نکاح میں طرفین آپس میں عقد کے شرائط پر توافق نہ کر چکے ہوں ، تو وہ عقد باطل ہے۔ یعنی اس پر شرعی اثرات مترتب نہیں ہوں گے، لیکن اگر عقد کے بعد اس کے مفاد پر طرفین کے درمیان توافق ہو جائے، تو وہی عقد صحیح ہے اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ اگر عقد کے باطل ہونے کے بارے میں اطلاع کے بغیر عقد کے صحیح ہونے کے تصور میں جنسی روابط برقرار کیے ہوں، تو وہ زنا نہیں ہے بلکہ وطی بہ شبہہ شمار ہوگا۔