اعلی درجے کی تلاش
کا
9192
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/03/08
 
سائٹ کے کوڈ fa14217 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 22618
سوال کا خلاصہ
کچھ مدت پہلے میں نے ایک لڑکی سے عارضی عقد {متعہ} پڑھنا طے کیا۔ اس نے مجھے وکیل قرار دیا تاکہ مین اس کی عدم موجودگی میں صیغہ پڑھوں۔ لیکن مہر کی مقدار کے بارے میں اس کا تصور غلط تھا، لیکن ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا تھا۔ کہ کیا ہمارا عقد صحیح ہے اور کیا مجھے وہی مہر ادا کرنا چاہئیے جو پڑھا گیا؟
سوال
کچھ مدت پہلے میں نے ایک لڑکی سے عارضی عقد {متعہ} پڑھنا طے کیا۔ اس نے مجھے وکیل قرار دیا تاکہ مین اس کی عدم موجودگی میں صیغہ پڑھوں۔ لیکن مہر کی مقدار کے بارے میں اس کا تصور غلط تھا، لیکن ہم میں سے کوئی یہ نہیں جانتا تھا، یہاں تک کہ صیغہ پڑھنے اور کئی بار جنسی عمل انجام دینے کے بعد ایک مشکل پیش آئی اور اس نے مہر کا مطالبہ کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ مہر کے سلسلہ میں طرفین کے ذہن میں موجود مبلغ کے بارے میں فرق تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا ہمارا عقد صحیح ہے؟ کیا ہم زنا کے مرتکب ہوئے ہیں؟ اور کیا پڑھا گیا مہر ہی ادا کرنا چاہئیے؟
ایک مختصر

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای{مدظلہ العالی}:

اگر مرد مہر کی مقدار معین کرنے میں مکمل اختیار رکھتا تھا، سوال کے فرضیہ کے مطابق اگر عقد پڑھنے میں شرائط کی رعایت کی گئی ہے، مثلاً اگر لڑکی کنواری ہے تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کے ولی{باپ یا دادا} کی اجازت حاصل ہوئی تھی، تو عقد صحیح ہے اور وہی مہر مبلغ مہر کے طور پر محسوب کیا جائے گا۔

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ سیستانی{مدظلہ العالی}:

عقد صحیح ہے اگر مہر معین کرنے کے بارے میں آپس میں مفاہمت نہ ہو پائے تو حاکم شرع کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی{مدظلہ العالی}:

اگر مہر معین کرنے کے سلسلہ میں بھی اس کو وکیل قرار دیا ہو، تو عقد صحیح ہے اور وہی مہر ثابت ہوگا ورنہ یہ عقد "فضولی" ہوگا، یعنی اگر عورت اجازت دیدے تو صحیح ہے ورنہ باطل ہے اور باطل ہونے کی صورت میں ، مذکورہ عمل زنا نہیں ہے بلکہ وطی بہ شبہہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اگر لڑکی کنواری ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا عقد اس کے باپ یا دادا کی اجازت سے انجام پانا چاہئیے۔

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی{مدظلہ العالی}:

مذکورہ عقد باطل ہے اور آپ کو ایسے عقد کے بارے میں مہر المثل ادا کرنا چاہئیے۔

حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی{دامت برکاتہ} کا جواب حسب ذیل ہے:

۱۔ اگر عقد نکاح میں طرفین آپس میں عقد کے شرائط پر توافق نہ کر چکے ہوں ، تو وہ عقد باطل ہے۔ یعنی اس پر شرعی اثرات مترتب نہیں ہوں گے، لیکن اگر عقد کے بعد اس کے مفاد پر طرفین کے درمیان توافق ہو جائے، تو وہی عقد صحیح ہے اور اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۲۔ اگر عقد کے باطل ہونے کے بارے میں اطلاع کے بغیر عقد کے صحیح ہونے کے تصور میں جنسی روابط برقرار کیے ہوں، تو وہ زنا نہیں ہے بلکہ وطی بہ شبہہ شمار ہوگا۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا