Please Wait
10048
روایات دو طرح کی هیں : قابل اعتمادروایات کی ایک قسم وه هے جس کی سند صحیح ، اور قوی هے دوسری قسم وه هے جو اعتبار کے لائق نهیں هیں اور ضعیف و مجهول هیں
مذکوره حدیث ”ابن شهر آشوب“ کی کتاب ”مناقب “میں آئی هے اور اس سے”بحارالانوار“ نے نقل کیا هے اور چونکه اسکا کوئی دوسرا ماخذ یا اس کی کوئی سند نهیں هے اس لئے ظاهری طور پر اعتماد کے لائق نهیں هے
حدیث کے صحیح هونے کے فرض کی صورت میں چند نکات کی طرف توجه کے ذریعه مشکل حل هو جائے گی :
1۔ پیغمبر اور ان کے اهلبیت علیھم السلام کی منزلت اور مرتبه پر توجه ، قرآن کی ان کی طهارت پر گواهی اور آیه تطهیر جو ان کی عصمت کو بیان کرتی هے
2۔ حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها پیغمبر کے نزدیک اهل بیت علیھم السلام میں ایک خاص اهمیت کی حامل هیں ، آپکی ولادت کے وقت پیغمبر کو خاص حالات پیش آتے هیں اس کے بعد خدا جل جلاله یه بیٹی آپ کو عنایت کرتا هے
3۔ خاندان میں لطف و مهربانی کے ساتھ محبت آمیز برتاؤ ، ایک فطری امر هے جیسے انسان اپنی ماں ، بهن یا اپنی بیٹی کو کسی زیارت سے پلٹنے کے بعد یا معنوی اجر پانے کی غرض سے چومتا هے محبت کے اظهار کی یه قسم شهوت کی بنیاد پر نهیں هے بلکه ایک انسانی اور جذباتی پهلو کی حامل هے ۔
نتیجه گفتگو یه که جب معمولی گھروں میں عام طور پر لوگ محبت آمیز رویه اپناتے هیں اور اس میں کوئی مشکل نهیں هے تو یقیناً معصومین علیھم السلام اگر ایک دوسرے کے ساتھ محبت آمیز رویه رکھیں اور خاص طور پر پیغمبر اپنی بیٹی کے ساتھ مشفقانه انداز میں پیش آئیں تو یهاں بھی کوئی مشکل نهیں هونا چاهیے جبکه یه بات بھی خاص طور پرذکر کے لائق هے که یه بزرگ هستیاں معصوم هیں اور انکے بارے میں گناه کا تصور بھی نهیں کیا جا سکتا
ایک کلی نظر میں هماری روایات دو حصوں میں تقسیم هوتی هیں : قابل اعتمادروایات کی ایک قسم وه هے جس کی سند صحیح ، اور قوی هے جنهیں صحیح حدیث یا قوی کے عنوان سے جانا جاتا هے دوسری قسم وه هے جو اعتبار کے لائق نهیں هیں اور ضعیف و مجهول هونے کے اعتبار سے انهیں جانا جاتا هے
فقها اور علوم اسلامی کے ماهرین روایات پر عمل کرنے کے لئے ان کی سند کے بارے میں تحقیق و جستجو کرتے هیں تاکه سند کی صورت حال اور اس کے نقل کرنے والے راویوں سے مطلع هو سکیں که آیا وه لوگ جو حدیث کے نقل کرنے میں واسطه قرار پائے هیں وه نقل حدیث کے ضروری شرائط اپنے اندر رکھتے هیں یا نهیں ؟ جب فقها اور ماهرین اپنی تحقیق و جستجو کے بعد اس نتیجه پر پهنچ جاتے هیں که حدیث سند کے اعتبار سے کسی مشکل کی حامل نهیں هے اور اسکی سند معتبر هے تو اس حدیث سے استفاده کرتے هیں اور اس پر توجه کرتے هیں اور حکم شرعی کے استنباط میں اس سے استدلال کرتے هیں ، لیکن اگر کسی جگه کوئی ایسی روایت نظر آئے جس کی سند نه هو یا درمیان سے کچھ راویوں کو حذف کر دیا گیا هو یا اسکی سند ضعیف هو تو اس روایت کو لائق اعتبار نه سمجھتے هوئے اس سے استدلال نهیں کرتے هیں
جس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا هے وه ”بحار الانوار“ میں آئی هے اسکا اصلی مصدر اور ماخذ ابن شهر آشوب کی کتاب ”مناقب آل ابی طالب “هے ،
حدیث کا متن کتاب میں اس طرح هے : عن الباقر والصادق” علیھما السلام “ انه کان النبی (ص) لا ینام حتی یقبل عرض وجه فاطمة و یضع وجهه بین ثدیی فاطمة و یدعولھا ، و فی روایة : حتی یقبل عرض وجھه فاطمة او بین ثدیھا “[1] امام باقرو امام صادق ''علیھما السلام " نے فرمایا : پیغمبر اس وقت تک نهیں سوتے تھے جب تک جناب فاطمه کے چهرے کا بوسه نه لے لیتے ، اور اپنے چهرے کو فاطمه کے سینه پر رکھ کر ان کے لئے دعا نه پڑھ لیتے ۔
ایک اور رویات میں اس طرح بھی آیا هے : جب تک فاطمه سلام الله علیھا کے رخسار یا سینه کو نه چوم لیتے
مرحوم ابن شهر آشوب کتاب مناقب کے مولف (588ھ) اپنی کتاب کے مقدمه میں کهتے هیں : میں نے ان روایات کو جنھیں اپنی کتاب میں نقل کیا هے اپنے اصحاب کی ایک جماعت یا اهل سنت سے لیا هے ۔ ابن شهر آشوب نے ایک کلی سند بھی ان کتابوں کے بارے میں ذکر کی هے جن سے انهوں نے اپنی کتاب لے لئے روایات نقل کی هیں چاهے وه اهل سنت کی کتب هوں یا شیعه کی
لیکن جس روایت کے سلسله میں سوال هوا هے اسکے بارے میں اپنی روش کے برخلاف ابن شهر آشوب نے کوئی مدرک اور مآخذ ذکر نهیں کیا هے اور اسے سند کے آدھے ادھورے سلسله کے ساتھ نقل کیاهے لهذا یه حدیث سو فیصداعتماد اور اسناد کے قابل نهیں هے ۔
اگر هم اس طرح کی روایات کو صحیح فرض کر بھی لیں تو اگر چند نکات کی طرف توجه کی جائے تو مشکل حل هوجائے گی :
1۔ پیغمبر اور ان کے اهلبیت اطهار علیھم السلام ایک خاص منزلت اور مقام کے حامل هیں اور اسی بنیاد پر وحی اور معنوی اعتبار سے کچھ ایسی خصوصیتوں کے حامل هیں که دوسروں سے ان کا تقابل نهیں کیا سکتا هے ، نمونه کے طور پر قرآن جیسی آسمانی کتاب آیه تطهیرکی صورت میں ان کی طهارت اور پاکیزگی کی گواهی دے رهی هے ارشاد هوتا هے ” انما یرید الله لیذھب عنکم الرّجس اھل البیتِ و یطھّرَکم تطھیراً “[2] خداوند متعال کا اراده یه هے که وه صرف تم اهلبیت اطهار علیھم السلام سے هر طرح کی پلیدی کو دور کرنا چاهتا هے اور تمهں کامل طور پر اس طرح پاک کرنا چاهتا هے جیسا که حق هے ۔
لفظ ”انّما“ عموماً عربی زبان میں کسی خاص موضوع اور مسئله میں انحصار کو بیا ن کر نے کے لئے آتا هے اور یهاں پر اس لفظ کا استعمال اس بات کی دلیل هے که پروردگار کی یه عطا خاندان پیغمبر سے مخصوص هے ، لهذا معصومین علیھم السلام پروردگار کے اراده تکوینی کی تائید اور اپنے پاکیزه اعمال کی بنا پر اگر چه گناه کرنے میں مجبور نهیں هیں لیکن هرگز گناه کی طرف نهیں جا سکتے ،
"رجس " کا لفظ ناپاک چیز کے معنی میں استعمال هوتا هے ، چاهے یه نجاست اور انسان کا پاک نه هونا انسان کی طبیعت سے متعلق هو یاعقل و شرع یا ان سب سے جڑا هو ۔
"تطهیر " کا لفظ پاک کرنے کے معنی میں آتا هے اور در حقیقت یه رجس اور پلیدی کو دور کرنے کے لئے ایک تاکید هے
"اهلبیت " سے مراد تمام علما اسلام اور مفسرین کرام کی نظر کے مطابق اهل بیت پیغمبر هیں ، شیعه اور سنی روائی منابع اور کتب میں بهت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی هیں که اهلبیت سے مراد پانچ لوگ هیں : پیغمبر ، علی ، فاطمه ، حسن حسین جو که" خمسه طیبه" یا "اصحاب کساء" کے نام سے معروف هیں
آیه تطهیر پیغمبر اور ان کے اهلیبیت علیهم السلام کی عصمت پر روشن دلیل هے اس لئے که تمام گناه رجس و پلیدی شمار هوتے هیں [3] اور اهلبیت علیھم السلام ان سے پاک و مبره هیں
بهت هی عظیم اور بلند مفاهیم کی حامل "زیارت جامعه کبیره" میں بھی هم پڑھتے هیں " عصمکم الله من الزلل و آمنکم من الفتن و طھرکم من الدنس و اذھب عنکم الرجس و طھرکم تطھیراً" [4] خدا وند متعال نے تمهیں لغزشوں سے بچایا ، انحرافات کے فتنوں سے امان میں رکھا آلودگیوں سے تمهیں پاک رکھا اور پلیدی سے تمهیں دور کیا اور مکمل طور پر جیسا که پاک کرنے کا حق هے ویسا پاک و طاهر قرار دیا ۔
2۔ حضرت فاطمه زهراسلام الله علیھا پیغمبر کی بیٹیوں اور اهل بیت پیغمبر کے درمیان ایک ممتاز شخصیت کی حامل هیں اور ایک بے نظیر بیٹی هیں آپ اپنی ولادت و خلقت اپنی نشو نما کے لحاظ سے بھی برجسته خصوصیات کی حامل هیں ۔
ابن شهر آشوب میں چند سندوںکے ساتھ جو حدیث نقل کی هے سے ملاحظه کریں :
” ابو عبیده خداءاور ان کے علاوه امام صادق نے اس طرح نقل کیا هے که رسول خدا فاطمه زهرا سلام الله علیھا کو بهت چاهتے تھے اور آپ سے محبت کا اظهار کرتے تھے آپ کی بعض زوجات کو یه پسند نهیں تھا اس لئے انهوں نے اس پر اعتراض کیا ، پیغمبر نے فرمایا: جب مجھے آسمان کی معراج حاصل هوئی جبرئیل نے میرے هاتھوں کو پکڑا اور مجھے بهشت میں داخل کیا پھر مجھے ایک خرما دیا جسے میں نے کھایا ( ایک روایت میں آیا هے کی سیب مجھے دیا اور میں نے اسے کھایا ) پھر یهی پھل میری صلب میں منتقل هو گیاجب میں آسمان سے زمیں پر واپس آیا اور خدیجه ”علیھا السلام “ کے ساتھ رها تو [اسی پھل سے جو بهشت میں کھایا تھا جناب خدیجه کے یهاں ‘]فاطمه کا حمل ٹهرا لهذا فاطمه بهشت کی ایک حور هے جو انسانوں کے درمیان موجود هے جب میں بهشت کی خوشبو کا مشتاق هوتا هوں تو اپنی بیٹی کی خشبو سے مشام جاں کو معطر کرتا هوں [5] ۔
جی هاں پیغمبر کا اپنی بیٹی زهرا "سلام الله علیھا" سے ایک گهرا اور با معنی رابطه هے آپ کی اپنی اس بیٹی سے محبت کاوالهانه انداز نمایاں اور روشن هے ۔
3۔ فطری اور طبیعی طور پر لوگوں کی زندگی میں اپنے گھر کے افراد سے شدید محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کا محبت آمیز رابطه دیکھنے میں آتا هے جو هر طرح کی شهوت سے پاک اور مبره هوتا هے چاهے وه ایک دوسرے کو دیکھنا هو یا محرموں سے هاتھ ملانا هو یا انهیں چومنا هو ، مثلا جب کسی شخص کی ماں یا بهن یا بیٹی کسی زیارت سے واپس آتی هیں تو وه ان کا بوسه لیتا هے ، اس لئے که وه خدا کے گھر یا پیغمبر یا معصوم ائمه علیھم السلام کی زیارت سے پلٹی هیں یهاں پر یه بوسه لینا معنوی اجر کو حاصل کرنے کے لئے هے اور بس ۔
یه بھی هوتا هے که خدا ، ماں باپ کو اپنے کرم سے خوبصورت ، با ادب اور شایسته اولاد سے نوازتا هے اب یه والدین اگر اپنے بچے کو بارها چومیں اور اس کے بوسه لیں یا اس سے محبت کا اظهار کریں تو یه امر ایک باپ کی اپنے بیٹے سے محبت کو یا ایک ماں کی اپنے بیٹے سے محبت کو بیان کرتا هے اور یه ایک معمولی امر هے جو عام طور پر گھروں میں دیکھنے میں آتا هے اور کوئی ایسے ماں باپ کو نهیں روکتا ٹوکتا اور نه هی اسے برا نهیں سمجھتا ۔
4۔ ایسا لگتا هے که اس سوال کا اصلی سرچشمه یهی هے که روایت کے جملوں سے یه خیال خام ذهن میں آتا هے که پیغمبر جناب فاطمه زهرا سلام الله علیھا کو اس حالت میں چومتے یا ان سے محبت کا اظهار کرتے که آپ چادر نه اوڑھے هوتیں یا اپنے وجود کو نه ڈھاپنے هوتیں جبکه یه وهم سراسر غلط چونکه یه تو هم جیسے معمولی انسانوں میں بھی دیکھنے میں آتا هے که هم ان حدوں کی رعایت کرتے هیں اور ان کی رعایت نه کرنا گھریلو اجتماعی آداب کے خلاف سمجھا جاتا هے ۔ تو جب عام طور پر هم روز مره کی زندگی میں ان باتوں کا خیال کرتے هیں تو اهل بیت اطهار علیھم السلام کے سلسله میں کیونکر یه سوچ سکتے هیں ؟ اور اس طرح کا باطل تصور کیونکر هم ان کے بارے میں رکھ سکتے هیں ۔
لهذا جب معمولی انسانوں کے درمیان یه محبت آمیز سلوک دیکھنے کو ملتا هے اور اس میں کوئی قباحت نهیں هے تو پیغمبر اور ان کے پاک اهلبیت علیھم السلام کے بارے میں کیوں کر اس میں کوئی قباحت هو سکتی هے ؟
یقیناً جو هستیاں هر طرح کی آلودگیوں اور هر طرح کے گناهوں سے پاک و مبره هیں ان کی زندگی میں اس طرح کے امور ان موارد میں موجودکسی دلیل اور مصلحت کی بنیاد پر هیں ۔ لهذاجن احادیث کے مفهوم کے بارے میں سوال هوا هے ان وضاحتوں کے بعد اب اس میں کوئی مشکل نهیں هوگی ۔