Please Wait
کا
9563
9563
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/01/19
سوال کا خلاصہ
کیا احکام ظہار کی تحقیق کرنا ضروری ہے؟ اگر ضروری نہیں ہے، تو اس بحث سے متعلق آیات کی تکلیف کیا ھوگی؟
سوال
کیا آج کے زمانہ میں احکام اظہار کی تحقیق کرنا ضروری ہے؟ اگر ضروری نہیں ہے، تو اس بحث سے متعلق آیات کی تکلیف کیا ھوگی؟ کیا اس بحث کے بارے میں شیعہ فقہا کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؟ اس سلسلہ میں اہل سنت فقہا کا نظریہ کیا ہے اور اس نظریہ کے بارے میں ان کی دلیل کیا ہے؟
ایک مختصر
“ ظہار” کا مسئلہ جاہلیت کے زمانہ کی باطل رسومات میں سے ایک رسم تھی کہ اسلام نے اس رسم کے ساتھ مقابلہ کرکے اسے مسترد کیا ہے اور اس کو انجام دینے کے سلسلہ میں کفارہ مقرر کیا ہے۔ اس وقت بھی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بالفرض “ ظہار” کرے تو اس نے فعل حرام انجام دیا ہے اور اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے اسے کفارہ ادا کرنا ضروری ہے، کیونکہ خطاب کا مفاد نزول کے مورد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک ایسا عنوان بیان کیا گیا ہے کہ اگر فرد اور ہر چیز۔۔۔ کسی بھی زمان و مکان میں۔۔۔ اس کے اندر آئے، مربوطہ حکم اور مفاد میں شامل ہے۔ لیکن اگر غصہ اور غضب کی وجہ سے کوئی مرد اپنی بیوی کو ظہار کرے۔۔۔۔۔ کہ غصہ انسان کے اختیار کو سلب کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اور کسی قصد و نیت کے بغیر ایسا کلام کیا جائے، تو اس کا کفارہ نہیں ہے اور اس کے بارے میں “ظہار” کے احکام جاری نہیں ھوں گے۔
“ظہار” کی بحث، اپنی جگہ پر آج بھی کئی جہات سے ضروری اور مفید ہے، قرآن مجید “ظہار” اور اس کے احکام کو مسترد کرتا ہے، بالکل اسی کے مانند کہ ایام جاہلیت کے اعراب کے دوسرے منفی عناصر اور خرافات کو نقل کرکے، ان کے خلاف احکام صادر کرکے انھیں قبول نہیں کرتا ہے اور ان کے ساتھ مقابلہ اور مبارزہ کرتا ہے ۔
ممکن ہے کافی آگاہی نہ رکھنے والے افراد بعض فقہی مباحث کوبظاہر ضروری نہ سمجھیں، لیکن اس قسم کے مسائل پر آج کے علمی معاشرہ میں بھی اپنی جگہ پر بحث کرنا مفید ہے، کیونکہ جس معاشرہ میں علمی افکار روز افزوں ترقی کر رہے ھوں، دانشور مربوطہ علوم میں منطقی تحقیق کرکے اصول و قوانین سیکھ کر اپنے غور و فکر کے سرمایہ کو تقویت بخش سکتے ہیں، اگر چہ ایسے مباحث میں سے بعض مباحث علمی پہلو نہ رکھتے ھوں بلکہ صرف نظری پہلو رکھتے ھوں، جیسے بعض تجربی اور ریاضی کے علوم کی بحث کہ ان کا صرف نظری اور آگاہی کا پہلو ھوتا ہے اور شاید سالہا سال تک ان سے علمی استفادہ نہیں ھوتا ھوگا۔ “ظہار” کی بحث پیش کرنا، جس میں ایک طالب علم روایات، اصول فقہ، علم رجال،علم حدیث اور تفسیر وغیرہ کی بحث سے سروکار رکھتا ہے، قطعا اس سلسلہ میں کی جانے والی بحث اجتہاد کے ملکہ، فہم روایات اور علم تفسیر کے سلسلہ میں بے فائدہ نہیں ھوسکتی ہے۔
“ظہار” کی بحث، اپنی جگہ پر آج بھی کئی جہات سے ضروری اور مفید ہے، قرآن مجید “ظہار” اور اس کے احکام کو مسترد کرتا ہے، بالکل اسی کے مانند کہ ایام جاہلیت کے اعراب کے دوسرے منفی عناصر اور خرافات کو نقل کرکے، ان کے خلاف احکام صادر کرکے انھیں قبول نہیں کرتا ہے اور ان کے ساتھ مقابلہ اور مبارزہ کرتا ہے ۔
ممکن ہے کافی آگاہی نہ رکھنے والے افراد بعض فقہی مباحث کوبظاہر ضروری نہ سمجھیں، لیکن اس قسم کے مسائل پر آج کے علمی معاشرہ میں بھی اپنی جگہ پر بحث کرنا مفید ہے، کیونکہ جس معاشرہ میں علمی افکار روز افزوں ترقی کر رہے ھوں، دانشور مربوطہ علوم میں منطقی تحقیق کرکے اصول و قوانین سیکھ کر اپنے غور و فکر کے سرمایہ کو تقویت بخش سکتے ہیں، اگر چہ ایسے مباحث میں سے بعض مباحث علمی پہلو نہ رکھتے ھوں بلکہ صرف نظری پہلو رکھتے ھوں، جیسے بعض تجربی اور ریاضی کے علوم کی بحث کہ ان کا صرف نظری اور آگاہی کا پہلو ھوتا ہے اور شاید سالہا سال تک ان سے علمی استفادہ نہیں ھوتا ھوگا۔ “ظہار” کی بحث پیش کرنا، جس میں ایک طالب علم روایات، اصول فقہ، علم رجال،علم حدیث اور تفسیر وغیرہ کی بحث سے سروکار رکھتا ہے، قطعا اس سلسلہ میں کی جانے والی بحث اجتہاد کے ملکہ، فہم روایات اور علم تفسیر کے سلسلہ میں بے فائدہ نہیں ھوسکتی ہے۔
تفصیلی جوابات
مذکورہ سوال کا جواب ہم ذیل میں چند حصوں میں بیان کرتے ہیں:
الف﴾ قرآن مجید میں “ ظہار” کی بحث:
مسئلہ “ظہار” جو سورہ مجادلہ کی پہلی چار آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، یہ زمانہ جاہلیت کی باطل رسومات میں سے ایک رسم تھی، اسلام نے اس کا مقابلہ کرکے اس کو مسترد کیا ہے اور اسے انجام دینے والے پر کفارہ مقرر کیا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شوہر اپنی بیوی سے ناراض ھوتا تھا، اس پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس سے مخاطب ہو کرکہتا تھا:“ انت علی کظھر امی” “تم میرے لئے میری ماں کی پشت کے مانند ھو” اس کے بعد اعتقاد رکھتے تھے کہ بیوی شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ھوتی ہے۔ حقیقت میں “ ظہار” زمانہ جاہلیت میں ایک قسم کی طلاق تھی اور ان کے اعتقاد کے مطابق“ظہار” بیوی کے ابدی حرام ھونے کا سبب بن جاتا تھا۔ اسلام نے اس کے حکم کو بدل دیا اور اسے بیوی کے شوہر پر حرام ھونے اور شوہر کے بیوی کی طرف پلٹنے کی صورت میں کفارہ واجب ھونا قرار دیا۔[1]
“ظہار” کے کلی اور بنیادی احکام کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت فقہا کے درمیان کوئی اخاص ختلاف نہیں ہے، لیکن اس کے کفارہ کے بارے میں چند مسائل پر جزئی اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[2]
اگر چہ “ظہار” کی تاریخ اسلام سے پہلے سے متعلق ہے، لیکن یہ صرف ایک تاریخی مسئلہ نہیں ہے، اس لئے کہ:
١۔ اس وقت بھی اگر کوئی اپنی بیوی کو بالفرض “ ظہار” کرے تو اس نے فعل حرام انجام دیا ہے اور اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے اسے کفارہ ادا کرنا ہے، کیونکہ خطاب کا مفاد نزول کے مورد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک ایسا عنوان بیان کیا گیا ہے کہ اگر فرد اور ہر چیز۔۔۔ کسی بھی زمان و مکان میں۔۔۔ اس کے اندر آئے، مربوطہ حکم اور مفاد میں شامل ہے۔[3] لیکن اگر شوہرغصہ اور غضب کی وجہ سے اپنی بیوی کو ظہار کرے۔۔۔۔۔ کہ غصہ انسان کے اختیار کو سلب کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کسی قصد و نیت کے بغیر ایسا کلام کیا جائے، تو اس کا کفارہ نہیں ہے اور اس کے بارے میں “ظہار” کے احکام جاری نہیں ھوں گے۔[4]
۲۔ قرآن مجید “ظہار” اور اس کے احکام کو مسترد کرتا ہے، بالکل اسی کے مانند کہ ایام جاہلیت کے اعراب کے دوسرے منفی عناصر اور خرافات کو نقل کرکے، ان کے خلاف احکام صادر کرکے انھیں قبول نہیں کرتا ہے اور ان کے ساتھ مقابلہ اور مبارزہ کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں آیات “ ظہار” کی تعلیمات اور پیغام یہ ہے کہ خرافات پر مشتمل عقائد اور قوانین کو چھوڑ کر ان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئیے۔ اس لحاظ سے، یہ تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ“ ظہار” کے متعلق آیات کا ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔[5]
۳۔ “ ظہار” سے متعلق آیات میں اخلاقی تعلیمات اور پیغام ہے اور جب بھی کوئی شخص ان آیات شریفہ کی تلاوت کرتا ہے، ان آیات پر غور کرنے اور ان کی تفسیر کا مطالعہ کرنے سے ان تعلیمات اور پیغام کو حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح نہیں ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت با آیات اگر احکام سے متعلق ھوں، تو وہ صرف احکام کے ہی بارے میں کام آتی ہیں اور وہ اخلاقی تعلیمات اور پیغام سے عاری ہوتی ہیں،[6]اس سلسلہ میں آیات “ ظہار” کی تعلیمات اور پیغام یہ ہے کہ خرافات پر مشتمل عقائد اور قوانین کو چھوڑ کر ان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئیے۔ اس اس کے مانند کہ مسئلہ “ ظہار” کے بارے میں اسلام کا سخت رویہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے کہ خود غرض مردوں کے ذریعہ یا ظالمانہ رسومات کے ذریعہ عورتوں کے حقوق پامال کئے جائیں، بلکہ اسلام ہر غلط اور خرافات پر مشتمل سنت و رسومات کو مسترد کرتا ہے، اگر چہ وہ سنت اور رسومات لوگوں میں مستحکم صورت میں رائج بھی ھوں۔[7]
ب﴾ فقہی کتابوں میں “ ظہار” کی بحث:
فقہی اور قانونی مسائل میں، ان کے سابقہ حیثیت کی رعایت کی جاتی ہے تاکہ بعد والی ضروری، تحقیقات اور مباحث میں ان سے استفادہ کیا جائے۔
وضاحت: فقہ اور شرعی احکام، زندگی کے امور کو نظم وانتظام بخشنے اور معاشرہ کے مشکلات کو حل کرنے میں کلیدی رول ادا کرنے کے علاوہ ایک ذہنی و نظری علم بھی شمار ھوتے ہیں۔
ممکن ہے کافی آگاہی نہ رکھنے والے افراد بعض فقہی مباحث کو ضروری اور مفید نہ سمجھیں، لیکن اس قسم کے مسائل پر آج کے علمی معاشرہ میں اپنی جگہ پر بحث کرنا مفید ہے، کیونکہ جس معاشرہ میں علمی افکار روز افزوں ترقی کر رہے ھوں، دانشور مربوطہ علوم میں منطقی تحقیق کرکے اصول و قوانین سیکھ کر اپنے غور و فکر کے سرمایہ کو تقویت بخش سکتے ہیں، اگر چہ ایسے مباحث میں سے بعض علمی پہلو نہ رکھتے ھوں بلکہ صرف نظری پہلو رکھتے ھوں، جیسے بعض تجربی اور ریاضی کے علوم کی بحث کہ ان کا صرف نظری اور آگاہی کا پہلو ھوتا ہے اور شاید سالہا سال تک ان سے علمی استفادہ نہیں ھوا ھوگا۔ “ظہار” کی بحث پیش کرنا، جس میں ایک طالب علم روایات، اصول فقہ، علم رجال،علم حدیث اور تفسیر وغیرہ کی بحث سے سروکار رکھتا ہے، قطعا اس سلسلہ میں کی جانے والی بحث ،اجتہاد کے ملکہ، فہم روایات اور علم تفسیر کے سلسلہ میں بے فائدہ نہیں ھوسکتی ہے، اس کے مانند کہ اصول فقہ میں “ مطلق” و “ مقید” اور “ مفاہیم” کی بحث میں بعض “ ظہار” کے مسائل کو شاید مثال کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، بعض دوسرے زیادہ پیچیدہ موضوعات اور مباحث علمی فائدہ نہیں رکھتے ہیں، اور طلبہ کی ذہنی استعداد کو پرورش اور تقویت بخشنے کے بہانے سے ان مباحث کو پیش کرکے وقت ضائع نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ موجودہ حالات میں معاشرہ کی ضروریات بڑھ گئی ہیں اور دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کو اس قسم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کے لئے عقیدتی، اخلاقی، فقہی، قانون، عدل اور ثقافتی مباحث سے سیراب کرنا چاہئیے، اور ایسے حالات میں غفلت اور لاپروائی برتنا ہر گز جائز نہیں ہے۔
اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ ہر علم، اس کے ماہر کے لئے اہمیت رکھتا ہے اور ممکن ہے کچھ مباحث، اس علم سے سرو کار نہ رکھنے والوں کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتے ھوں، لیکن خود اس علم سے متعلق ماہر دانشوروں کے لئے اہم ھوں۔ لہذا ایک علم سے متعلق دانشوروں کو بعض مباحث کو چھوڑنے پر سرزنش نہیں کرنی چاہئیے اور لاعلمی کی بنا پر ان کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرنا چاہئیے۔
الف﴾ قرآن مجید میں “ ظہار” کی بحث:
مسئلہ “ظہار” جو سورہ مجادلہ کی پہلی چار آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، یہ زمانہ جاہلیت کی باطل رسومات میں سے ایک رسم تھی، اسلام نے اس کا مقابلہ کرکے اس کو مسترد کیا ہے اور اسے انجام دینے والے پر کفارہ مقرر کیا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شوہر اپنی بیوی سے ناراض ھوتا تھا، اس پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس سے مخاطب ہو کرکہتا تھا:“ انت علی کظھر امی” “تم میرے لئے میری ماں کی پشت کے مانند ھو” اس کے بعد اعتقاد رکھتے تھے کہ بیوی شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ھوتی ہے۔ حقیقت میں “ ظہار” زمانہ جاہلیت میں ایک قسم کی طلاق تھی اور ان کے اعتقاد کے مطابق“ظہار” بیوی کے ابدی حرام ھونے کا سبب بن جاتا تھا۔ اسلام نے اس کے حکم کو بدل دیا اور اسے بیوی کے شوہر پر حرام ھونے اور شوہر کے بیوی کی طرف پلٹنے کی صورت میں کفارہ واجب ھونا قرار دیا۔[1]
“ظہار” کے کلی اور بنیادی احکام کے بارے میں شیعوں اور اہل سنت فقہا کے درمیان کوئی اخاص ختلاف نہیں ہے، لیکن اس کے کفارہ کے بارے میں چند مسائل پر جزئی اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[2]
اگر چہ “ظہار” کی تاریخ اسلام سے پہلے سے متعلق ہے، لیکن یہ صرف ایک تاریخی مسئلہ نہیں ہے، اس لئے کہ:
١۔ اس وقت بھی اگر کوئی اپنی بیوی کو بالفرض “ ظہار” کرے تو اس نے فعل حرام انجام دیا ہے اور اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے اسے کفارہ ادا کرنا ہے، کیونکہ خطاب کا مفاد نزول کے مورد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس میں ایک ایسا عنوان بیان کیا گیا ہے کہ اگر فرد اور ہر چیز۔۔۔ کسی بھی زمان و مکان میں۔۔۔ اس کے اندر آئے، مربوطہ حکم اور مفاد میں شامل ہے۔[3] لیکن اگر شوہرغصہ اور غضب کی وجہ سے اپنی بیوی کو ظہار کرے۔۔۔۔۔ کہ غصہ انسان کے اختیار کو سلب کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کسی قصد و نیت کے بغیر ایسا کلام کیا جائے، تو اس کا کفارہ نہیں ہے اور اس کے بارے میں “ظہار” کے احکام جاری نہیں ھوں گے۔[4]
۲۔ قرآن مجید “ظہار” اور اس کے احکام کو مسترد کرتا ہے، بالکل اسی کے مانند کہ ایام جاہلیت کے اعراب کے دوسرے منفی عناصر اور خرافات کو نقل کرکے، ان کے خلاف احکام صادر کرکے انھیں قبول نہیں کرتا ہے اور ان کے ساتھ مقابلہ اور مبارزہ کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں آیات “ ظہار” کی تعلیمات اور پیغام یہ ہے کہ خرافات پر مشتمل عقائد اور قوانین کو چھوڑ کر ان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئیے۔ اس لحاظ سے، یہ تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ“ ظہار” کے متعلق آیات کا ذکر کرنا بے فائدہ ہے۔[5]
۳۔ “ ظہار” سے متعلق آیات میں اخلاقی تعلیمات اور پیغام ہے اور جب بھی کوئی شخص ان آیات شریفہ کی تلاوت کرتا ہے، ان آیات پر غور کرنے اور ان کی تفسیر کا مطالعہ کرنے سے ان تعلیمات اور پیغام کو حاصل کرسکتا ہے۔ اس طرح نہیں ہے کہ قرآن مجید کی کوئی آیت با آیات اگر احکام سے متعلق ھوں، تو وہ صرف احکام کے ہی بارے میں کام آتی ہیں اور وہ اخلاقی تعلیمات اور پیغام سے عاری ہوتی ہیں،[6]اس سلسلہ میں آیات “ ظہار” کی تعلیمات اور پیغام یہ ہے کہ خرافات پر مشتمل عقائد اور قوانین کو چھوڑ کر ان کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئیے۔ اس اس کے مانند کہ مسئلہ “ ظہار” کے بارے میں اسلام کا سخت رویہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے کہ خود غرض مردوں کے ذریعہ یا ظالمانہ رسومات کے ذریعہ عورتوں کے حقوق پامال کئے جائیں، بلکہ اسلام ہر غلط اور خرافات پر مشتمل سنت و رسومات کو مسترد کرتا ہے، اگر چہ وہ سنت اور رسومات لوگوں میں مستحکم صورت میں رائج بھی ھوں۔[7]
ب﴾ فقہی کتابوں میں “ ظہار” کی بحث:
فقہی اور قانونی مسائل میں، ان کے سابقہ حیثیت کی رعایت کی جاتی ہے تاکہ بعد والی ضروری، تحقیقات اور مباحث میں ان سے استفادہ کیا جائے۔
وضاحت: فقہ اور شرعی احکام، زندگی کے امور کو نظم وانتظام بخشنے اور معاشرہ کے مشکلات کو حل کرنے میں کلیدی رول ادا کرنے کے علاوہ ایک ذہنی و نظری علم بھی شمار ھوتے ہیں۔
ممکن ہے کافی آگاہی نہ رکھنے والے افراد بعض فقہی مباحث کو ضروری اور مفید نہ سمجھیں، لیکن اس قسم کے مسائل پر آج کے علمی معاشرہ میں اپنی جگہ پر بحث کرنا مفید ہے، کیونکہ جس معاشرہ میں علمی افکار روز افزوں ترقی کر رہے ھوں، دانشور مربوطہ علوم میں منطقی تحقیق کرکے اصول و قوانین سیکھ کر اپنے غور و فکر کے سرمایہ کو تقویت بخش سکتے ہیں، اگر چہ ایسے مباحث میں سے بعض علمی پہلو نہ رکھتے ھوں بلکہ صرف نظری پہلو رکھتے ھوں، جیسے بعض تجربی اور ریاضی کے علوم کی بحث کہ ان کا صرف نظری اور آگاہی کا پہلو ھوتا ہے اور شاید سالہا سال تک ان سے علمی استفادہ نہیں ھوا ھوگا۔ “ظہار” کی بحث پیش کرنا، جس میں ایک طالب علم روایات، اصول فقہ، علم رجال،علم حدیث اور تفسیر وغیرہ کی بحث سے سروکار رکھتا ہے، قطعا اس سلسلہ میں کی جانے والی بحث ،اجتہاد کے ملکہ، فہم روایات اور علم تفسیر کے سلسلہ میں بے فائدہ نہیں ھوسکتی ہے، اس کے مانند کہ اصول فقہ میں “ مطلق” و “ مقید” اور “ مفاہیم” کی بحث میں بعض “ ظہار” کے مسائل کو شاید مثال کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب، بعض دوسرے زیادہ پیچیدہ موضوعات اور مباحث علمی فائدہ نہیں رکھتے ہیں، اور طلبہ کی ذہنی استعداد کو پرورش اور تقویت بخشنے کے بہانے سے ان مباحث کو پیش کرکے وقت ضائع نہیں کرنا چاہئیے، کیونکہ موجودہ حالات میں معاشرہ کی ضروریات بڑھ گئی ہیں اور دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کو اس قسم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کے لئے عقیدتی، اخلاقی، فقہی، قانون، عدل اور ثقافتی مباحث سے سیراب کرنا چاہئیے، اور ایسے حالات میں غفلت اور لاپروائی برتنا ہر گز جائز نہیں ہے۔
اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ ہر علم، اس کے ماہر کے لئے اہمیت رکھتا ہے اور ممکن ہے کچھ مباحث، اس علم سے سرو کار نہ رکھنے والوں کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتے ھوں، لیکن خود اس علم سے متعلق ماہر دانشوروں کے لئے اہم ھوں۔ لہذا ایک علم سے متعلق دانشوروں کو بعض مباحث کو چھوڑنے پر سرزنش نہیں کرنی چاہئیے اور لاعلمی کی بنا پر ان کے بارے میں اظہار نظر نہیں کرنا چاہئیے۔
[1] ملاحظہ ھو: حسينى جرجانى، سيد امير ابوالفتوح، آيات الأحكام، ج 2، ص 493 – 495، انتشارات نويد، تهران، طبع اول، 1404ق؛ بحرانى، سيد هاشم، البرهان فى تفسير القرآن، ج 5، ص 310 و 311، بنياد بعثت، تهران، طبع اول، 1416ق؛ شیخ طوسى،المبسوط فی فقه الإمامية، محقق و مصحح: كشفى، سيد محمد تقى، ج 5، ص 148 – 150،المكتبة المرتضوية لإحياء الآثار الجعفرية، تهران، چاپ سوم، 1387ق؛ امام خمينى، تحرير الوسيلة، ج 2، ص 354، مؤسسه مطبوعات دار العلم، قم، طبع اول، بی تا.
[2] ملاحظہ ھو: جزيرى، عبد الرحمن، غروى، سيد محمد، مازح، ياسر، الفقه على المذاهب الأربعة و مذهب أهل البيت عليهم السلام، ج 4، ص 591 – 603، دار الثقلين، بيروت، طبع اول، 1419ق.
[3] ملاحظہ ھو: مير محمدى زرندى، سيد ابو الفضل، تاريخ و علوم قرآن، ص 309، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع يازدهم، 1377ش؛ جوان آراسته، حسين، درسنامه علوم قرآنى، ص 97 و 98، بوستان كتاب، قم، طبع ششم، 1380ش.
[4] نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: قوچانى، عباس، آخوندى، على، ج 33، ص 119، دار إحياء التراث العربی، بيروت، طبع هفتم، 1404ق؛ موسوی گلپايگانى، سيد محمد رضا، هداية العباد، محقق و مصحح: ثابتى همدانى، على، نيرى همدانى، على، ج 2، ص 422، دار القرآن الكريم، قم، طبع اول، 1413ق.
[5] ملاحظہ ھو: دامن پاك مقدم، ناهيد، بررسى نظريه عرفى بودن زبان قرآن، ص 188 و 189، نشر تاريخ وفرهنگ، تهران طبع اوّل، 1380ش؛ رضايى اصفهانى، محمد على، تفسير قرآن مهر، ج 16، ص 307 و 308، انتشارات پژوهش هاى تفسير و علوم قرآنى، قم، طبع اول، 1387ش.
[6] سورہ مجادلہ کی آیات “ظہار” سے متعلق پیغام اور تعلیمات کے بارے میں تفسیر نور جیسی تفاسیر ملا حظہ ھوں۔
[7] ملاحظہ ھو: گلپايگانى، سید محمدرضا، افاضة العوائد فی التعلیق علی درر الفوائد، ج 1، ص 303، دار القرآن كريم، طبع اول، 1410ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے