Please Wait
کا
11881
11881
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/05/19
سوال کا خلاصہ
طلاق کیسے واقع ھوتی ہے؟
سوال
طلاق کیسے واقع ھوتی ہے؟ اور جدائی اختیار کرنے کے لئے کونسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور انھیں کتنی بار دہرایا جاتا ہے؟
ایک مختصر
1-طلاق ایقاعات میں سے ہے، یعنی اس کا انشا اور جاری کرنا یکطرفہ اور مرد کی طرف سے ھوتا ہے اور اس میں بیوی کی رضامندی اور مداخلت نہیں ھوتی ہے- اس بنا پر مرد چند شرائط کی بناپر یکطرفہ طور پر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے-[1]
2-طلاق کے صیغے صحیح عربی تلفظ میں پڑھے جانے چاہئے اور اس کے سننے کے لئے دو عادل گواہ حاضر ھونے چاہئے اور اگر شوہر بذات خود صیغہ طلاق پڑھنا چاہے اور مثال کے طور پر اس کی بیوی کا نام فاطمہ ھو، تو اسے اس طرح کہنا چاہئے: «زَوْجَتِى فٰاطِمَةُ طالِقٌ» یعنی "میری بیوی فاطمہ رہا اور آزاد ہے-"اور اگر کسی دوسرے شخص کو وکیل قرار دے تو اسے کہنا چاہئے:" : «زَوْجَةُ مُوكِّلى فٰاطِمَةُ طٰالِقٌ».[2]
3- طلاق کے احکام اور شرائط میں سے مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
الف) اپنی بیوی کو کو طلاق دینے والا مرد، عاقل اور احتیاط واجب کی بناپر بالغ ھونا چاہئے اور اپنے اختیار سے طلاق دینا چاہئے- اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو وہ طلاق باطل ہے-[3]
ب) طلاق دینے والا طلاق دینے کا قصد و ارادہ رکھتا ھو، پس اگر صیغہ طلاق کو مذاق کے طور پر پڑھے تو وہ طلاق صحیح نہیں ہے-[4]
ج) طلاق کے دوران عورت اپنے ماہانہ عادت میں نہ ھو، مگر مندرجہ ذیل تین صورتوں میں عادت کے دوران بھی طلاق جاری کی جاسکتی ہے:
اولا: ازدواج کے بعد اس کے شوہر نے اس کے ساتھ نزدیکی نہ کی ھو یعنی مباشرت ( دخول) نہ کی ھو-
ثانیا: حاملہ ھو اور اگر معلوم نہ ھو کہ وہ حاملہ ہے اور حیض کی حالت میں شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور بعد میں معلوم ھوجائے کہ وہ حاملہ تھیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے-
ثالثا: مرد کے لئے غایب ھونے یا کسی اور وجہ سے اپنی بیوی کے پاک ھونے کو معلوم کرنا مشکل ھو-[5]
د- اگر شوہر نے اپنی بیوی سے نزدیکی اور دخول سے پہلے طلاق دیدی تو اسے مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا ضروری ہے-[6] قدرتی طور پر دخول کے بعد طلاق دینے کی صورت میں پورا مہر ادا کرنا ضروری ہے-
4- جب مرد کی طرف سے تمام شرائط کی رعایت کرتے ھوئے ایک بار صیغہ طلاق پڑھا جائے تو مرد اور عورت کے درمیان جدائی واقع ھوتی ہے اور صیغہ طلاق کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے- البتہ اگر صیغہ طلاق کو تین بار پڑھا جائے اور ہر بار کے بعد رجوع کیا جائے، تو وہ طلاق بائن ھوگا اور اس کے خاص احکام ہیں، کہ اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال نمبر: 27550، موضوع: " سہ طلاق در یک مجلس و طلاق بائن" کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
5-ازدواج دائم میں عدہ طلاق کے معنی یہ ہیں کہ طلاق شدہ عورت کو دوبارہ ازدواج کرنے کے لئے اس قدر صبر کرنا چاہئے کہ وہ دو بار حیض دیکھے اور اس کے بعد پاک ھوجائے- جب تیسرا حیض جاری ھوجائے تو اس کی عدت ختم ھوئی ہے اور اگر وہ عادت کے مطابق حیض نہ دیکھتی ھو، لیکن اس کی عمر اس عورت کے برابر ھو جو حیض کی عادت دیکھتی ہے، تو اسے طلاق کے بعد تین مہینے تک عدت کی رعایت کرنی چاہئے-[7] اور حاملہ عورت کی عدت بچے کے پیدا ھونے یا جنین کے سقط ھونے تک ہے-[8]
لیکن عارضی ازدواج ( متعہ) میں مدت کے تمام ھونے کے بعد یا شوہر کی طرف سے باقیماندہ مدت بخش دئے جانے کے بعد، اگر وہ عادت سے خون حیض دیکھتی ھو تو اس کی عدت دوحیض دیکھنا ہے اور اگر عادت سے حیض نہیں دیکھتی ھو تو اس کی عدت 45 دن ہے-[9] امہ حاملہ عورت کی عدت بچےحح
2-طلاق کے صیغے صحیح عربی تلفظ میں پڑھے جانے چاہئے اور اس کے سننے کے لئے دو عادل گواہ حاضر ھونے چاہئے اور اگر شوہر بذات خود صیغہ طلاق پڑھنا چاہے اور مثال کے طور پر اس کی بیوی کا نام فاطمہ ھو، تو اسے اس طرح کہنا چاہئے: «زَوْجَتِى فٰاطِمَةُ طالِقٌ» یعنی "میری بیوی فاطمہ رہا اور آزاد ہے-"اور اگر کسی دوسرے شخص کو وکیل قرار دے تو اسے کہنا چاہئے:" : «زَوْجَةُ مُوكِّلى فٰاطِمَةُ طٰالِقٌ».[2]
3- طلاق کے احکام اور شرائط میں سے مندرجہ ذیل مطالب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
الف) اپنی بیوی کو کو طلاق دینے والا مرد، عاقل اور احتیاط واجب کی بناپر بالغ ھونا چاہئے اور اپنے اختیار سے طلاق دینا چاہئے- اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو وہ طلاق باطل ہے-[3]
ب) طلاق دینے والا طلاق دینے کا قصد و ارادہ رکھتا ھو، پس اگر صیغہ طلاق کو مذاق کے طور پر پڑھے تو وہ طلاق صحیح نہیں ہے-[4]
ج) طلاق کے دوران عورت اپنے ماہانہ عادت میں نہ ھو، مگر مندرجہ ذیل تین صورتوں میں عادت کے دوران بھی طلاق جاری کی جاسکتی ہے:
اولا: ازدواج کے بعد اس کے شوہر نے اس کے ساتھ نزدیکی نہ کی ھو یعنی مباشرت ( دخول) نہ کی ھو-
ثانیا: حاملہ ھو اور اگر معلوم نہ ھو کہ وہ حاملہ ہے اور حیض کی حالت میں شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیدے اور بعد میں معلوم ھوجائے کہ وہ حاملہ تھیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے-
ثالثا: مرد کے لئے غایب ھونے یا کسی اور وجہ سے اپنی بیوی کے پاک ھونے کو معلوم کرنا مشکل ھو-[5]
د- اگر شوہر نے اپنی بیوی سے نزدیکی اور دخول سے پہلے طلاق دیدی تو اسے مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا ضروری ہے-[6] قدرتی طور پر دخول کے بعد طلاق دینے کی صورت میں پورا مہر ادا کرنا ضروری ہے-
4- جب مرد کی طرف سے تمام شرائط کی رعایت کرتے ھوئے ایک بار صیغہ طلاق پڑھا جائے تو مرد اور عورت کے درمیان جدائی واقع ھوتی ہے اور صیغہ طلاق کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے- البتہ اگر صیغہ طلاق کو تین بار پڑھا جائے اور ہر بار کے بعد رجوع کیا جائے، تو وہ طلاق بائن ھوگا اور اس کے خاص احکام ہیں، کہ اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے سوال نمبر: 27550، موضوع: " سہ طلاق در یک مجلس و طلاق بائن" کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
5-ازدواج دائم میں عدہ طلاق کے معنی یہ ہیں کہ طلاق شدہ عورت کو دوبارہ ازدواج کرنے کے لئے اس قدر صبر کرنا چاہئے کہ وہ دو بار حیض دیکھے اور اس کے بعد پاک ھوجائے- جب تیسرا حیض جاری ھوجائے تو اس کی عدت ختم ھوئی ہے اور اگر وہ عادت کے مطابق حیض نہ دیکھتی ھو، لیکن اس کی عمر اس عورت کے برابر ھو جو حیض کی عادت دیکھتی ہے، تو اسے طلاق کے بعد تین مہینے تک عدت کی رعایت کرنی چاہئے-[7] اور حاملہ عورت کی عدت بچے کے پیدا ھونے یا جنین کے سقط ھونے تک ہے-[8]
لیکن عارضی ازدواج ( متعہ) میں مدت کے تمام ھونے کے بعد یا شوہر کی طرف سے باقیماندہ مدت بخش دئے جانے کے بعد، اگر وہ عادت سے خون حیض دیکھتی ھو تو اس کی عدت دوحیض دیکھنا ہے اور اگر عادت سے حیض نہیں دیکھتی ھو تو اس کی عدت 45 دن ہے-[9] امہ حاملہ عورت کی عدت بچےحح
[1]- سوال نمبر8149 کا اقتباس-
[2]. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، ایضا، ص 522، م 2508، ترتیب کار: بنیهاشمی خمینی، سید محمدحسین، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع هشتم، 1424ق.
[3] - ایضا ، ص 517، م 2498-
[4] -ایضا-
[5] - ایضا ص518، م2500.
[6] - نجاة العباد (للإمام الخميني)، ص 378، مسأله 7.
[7] - توضيح المسائل مراجع، م 2511 و 2512 و آيت الله وحيد، توضيح المسائل، م 2575 و 2576.
[8] - ایضا، م 2514 و آيت الله وحيد، توضيح المسائل، م 2578.
[9] - . همان، م 2515 ؛ آيت الله وحيد، توضيح المسائل، م 2579 و دفتر: آيت الله خامنهاى؛ سوال کا اقتباس-
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے