Please Wait
8527
اگر چہ عقلی دلائل معاد اور اس دنیوی زندگی کے علاوہ ایک اور دنیا کی ضرورت کی گواہی دیتے ہیں، لیکن معاد کی کیفیت اور یہ کہ معاد صرف روحانی ہے یا روحانی و جسمانی اور معاد کے جسمانی ہونے کو قبول کرنے کی صورت میں ،کیا یہ جسم عنصری و مادی ہے یا برزخی اور مثالی جسم ہے ؟ یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جنھیں عقل و برہان سے ثابت کیا جاِئے – اسی لئے متکلمین کے ایک گروہ نے معاد کو صرف جسمانی سمجھا ہے اور وہ جسم اور بدن کے میکنزم{ mechanism} کے بغیر روح کےوجود کا قائل نہیں ہے- بعض فلاسفہ خاص کر حکمت" مشاء" کے پیروفلاسفہ، صرف روحانی معاد کے قائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد روح کا بدن سےتعلق اور رابطہ منقطع ھوجاتا ہے، لیکن چونکہ روح مادہ سےبالاتر ہے- اور اس میں فنا اور نابودی نہیں ہے اس لئے بدن سے تعلق منقطع ھونے کے بعد ، روح باقی اور لافانی رہتی ہے-
لیکن بہت سے فلاسفہ، عرفا، علم کلام کے دانشور من جملہ شیخ طوسی اور خواجہ نصیرالدین جیسے شیعہ علماء جسم و روح دونوں کے معاد کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں: قیامت میں روح واپس بدن میں آئے گی اور نتیجہ کے طور پر انسان کا معاد جسمانی ہے-
جو چیز مسلم اور قطعی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت اور معاد، خدا شناسی کے مانند تمام ادیان کے پیروں کے عقائد کے جزو شمار ھوتے ہیں- [1]لہذا جوافراد خدا کی طرف پلٹنے کے قائل ہیں—اگر چہ کسی خاص مذہب کی بھی پیروی نہ کرتے ھوں— وہ اپنے باطنی ضمیر او ر شعور کے ذریعہ اس عمومی اعتقاد{ قیامت} کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن اس کی کیفیت کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں- کہ کیا معاد جسمانی ہے یاروحانی ہے، جسمانی ھونے کی صورت میں کیا اخروی بدن وہی طبیعی بدن ہوگا ، جس کے ساتھ انسان اس دنیا میں زندگی بسر کر تا تھا یا کوئی لطیف تربدن ھوگا، جسے مثالی یا بر بزخی بدن کہتے ہیں؟
ہم یہاں پر اس سلسلہ میں دانشوروں کے نظریات پیش کرنے کے بعد مشہور نظریہ بیان کریں گے:[2]
۱-متکلمین کا ایک گروہ معاد کو صرف جسمانی جانتا ہے اور جسم اور بدن کے میکنزم کے بغیر روح کے وجود کا قائل نہیں ہے-
۲-بعض فلاسفہ، خاص کر حکمت " مشاء" کے پیرو فلاسفہ، صرف روحانی معاد کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ: مرنے کے بعد روح کا بدن سے تعلق منقطع ھوجاتا ہے، اور چونکہ روح، مادہ سے بالا تر ایک موجود ہے، اس میں فنا اور نابودی ممکن نہیں ہے اور بدن سے تعلق منقطع ھوجانے کے بعد روح باقی اور لافانی رہے گی- اس نظریہ کا سر چشمہ یہ ہے کہ یہ فلاسفہ جسمانی معاد کے اشکلات اور شبہات کو حل نہیں کرسکے ہیں، اور ناچار ھوکر روحانی معاد کے قائل ھوئے ہیں اور جسمانی معاد کا انکار کیا ہے-
۳-بہت سے فلاسفہ، عرفا، علم کلام کے دانشور من جملہ، شیخ مفید، شیخ طوسی اور خواجہ نصیرالدین وغیرہ جیسے شیعہ علماء جسمانی اور روحانی ، دونوں معاد کے قائل ہیں اوراس سلسلہ میں کہتے ہیں: کہ قیامت کے دن روح ، دوبارہ بدن میں آتی ہے، نتیجہ کے طور انسان کا معاد جسمانی ہے، البتہ نہ کہ روح کے بغیرجسم، بلکہ وہ جسم جس میں روح ہے- اس نظریہ کے قائل بھی دوگروھوں میں تقسیم ھوئے ہیں:
الف} ان میں بعض اس کے قائل ہیں کہ قیامت کے دن روح، طبیعی اور عنصری بدن، جس میں فعل و انفعالا ت، طبیعی اور کیمیائی ہیں، کی طرف پلٹے گی-
ب } بعضوں کا اعتقاد ہے کہ روح ایک دوسری دنیا میں، مثالی اور برزخی بدن میں منتقل ھوتی ہے اور وہ برزخی بدن لطیف ہے اور جسم ومادہ نہیں رکھتا ہے، لیکن اس کی مقدار اور شکل ھوتی ہے- یہ لطیف برزخی بدن ایک لحاظ سے دنیوی بدن کے مانند ہے اور جو بھی اسے دیکھے گا وہ کہے گا کہ یہ وہی انسان ہے جو دنیا میں زندگی گزارا کرتا تھا، لیکن اس جہت سے کہ مادہ و جسم نہیں ہے اور اس میں کیمیائی اور فزیکی فعل و انفعالات کی قابلیت نہیں ہےاور دنیوی بدن سےفرق رکھتا ہے، یہ اسی جسم کے مانند ہے، جسے انسان خوابوں میں دیکھتا ہے-
اگر چہ عقلی دلائل معاد اور اس دنیوی زندگی کے علاوہ ایک اور دنیا کی ضرورت کی گواہی دیتے ہیں، لیکن معاد کی کیفیت اور یہ کہ معاد صرف روحانی ہے یا روحانی و جسمانی اور معاد کے جسمانی ہونے کو قبول کرنے کی صورت میں ،کیا یہ جسم عنصری و مادی ہے یا برزخی اور مثالی جسم ہے ؟ یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جنھیں عقل و برہان سے ثابت کیا جاِئے – اسی لئے متکلمین کے ایک گروہ نے معاد کو صرف جسمانی سمجھا ہے اور جسم اور بدن کے میکنزم{ mechanism} کے بغیر وہ روح کےوجود کا قائل نہیں ہے- بعض فلاسفہ خاص کر حکمت" مشاء" کے پیروفلاسفہ، صرف روحانی معاد کے قائل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد روح کا بدن سےتعلق اور رابطہ منقطع ھوجاتا ہے، لیکن چونکہ روح مادہ سے بالاتر ہے- اور اس میں فنا اور نابودی نہیں ہے اس لئے بدن سے تعلق منقطع ھونے کے بعد ، روح باقی اور لافانی رہتی ہے-
لیکن بہت سے فلاسفہ، عرفا، علم کلام کے دانشور اورشیخ طوسی من جملہ خواجہ نصیرالدین جیسے شیعہ علماء جسم و روح دونوں کے معاد کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں: کہ قیامت میں روح واپس بدن میں آئے گی اور نتیجہ کے طور پر انسان کا معاد جسمانی ہے- اسی وجہ سے عظیم فلاسفر بوعلی سینا کہتے ہیں:" جانناچاہیئے کہ معاد کا ایک حصہ شرع کے ذریعہ نقل کیا گیا ہے اور شریعت نے اسے قبول کیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے شرع اور پیغمبر{ص} کی تصدیق کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور وہ بدن کے دوبارہ زندہ ھونے سے متعلق ہے، جسمانی معاد کی کیفیت اور اسی کے جزئیات کو شرع کی دلیل اور وحی کے ذریعہ قبول کرنا چاہیئے، کیونکہ مذکورہ معیار اطمینان دہ اور بہترین معیارہے، جس سے انسان، اطمینان بخش حقائق کو حاصل کرسکتا ہے-[3]
اس بناپر، ضروری ہے کہ معاد کی کیفیت کے بارے میں قرآن مجید کی آیات اور روایات کی طرف رجوع کیا جائے اور اس اہم مسئلہ میں ان ہی سے مدد حاصل کی جائے -
قرآن مجید اور جسمانی معاد:
قرآن مجید کی آیات واضح طور پر گواہی دیتی ہیں کہ انسانوں کا معاد، قیامت کے دن صرف روحانی نہیں ھوگا بلکہ یہ دوبارہ پلٹنا روحانی و جسمانی دونوں صورتوں میں ہے- اور اسی طرح جس جسم کے ساتھ قیامت کے دن روح تعلق پیدا کرے گی، وہی دنیا کا عنصری جسم ھوگا- اس مطلب کی قرآن مجید کی متعدد آیات دلالت پیش کرتی ہیں، یہاں پر ہم خلاصہ کے طور پر صرف چند نمونے نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱-قرآن مجید کی بعض آیات ان لوگوں کے جواب میں ہیں، جو ہڈیوں کے دوبارہ زندہ ھونے کو نا ممکن خیال کرتے تھے، جیسے:" آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا جاننے والا ہے-[4]" کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور تک درست کرسکیں-"[5]
۲ – بعض آیات گواہی دیتی ہیں کہ قیامت کے دن انسان قبر سے نکل کر حساب دینے کے لئے آئے گا، جہاں پر ارشاد ھوتا ہے:" کیا اسے نہیں معلوم ہے کہ جب مردوں کو قبروں سے نکالا جائے گا-[6]" اور " ۔ ۔ ۔ اور پھر جب صورپھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے
نکل کر اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کرہی جا سکیں گے-"[7]
۳-کبھی قرآن مجید، جسمانی معاد کے ممکن ھونے کو دنیا میں اس کے واقع ھونے سے واضح کرتا ہے، جیسے عزیز{ع} کی حیرت انگیز داستان سے [8] اورحضرت ابراھیم{ع} کے خداوند متعال سے جسمانی معاد کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنے سے-[9] چونکہ قرآن مجید کبھی زندگی کے آغاز یا کبھی مردوں کو زندہ کرنے کے نمونوں، جیسے عزیز{ع} کی داستان یا اصحاب کہف کی داستان وغیرہ کو بیان کرتا ہے، اس سے ہم نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں کہ اسی مادی بدن کے ساتھ انسان کی تجدید زندگی ھوگی-
نہج البلاغہ میں امام علی{ع} کے کلام سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا میں انسانوں کا معاد اسی طبیعی بدن کے ساتھ ھوگا- حضرت علی{ع} اس بارے میں فرماتے ہیں:" جان لو کہ انسان کی یہ نازک کھال آگ کو برداشت نہیں کرے گی، پس اپنے آپ پر رحم کرو[10]۔ ۔ ۔" یافرماتے ہیں:" کھول کر باہر کھینچ لے گا، جبکہ سب خداوند متعال کے امر کے سلسلہ میں دوڑ رہے ہیں اور معاد کی طرف تیزی سے جارہے ہیں۔ ۔ ۔"[11] امام علی {ع} ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:" ۔ ۔ ۔ زمین کے اندر جو کچھ ہے اسے زمین باہر پھینک دے گی، پس خداوند متعال ان کی کہنگی کو دور کرے گا اور پراگندہ اجزا کو جمع کرے گا-"[12]
۴-نیک لوگوں کو بہشت کی نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے، جیسے، رنگ برنگ میووں سے استفادہ کرنا،[13] اور پرندوں کا گوشت[14] حورالعین کے ساتھ ازدواج[15] وغیرہ ۔ ۔ ۔ ایسے موارد ہیں کہ جن کا تصور، معاد کے جسمانی ھونے کے علاوہ مشکل لگتا ہے-
نتیجہ: مشہور متکلم، فلاسفہ اور علمائے دین متعدد آیات و روایات سے استفادہ کرتے ھوئے، یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن انسانوں کا معاد جسمانی ھوگا-
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے سوال: ۱۲۵{ سائٹ: ۲۴۰۴} سے استفادہ کیا جاسکتا ہے-
[1] - اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے سوال: ۱۹۱۶{ سائٹ : ۱۹۱۷}، { معاد جسمانی از نظر اھل کتاب} کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے-
[2] ملاصدرا، مبدأ و معاد، احمدبن محمد الحسینی اردکانی، عبد الله نورانی، ص 433- 436، مرکز نشر دانشگاهی، تهران، 1362؛ سبحانی، جعفر، الهیات و معارف اسلامی، ص 290- 297، انتشارات شفق، قم، طبع دوم، 1379ھ ش.
[3] وعلی سینا، الهیات شفاء، حسن زاده آملی، حسن، مقالۀ 9، ص 460، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، طبع اول، 1376ھ ش.
[4] یس، 79، "قُلْ يُحْييهَا الَّذي أَنْشَأَها أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَليم".
[5] قیامت، 3- 4،"أَ يَحْسَبُ الْإِنْسانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظامَهُ * بَلى قادِرينَ عَلى أَنْ نُسَوِّيَ بَنانَه".
[6] عادیات، 9، "أَفَلا يَعْلَمُ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُور".
[7][7] یس، 51، "وَ نُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُون".
[8] بقره، 259، "أَوْ كَالَّذي مَرَّ عَلى قَرْيَةٍ وَ هِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها قالَ أَنَّى يُحْيي هذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَمْ لَبِثْتَ قالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عامٍ فَانْظُرْ إِلى طَعامِكَ وَ شَرابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَ انْظُرْ إِلى حِمارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَ انْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها ثُمَّ نَكْسُوها لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدير".
[9] بقره، 260، "وَ إِذْ قالَ إِبْراهيمُ رَبِّ أَرِني كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى قالَ أَ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلى وَ لكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبي قالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتينَكَ سَعْياً وَ اعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيم".
[10] معادیخواه، عبد المجید، خورشید بی غروب نهج البلاغة، خ 182، ص 218، نشر ذره، طبع اول، 1373ھ ش.
[11] ایضا، خ 82، ص 80.
[12] ایضا، خ 108، ص 125.
[13] مرسلات 42، مؤمنون 19، صافات 42، دخان 55 و ...
[14] واقعه 21، طور 22 و...
[15] رحمن 72، واقعه 22 و ...