Please Wait
6232
شیعہ فقہ کے اصولوں کے مطابق، اسلامی معاشرہ کا نظم و انتظام چلانا، پہلے مرحلہ میں معصوم اماموں[ع} کے ذمہ ہے اور اس کے بعد والے مرحلہ میں، صرف وہ افراد معاشرہ کی سرپرستی کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو معصوم {ع} کی طرف سے خاص یا عام اجازت رکھتے ھوں-
بہرحال، اگر چہ ائمہ معصومین {ع} کی طرف سے مختلف علاقوں کے لئے موجودعرفی نظام پر مبنی منصوب کئے گئے نمایندوں کے دستوروں کی پیروی کرنا کلی طور پر ضروری تھا اس لئے ائمہ معصومین {ع} انھیں کچھ اختیارات بھی دیتے تھے اور اجمالا مرکزی حکومت کی مشروعیت ان نمایندوں کو بھی حاصل تھی- لیکن اس موضوع کے ہر گز یہ معنی نہیں ہیں، کہ ایسے مدیروں کے ماتحت افراد، کسی قسم کی تنقید اور اعتراض کا حق نہیں رکھتےتھے اور حتی کہ وہ مدیر کے اختیارات کے دائرہ سے باہر دستوروں کی بھی پیروی کرنے پر مجبور تھے- اسلامی نظریہ کے مطابق اس قسم کے مدیروں کو اپنی مشروع مدیریت کا اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے-
آپ کا سوال حقیقت میں دو حصوں پر مشتمل ہے:
۱-کیا اسلامی نظام میں، دوسرے درجہ کے مدیر، اپنے، ماتحتوں پر ولایت رکھتے ہیں؟ اور بنیادی طور پر ان کے اختیارات کا دائرہ کس حد تک ہے؟
۲-کیا اسلامی نظام میں ایک مدیر کی طرف سے صادر کیا گیا ہر حکم، شرعی احکام کی قدر و منزلت رکھتا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی دینی لحاظ سے گناہ شمار ھوتی ہے؟
جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں اور آپ نے اپنے سوال میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ ولایت فقیہ کا نظام، پیغمبر اکرم {ص} اور ائمہ معصومین {ع} کے حکومتی نظام کی ایک کڑی ہے اور اسی بنا پر اگر ائمہ اطہار {ع} کے زمانہ کی مدیریت کے طریقہ کار کی تحقیق کی جائے، تو آسانی کے ساتھ معلوم ھوسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مدیروں کے اختیارات کیا ہیں-
اسی وجہ سے، ہم کوشش کرتے ہیں کہ پہلے ائمہ معصومین {ع} کے زمانہ کے دوسرے درجے کے مدیروں کی حالت کے بارے میں تحقیق و تجزیہ کریں اور اس کا مختصر نتیجہ اس طرح پیش کریں کہ مجموعی مطالب سے دونوں سوالات کا جواب حاصل ھو جائے، اس کے بعد ہم اس سلسلہ میں رہبر انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی{رہ} کے بیانات کا خلاصہ پیش کرکے اس گفتگو کو اختتام تک پہنچادیں گے-
سب سے پہلے ہم مولائے متقیان حضرت علی {ع} کے بیانات سے اپنے جواب کو زینت بخشتے ہیں، آپ {ع} نے حکام اور لوگوں، بہ الفاظ دیگر مدیروں اور ماتحتوں کے درمیان رابطہ کے { دوطرفہ} پیوند کے سلسلہ میں فرمایا ہے:"
" عام لوگوں کو بھی حقوق کی رعایت کرنا ضروری ہے، ان میں مدیروں کے اپنے ماتحتوں کے بارے میں حقوق اور مدیروں کے بارے میں ماتحتوں کے حقوق ہیں خداوند متعال نے اسے واجب قرار دیا ہے کہ دونوں گروہ کے لئے ان کی رعایت کرنا ضروری ہے اور صرف ان حقوق کی سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ رعایت کرنے سے ہی ان کے درمیان ایک محبت آمیز اور پائیدار نظم و انتظام اور امن و امان قائم ھوسکتا ہہے-
مدیروں کے صحیح راہ پر گامزن ھوئے بغیر کبھی اپنے ماتحتوں سے صحیح کام کی امید نہیں کی جاسکتی ہے اور دوسری جانب اگر ماتحت اپنے فرائض کو بخوبی بجا نہ لائیں، تو مدیروں کی کامیابی بھی نا ممکن ہے-
پس اگر ماتحت اپنے مدیروں کے بارے میں اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں اور مدیر بھی اپنے ماتحتوں کے بارے میں اپنے فرائض نبھانے میں کوتاہی سے کام نہ لیں، تو ان کے درمیان حق مستحکم ھوگا اور دینی تعلیمات پر عمل انجام پاکر عدل و انصاف قائم ھوگا اور نتیجہ کے طورپر شگفتگی کا دور شروع ھوگا اور زندگی لذت بخش ھوگی اور حکومت کی پائیداری کی ضمانت ملے گی اور دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی، لیکن – اگر یہ دو اہم اجتماعی گروہ، ایک دوسرے کے بارے میں اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہ دیں، تو اختلافات، ظلم اور ظاہری دینداری وجود میں آکر سر انجام مطلوبہ دینی نظام نابود ھوکر رہ جائے گا- - - [1]
اس خطبہ میں موجودامیرالمومنین {ع} کے بیانات اور سپاہ سالاروں اور مختلف علاقوں میں بھیجے گئے گورنروں کے نام آپ {ع} کی دوسری اخلاقی نصیحتوں میں کچھ اہم نکات پائے جاتے ہیں، من جملہ:
۱- امیرالومنین{ع} کے اجتماعی نقطہ نظر کے مطابق معاشرے میں مطلق العنانیت کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور حتی کہ ایک فاسد نظام حکومت اور سلسلہ مراتب کا ھونا ہرج و مرج سے بہتر ہے[2] اور قدرتی بات ہے کہ اس بنا پر با ایمان افراد کو مدیروں کے ہراس فیصلہ اور حکم کا احترام کرکے اس کی پیروی کرنی چاہئے جو معاشرہ کے فائدہ میں اور واضح طور پر شرعی احکام کے خلاف نہ ھو، حتی کہ اگر یہ فیصلے ایسے مدیروں کے ذریعہ بھی صادر ھو جائیں جو دینی تعلیمات کا اعتقاد بھی نہ رکھتے ھوں-
۲- ایسا نہیں سوچنا چاہئیے کہ اسلامی نظام میں، ہر مدیر گناہ اور خطا سے معصوم ہے اس لئے اس کو اپنے فرائض نبھانے میں قوانین کا پابند نہیں کیا جاسکتا ہے-
مولائے متقیان {ع} اپنے ماتحت گورنروں اور مدیروں کو کچھ اختیارات سونپتے تھے، لیکن ان کے لئے کچھ قوانین اور ضوابط کی رعایت کرنا بھی ضروری قرار دیتے تھے، خواہ وہ مدیر یا گورنر مالک اشتر جیسا ایک شائستہ انسان ھو جسے مصر کا گورنر بنایا گیا تھا، خواہ اشعث بن قیس جیسا منافق گورنر جو کچھ وجوہات کی بنا پر آذر بائیجان کی گورنری پر باقی رہا تھا-
۳- مدیروں اور ماتحتوں کے درمیان روابط کا ضروری ھوناحقوق و فرائض کے یک جانبہ نہ ھونے، من جملہ ایسے امور کے بارے میں ہے، جن کی طرف اس کلام میں تاکید کی گئی ہے- آپ {ع} ایک دوسری جگہ پر مالک اشتر سے خطاب کرتے ھوئے فرماتے ہیں:
" ایسا نہ ھو کہ یہ سوچ لو گے کہ، چونکہ لوگ میرے احکام کی رعایت کرنے کی ذمہ داری رکھتے ہیں، اس لئے میں جو چاھوں اس کا حکم دیدوں گا اور وہ بھی اسے قبول کریں گے- ایسے خیالات تمھارے ذہن کو نقصان پہنچائیں گے اور تمھارے دین کو نابود کرکے رکھ دیں گے- - -[3]
اگر مالک جیسی شخصیت کو ایسی نصیحتیں کی جاسکتی ہیں، تو دوسروں کی بات ہی نہیں-
۴-اگر یہ متقابل برتاو بھی منظم ھوکر، دونوں کی جانب سےپیار محبت اور دینداری کے ساتھ انجام پائے، تو مولا علی{ع} کے کلام میں "فریضۃ فر ضھا اللہ" کی عبارت کے پیش نظر دو جانبہ برتاو کو شرعی اور اخروی ثواب کا مستحق جانا جاسکتا ہے اور بہ الفاظ دیگر، ان کے لئے مشروعیت کے حکم کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے-
البتہ قابل توجہ بات ہےکہ بعض اوقات شرعی احکام، مصداق کو معین کرکے ھوتے ہیں اور کبھی صرف کلی صورت میں ھوتے ہیں اور ان کے مصداق کو تشخیص دینا مکلف کے ذمہ ھوتا ہے، کیونکہ ماں باپ کی اطاعت کرنے کے بارے میں کلی نصیحت کی گئی ہے[4] اور اگر چہ اس لحاظ سے اس قسم کے مصداقوں کو ایک شرعی امر سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے زیادہ امور کے بارے میں کلی حکم میں بیان ھونے کے علاوہ کسی شرعی مبنی کو نہیں پایا جا سکتا ہے- اسلامی نظام میں مدیریت کی اطاعت کرنے کی مشروعیت دوسری قسم کی ہے-
۵-صرف اسی صورت میں اسلامی نظام کے جاری رہنے اور عدل و انصاف قائم ھونے کی امید کی جاسکتی ہے جب مدیریت کے اس اصول پر طرفین کی طرف سے رعایت کی جائے اور اس رعایت کے ساتھ رضامندی بھی حاصل ھو، خواہ مدیر کے لئے یا اس کے ماتحتوں کے لئے-
۶- اگر اسلام پر مبنی نظام میں، دو اجتماعی گروہ یعنی مدیر اور ان کے ماتحت، معاشرے اور طرف مقابل کے منافع کو مد نظر رکھے بغیر، صرف اپنے مفاد کو ہی سوچیں اور شرعی قواعد و ضوابط کی طرف حقیقی معنوں میں توجہ بھی نہ کریں اور اپنے ہی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کی فکر میں ھوں، تو اس کے پیش نظر کہ دونوں گروہ، اسلامی معاشرہ میں زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہی عزائم کو دینی روپ بخشے اور وہ اپنے برے اعمال کو مشروعیت کے پردے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے- امیرالمو منین {ع} نے اس سلسلہ میں " ادغال فی الدین" کی تعبیر سے کام لیا ہے کہ جس کے معنی دینی ظاہر داری ہے-
مذکورہ نکات کے پیش نظر، اب ہم ایک جامع نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ جن نظاموں کی سر پرستی معصوم اماموں کے ہاتھ میں تھی، ہر گز یہ دعوی نہیں کیا گیا ہے کہ اسی نظام کے دوسرے تمام مدیر، معصوم تھے بلکہ عملی میدان میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ خالد بن ولید جیسے افراد بھی پیغمبر{ص} کے لشکر میں موجود تھے جنھوں نے اپنی خود خواہی اور اپنے اختیارات کے حدود سے تجاوز کرکے ، دوسروں کو نقصانات پہنچائے ہیں، اگر چہ ان نقصانات کی پیغمبر اکرم {ص} کے ہاتھوں تلافی کی گئی-[5]
حضرت علی{ع} کے گورنروں میں اگر چہ مالک اشتر، کمیل[6] اور ابن عباس و غیرہ جیسے شائستہ افراد موجود تھے، لیکن اشعث بن قیس جیسے منافق بھی تھے، جو آذر بائیجان کے گورنر[7] اور زیاد بن ابیہ صوبہ فارس [8]کے گورنر مقرر کئے گئے تھے اور باوجودیکہ اس قسم کے افراد، کو عرفا اور قدرتی طور پر کچھ اختیارات حاصل تھے اور ان کے اختیارات کے دائرہ میں اطاعت کرنا، امام علی{ع} کی اطاعت شمار ھوتی تھی، لیکن ظاہر ہے کہ ایک مشخص موضوع کے بارے میں علی{ع} کا نمایندہ ھونا ، ان کے لئے یہ قدر و قیمت فراہم نہیں کرتا تھا- کہ ان کے ہر حکم کو ایک شرعی حکم جان کر ان کی اجازت کے بغیر ان کے ماتحت علاقہ میں کسی چیز کا کھانا بھی غیر شرعی جانیں، بلکہ یہ ماتحت لوگوں کی عقل کا تقاضا ہے کہ وہ مشخص کرسکتے ہیں کہ ایک طرف کونسا حکم صادر ھوا ہے، اور یہ حکم ماموریت کے مطابق تھا اور اس کی اطاعت کرنا شرعی فریضہ تصور کیا جاتا ہے اور یا یہ کہ اس کی صلاحیت سے خارج کوئی حکم تھا اور اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئیے اور دوسری جانب، دوسرے افراد کے توسط سے اس مدیرتی علاقہ میں انجام پائی سرگرمیاں، کیا مرکز کی طرف سے منصوب کئے گئے اختیارات سے ٹکراتی ہیں، کہ ایک قسم کا خلاف شرع کام شمار ھو یا نہیں؟
بہ الفاظ دیگر اگر چہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق، اسلامی نظام کی سرپرستی کرنے والا شخص معلوم ھونا چاہئے یا معصوم کی طرف سے خاص یا عام صورت میں متعارف اور مقرر کیا گیا ھو، لیکن اسلامی نظام میں موجود سلسلہ مراتب کا معیار، دنیا میں عرفا رائج اور قبول شدہ معیاروں سے جدا نہیں ھو سکتا ہے، مثال کے طور پر ایک انتہا پسند نظریہ کے مطابق کسی دور دراز اور پسماندہ شہر میں ایک چھوٹے ادارہ کے مدیر کے حکم کو ایک مسلم شرعی حکم تصور کرکے اس کی تنقید یا مخالفت کو دینی اصولوں اور نظام کی مخالفت سمجھا جائے-
البتہ نظم و انتظام کے بارے میں ائمہ اطہار {ع} کی طرف سے کی گئی نصیحتوں اور تاکیدوں کے پیش نظر اگر وہی حکم اور دستور العمل اختیارات کے دائرے میں اور معاشرے کے عام نظم و انتظام کے پیش نظر ھو، تو اسے نماز و روزہ کے مانند یا قصد قربت سے انجام دیا جاسکتا ہے اور ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور ایک کلی تر موازنہ میں، ہر با ایمان انسان اپنے تمام دنیوی سر گر میوں کو، جو شرع کے خلاف نہ ھوں، اس طرح منظم کرسکتا ہے کہ انھیں خدائی رنگ بخش کر اپنی معنوی ترقی میں موثر بنا سکتا ہے، لیکن یہ کلی موضوع دوسرے درجہ کے مدیروں کے لئے بہانہ نہیں بننا چاہئیے کہ وہ اپنے ہر فیصلہ کو شرعی رنگ و روپ دینے کی کوشش کریں-
اس سلسلہ میں اسلامی نظام کے مدیروں کے طریقہ کار کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی {رہ} کے بیانات بھی ائمہ اطہار {ع} کے بیانات کی عکاسی کرتے ہیں- ہم ان بیانات میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں، جو در حقیقت امام علی {ع} کے بیانات کی روشنی میں ہیں تاکہ قارئین کرام ان کا مطالعہ کر کے اس سلسلہ میں وسیع تر تحقیق انجام دے سکیں:
انھوں {امام خمینی} نے بار ہا اسلامی حکومت کے وجود اور نظم و انتظام کو ضروری جانا ہے- { ملاحظہ ھو، امام علی علیہ السلام کے کلام کا پہلا نکتہ} من جملہ وہ اپنے سیاسی الہی وصیت نامہ میں تاکید فرماتے ہیں کہ: " مستضعفین کے فائدے کے لئے اور ظلم و جور کو روکنے کے لئے اور اجتماعی عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے حکومت قائم کرنا اسی طرح حق بنتا ہے، جس طرح حضرت سلیمان بن داود {ع} اور پیغمبر عظیم الشان اسلام اور آپ {ص} کے جانشین اس کے لئے کوشش کرتے تھے یہ سب سے بڑے واجبات میں سے ہے اور اس کو قائم کرنا بلند ترین عبادت ہے-"
مدیریتی نظام اور سلسلہ مراتب کی ضرورت کے بارے میں فر ماتے ہیں:
" دوسرا راز یہ ہے کہ اگر چہ ملک ایران ، میں بلندی و پستی کا وجود نہیں ہے،- - - اور ہم آپس میں ایک ہیں، لیکن نظم و انتظام کا ھونا ضروری ہے، آپ کو خدا کے لئے، سلسلہ مراتب کی رعایت کرنی چاہئے اور اگر قرار یہ ھو کہ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے گا، تو اس وقت معنویات اور عام کامیابیاں بھی نابود ھوتی ہیں- آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جب پیغمبر اسلام {ص} مسجد میں تشریف فرما ھوتے تھے، تو مسجد میں داخل ھونے والا نہیںسمجھ سکتا تھا کہ ان میں سے کون پیغمبر اسلام {ص} ہیں، اس کے باوجود کہ سب لوگ آپ {ص} کی اطاعت کرنے کے لئے مامور تھے- ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، لیکن اگر نظم و انتظام نہ ھو، تو برادری بھی درہم برہم ھوجاتی ہے"-[9] فرماتے ہیں کہ:
اگر فوج میں کوئی نظم و نسق نہ ھو، قواعد و ضوابط نہ ھوں، کسی قسم کی افسری و ماتحتی نہ ھو، تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم فوج نہیں چاہتے ہیں"-[10]
اورنظارت کے اصول اور امر بالمعروف { دوسرے نکتہ} کے بارے میں فرماتے ہیں: " پوری قوم کے افراد ان امور کی نظارت کرنے کے ذمہ دار ہیں، نظارت کریں کہ اگر میں نے کوئی غلط قدم اٹھایا، تو قوم کے افراد کا فرض ہے کہ مجھ سے کہدیں کہ آپ نے یہ قدم غلط اٹھایا ہے، اس کو صحیح کیجیے"-[11]
خدمت گزاری کے اصول اور متقابل برتاو { تیسرے نکتہ} کے بارے میں فرماتے ہیں:
" عمل اس طرح ھونا چاہئے کہ لوگ مشاہدہ کریں کہ یہاں پر آنے والا گورنر، لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہے اور لوگوں کی خدمت کر رہا ہے- البتہ، جب لوگ دیکھ لیں کہ کوئی خدمت کر رہا ہے، تو پھر اس سے کوئی لڑائی نہیں ھوگی - لڑائی جھگڑا وہاں پر پیدا ھوتا ہے کہ لوگ مشاہدہ کریں کہ آنے والا لوگوں کو مشتعل کرنے کے لئے آیا ہے تاکہ ہر صورت میں ان کا استحصال کرے، اور اپنی طاقت کو مظبوط کرنے کے لئے آیا ہے- جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص {مدیر} اپنی طاقت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، تو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں"-[12] اور یا یہ کہ:
" آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں سابقہ معنی میں مقام اور عہدے ختم ھو چکے ہیں- صدر جمہوریہ سے لے کر وزیر اعظم اور دوسرے وزراء تک کوئی ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ خیال کرے کہ، ہم کسی بلند مقام پر فائز ہیں اور ہم میں کوئی شرف ہے وغیرہ- اب ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ میں ہر جگہ ان کی قدر و قیمت اس میں ہے کہ خدمت کریں اور خدمت کرنے والے ھوں"-[13]
نظم و نسق کی مشروعیت {چوتھے نکتے} کے بارے میں فر ماتے ہیں:
" نظام کا تحفظ کرنا شرعی اور عقلی واجبات میں سے ہے، نظام محفوظ رہنا چاہئیے- جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان معنی میں نظام کو نہیں چاہتے ہیں اور ہم یکساں اور کسی قواعد و ضوابط کے بغیر عمل کریں گے، وہ قرآن مجید کے خلاف عمل کرتے ہیں- اسلام کے خلاف عمل کرتے ہیں، اپنے ملک کی مصلحتوں کے خلاف عمل کرتے ہیں "-[14]
نظام کا استمرار، اصولوں کی رعایت کرنے سے منسلک ہے { پانچواں نکتہ}: " اس کے بعد بھی اگر ہم خدا کی طرف توجہ رکھنے کے جذبے کی حفاظت کریں، اگر ہم اس برادری اور اتحاد کی حفاظت کریں، تو اس کے بعد بھی اسے آگے بڑھا دیں، آخر تک آگے بڑھا دیں- - - دعا کیجئے کہ ہم خداوند متعال کے بارے میں غفلت سے دوچار نہ ھوں، اسلام کے بارے میں غفلت نہ کریں، اپنی ضرورتوں کے پیچھے نہ پڑیں، یہ چیزیں نا پا ئیدار ہیں"-
سر انجام بعض افراد کی طرف سے اسلامی معاشرہ میں دین کے نام پر دھوکہ دہی {چھٹے نکتہ} کے بارے میں معدوم شاہ کی مثال پیش کرتے ھوئے فرماتے ہیں کہ:
" اسے اسلام کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں تھا، بلکہ نقصان پہنچاتا تھا- جب کبھی کمزور اور لاچار ھوتا تھا، تو جاکر نماز پڑھتا تھا اور حضرت امام رضا{ع} کے حرم میں جاکر نماز پڑھتا تھا، وہ عموماً ایسی ہی صورت اختیار کرتا تھا"-[15]
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ، مدیریت میں سلسلہ مراتب کے بغیر ایک معاشرہ ہرج و مرج سے دو چار ھوتا ہے، اختیارات، مدیریت کی ضروریات میں سے ہیں، اور اختیارات سے عاری ایک مدیر، حقیقت میں مدیر نہیں ہے، لیکن ایک اسلامی نظام میں، اگر چہ ہمیں ایک مدیر کے فیصلوں کو اس کے اختیارات کے دائرہ میں، مشروع امر کی حیثیت سے جاننا چاہئیے، لیکن اس مشروعیت کو اس حد تک وسعت نہیں دینی چاہئیے کہ مدیروں کے لئے اس کا نا جائز فائدہ اٹھانے کا بہانہ مل جائے اور ان کے ماتحتوں کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نابود ھونے کا سبب بن جائے-
اس موضوع سے متعلق مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ملا حظہ ھوں:
۱-عنوان: " ولایت مطلقہ"، سوال: ۱۸۸۷ { سائٹ: ۲۲۱۲}
۲-عنوان: " ابعاد مدیریتی و لایت فقیہ " سوال: ۲۱۲۱ { سائٹ: ۲۲۶۲}
۳-عنوان: " محدودہ ولایت مطلقہ فقیہ"، سوال: ۳۱۰۵ { سائٹ: ۳۳۷}
[1] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 8، ص 353 و 354، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 هـ ش.
[2] تمیمی آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 464، ح 10672"وال ظلوم غشوم خیر من فتنة تدوم"، انتسارات دفتر تبلیغات اسلامی، قم، 1366 هـ ش.
[3] نهج البلاغة، ص 428"و لا تقولن إنی مؤمر آمر فأطاع ...."، انتشارات دار الهجرة، قم، بدون تاریخ
[4] بقره، 83؛ نساء، 36 و..."و بالوالدین إحسانا".
[5] اس سلسلہ میں ، بحار الانوار کی جلد ۲۱ کے باب ۲۷ میں صفحہ ۱۳۹ کے بعد مطالعہ کریں-
[6] نہج البلاغہ کے خط نمبر ۶۱ کے مطابق وہ امام علی{ع} کی طرف سے شہر "ھیت" کے گورنر تھے-
[7] نهج البلاغة، کتاب 5، ص 366.
[8] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 32، ص 501، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هـ
[9] صحیفه امام، ج 17، ص 15.
[10] ایضاج 12، ص 45.
[11] " ج 8، ص 5.
[12] " ج 13، ص 383- 382.
[13] " ج 16، ص 445-444.
[14] " ج 11، ص 494.
[15] " ایضا ج۱۳ ،ص249