Please Wait
8231
امام علی {ع} کے کلام کے مطابق، چشم بصیرت سے خداوند متعال کا مشاہدہ کرنا، علم کلام کے مطابق خدا کو دیکھنے کی بحث سے متعلق ہے- باری تعالی کے قول کے مطابق، رویت بصری جو رویت و تجلی قلبی سے متفاوت ہے، خداوند متعال کے بارے میں ممکن نہیں ہے- لیکن قلبی رویت {یعنی چشم بصیرت سے دیکھنا} یا وہی لقاء اللہ، متحقق ھونے والا ایک امر ہے، جو اولیائے الہی کا مقام رہا ہے اور اس سے مراد خداوند متعال کے ذاتی اسماء و صفات کے جلووں میں تجلی کا مشاہدہ کرنا ہے نہ کہ خداوند متعال کی حقیقت ذات کا مشاہدہ کرنا-
یہ رویت وہی حق تعالی کی شہودی معرفت ہے کہ روایتوں کی زبان میں اسے " رویت قلبی" کہا جاتا ہے-
خداوند متعال کے بارے میں قلبی معرفت، وہی حق تعالی کی تجلیات کا مشاہدہ ہے، عرفانی مباحث میں اس کے مختلف مراتب ہیں، سلوک کا انجام فنا و بقا پر یعنی خداوند متعال کی ذاتی تجلی پر ختم ھوتا ہے-
یہاں پر پیش کیا گیا سوال یہ ہے کہ شہود یا رویت قلبی خدا کے مسئلہ اور کلمہ طیبہ" لا الہ الا اللہ" کے مضمون کے درمیان کون سا رابطہ ہے-
اس کا جواب یہ ہے کہ توحید اور خدا کے علاوہ کسی معبود کے نہ ھونے کی شہادت میں اخلاص کا معیار عینی معرفت پر مبنی ھونا چاہئے، نہ کہ صرف تقلید اور لفظ پر مبنی اور توحید عملی کا درجہ ہر فرد میں اس پر منحصر ہے کہ اس کے وجود میں کس قدر ما سوی اللہ { لا الہ} اور اثبات " الا اللہ" متحقق ھوا ہے- بہ الفاظ دیگر، صرف اسی صورت میں سالک کے قلب میں الہی تجلیات داخل ھوں گی جب اس قسم کا اخلاص توحید کے مراتب میں واقع ھوا ھو-
امام علی {ع} کے کلام کے مطابق، چشم بصیرت سے خداوند متعال کا مشاہدہ کرنا، علم کلام کے مطابق خدا کو دیکھنے کی بحث سے متعلق ہے- رویت کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے، جس پرصدر اسلام سے متکلمین کے درمیان بحث ھوتی رہی ہے- اور اس سلسلہ میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں-[1]
قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر "لقاء اللہ" اور " خدا کے چہرہ پر نظر" کی عبارتیں ذکر کی گئی ہی اور احادیث کی اکثر کتابوں میں بھی رویت کی بحث کے بارے میں ایک جدا گانہ باب مخصوص کیا گیا ہے اور اس کی نفی و اثبات میں بہت سی روایتیں نقل کی گئی ہیں- اس لحاظ سے، اس مسئلہ کے بارے میں مختلف اسلامی مکاتب فکر میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں- لیکن صحیح قول کے مطابق رویت بصری، رویت و تجلی قلبی سے متفاوت ہے، اور رویت بصری خداوند متعال کے بارے میں ممکن نہیں ہے ، لیکن رویت قلبی یا وہی لقاء اللہ، ایک متحقق ھونے والا امر ہے، جو اولیائے الہی کا مقام رہا ہے اور اس سے مراد خداوند متعال کے ذاتی اسماء و صفات کے جلووں میں تجلی کا مشاہدہ کرنا ہے نہ کہ خداوند متعال کی حقیقت ذات کا مشاہدہ کرنا-
یہ رویت وہی حق تعالی کی شہودی معرفت ہے کہ روایتوں کی زبان میں اسے رویت قلبی کہا جاتا ہے- اسی طرح حضرت امیرالمومنین علی{ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ {ع} نے فر مایا ہے:" ما کنت اعبد رباً لم اره، قال و کیف رأیته، قال ویلک لاتدرکه العیون فی مشاهدة الابصار و لکن رأته القلوب بحقائق الایمان"؛[2] " میں نے اس خدا کی کبھی عبادت نہیں کی ہے، جسے میں نے نہیں دیکھا ہے- سوال کیا گیا کہ آپ نے خداوند متعال کو کیسے دیکھا ہے؟ فرمایا: ظاہری آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتی ہیں لیکن دل اسے ایمان کی حقیقت سے دیکھتے ہیں-"
خداوند متعال کے بارے میں قلبی معرفت، وہی حق تعالی کی تجلیات کا مشاہدہ ہے، عرفانی مباحث میں اس کے مختلف مراتب ہیں، سلوک کا انجام فنا و بقا پر یعنی خداوند متعال کی ذاتی تجلی پر ختم ھوتا ہے- توحید اور خدا کے علاوہ کسی معبود کے نہ ھونے کی شہادت میں اخلاص کا معیار عینی معرفت پر مبنی ھونا چاہئے، نہ کہ صرف تقلید اور لفظ پر مبنی اور توحید عملی کا درجہ ہر فرد میں اس پر منحصر ہے کہ اس کے وجود میں کس قدر ما سوی اللہ { لا الہ} اور اثبات " الا اللہ" متحقق ھوا ہے-
تجلیات الہی کے رائج ترین مراتب کی تقسیم بندی عبارت ہے: تجلی ذاتی، تجلی صفاتی اور تجلی افعالی- تجلی ذاتی، جو تجلی کا بلند ترین مرتبہ شمار ھوتا ہے، بھی دو قسموں پر مشتمل ہے: تجلی ربوبیت اور تجلی الوہیت-[3]
عرفا کے بیان کے مطابق ، کوہ طور پر حضرت موسی{ع} کو حاصل ھونے والی تجلی، تجلی ربوبیت تھی نہ تجلی الوہیت، کیونکہ تجلی الوہیت کی شرط یہ ہے کہ عبد کی انانیت مکمل طور پر فانی ھو جائے اور اس انانیت کے باقی رہتے ھوئے الوہیت کا شہود ممکن نہیں ہے-
ان تفسیروں کے پیش نظر، یہ قابل ذکر ہے کہ: اگر چہ حق تعالی کی بصری رویت نا ممکن اور محال ہے، لیکن افعالی، صفاتی و ذاتی تجلیات میں شہود حق کے معنی میں قلبی رویت قابل تصور ہے، البتہ اس وضاحت کے ساتھ کہ الوہیت کے مقام پر شہود ذاتی عبد کی ذات کے فنا ھونے کے بغیر ممکن نہیں ہے-
اس بنا پر شہود قلبی کے مختلف مراتب ہیں جو عرفانی سلوک و مقام کے تناسب سے ظاہر ھوتے ہیں، لیکن خداوند متعال کی الوہی تجلی ذاتی، سالک کی ہستی کے مٹنے کے بغیر ممکن [4]نہیں ہے، اگر چہ تمام ظلمانی پردے بھی ہٹ جائیں، اس بنا پر " لن ترانی"[5] کا خطاب مطلق رویت قلبی کی نفی نہیں کرتا ہے، عرفا کے بقول پیغمبر اسلام {ص} صاحب کشف اتم تھےاور آپ {ص} کے لئے تجلی ذاتی الوہیت متحقق ھو چکی تھی-
من جملہ ابن عربی نے اس سلسلہ میں یوں بیان کیا ہے:" تجلی ذات کی دو قسمیں ہیں، تجلی ربوبیت اور تجلی الوہیت – تجلی ربوبیت وہی ہے کہ جو حضرت موسی{ع} اور کوہ طور پر واقع ھوئی اور ان کی ہستی باقی رہی اگر چہ پہاڑ چور چور ھوا اور حضرت موسی {ع} بیہوش ھوگئے، لیکن تجلی الوہیت پیغمبر اسلام {ص} سے مخصوص ہے کہ اس تجلی کے نتیجہ میں آپ {ص} کی ہستی ذات الوہیت میں فنا ھوئی، اس طرح کہ آپ {ص} پر وحی نازل ھوئی: جو لوگ آپ {ص} کی بیعت کرتے ہیں، حقیقت میں وہ خداوند متعال کی بیعت کرتے ہیں"-[6]
یہاں پر پیش کیا گیا سوال یہ ہے، کہ مسئلہ شہود یا رویت قلبی خدا کے کلمہ طیبہ" لا الہ الا اللہ" کے مضمون اور توحید کے درمیان کون سا رابطہ ہے؟
اس سوال کا جواب مذکورہ مطالب سے ظاہر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان تجلی کے تمام مراتب، من جملہ تجلی افعالی، تجلی صفاتی، اور تجلی ذاتی میں جس قدر اپنی عارضی اور ناپائدار ہستی سے نفی کرچکا ھو اور توحید افعالی و صفاتی و ذاتی میں عملا کمال حاصل کرچکا ھو، تو اس تناسب سے تجلی کا ایک مرتبہ اس پر واقع ھوتا ہے اور اگر سالک کی ہستی کا کوئی اثر باقی ھو تو وہ اسی نسبت سے تجلی سے محروم ھو گا-
اس بنا پر، عملی نقطہ نظر سے بہ الفاظ دیگر، صرف اسی صورت میں سالک کے قلب میں الہی تجلیات داخل ھوں گی جب اس قسم کا اخلاص توحید کے مراتب میں واقع ھوا ھو-
اسی طرح توحید کی بلند ترین حد، جو وہی توحید وجودی ہے کہ اس میں غیر خدا کی بنیادی ہستی اور وجود کی نفی ھوتی ہے{ وحدت وجود عرفا} سر انجام تجلی کے بلند ترین مراتب سے منطبق ہے جو عبد کی انانیت و ہستی کے فانی ھونے کے بعد متحقق ھوتی ہے ، چنانچہ تجلی ذاتی کو الوہیت کی بحث میں بیان کیا گیا-
اس بنا پرحق تعالی کے مقام شہود قلبی کی راہ کا مقصد انسان کے کمال کا سفر ہے جو فکری آآزادی کی راہ سے حاصل نہیں ھوتا ہے، لیکن وجودی حرکت کا سفر اور انسان کا معاد اسی مقصد پر توجہ رکھتا ہے: چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے: "یا ایّها الانسان انّک کادحٌ الی ربّک کدحاً فملاقیه".[7] " اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا-"
[1] دائرة المعارف، تشیع، ج 8، ص 404 و 408 تا 409، نشر شهید حجتی، تهران، 1379ھ ش-
[2] کافی، ج 1، ص 97، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365ھ ش.
[3] دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج 14، ص 589 و 590. نشر مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، طبع اول، 1385.ھ ش
[4] اعراف، 143.
[5] رسائل ابن عربی، رسالة الغوثیة، ص 29، مقدمه و تصحیح، مایل هروی، انتشارات مولی تهران، 1367.ھ ش
[6] نشقاق، 6.