Please Wait
6722
اصلی قوانین کے ذیل میں، بعض فرعی قوانین کا ھونا ، ہر اس معاشرہ میں ایک قطعی امر ہے، جس میں قانون کا راج ھو- اصلی قانون کے ذیل میں فرعی قوانین کا ھونا، قانون کا نا جا ئز فائدہ اٹھانے کے لئے کھلی ڈھیل کے معنی میں نہیں ہے- نماز، روزہ اور حج جیسے فرائض، ہر شخص کو اپنی زندگی کے دوران بجا لانے چاہئیں تاکہ اس کی قید حیات کے دوران { اضطراری موارد کے علاوہ} اس کے یہ فرائض دوسروں تک منتقل نہ ھو جائیں اور ان اعمال کو ترک کرنے کی صورت میں ، اس پر عذاب کیا جائے گا اور جو شخص اس دنیا میں مشکلات اور سختیوں کو برداشت کر کے اپنے اعمال و فرائض بجا لاتا ہے ، وہ ہر گز اس شخص کے مانند نہیں ہے جس نے اپنی زندگی میں کسی عذر کے بغیر اپنے فرائض پر عمل نہ کیا ھو اور صرف اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے ان فرائض میں سے بعض کی تلافی کرتے ہیں- روزہ کے کفارہ کے بارے میں بھی قابل ذکر ہے کہ: بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا صرف اس کی نا فرمانی کا کفارہ ہے اور اصل روزہ کو بجا لانا، بدستور اس کے ذمہ باقی ہے اور اگر اس کے مرنے کے بعد کوئی رقم ادا کی جائے تاکہ اس کے قضا شدہ روزے اور نمازیں بجا لائی جائیں، تو یہ عمل اس کے عبادی اعمال میں سے صرف بعض مصلحتوں کو بجا لانا ہے، نہ کہ سب کے سب- اس بنا پر پیسے دیکر کسی کی نماز یا روزوں کو نہیں خریدا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے بے نیاز ھو جائے-
قوانین پر عمل کرنے کے سلسلہ میں لوگ تین حصوں میں تقسیم ھوتے ہیں:
۱-وہ لوگ جو طبیعی حالت میں ھوتے ہیں اور اصل قانون پر عمل کر نے کی طاقت ر کھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں- عام طور سےمعاشرہ کی اکثریت اسی قسم کے افراد پرمشتمل ھوتی ہے- اور بنیادی طور پر معاشرہ کے ایسے ہی لوگوں کے لئے قانون بنایا جاتا ہے – اسلام کے الہی قوانین اور انسانی معاشرہ کے قوا نین بھی اسی فضا میں بنائے گئے ہیں- مثال کے طور پر، ٹریفک کے قوانین، معاشرہ میں ٹریفک کی سہو لیات فراہم کرنے کے لئے، معاشرہ کی غالب اکثریت کو مد نظر رکھ کربنائے جاتے ہیں-
۲-جو افراد قانون کے بارے میں طبیعی اور معمول کی حالت نہیں رکھتے ہیں اور خاص حالات کے پیش نظر اصل قانون پر عمل نہیں کر سکتے ہیں، عام طور پر قانون سازر ایسے افراد کے لئے اصلی قانون کے بعد فرعی قانون کو بھی مد نظر رکھتا ہے – مثال کے طور پر ٹریفک کی ریڈ لایٹ سے نہ گزر نا ایک عام قانون ہے لیکن خاص حالات میں فائر برگیڈ اور ایمبو لینسوں کے لئے اس قانون کی رعایت کرنا ضروری نہیں ھوتا ہے- اسلامی قوانین میں بھی معاشرہ کے دوسرے قوانین کے مانند استثنآت پائے جاتے ہیں- یہ استثنآت ان افراد کے لئے ھوتے ہیں جن کی طرف سے قانون کی رعایت نہ کرنے کی وجہ اس قانون کی نافرمانی نہیں ھوتی ہے-
خداوند متعال نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے- پس روزہ رکھنا مسلما نوں کی زندگی کے قوانین میں سے ایک قانون ہے- لیکن قطعی طور پر بعض افراد ایسے ہیں، جو کسی نہ کسی {بیماری، مسافرت، شدید جسمانی نا توانی کی} وجہ سے اس قانون پر عمل نہیں کرسکتے ہیں- اسلامی قانون کی روسے ایسے افراد کے لئے روزہ رکھنا معاف کیاگیا ہے اور ان کے لئے اس کی تلافی کرنے والا قانون معین کیا گیاہے- ماہ رمضان میں مسافرت پر جانے والوں کا بعد میں روزوں کی قضا بجا لانا ان ہی قوانین میں سے ہے- یا ان افراد کے مانند کہ جن کی نماز، مسافرت کے دوران عام حالت سے نکل کر قصر نماز میں تبدیل ھوتی ہے- یا ان افراد کے مانند جو ایک ایسے وقت پرمالی لحاظ سے مستطیع ھوتے ہیں، جب بوڑھاپے یا لاعلاج بیماری کی وجہ سے واجب حج کو بجا نہیں لا سکتے ہیں{ یعنی ان میں بدن کی استطاعت نہیں ھوتی ہے} اس قسم کے افراد اپنے لئے نائب لے سکتے ہیں – دونوں قوانین ، یعنی اصلی قانون یا فرعی و متبادل قانون پر عمل کرنا خداوند متعال کے حکم پرعمل کرنے کے مترادف ہے ایک فرض شناس مومن کے لئے اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے-
۳-جو افراد طبیعی اور نارمل حالات میں ھوں اور مضطر و معذور نہ ھوں، لیکن قانون کی نا فرمانی کر کے اس پر عمل نہیں کرتے ہیں، عام طور پر قانون ساز نے ایسے افراد کے لئے تلافی کرنے والا قانون معین کیا ہے ، لیکن یہ قانون ویسا قانون نہیں ہے، جو معذور و مضطر افراد کے لئے بنایا گیا ہے، بلکہ یہ قانون ایسا قانون ھوتا ہے، جس میں تنبیہ اور جرمانہ کا پہلو ھوتا ہے – اس قسم کے قوانین کی مندرجہ ذیل خصوصیات ھوتی ہیں:
الف} قانون شکنی کرنے والے پر سنگین تر و بیشتر فریضہ عائد کیا جاتا ہے-
ب} مکلف تلافی کرنے کے باوجود اپنے فریضہ کی تمام مصلحتوں اور نتائج کو حاصل نہیں کرتا ہے-
انسانی قوانین میں اس کی مثالیں کافی ملتی ہیں- اگر کوئی شخص عام اور نارمل حالات میں ریڈ لایٹ عبور کرے، تو اس کے لئے قانون نے سخت سزا کو مد نظر رکھا ہے- اسلامی قوانین میں بھی "کفارات" کی بحث میں یہی حالت ھوتی ہے-[1] اگر کوئی شخص عام حالات میں اپنے فریضہ پر عمل نہ کر ے، تو قانون نے اس کے لئے کچھ سزائیں معین کی ہیں جومختلف حالات کے مطابق مختلف نوعیت کی ہیں- مثال کے طور پر جو شخص عمدا نماز کو ترک کرے، اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے[2] اس کے علاوہ اس کےلیے اس کی قضاء بجا لانا ضروری ہے- اور اگر کسی شخص نے رمضان المبارک کے روزے عمدا نہ رکھے ھوں ، اس نے گناہ کیا ہے، اس کے علاوہ اسے ہر دن کے لئے ایک بندہ آزاد کرنا ضروری ہے یا دو مہینے روزہ رکھے، یا ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے، یا ہر مسکین کو ایک مد طعام { تقریبا ایک کلو} یعنی گندم یا جو یا اس کے مانند دیدے،[3] اور اس کے علاوہ جو روزہ نہیں رکھا ہے، اسے بھی قضا کے طور پر رکھے- اس قسم کا شخص کسی صورت میں اس شخص کے مانند نہیں ھو سکتا ہے، جس نے اطاعت و بندگی کے طور پر اپنے فرائض انجام دئے ہیں- اس قسم کے افراد کی سب سے بڑی مشکل پروردگار عالم کے احکام کے مقابلے میں جرآت و جسارت اور عدم خضوع ہے- بالکل اس شخص کے مانند جو انسانی قوانین کی نافرمانی کر کے ریڈ لایٹ عبور کرتا ہے، اس پر اس کے لئے جرمانہ کیا جاتا ہے اور اس جرمانہ کی وجہ سے،اگر چہ کوئی دوسری سزا نہیں دی جاتی ہے، لیکن عام لوگوں اور قانون کی نظروں میں قانون شکن شمار ھوتا ہے- کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی وہ نمازیں اور روزے بجا لانا، جس نے ان اعمال کو عمدا ترک کیا ھو، بھی اسی قسم کا ہے- فرض کریں ایک شخص کے اعمال اس کے مرنے کے بعد بجا لائے جائیں ، یا کسی شخص کو اجرت دے کر اس کی نیت سےاعمال کو انجام دلائیں، تو کیا متوفی نماز کے مانند اعمال کے تمام منا فع و مصلحتوں تک پہنچ سکتا ہے؟ کیا اس کی حالت اس شخص کے مانند ھوگی، جو اپنی زندگی میں اپنے اعمال کو بندگی کے عنوان سے بجا لایا ھو؟ اگر چہ متوفی کے اعمال کو نیابت میں انجام دلانے سےمتوفی اس کے بعض منافع اور مصلحتوں تک پہنچ سکتا ہے، لیکن یہ ا سی جرمانہ کے مانند سزا ہے، جو انسانی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں، مجرم کے لئے معین ھوتی ہے اور یہ ہرگز اعمال کی خرید و فروخت کے معنی میں نہیں ہے- ظاہر ہے کہ جرمانے کچھ اور مصلحتوں کو حاصل کرنے کی غرض ھوتے ہیں-
نتیجہ:
الف} مذکورہ تقسیم بندی کے پیش نظر، جو انسان عام اور نا رمل حالات میں ھوتے ہیں، اگر اپنےفرائض نبھانے میں پہلو تہی سے کام لیں، تو اس مرحلہ میں ہرگز یہ لوگ ان افراد کے درجہ پر نہیں ہیں جنہوں نے خدا کے احکام کو اچھی طرح انجام دیا ہے-
ب} نماز، روزہ اور حج جیسے اعمال اور فرائض کو ہرشخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی کے دوران بجا لائے اور جب تک وہ زندہ ہے اس کے یہ اعمال و فرائض { حج کے بارے میں مذکورہ اضطراری حالت کے علاوہ}[4] دوسرے شخص کی طرف منتقل نہیں ھوتے ہیں اور ان اعمال کو عمدا ترک کرنے کی صورت میں، گونا گوں سزاوں کا مستحق ھوتا ہے – پس مکلف کی زندگی میں اعمال خریدنے کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے-
ج} روزہ کے مانند، بعض اعمال اگر عمدا ترک کئے جائیں ، تو خود اس عمل کو دہرانے کے علاوہ اس کا کفارہ بھی بجا لانا ھوتا ہے – بھوکوں اور حاجتمندوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلانا، صرف اس کی نافرمانی کا کفارہ ہے ، اور اصلی روزہ بجا لانا بدستور اس کے ذمہ ہے- اس بناپرچاہےجس قدر بھی انسان مال دار اور پیسے والا ھو، روزہ اور نمازوں کو خرید نہیں سکتا ہے-
د} جن اعمال کوکسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں بجا لایا جاتا ہے، اس کے بارے میں چند نکتے قابل ذکر ہیں: اولا: یہ کہ اس قسم کا شخص ہر گز اس شخص کے مانند نہیں ہے ، جو خدا کی اطاعت کے طور پران اعمال کو اپنی زندگی میں بجا لایا ھو-[5] ثانیا: یہ کہ اس قسم کا شخص اس کے بعض اعمال کو { اس کی موت کے بعد} نیابت میں انجام دینے سے اس عمل کے تمام منافع و مصلحتوں تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا ہے- ثالثا: یہ کہ یہ تلافی اسی جرمانے کے مانند ہے ، جو انسانی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں کسی شخص کے لئے معین کیا جاتا ہے اور یہ ہر گز اعمال کے خرید و فروخت کے معنی میں نہیں ہے-
اس بنا پر، اصلی قوانین کے ذیل میں بعض فرعی اور متبادل قوانین کا ھونا قانون پرمبنی ہر معاشرے میں ہر قانون ساز کے مد نظر ھونا قطعی ہے- اس قسم کے قوانین کا ھونا قانون سے نا جائز فائدہ اٹھانے کے معنی میں نہیں ہے- جو افراد غیر عمد طور پر اور کچھ غیر معمولی حالات کی وجہ سے اپنا فریضہ انجام نہیں دیتے ہیں، وہ ہر قانون کے لحاظ سے معذور ہیں، پس اگر کوئی شخص کسی قبل قبول دلیل کی بنا پر کسی مدت تک روزے نہ رکھ سکا اور اسی دوران فوت ھو گیا تو وہ ان افراد کے ما نند ہے ، جنھوں نےاپنے روزے قضا کئے ہیں ، اس فریضہ کے عدم انجام کی تلافی کچھ پیسے دے کرکرانا اور اس کے بدلے نیابت میں اس کے اعمال انجام دلانا کسی صورت میں عبادت کی سو دا بازی نہیں ہے- کسی شخص کی قضا ھوئی نمازوں کو اس کے مرنے کے بعد نیابت میں بجا لانے کا مسئلہ بھی اسی کے مانند ہے- لیکن اگر مکلف نے اپنا فریضہ عمدا ترک کیا ھو، تو اس کی زندگی میں کسی کے ذریعہ ان اعمال کو بجا لانا جائز نہیں ہے اور اگر اس کے مرنے کے بعد ان اعمال کی تلافی کی جائے، تو یہ عمدا ترک کئے گئے اعمال کے گناہ بخش دئے جانے کے معنی میں نہیں ہے- بہرحال اگر مکلف کی وفات کے بعد پیسے ادا کر کے اس کے قضا شدہ روزہ اور نمازیں بجا لائی جائیں، تو یہ صرف ان اعمال کی بعض مصلحتوں کو حاصل کرنا ہے نہ کہ سب منافع اور اس بنا پر کسی کے پاس چاہےجس قدر بھی پیسے ھوں وہ نمازیا روزوں کو خرید نہیں سکتا ہے اور ان سے بے نیاز نہیں ھو سکتا ہے-
[1] سميت الكَفَّاراتُ كفَّاراتٍ لأَنها تُكَفِّرُ الذنوبَ أَي تسترها { کفا رہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گناھوں کو چھپاتا ہے اور ان کی تلافی کرتا ہے} ملا حظہ ھو: لسان العرب ، ج ۵، ص: ۱۴۸-
[2] ملاحظہ ھو :الكافي ج ،3 ص 267، بَابُ مَنْ حَافَظَ عَلَى صَلَاتِهِ أَوْ ضَيَّعَهَا.
[3]توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج1، ص: 928.
[4] لوامع صاحبقراني، ج8، ص: 82، انّ امير المؤمنين صلوات اللَّه عليه امر شيخا كبيرا لم يحجّ قطّ و لم يطق الحجّ لكبره ان يجهّز رجلا يحجّ عنه).
[5] خدا وند متعال سورہ حدید کی آیت نمبر ۱۰ میں سختی اور مشکلات میں انفاق کرنے والوں اور آرام و آسائش میں انفاق کرنے والوں کے درمیان فرق بیان کرتے ھوئے ارشاد فر ماتا ہے:" اور تم میں سے فتح سے پہلے انفاق کرنے والا اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ھوسکتا ہے جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے – پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگر چہ خدا نے سب سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور وہ تمہارے جملہ اعمال سے باخبر ہے"-