Please Wait
11444
جنسی جبلّت ، انسان کی قوی ترین جبلّتوں میں سے ایک هے، جس کا انسان کی دوسری فطری جبلّتوں کے مانند صحیح صورت میں پورا کر نا ضروری هے ، کیونکه فطری جبلّتوں کو نابود نهیں کیا جاسکتا هے- اگر هم انھیں کچل دیں ، تو یه اقدام عاقلانه نهیں هوگا ، بلکه یه قانون خلقت کی مخالفت کر نے کے مترادف هے- اس لئے اس کا صحیح راسته یه هے که جبلّتوں کو معقول طریقے سے پورا کر نا چاھئے-
دوسری جانب سے بهت سے حالات میں بعض افراد ایک خاص عمر میں ازدواج دائم انجام دینے کی قدرت نهیں رکھتے هیں یا شادی شده افراد طولانی مسافرتوں کے دوران یا ماموریتوں کے دوران یا دوسری وجوهات کی وجه سے جنسی جبلتوں کو پورا نه کر نے کی عدم قدرت کی مشکلات سے دو چار هو تے هیں – اسلام نے معاشرے کو در پیش جنسی جبلتوں کی وجه سے پیدا شده مشکلات کو صحیح طریقه پورا کر نے کے لئے ایک بیوی سے ازدواج دائم کے علاوه خاص ضوابط کے تحت تعدد ازدواج دائم یا ازدواج موقت کی تجویز پیش کی هے-
اب اس کے پیش نظر که :
١- هم ایک ایسے خدا پر اعتقاد رکھتے هیں جو اپنے بندوں کے بارے میں همدرد اور مهر بان هے اور کسی بھی قانون کو بلا وجه وضع نهیں کرتا هے اور مختصر یه که اس کے قوانین مصلحتوں اور مفسدوں کی بنیاد پر هوتے هیں –
٢- ازدواج موقت اور تعدد ازدواج کو منع کر نے کے نتیجه میں معاشره اور فرد کو ناقابل تلافی نقصانات سے دو چار هو نا پڑتا هے- اسلام کے قوا نین چونکه الهی هیں اس لئے ازدواج موقت اور کئی بیویاں رکھنے کی تجویز کی گئ هے اور یه حق مرد کو دیا گیا هے ، اور اس کے لئے پهلی بیوی سے اجازت لینے کی شرط نهیں رکھی گئی هے که اگر یه حق مرد کےلئےمشروط هو تا تو عورتوں کے حساس هو نے کے پیش نظر ، که اغلب اپنے شوهر کے ازدواج مجدد کی مخالف هوتی هیں ، اس سلسله میں خدا وند متعال کے مد نظر مصلحت حاصل نهیں هوتی-
البته بعض فقها نے فر مایا هے که : " اگر کوئی مسلمان مرد کسی اهل کتاب عورت سے ازدواج موقت (متعه) انجام دینا چاهے اور دائمی مسلمان بیوی رکھتا هو، تو اس ازدواج موقت کے لئے اس مسلمان بیوی کی اجازت شرط هے-
جنسی جبلّت ان جبلتوں میں سے ایک هے جن کو خدا وند متعال نے انسان کو نعمت کے طور پر عطا کیا هے –اس جبلّت کو پورا کر نا بھی ایک طبیعی اور ضروری امر هے اور یه ان افراد اور مکاتب فکر کے خلاف هے جو رهبا نیت کی تر ویج کر تے هیں اور ان جبلّتوں کو کچلنا روحی مشکلات کے پیدا هو نے کا سبب بن جاتا هے – اسی طرح اس کو پورا کر نے میں افراتفری اور لا قانونیت اور افراط اور جنسی اشتراکیت بھی انسان کی خلقت کے مقصد کے خلاف هے – اس لئے مرد اور عورت کے در میان رابطه کے بهترین اور فطری ترین طریقه کار حسب ذیل هیں :
١- قانون پر مبنی ازدواجی زندگی کا پیوند- ٢- ایک بیوی- ٣- ازدواج دائم –
لیکن اگر خاص وجوهات کی بناپر ازدواج دائم ممکن نه هو اور اس کے لئے حالات ساز گار نه هوں یا ایک بیوی کے مسئله نے انسان یا معاشره کو خاص مشکلات سے دو چار کیا تو کیا ایسے حالات میں جنسی اشتراکیت اور غیر قانون روابط کی تر ویج کر نی چاهئے؟ یا ایسے اقدا مات انجام دینے چاهئے جو بعض عورتوں اور مردوں کی هوس رانی اور نا جائز فائده اٹھانے میں رکاوٹ بنیں اور ان حالات میں تعدد ازدواج یا ازدواج موقت کو قانونی شکل دینی چاهئے – یهاں پر دو طریقه کا ر پائے جاتے هیں :
١- اصلی اسلام کا طریقه کار ، جو رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کے توسط سے بیان هوا هے ، که اس کی بناپر کئی بیویاں رکھنا بھی جائز هے اور ازدواج موقت بھی ( قابل توجه بات هے که خاندان کی تشکیل کے سلسله میں ، ازدواج دائم اور ایک بیوی رکھنے کی همت افزائی کی گئی هے – لیکن اضطراری حالات اور تعطل سے بچنے کے لئے یه قانونی راهیں یعنی تعدد ازدواج اور ازدواج موقت کھلی هیں )
٢- وه طریقه کار جس میں ایک بیوی سے زیاده عورتوں کے ساتھـ تعلقات قائم کر نے کو قانونی شکل نهیں دی جاتی هے-
جنسی اشتراکیت یا آزادی اور جنسی بے راه روی ، مغربی ممالک میں اس طریقه کار پر عمل هو رها هے – اس کے باوجود که مغربی دانشوراور همدرد اعتراف کر تے هیں که از دواج موقت کے مانند ایک از دواج ایک اجتماعی ضرورت هے اور ازدواج موقت اور تعدد ازدواج کو منع کر نے کے نتیجه میں معاشره اور انسان کو ناقابل تلافی نقصانات سے دو چار هو نا پڑرها هے-
انسانی معاشره میں ،خاص کر آج کل کے حالات میں ، جنسی روابط کو دائمی ازدواج تک محدود نهیں کیا جاسکتا هے اور کوئی بھی حکو مت اور معاشره اس فطری ضرورت کو پورا کر نے میں روکاوٹ نهیں بن سکتا هے – لیکن اس ضرورت کو غیر شرعی راه سے اور زنا و فحشا کی تر ویج سے پورا کر نے کی اسلام تائید نهیں کرتا هے ، جسے آج کل اغلب انسانی معاشروں نے اپنایا هے یهاں تک که لڑکیوں اور عورتوں کی عصمت فروشی کے باضابط مرا کز قائم کئے گئے هیں – اس چیز کی اسلام تائید نهیں کرتا هے بلکه اس کی سختی سے مخالفت کرتا هے اور اسے عورتوں کی توهیں ، ان کے حقوق اور کرامت کو پائمال کر نا ، ان کی اجتماعی عفت و اخلاق کے خلاف اور خاندان کی نابودی کا سبب جانتا هے- اس لئے صرف ایک هی طریقه کار باقی رهتا هے ، جو قانونی وشرعی هے اور وه ازدواج موقت یا تعدد ازدواج کا طریقه هے- یعنی مرد اور عورتیں ایک مشخص اور شرعی قرار داد کے ذریعه ایک دوسرے کے اخلاقی وانسانی وشرعی حقوق کی رعایت کرتے هوئے آپس میں ایک عهد نامه کے ذریعه ازدواج کرتے هیں – لهذا توجه کرنی چاهئے از دواج موقت اور ازدواج دائم کے در میان فرق اس کی مدت اور زمانه میں هے که ازدواج موقت ایسے مواقع کا اهم ترین حل هے جن میں ازدواج دائم مشکلات کو حل نهیں کرسکتا هے یا متعدد مشکلات پیدا هوتے هیں –
اب اس نکته پر توجه کرتے هوئے که خداوند متعال اپنے بندوں پر مهر بان اور همدرد هے اور کسی قانون کو مصلحت کے بغیر وضع نهیں کرتا هے ، اسلام قوانین الهی بیان کر نے والا دین هے، بعض مصلحتوں کی بناپر متعدد بیویاں رکھنا اور یه حق شوهر کو دینا اپنی جگه پر بیان کیا گیا هے ، اس لئے ازدواج موقت اور کئی بیویاں رکھنے کا حق شوهر کو دیا گیا هے [1]– اور اس حق سے استفاده کر نے کے لئے شوهر کے لئے اپنی بیوی سے اجازت لینے کی رعایت نهیں کی گئی هے[2]، کیونکه اگر یه حق شرط کے ساتھـ دیاجاتا، تو اس موضوع کے سلسله میں عورتوں کی حسا سیت اور نسوانی جذبات کے پیش نظر ، که اغلب اپنے شوهر کے مجدد ازدواج کی مخالف هوتی هیں ، خداوند متعال کی مصلحت فوت هو جاتی – البته بعض فقها نے فر مایا هے : " اگر کوئی مسلمان مرد کسی اهل کتاب عورت سے ازدواج موقت کرنا چاهے ،اور اس کی دائمی مسلمان بیوی هوتو اس ازدواج موقت کے لئے اس مسلمان بیوی کی اجازت شرط هے- [3]
[1] -مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے ملاحظه هو : عنوان : جواز تعدد زوجات (چند همسری )برای مردان ،سوال ٦33-
[2] - اس لئے فقها نے فر مایا هے که عورت اپنے شوهر کو اس حق سے روک نهیں سکتی هے ، امام خمینی ، استفتاات ،ج٣،ص ١٠٠ ، سوال ٥٥-
[3] - ملاحظه هو : صراط النجاۃ ، تبریزی ، شیخ جواد ، ج٢،ص٢٧٠ : سوال نمبر ١٢٠٩ سے مربوط عنوان : ازدواج موقت با زنان اهل کتاب-