Please Wait
12366
مکتب شیعہ، دوسرے مکاتب فکر کے مانند پوری تاریخ میں افراط و تفریط کے حوادث سے دوچار رہا ہے- ان حوادث نے شیعوں اور ان کے ائمہ اطہار{ع} کے لئے غلات، مقصرہ اور نواصب جیسے ناموں سے گونا گوں مشکلات پیدا کئے ہیں-انھوں نے گمراہ عناصر کو مسترد کرنے اور ایسے حوادث کو ایجاد کرنے والوں کے منصوبوں کو طشت از بام کرنے اور مسلمانوں خاص کر شیعوں کے درمیان اصلی عقاید کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے مقام و منزلت کو بیان کرکے اپنے پیرووں کو اعتدال اور میانہ روی کی فہمائش کی ہے- شیعہ علماء نے بھی ائمہ اطہار{ع} کی کرامتوں اور خصوصیات کو بیان کرکے غلات کی تکفیر کی ہے اور ان کے غلو پر مبنی نظریات کو مسترد کیا ہے-
دینی پیشواوں کے بارے میں "غلو" کا مسئلہ، ادیان الہی میں گمراہی اور انحرافات کا سب سے اہم سر چشمہ رہا ہے- غلو میں ہمیشہ ایک بڑا عیب اور نقص ھوتا ہے اور وہ دین کی بنیاد یعنی خداپرستی اور توحید کو تباہ و برباد کرنا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے غلات کے بارے میں شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور" عقائد" اور " فقہ" کی کتابوں میں غلو کا بدترین کفر کے عنوان سے تعارف کرایا گیا ہے-[1]
دین میں غلو کرنا، دین سے انکار کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ دین میں غلو کا نقصان دین کے انکاراور نقض سے کم تر نہیں ہے- بعض اوقات، دین میں غلو بہت سے لوگوں کے متنفر ھوکر دین سے منہ موڑ نے کا سبب بن جاتا ہے، کیونکہ ان کی پاک فطرت غلو کی آلودگیوں اور ملاوٹوں کو قبول نہیں کرتی ہے- پھر ان آلود گیوں اور ملاوٹوں کا انکار کرتے ھوئے خود دین سے بھی انکار کردیتے ہیں-
مثال کے طور پر، عیسائیوں کا حضرت عیسی{ع} کے بارے میں غلو کرنا مسیحیت سے دانشوروں اور متمدن افراد کے دور ھونے اور رسالت کے انکار کا سبب بنا، کیونکہ وہ اپنی پاک فطرت سے سمجھ چکے تھے کہ انسان کی الوہیت کا ایمان ایک پست ایمان ہے- اس لحاظ سے انہوں نے اس ایمان کی پستی پر کفر کو ترجیح دی اور خود کو یہ تکلیف نہیں دی کہ خرافات کو دین کی حقیقت سے جدا کرتے-
مختلف ادیان کے بارے میں تحقیق سے ہمیں ان ادیان میں بعض غالیانہ نظریات کے بارے میں معلوم ھوتا ہے- قرآن مجید اس موضوع کے بعض مطالب کے بارے میں اشارہ کرتا ہے اور انسانوں کو غلو سے پرہیز کرنے کی فہمائش کرتا ہے-[2]
دین اسلام بھی، دوسرے ادیان کے مانند اس خطر ناک آفت سے دوچار ھوا ہے- پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد پہلی غلو آمیز بات آنحضرت{ص} کے بارے میں کی گئی- اس کے بعد مختلف ادوار میں مسلمانوں میں ایسے گروہ پیدا ھوئے، جو غالیانہ نظریات کی ترویج کرتے تھے- ان گروھوں کی بڑی کوشش شخصیتوں اور سیاسی و دینی رہبروں کو انسان سے بالاتر امتیاز بخشنا تھی- ان کوششوں کے مختلف محرکات اور اسباب تھے۔ ہم ذیل میں ان کی طرف اشارہ کریں گے:
۱- امویوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور اہل بیت{ع} کی نسبت ان کی شدید دشمنی اور کینہ و عناد کی وجہ سے اور ان کی حمایت سے سیاسی کشمکش اور دینی مناقشات کا ایک سلسلہ شروع ھوا- ایسے واقعات پیدا کرنے والے ایک جانب، اپنے قائدین کے بارے میں غالیانہ تفکرات کی ترویج کرتے تھے[3] اور دوسری جانب، شیعوں کے اماموں، خاص کر حضرت علی{ع} کے بارے میں اظہار عداوت حتی کہ لعنت بھیجنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے- یہ انتہا پسند حالات ، جو اہل سنت مورخین کی تعبیر میں نواصب کے نام سے مشہور ھوئے،[4] شیعوں میں رد عمل کا سبب بنے- اس دوران اسی ردعمل کے نتیجہ میں اہل بیت {ع} کے بعض پیرووں نے افراط کا راستہ اختیار کیا اور اماموں کے دفاع میں کچھ ایسی باتیں کرنے لگے، جو غیر اسلامی تفکر پر مبنی تھیں، اور اس طرح اماموں کو فوق بشر مقام و منزلت دینے لگے-
۲- ائمہ اطہار{ع} کے اطراف میں موجود بعض افراد کی جاہ طلبی اس امر کا سبب بنی کہ افراط سے دوچار یہ افراد اپنے لئے اجتماعی مقام و منزلت پیدا کرنے کے لئے اماموں{ع} کے بارے میں غلو کا سہارا لیں، یعنی امام کے لئے خدائی کے قائل ھو جائیں تاکہ خود اس کا نمایندہ اور مبعوث شدہ بن جائیں-
۳- دین مبین اسلام، بہت سے قوانین اور احکام پیش کرکے بعض ایسے افراد کے لئے محدودتیں پیدا کرنے کا سبب بنا تھا جو کسی قید و شرط کے بغیر مطلق آزادی کے خواہاں تھے- اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے مذکورہ قوانین کے دائرے سے خارج ھونا ضروری تھا، لہذا بعض افراد کے بارے میں غلو کرنا اور انھیں الوہیت کی صفات بخشنا ان افراد کے ذریعہ شریعت کو لغو و منسوخ کرنے اور ان کے اپنے اس کام کو جائز جاننے کی توجیہ کرنے کا سبب بنا-[5]
اسی طرح دین کا غلط دفاع، دین کو روزی کمانے کا وسیلہ قرار دینا، حد سے زیادہ عشق و محبت، دین میں فساد کا رواج اور حکومت وقت کی طرف سے شیعہ مکتب فکر کی مخالفت کو غلو پیدا ھونے کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے-
غلات کے اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے طریقہ کار میں ایک اپنے مقاصد کے حق میں روایتیں جعل کرکے انھیں اماموں {ع} سے نسبت دینا تھا-[6]
اس مقصد کے لئے وہ خاص طریقوں سے استفادہ کرتے تھے- ان طریقوں میں سے ایک " دسیسہ" تھا، یعنی بعض روایتوں کو جعل کرکے شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں بڑی چالاکی سے درج کرتے تھے- اس طریقہ کار کو انجام دینے والے افراد میں ایک مغیرہ بن سعید تھا، جو امام باقر {ع} کا شاگرد تھا- امام صادق {ع} نے، امام باقر {ع} کے صحابیوں کی کتابوں میں غالی روایتوں کو درج کرنے کے بارے میں اس شخص کی ریشہ دوانیوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے اس پر لعنت اور نفرین کا اظہار کیا ہے-[7]
امام رضا{ع} ابوالخطاب جیسے بعض غلات کی روایتوں کے جعلی ھونے کے بارے میں اشارہ کرتے ہیں- امام {ع} ابو الخطاب پر لعنت بھیجنے کے بعد اس قسم کی روایتوں کو قبول نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں-[8] اس قسم کے واقعات، اماموں{ع} کی مخالف حکومتوں کے لئے اچھے بہانے تھے تاکہ اس قسم کی باتوں کا سہارا لے کر شیعوں پر کفر و شرک کا الزام لگائیں اور ان کے اماموں {ع} پر سختی کریں اور شیعوں کو کچل کے رکھدینے کی توجیہ کریں-
ائمہ اطہار {ع} بھی معاشرہ پر حاکم حالات کا ادراک کرکے اپنے شیعوں کو ایسے افراد کی پیروی سے اجتناب کرنے کی فہمائش کرتے تھے اور ہمیشہ اس قسم کے گمراہ کن اقدامات سے مبارزہ کرتے تھے اور مختلف طریقوں سے ، من جملہ ان کی " مذمت" اور " لعنت"[9] کرکے انہیں جھٹلاتے تھے-[10] اور اس طرح شیعوں کو ان غالیوں کے دام میں پھنس کر گمراہ ھونے سے بچاتے تھے- لیکن ائمہ اطہار {ع} اور ان غلات کے درمیان مبارزہ کبھی اس حد تک بڑھتا تھا کہ امام {ع} کی طرف سے کسی غالی کو قتل کرنے کا بھی حکم صادر ھوتا تھا، اس سلسلہ میں امام ہادی {ع} کے حکم سے، فارس بن خاتم کو قتل کرنے اور اس کے قاتل کو بہشت کی ضمانت دینے کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے-[11]
قابل توجہ بات ہے کہ تمام ادیان و مذاہب میں رہبروں کے بارے میں غالیانہ نظریات مختلف صورتوں میں مختلف دلائل کی بنا پر پیش ھوتے رہے ہیں- خلیفہ دوم [12]کے بارے میں غالیانہ نظریہ اور عمر کے پیغمبر اکرم {ص} پر برتری کی موافقت،[13] اس قسم کے نمونے ہیں جو اہل سنت کی کتابوں میں درج ہیں-
غلات کے بارے میں ائمہ اطہار {ع} کا نظریہ:
اگر ہم شیعوں کی صحیح روایتوں میں تلاش و کوشش کریں اور ان گمراہیوں کے بارے میں اہل بیت {ع} کے بیانات پر قدرے غور کریں تو معلوم ھوگا کہ شیعوں کے اماموں {ع} کے برابر کسی نے ان گمراہ کن نظریات کا مقابلہ نہیں کیا ہے-
امیرالمومنین {ع} فرماتے ہیں:" میں خداوند متعال سے غلات کے بارے میں اسی طرح برائت طلب کرتا ھوں، جس طرح حضرت عیسی {ع} نے نصاری سے برائت چاہی تھی- خداوندا؛ انہیں ابد تک ذلیل و خوار کرنا اور ان میں سے کسی کو بھی کامیاب نہ کرنا"-
امام صادق{ع} غلات اور ان کے طرز تفکر کے بارے میں فرماتے ہیں: " اپنے جوانوں کو غلات سے محفوظ رکھو کہ انہیں گمراہی کی طرف نہ لے جائیں- بیشک غلات انتہائی شر پسند مخلوق خدا ہیں- وہ خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور خدا کے بندوں کے لئے ربو بیت کے قائل ہیں-"[14]
مزید فرماتے ہیں:" کم ترین چیز جو انسان کو ایمان سے خارج کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کسی غالی فرد کے پاس بیٹھے اور اس کی باتوں کو سن لے اور اس کی تصدیق کرے"- اس کے بعد فرماتے ہیں:" میرے باپ نے میرے جد رسول خدا{ص} سے نقل کیا ہے کہ: میری امت میں دو گرھوں یعنی غلات اور قدریہ کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا"-[15]
ایک روایت میں امام رضا {ع} سے غلات و مفوضہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرما یا:" غلات کافر ہیں اور مفوضہ مشرک، جو شخص ان کے ساتھ ہم نشینی کرے یا ان کے ہاتھ کھائے پئے اور یا انھیں عورت دیدے یا ان سے عورت لےلے- - - اور ایک لفظ سے ان کی پشتیبانی کرے وہ خدا و رسول خدا {ص} اور اہل بیت {ع} کی ولایت سے خارج ھوا ہے-[16]
غلو کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ:
غلات کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ اور عقیدہ جاننے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شیعوں کی رجالی کتابوں، جیسے: " رجال کشی"، " نجاشی" ، علامہ حلی، غضائری وغیرہ کی طرف رجوع کریں تاکہ اس گمراہ شدہ سلسلہ کے بارے میں علمائے شیعہ کے برتاو سے آگاہ ھوجائیں-
شیعوں کے سب سے بڑے عالم دین شیخ مفید ، شیخ صدوق کے عقائد پر شرح کے سلسلہ میں کلمات " غلو" اور " تفویض" کے بارے میں خاص کر " غلو" کے بارے میں کہتے ہیں:
" غلات اسلام کا تظاہر کرتے ھوئے، امیرالمومنین {ع} اور آپ {ع} کی نسل کے اماموں{ع} کو خدا اور پیغمبر ھونے کا انتساب کرتے ہیں اور دین و دنیا میں ان کی برتری کی بات کہتے ہیں کہ انھوں نے حد سے تجاوز کیا ہے- اس قسم کے لوگ کافر، گمراہ ہیں اور امیرالمومنین {ع} نے انھیں قتل کرنے اور آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا ہے- اس کے علاوہ اماموں {ع} نے بھی انھیں کافر ھونے اور اسلام سے خارج ھونے کا حکم دیا ہے"-[17]
شیعہ فقہا نے بھی اپنی فقہی تو ضیح المسائل اور علمی رسالوں میں، طہارت جیسے مسائل کے مباحث میں غالیوں کو خوارج اور نواصب کے ساتھ ذکر کرکے ان کے نجس ھونے کا فتوی دیا ہے-[18]
مذکورہ مطالب کے پیش نظر اور بعض ذکر شدہ روایات کے مطابق ، ائمہ اطہار {ع} کے بارے میں غالیوں کے تفکرات اور انھیں الوہیت کا درجہ دینا پوری تاریخ میں مذکورہ دلائل کے پیش نظر مسلمانوں کے درمیان اور بعض کتابوں میں موجود رہا ہے- لیکن اس قسم کے مضامین پر مشتمل روایتوں کی شیعہ علماء میں سے کسی نے تائید نہیں کی ہے- اسی وجہ سے شیعہ علماء ایسی روایتوں کے بارے میں کہ جن میں ائمہ اطہار {ع} کی الوہیت بیان کی گئی ہے اور جو قرآن مجید کی صریح نص اور ائمہ {ع} کی روایتوں سے ٹکراو رکھتی ہیں، کے صحیح نہ ھونے کا حکم دیتے ہیں اور اس قسم کی روایتوں کو نقل کرنے والوں کو غالی جانتے ہیں-
انبیاء اور ائمہ اطہار {ع} کے مخلوق ھونے کی قرآن مجید اور روایتوں میں تاکید:
قرآن مجید نے مختلف مناسبتوں سے انبیاء کے انسان ھونے کا اشارہ کیا ہے اور ہمیں ان کے بارے میں غلو کرنے سے روکا ہے-[19] اور انبیاء{ع} کا دوسرے انسانوں کے مانند مخلوق[20]، اور انسان[21] ھونے کا تعارف کرایا ہے-
پیغمبر اسلام {ص} اور شیعوں کے اماموں {ع} نے بھی ہمیشہ اپنے مخلوق ھونے اور بارگاہ الہی میں اپنی نیازمندی و عجز کی تاکید کی ہے- پیغمبر اسلام {ص} فرماتے ہیں: " ہم خداوند متعال کے مخلوق اور مربوب ہیں، اس کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کی نفی سے اکتاتے ہیں-[22]
امام صادق {ع} ایک روایت میں اپنے پدر بزرگوار کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:" رات کو میں اپنے والد کے لئے بستر ڈالتا تھا اور انتظار کرتا تھا کہ وہ آکر آرام فرمائیں – جب میرے والد بستر پر جاتے تھے تو میں لوٹ کر اپننے بستر پر جاتا تھا- ایک رات میرا انتظار طولانی ھوا، میں اضطراب کی حالت میں مسجد میں گیا، کسی کو مسجد میں نہیں پایا، اس وقت سب لوگ سوئے ھوئے تھے- اچانک میری نظر مسجد کے ایک کونے میں اپنے والد پر پڑی، جو سجدہ کی حالت میں تھے،اور نالہ وزاری کرتے تھے اور کہتے تھے:" پاک و مقدس ھو اے پروردگار؛ تو میرا برحق پروردگار ہے- میں تیرے دروازے کی خاک پر پڑا ھوں، میرے مولا- خداوندا؛ میری بندگی حقیر اور قلیل ہے، میری جزا میں اضافہ فرمانا- خداوندا؛ قیامت کے دن جب تو اپنے بندوں کو مٹی سے اٹھائے گا تو، مجھے دوزخ کے عذاب سے بچانا، خداوندا؛ میرے ساتھ دوستی رکھنا کہ تو دوستی پسند اور مہربان ہے"-[23]
اس طرح امام صادق {ع} نے ایک شخص، جو آپ [ع} کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھتا تھا، کے جواب میں فرمایا:" ہم بندے اور مخلوق ہیں کہ خدا کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں"-[24] یا یہ فرماتے ہیں :" خدا کی قسم ہم بندے اور مخلوق ہیں اور ہمارا ایک خدا ہے جس کی ہم عبادت کر[25]تے ہیں اور اگر ہم اس کی عبادت نہ کریں تو وہ ہمیں عذاب سے دو چار کرے گا"-[26]
ائمہ {ع} کے بارے میں تقصیر:
جو کچھ اب تک بیان ھوا، وہ ائمہ اطہار {ع} کے سلسلے میں غلو سے متعلق شیعوں کے ائمہ اطہار{ع} اور علماء کی طرف سے اس نظریہ کو جھٹلانے کے بارے میں تھا- لیکن ایک اور نظریہ بھی ائمہ اطہار{ع} کے مقام و منزلت کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے، جو" تقصیر" کے نام سے مشہور ہے اور اس نظریہ کے قائل افراد کو " مقصرہ" کہا جا تا ہے- اس نظریہ کے مطابق، غلات کے نظریہ کے بر عکس، ائمہ اطہار{ع} کے مقام و منزلت کو گھٹا کر انھیں عام انسانوں کے برابر قرار دیا جاتا ہے- شیعوں کے ائمہ اطہار {ع} اور علماء نے اس نظریہ کی بھی مخالفت کی ہے اگر چہ وہ غلات کے نظریہ کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں-[27]
حقیقت میں ائمہ {ع} کے مخالفین نے ان دونوں طریقوں، یعنی "غلو" اور " تقصیر" سے استفادہ کرکے اور ان دو نظریوں کے مخالفین کی مذمت میں روایتیں گڑھ کے شیعوں اور ان کے اماموں{ع} کے اصلی چہرہ کو مشکوک کرنے کی کوشش کی ہے-[28]
ائمہ اطہار {ع} کے مقام و منزلت کے بارے میں شیعوں کا اصلی نظریہ:
ائمہ اطہار{ع} نے ہمیشہ اپنے شیعوں کو مختلف مسائل خاص کر مذکورہ موضوعات کے بارے میں اعتدال کی پالیسی اپنانے کی تاکید کی ہے-[29] بعض روایتوں میں ائمہ اطہار {ع} کے مقام و منزلت کی کیفیت اور ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں-[30] شیعہ علماء بھی عقلی اور نقلی دلائل پر مبنی انبیاء {ع} اور ائمہ اطہار {ع} کی خصوصیات کو ثابت کرتے ہیں، کہ ان خصوصیات میں سے ہر ایک ان افراد کے مقام و منزلت کا لازمہ ہے، جیسے انبیاء و ائمہ اطہار {ع} کی عصمت اور یا ان کے علم لدنی کی قرآن مجید اور روایتوں میں تائید کی گئی ہے اور اسی طرح عقل بھی انھیں قبول کرتی ہے-
شیعہ علماء کی نظر میں ، ائمہ اطہار{ع} صاحب کرامت ہیں اور دوسرے تمام انسانوں کی بہ نسبت برتری رکھتے ہیں- ان کرامتوں میں سے بعض ، شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں درج کی گئی ہیں- اہل سنت کی کتابوں میں بھی ان کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، جیسے، پیغمبر اکرم {ص} کی طرف سے حضرت علی {ع} اور اہل بیت {ع} کے بارے میں بیان کئے گئے فضائل-[31] غلو کی بحث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ غالیوں اور غیر غالیوں کی حدود کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، یعنی جو بھی چیز ہم سن لیں اور احیانا اس کو ادراک کرنے میں نا کام رہیں یا ہمارے نظریہ سے ٹکراو رکھتی ھو، ہمیں اسے غلو نہیں سمجھنا چاہئے- ممکن ہے بہت سی کرامتیں، پہلی اور عام نظر میں خلاف حقیقت معلوم ھوں لیکن تھوڑی سے دقت اور غور کرنے کے بعد انھیں عقل و احادیث اور قرآن و سنت کی بنیادوں پر پایا جاسکتا ہے- لہذا مناسب ہے کہ اعتقادی مسائل کے بارے میں ، مذہبی تعصبات سے بالاتر رہ کر پیغمبر اکرم {ص} اور ائمہ اطہار {ع} کے بارے میں غالیانہ نظریات کو ان کے فضائل اور کرامتوں سے مخلوط نہ کریں-
اس بنا پر قابل غور ہے کہ جو چیز ہمیں غلو سے دور رکھتی ہے، وہ اس نکتہ پر غور کرنا ہے کہ ائمہ اطہار {ع} ان تمام مقام اور عظمتوں کے باوجود خدا کے بندے ہیں اور ان کے یہ سارے فضائل، کرامتیں اور مقام اور منزلتیں خدا کے اذن سے اور اس کے ہی سائے میں ہیں- وہ جس طرح اپنی ذات میں خداوند متعال کے محتاج ہیں، اپنی صفات میں بھی اس کے محتاج ہیں اور بذات خود آزاد نہیں ہیں، اس بناپر، ان کی توانائیوں کو ثابت کرنا، توحید سے منافات نہیں رکھتا ہے، بلکہ توحید کی تائید ہے-
[1] مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج 25، ص265، نرم افزار جامع الاحادیث.
[2] نساء، 171.
[3] قزوینی، زکریا بن محمد، احسن التقاسیم، ج 2، ص 596 ،امیر کبیر، تهران، طبع اول، 1373 ھ ش.
[4] زرکلی، خیر الدین الاعلام، ج 3، ص 180، بیروت دار العلم، چاپ هشتم، 1989 م؛ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البداية و النهاية، ج 8، ص 202، بیروت، دار الفکر، 1404 ھ.
[5] صدوق، محمد بن حسن، عللالشرائع، ج 1، ص 227، انتشارات حیدریه، نجف اشرف، 1386 ھ.
.[6] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشيعة، ج 16، ص 181، مؤسسۀ آل البيت لإحياء التراث، قم،طبع اول، 140ھ
[7] کشی، محمد بن عمر، رجال الكشی، ص 225، انتشارات دانشگاه مشهد، 1348 ھ.
[8] ایضا، ص 224، انتشارات دانشگاه مشهد، 1348 ھ.
[9] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشيعة، ج 28، ص 348.
[10] نوری، حسین، مستدرك الوسائل، ج 12، ص 315، مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم،طبع اول. 1408 ھ.
[11] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشيعة، ج 15، ص 124.
[12] ابن كثير دمشقى، اسماعيل بن عمر، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 295 ، دار الكتب العلمية، منشورات محمدعلى بيضون،بیروت،طبع اول 1419ھ.
[13] حقى بروسوى، اسماعيل، تفسير روح البيان، ج 3، ص 37، دار الفکر بیروت.
[14] طوسى، محمد بن حسن، الأماليللطوسي، ص 650، انتشارات دارالثقافة، قم،چاپ اول، 1414.
[15] ص دوق، محمد بن علی، الخصال، ج 1، ص 72، انتشارات جامعه مدرسين حوزه علميه قم، طبع دوم، 1403ھ.
[16] صدوق، محمد بن علی، عيون أخبار الرضا(ع)، ج 2، ص 203، انتشارات جهان، 1378 ھ.
[17] مكدرموت مارتین- ترجمه احمد آرام،انديشه هاي كلامي شيخ مفيد، ص 153.
[18] حلى، علامه حسن بن يوسف، قواعد الأحكام في معرفة الحلال و الحرام، ج 1، ص 192،دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم،طبع اول 1413 هـ .
[19] ابراهیم ،11.
[20] آل عمران، 59.
[21] کهف، 110.
[22] حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشيعة، ج 4، ص 302، مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم،طبع اول 1409 ھ
[23] کلینی، محمد بن یعقوب، الكافي، ج 3، ص 323، دار الكتب الإسلامية، تهران، چهارم،1365 ھ ش
[24] راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، ج 2، ص 637، مؤسسه امام مهدى (عج) قم، طبع اول، 1409
[25] شهرآشوب، محمد، المناقب، ج 4، ص 219، مؤسسه انتشارات علامه - قم ،1379ھ.
[26] طوسى محمد بن حسن، امالي طوسي، ص 650، انتشارات دارالثقافة، قم، چاپ اول، 1414 ھ.
[27] صدوق، محمد بن علی، عيون أخبار الرضا(ع)، ج 1، ص 303 ، انتشارات جهان، 1378
[28] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 8 ص 70، مؤسسة الوفاء، بيروت، لبنان 1404 ھ.
[29] راوندی، قطب الدین، الخرائج و الجرائح، ج 2، ص 735، مؤسسه امام مهدى (عج)، قم،طبع اول، 1409
[30] طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر،ج 3 ص 41، 50، 56، 108، مکتبة العلوم و الحکم، موصل، چاپ دوم، 1404 ھ .
-سيوطى، جلال الدين، الدر المنثور في تفسير المأثور، ج 2، ص 6، كتابخانه آية الله مرعشى نجفی، قم ، 1402ھ
[31] اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو: ترخان، قاسم، نگرشی عرفانی، فلسفی و کلامی به شخصیت و قیام امام حسین (ع)، چلچراغ، طبع اول، 1388ھ ش