Please Wait
13540
قرآن مجید میں " کتاب مبین" علم الهی کا ایک مرحله هے جو افعال الهی کے صادر هو نے کا سبب هوتا هے اور تخلیق سے پهلے اور اس کے دوران اور اس کے بعد موجود هو تا هے اور هر مخلوق کی پیدائش سے پهلے والے مراحل اور ان پر حوادث کے تحولات اور ان کے عدم کے بعد آثار کو درج کر کے انھیں تحفظ بخشتا هے – لهذا اس کو دوسرے عناوین جیسے " لوح محفوظ" ، "ام الکتاب"، " امام مبین" اور "کتاب حفیظ" سے بھی یاد کیا گیا هے جن میں سے هر ایک عنوان ایک خاص اعتبار سے اس پر لاگو هوتا هے –
اس لئے اگر چه ، بعض دوسری آیات میں یه، لفظ "وحی"اور "نزول" وغیره کے همراه هے- لیکن کتاب مبین یهی قرآن مجید هے – البته اس آیه کریمه ( انعام/ ٥٩) اور اس کے مانند دوسری آیات میں ، اس سے قرآن مجید ، مراد نهیں هے ، اگر چه قرآن مجید بھی اس جگه پر معنی لئے گئے ھیں۔
"رطب" و "یابس" (خشک وتر) دومتنا قض چیزیں هیں،که تمام مخلوقات ایک صورت میں ان دو میں سے ایک کے تحت درج هیں ,اس لئے یه تعبیر تمام موجودات کے بارے میں کنایه هو سکتی هے,پس آیه کریمه تمام مخلوقات، کی پیدائش سے پهلے ، پیدادئش کے بعد حتی که ان کی ظاهری نابودی کی نسبت علم الهی کی عمومیت بیان کرتی هے اس لئے رطب و یابس (خشک وتر) کسی خاص مخلوق کی طرف اشاره نهیں هے-
یه آیت علم الهی کے مراحل اور اس کی عمومیت کے بارے میں ایک اشاره هے- جبکه علم الهی اور اس کے مراحل ، اسلامی محققین کے در میان پیچیده ترین ، هنگامه بر پا کر نے والے اور اختلافات سے بھرے اعتقادی مسائل هیں ، اس حد تک که بعض اقوال کے در میان جمع انتهائی مشکل هے – اس لئے ملا صدرا اس سلسله میں لکھتے هیں :" علم الهی کی معرفت حاصل کر نا انسان کے عالی ترین کمالات میں سے هے اور ان کو حاصل کر نا انسان کے لئے مقدسین سے آگے بڑھنے کا سبب بن جاتا هے – بلکه اسے تمام ملائکه مقربین سے بھی آگے لے جاتا هے, لیکن ان کو سمجھنا اور اس کا ادراک کر نا اس قدر پیچیده اور مشکل هے که اس میدان میں بوعلی سینا اور شیخ اشراقی جیسے بهت سے علماء کے قدم بھی ڈگمگائے هیں- جب ان دو شخصیتوں کے فلسفه میں اس قدر هوش و ذکا وت اور تبحر هو نے کے باوجود ایسی حالت هے، تو دوسروں کی کیا حالت هوگی ، جو نفسانی خواهشات ، اور بد عتوں سے دو چار هو تے هیں یا علم کلام اور گفتگو میں جنگ و جدل کرنے والے هو تے هیں ؟! بیشک ایسے لوگ بدترین گمراهی سے دو چار هوئے هیں اور انهوں نے بدترین نقصان اٹھایا هے –" ...[1] اس لئے علم الهی کی کیفیت اور اس کے مراحل کے بارے میں مشکل سے ھی کوئی صحیح اور مناسب نظریه قائم کیا جاسکتا هے – پس یهاں پر اپنی بے بسی کا اعتراف کر نا چاهئے اور ذات و صفات الهی کی حقیقت کو پانے کے سلسله میں اپنی شکست کا اعتراف کرتے هوئے اس میں بے جا غور و خوض کر نے سے اجتناب کر نا چاهئے !بهرحال محققین اور تجسس کر نے والوں کے کلام سے استفاده کر تے هوئے علم الهی کو مندرجه ذیل مراتب اور مراحل میں ملاحظه کیا جاسکتا هے:
١- ذات، صفات ذاتیه اور اسمائے ذاتیه کا علم : (یه وه مقام غیب الغیوب هے که جو کسی بھی انسان کے لئے مشهود نهیں هوتا هے)
٢-اقتضائے ذات کے مطابق علم ذات: اسے تخلیق سے پهلے مخلوقات کے بارے میں کلی اور اجمالی علم کها جاتا هے – ( اجمالی اس معنی میں که ابھی ان کی حد ومقدار معین نهیں هوئی هے اور ایک دوسرے سے متمائز نهیں هیں)
٣- مخلوقات کے بارے میں تخلیق سے پهلے تفصیلی علم ، تخلیق کی ابتدا سے قیامت کبری تک جاری رهنے کا تفصیلی علم (تفصیلی اس معنی میں که مخلوقات کی حد و مقدار معلوم هے اور مراحل پیدائش اور اس میں تبدیلیاں رونما هوچکی هیں-)
٤- وه مخصوص علم جو فعل کے صادر هو نے اور اس کے محقق هو نے کا سبب بن جاتا هے اور یه علم بذات خود فعل کے پیدا هو نے کا منشا هو تا هے(علم عنایی)
٥- خلق هوئی مخلوقات، ان کے تمام تحولات اور تصورات ، ان کے ثبت وضبط کا علم- اس طرح که همیشه کے لئے محفوظ رهیں- اس پر کبھی بھول چوک اور سهو وخطا اور نابودی عارض نهیں هوتی هے-
٦- انسان کے حالات ، اعمال اور افکار کا اندراج جو ممکن هے کفر کے بعد ایمان یا گناه کے بعد توبه کے سبب محو ونابود هو جائیں اور یا اس کے برعکس ایمان کے بعد کفر یا اطاعت کے بعد گناه و بغاوت کے سبب نیست و نابود هو جائیں- اس کے علاوه انسان کے مرنے سے اس کے ریکارڈ کی فائل بند هو جاتی هے مگر یه که سنت حسنه وسنت سیئه هو اس صورت میں اس کے بعد بھی اس کا اثر باقی رهتا هے – چنانچه تمام مخلوقات کے تبدل اور انفعال کے بعد ان کی وجودی فائل بند هوتی هے اور محافظ خانه میں محفوظ رهتی هے ، اس لئے اس میں کسی قسم کا شک وشبه نهیں هے که هر مرحله اپنے پهلے مرحله سے نشات پاتا هے اور اس کا نتیجه هو تا هے-اور یه سب مراحل، خداوند متعال کے تمام مخلوقات پر اس کے وجودی اور قیومی تسلط اور ان کے تاثیر واثرات کے علاوه کچھـ نهیں هیں، بغیر اس کے که علوم میں وسائل اور آلات کا محتاج هو یا یه که کسی موقع پر میں اپنے آپ کو اس احاطه سے باهر نکال لے اور معلوم حق واقع نه هو جائے- اس لحاظ سے یه اعتبارات اور مرحله بندیاں ، تعلیم وتعلم کے مقام پر تعبیر کی تنگی اور محدودیت کی وجه سے پیش کی جاتی هیں تاکه انسان متوجه هو جائے که اس کے وجود، افکار و حالات اور کردار پر خدا وند متعال کی نظر هے اور سب کچھـ مو بمو درج هوتا هے اور کل قیامت کے دن اس کے نامه عمل کی صورت میں اسے پیش کیا جائے گا ، تاکه اس نظارت کے پیش نظر اپنی کار کرد گی کا خیال رکھے اور الهی تر بیت حاصل کرے اور خلیفه الله کے مقام پر فائز هو جائے-
بهر حال اسلامی فلسفه کی نظر میں پهلی اور دوسری قسم ، صفات ذاتی محسوب هوتی هیں اور عین ذات هیں اور هر قسم کے تغییر و تحول سے محفوظ هیں – اور باقی اقسام ، صفات فعلیه اور علم فعلی کے مرحله میں شمار هو تی هیں جو مخلوقات کے عینی تحقق میں دخیل هیں اور ان کے تغیرات و تبدلات سے متاثر هو کر مختلف قسموں میں منقسم اور متغیر هو تے هیں-[2]
چونکه علم الهی ، تمام مراحل میں ، شهودی اور حضوری اور خدا وند متعال کے وجودی اور قیومی تسلط سے نشات پاتا هے ، اس لئے علم فعلی کا متغیر ، منفعل اور متاثر هونا ذات الهی میں انفعال و تغیر کا سبب نهیں بنتا هے-[3] کیونکه تغیر علم کے نتیجه میں ذات کا انفعال ، انسان جیسی مخلوق سے مربوط هے که اس کے علوم حضوری و شهودی کے بجائے اکثر حصولی هوتے هیں! لیکن یه آیه کریمه ( سوره انعام/ ٥٩) فر ماتی هے:" اور اس کے پاس غیب کے خزانے هیں جنھیں اس کے علاوه کوئی نهیں جانتا هے اور وه خشک وتر سب کا جاننے والاهے – کوئی پته بھی گرتا هے تو اسے اس کا علم هے – زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانه یا کوئی خشک وتر ایسا نهیں هے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نه هو-"
آیت کا پهلا حصه : یعنی" اس کے پاس غیب کے خزانے هیں اس کے علاوه کوئی نهیں جانتا هے –" علم الهی کی پهلی دو قسموں کی طرف اشاره هے ، یعنی علم ذاتی ، که اس کے علاوه کوئی اس سے آگاه نهیں هے اور کسی کے پاس اسے ادراک کر نے کی صلاحیت نهیں هے- چنانچه سوره حجر کی آیت نمبر ٢١ اور اس کی مشابه دوسری ٦ آیات [4] میں "خزائن" کی یهی علم ذاتی تفسیر کی گئی هے- اس لحاظ سے غیب کے خزانوں ، سے مراد وهی مرحله ذات میں مقتضیات ذات هے-
لیکن آیت کا دوسرا حصه تخلیق کے بعد الله کے علم فعلی کی طرف اشاره هے- تمام موجودات کی عمومیت کے لحاظ سے فرماتا هے : خدا صحرا و دریا میں موجود هرچیز کا جاننے والا هے، اس کی تاکید فر مانے کے لئے ،زمین وآسمان میں مخفی چھوٹے دانه اور پته کے گرنے کی مثال پیش کرتا هے ،که وه بھی خدا کے علم سے مخفی نهیں هے – چنانچه سوره سباء کی آیت نمبر ٣میں فر ماتا هے:" وه عالم الغیب هے اس کے علم سے آسمان وزمین کا کوئی ذره دور نهیں هے اور نه اس سے چھوٹا اور نه بڑا بلکه سب کچھـ اس کی روشن کتاب میں محفوظ هے-" [5]
رطب و یابس (خشک وتر) دو نقیض هیں – یعنی بالآخر هر مخلوق ان دو میں سے کسی ایک کے تحت آتی هے اور ایک مخلوق ایک هی وقت میں دونوں کے لئے مصداق نهیں هوسکتی هے – پس اس آیه کریمه میں خشک وتر کے در میان جمع تمام مخلوقات کے بارے میں کنایه هے- دوسری جانب چونکه ایک مخلوق کبھی تر اور کبھی خشک هوسکتی هے ، اس لئے اس تعبیر کو عالم ماده میں پیدا هو نے والے تمام تحولات اور تغیرات کے بارے میں علم الهی کی طرف کنایه کے طور پر پیش کیا جاسکتا هے-
مبین کے معنی واضح وآشکار اور کسی قسم کے شک وشبهه و ابهام کے بغیر هونا هیں –
ملاصدرا رحمۃ الله علیه " کتاب" کی تعریف میں لکھتے هیں :" "کتاب" کو بیشک اس لئے کتاب کها جاتا هے که اس کے بعض حروف اور الفاظ آپس میں ضمیمه هو تے هیں لفظ "کتاب" کو " کتبه الجیش " سے لیا گیا هے – یعنی سپاهیوں کی آپس میں جمع هوئی ایک جماعت-"[6]
علم کے اس مقام کی تعریف میں وه لکھتے هیں :" حقیقت یه هے که ذات کے مرحله میں ، وهی اشیاء کے بارے میں علم الهی هے – یه وه علم هے جو امکان و تر کیب کی ملاوٹ سے پاک و منزه هے اور اس صورت میں هے که خدا وند متعال کے لئے عالم امکان میں موجود تمام مخلوقات مکمل صورت میں واضح اور منکشف هیں اور یهی امر ان کے خارج میں تخلیق هو نے کا سبب بن جاتا هے جواس کے لئے قصد رویت کا محتاج نهیں هے اور یه ایک ایسا بسیط علم هے جو واجب لذاته اورقائم بذاته هے اور دوسرے تفصیلی اور نفسی علوم کا خالق هے، اس بناپر یه علم خدا کی طرف سے هے ( اور اس کی ذات سے اھمیت پاچکا هے) نه یه که خداکی ذات کے اندر واقع هو-" [7]
ملاصدرا کی وضاحتیں سوره رعد کی آیت نمبر ٣٩ کی ذیل میں آئی هیں ، اس کے مشابه تفصیل سوره زخرف کی آیت نمبر ١سے ٤تک بھی آئی هے ، لیکن ام الکتاب ، لفظ " باقی" و "عنده" کے همراه هے، اس کے علاوه تمام مخلوقات کی تفصیلات ان کی حد و مقدار کا ان کی ذات کی عدم ترکیب سے، جس کی اس نے نفی کی هے، تطابق ے – اس کے علاوه جو وه تاکید کرتے هیں که علم ذاتی "عنه" هے نه که " منافات رکھتا هے-
پس یه کتاب مبین ، ام الکتاب ، لوح محفوظ ، لوح محو و اثبات ، امام مبین اور ان کے مانند تعبیرات ، اس عین ذات کے علم ذاتی کی طرف اشاره نهیں هو سکتا هے – کیو نکه ملا صدرا (رح) کی توضیحات کے مطابق وه علم ، امکان ، تر کیب، حد اور مقدار کی ملاوٹ سے پاک و منزه هو نا چاهئے اور همیشه"عنه" کی تعبیر کے ساتھـ هوتا هے اور تعبیر"فی" کے همراه نهیں هو نیچاهئے ، جبکه ان آیات میں مخلوقات کی تفصیلات کی طرف اشاره هوا هے ، حتی که کے گر نے ، اور مخلوقات کے خشک وتر هو نے تک کا اشاره هوا هے! اور یه تعبریں " عنده" اور "فی" کے همراه هیں –
اس لئے، اس سلسله میں علامه طباطبائی رحمۃالله علیه کی وضاحتیں زیاده فکر خیز ھیں۔
" چونکه غیبی خزانے اور کتاب مبین دونوں تمام مخلوقات کو شامل هیں، ان میں تفاوت نهیں هے اور لهذا کوئی مخلوق ایسی نهیں هے جس کے لئے خدا کے پاس ایک خزانه نه هو ، جس سے وه مدد حاصل کرے ، اسی طرح کوئی ایسی مخلوق نهیں هے جس کو کتاب مبین نے اس کی تخلیق سے پهلے ، تخلیق کے دوران اور اس کے بعد درج کر کے اس کا حساب و کتاب نه کیا هو ، صرف کتاب مبین کا درجه غیب کے خزانوں کی به نسبت پست تر هے، یهاں پر هر دانشورو مفکر کے لئے یه معنی واضح هوتے هیں که کتاب مبین صرف ایک کتاب هو نے کے باوجود (اس کا ایک حصه دوسرے حصه کے ساتھـ ملا هوا هے) صرف ایک (ساده) کاغذ اور لوح نهیں هے – مادی اوراق جس قدر بھی بڑے هوں اور جس طرح بھی ان کے بارے میں فرض کیا جائے ،( تمام مخلوقات اور حوادث کے درج کر نے کی ) گنجائش نهیں رکھتے هیں- ـ"[8] کتاب مبین سے مراد ایک ایسا امر هے که مخلوقات کے ساتھـ جس کی نسبت عمل کے پروگرام کے خود عمل کے مانند هے- اور اس کتاب میں هر مخلوق کا ایک اندازه و مقدار هے، صرف یه که خود یه کتاب ایک ایسی مخلوق هے جو هر مخلوق سے پهلے، هر مخلوق کے خلق هو نے کی حالت میں اور اس کے فنا هو نے کی حالت میں اور اس کے فنا هو نے کے بعد بھی موجود تھی اور موجود رهے گی-
یه ایک ایسی مخلوق هے،جو خدا وند متعال کے اشیاء کے علم پر مشتمل هے – وه علم جس میں بھول چوک اور حساب کو گم کر نے کی گنجائش نهیں هے –"[9] " مختصر یه که یه کتاب ، ایک ایسی کتاب هے، جس میں کائنات کی تمام مخلوقات کی گنتی کی گئی هے اور جوکچھـ تھا اور هے اور هوگا اس سب کا ایسے حساب کیاگیا هے که اس میں چھوٹی سی چھوٹی مخلوق بھی درج ھو ئے بغیر نهیں رهی هے-"[10]
خداوند متعال کے کلام میں اس کتاب کے مختلف نام هیں ، ان میں سے ایک "لوح محفوظ " یا "کتاب حفیظ "ے- ان میں سے دوسرا نام " ام الکتاب" اور تیسرا" کتاب مبین" اور چوتھا نام " امام مبین" هے که ان چار ناموں میں سے هر نام کے ساتھـ ایک مخصوص عنایت هے اور ممکن هے ان میں امام مبین کی عنایت اس لئے هو که خداوند متعال کے قطعی قضا وقدر پر مشتمل هے... اور سوره جاثیه آیت ٢٩ کی تفسیر کے مطابق نامه اعمال بھی ، اس کتاب سے سے لیا جاتا هے...[11] " لوح محفوظ اس لئے هے که جوکچھـ تھا، هے اور قیامت تک هوگا اس کتاب میں محفوظ هے (اور نابود هو نے والا نهیں هے)" [12] لوح محفوظ کو اس لئے ام الکتاب کها جاتا هے که هر آسمانی کتاب اس سے لی جاتی هے"[13] اور اسے کتاب"مکنون" اس لئے کها جاتا هے که انسانی عقول کی رسائی سے بلند تر هے اور انسانی عقلوں سے مخفی هے- اور اسی کتاب میںدرج هے که کبھی صدور وتخلیق کا طریقه اور تحقق امور کو محو یا مستحکم کیا جاتا هے یا اس کے اپنے اختیار سے راه و روش میں تبدیلی کے نتیجه میں اعمال پر احاطه کر نا یا انھیں تکفیر کرنا اس امر کا سبب بن جاتا هے که سر انجام اس کا نامه اعمال اس کی انتهائی تلاش کے مطابق حاصل هو کر قیامت کے دن اس کے حواله کیا جائے، اگرچه اس کتاب میں قطعی قضا وقدر هر گز قابل محو و اثبات نهیں هوں گے، جیسے گزشته امتوں اور مومن و گناه گار انسانوںاور آسمان و زمین اور انسان کی تخلیق کے مراحل اور مستقبل میں الهی وعدوں کا پورا هو نا اور آفاقی عدل و انصاف اور قیامت کا بر پا هو نا وغیره...
مذکوره مطالب سے واضح هوا که ان آیات کریمه میں " کتاب مبین" سے مراد یه عربی الفاظ پر مشتمل مکتوب قرآن مجید نهیں هے ، بلکه یه قرآن مجید اور اس کے نزول پر رونما هو ئے تدریجی مراحل اور حوادث اور جو کچھـ اس پر مستقبل میں گزرے گا ، سب کے سب "کتاب مبین عندرب" کا ایک حصه هے نه کھ مکمل- یه قرآن مجید اس وقت همارے هاتھـ میں هے اور هم اس سے استفاده کرتے هیں ، لیکن وه "کتاب مبین" انسان کی پهنچ سے خارج هے اور اس سے انبیاء اوصیا اور اولیا کی معلو مات ، خدا وند متعال کی اجازت اور اس کے اعلان پر منحصر هے نه که اس سے زیاده-[14]
لیکن بعض دوسری آیات میں ، جیسے سوره قصص/٢، سوره شعراء/٢، سوره نمل/١، سوره حجر/١، سوره یوسف/١ اور سوره مائده/١٥ میں "کتاب مبین" کے ساتھـ ، وحی و نزول جیسی تعبیروں کا قرینه بیان هو نے کے سبب اس سے مراد موجوده قرآن مجید هے ،جو هر ایک کے لئے قابل فهم و هدایت هے-
پس قرآن مجید میں " کتاب مبین" کا دو طریقے سے استعمال هوا هے: ایک مخلوقات کی تخلیق سے پهلے، تخلیق کے دوران اور تخلیق کے بعد خداوند متعال کے تفصیلی علم فعلی کی تجلی گاه- اور دوسرا خود قرآن مجید ، جو عر بی زبان میں الفاظ پر مشتمل هے جو اس علمی مرکز سے استخراج هو کر محقق هوا هے اور ان دونوں کی کار کردگی کو آپس میں مخلوط نهیں کیا جانا چاهئے-
ایک اور اشاره یه که رطب و یابس (خشک وتر) کے لئے حدیث کی کتا بوں میں بعض مصادیق ذکر هوئے هیں، جو سب مثال کے طور پر هیں – مثلا: ساقط هوئے جنین کو یا بس (خشک) کا مصداق اور نوزادبچه کو رطب (تر) کے لئے یا کٹی ھوئی فصل کو یا بس (خشک) کے لئے اور کھڑی فصل کو رطب(تر) کے مصداق کے طور پر پھچنوایا گیا هے- لیکن ظهور سیاق آیت، علم الهی کی عالم هستی کی تمام مخلوقات پر عمو میت اور ان میں تحولات و ترقی پر دلالت هے-[15]
مذکوره وضاحتوں کے پیش نظر مزید تین امر قابل احتمال هیں:
١- اولیائے الهے جیسے ابراھیم علیه السلام کو دکھائے جانے والے [16] ملکوت ،آسمان اور زمین اور حتی کھ عالم بالامیں معراج النبی صلی الله علیه وآله وسلم [17] کی مراد اسی مخلوق سے مربوط هے جسے کتاب مبین کها جاتا هے-
٢- معصومین علیهم السلام کا علم غیب اسی کتاب مبین سے استفاده کیاجاتا هے اور اسی جگه سے ان کے لئے اس علم کا اضافه هو تا هے – لیکن بعض لوگوں کو "علم الکتاب"[18] عطا کیا جاتا هے اور وه صاحب ولایت کلیه الهی بن جاتے هیں اور بعض لوگوں کو "علم من الکتاب"[19] عطا کیا جاتا هے اور وه اس ولایت سے کسی حد تک بهره مند هو تے هیں –
٣- ممکن هے عرش اور اس پر تسلط بھی یهی مخلوق (کتاب مبین) اوریهی مقام هو- لهذا عرش پر استوا، کتاب مبین میں موجود مضبوط علم الهی کے مطابق عالم هستی کی تخلیق کے تدبیر کے لئے کنایه هے-[20]
منابع و ماخذ:
١-امین ،سید مهدی، معارف قرآن در المیزان، ج٧ و١٠و١١ و١٧ و١٨، سازمان تبلیغات اسلامی، طبع اول، ١٣٧٠، تهران-
٢-شیرازی، صدر الدین محمد، الحکمھ المتعالیه،ج٦،ص١١٨-١١٠ وص١٤٩و ص٣٠٦،ج٢،ص٣١١-٢٩٩،درالحیاءالترث العربی ،طبع چهارم، ١٤١٠ه ق،بیروت-
٣-طباطبائی ، محمد حسین ،المیزان، دفتر انتشارات اسلامی قم-
٤- طبرسی ، ابی علی فضل بن حسن، مجمع البیان ، ج٢، مکتبه العلمیه الاسلامیه ، تهران ص ٣١١-
٥- طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان ، کتابفروشی اسلامی ، طبع دوم ، تهران ص ٩١-٩٢-
٦- قمی مشهدی، محمد بن محمدرضا، کنز الدقایق، ج٤،ص ٣٤٤- ٣٤٢، مٶسسه طبو ونشر (وزارت ارشاد) ، طبع اول ١٤١١ه ق ،تهران-
٧- مصباح یزدی ، محمد تقی ، معارف قرآن ،ج١-٣ ، مٶسسه درراه حق ، طبع دوم ، ١٣٦٨،وم-
٨- مکارم شیرازی ، ناصر ، تفسیر نمونه، ج٨ و٩ و١٥ و ١٨، دار الکتب الاسلامیه ، طبع ١٧، ١٣٧٤، تهران-
[1] - شیرازی ، صدر الدین، محمد، الحکمه المتاعالیه ،ج٦،ص١٧٩- ١٨٠ـ
[2] - ملاحظه هو: علامه ی حلی ، باب حادیعشر، فصل نفی الحوادث عنه و سایر کتب کلامی و فلسفی، بحث علم الاهی-
[3] - ایضا-
[4] ـ سوره انعام، ١٠، سوره ھود،٣١،سوره اسرا،،١٠٠،ص٩، سوره طور،٣٧،سوره منافقون،٧ ملاحظه هو: ج١٣،ص ٢٠١-١٩٦-
[5] - و نیز یونس، ٦١-
[6] - شیرازی ، صدرالدین محمد، حکمت متعا لیه، ،ج٦،ص٢٨٩-
[7] - شیرازی ،صدر الدین محمد، حکمت متعالیه، ج٦،ص٢٨٩-
[8] - امین ، سید مهدی، معارف قرآن در المیزان ، ص٢٢٥- ٢٢٤، نقل از المیزان ، ذیل آیه ٥٩ سوره انعام و نیز همان ،ص٢٢٩، اذ المیزان ، ذیل آیه اسراء ، ٥٨-
[9] -- امین ، سید مهدی، معارف قرآن در المیزان ، ص٢٢٥- ٢٢٤، نقل از المیزان ، ذیل آیه ٥٩ سوره انعام و نیز همان ،ص٢٢٩، اذ المیزان ، ذیل آیه اسراء ، ٥٨-
[10] -امین ، سید مهدی ، معارف قرآن در المیزان،ص٢٢٥- ٢٢٤، نقل ازالمیزان ، ذیل آیه ٥٩ سوره انعام ونیز ھمان ، ص ٢٢٩، ذیل آیه اسراء ،٥٨-
[11] - ایضا، ص٢٢٦-
[12] - ایضا، ص٢٣٠، از المیزان، ذیل ق ،٤-
[13] - ایضا،ص ٢٢٣ ، اذ المیزان ،ذیل ذخرف ،١-٤-
[14] - سوره انعام، ٥٠، سوره ھود، ٣١-
[15] - ملاحظه هو: المیزان ج٧،ص٢١٢، کنزالدقایق،ج٤،ص٣٤٤-٣٤٢-
[16] - سوره انعام، ٧٥، سوره مومنون، ٨٨-
[17] - سوره اسراء،١ سوره نجم،١-١٨-
[18] - سوره رعد،٤٣-
[19] - نمل، ٤٠ملا حظه هو: علم امام علی علیه السلام ،سوال ١٦٥-
[20] - امین ،سید مهدی، معارف قرآن در المیزان، ص١٨٤-١٧٧، المیزان ذیل آیات: معارج، ٤، خرف، ٨٢، مومن١٥ و٧، اعراف،٥٤،
حاقه،١٧، حدید، ٤-