Please Wait
15515
سطحی طور سے مذکوره سوال میں "سند" سے کیا مراد هے یه اچھی طرح روشن و مشخص نهیں هے ظاهر هے اس طرح کے سوال کا کوئی خاص جواب نهیں هوگا ، لیکن ممکن هے سند سے مراد آیت کی شأن نزول یا مذکوره آیات کی تفسیر هو یا اسکی وجه یه هے که بعض آیتوں کی قرائت میں اختلاف پایا جاتا هے یا وه روایات جو آیت کی تفسیر و تطبیق مین معصوم اماموں علیهم السلام سے نقل هوئی هیں انهوں نے ان کی دوسرے انداز سے قرائت کی هو ،لهٰذا سند کے سلسله میں سوال کا صورت میں پیش کیا گیا هے ۔
بهر حال اس الٰهی کتاب میں جو ﮐﭽﮭ بعنوان آیات قرآن موجود هے اسکی نسبت خدا کی جانب هے اور آیتوں کے در میان کوئی فرق نهیں هے ۔ لهٰذا موجوده قرآن کا مجموعه عقلی اور شرعی دلیلوں کے ذریعه تحریف سے پاک هے اور من جمله سوره توبه کی یه آخری دو آیتیں بھی هیں اور اس بارے میں که ان دو آیتوں کا ماجرا اور واقعه کیا هے ، اگر اس سے مراد مخصوص شأن نزول هے تو اس بات کو مد نظر رکھنا چاهیئے که اس کی کوئی خاص شأن نزول نقل نهیں هے لیکن سوره توبه کی آیتوں کا مجموعه مشرکین کی حالت اور ان سے بیزاری ،کافروں سے مقابله، مسئله نفاق، منافقوں کی انفرادی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی روش کے بارے میں هے بالخصوص ان کی وه سازشیں جو انهوں نے پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم کے سلسله میں هیں اس میں بیان هوئی هیں۔ اور الله نے اپنے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم کو ان کے عمل سے باخبر کیا هے۔ غیبی اور اسرار آمیز خبروں اور بالخصوص جنگ تبوک میں ان کی کارستانیوں کو بیان کرنے کے علاوه اپنے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم کی چند صفتوں کی (جو منافقین کی طرف سے آنحضرت کے مزاق اڑانے اور ان کی اذیت کا باعث بن گئی تھیں ) یاد دهانی کی هے اور پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم سے توسل کی اهمیت کو بیان کرتے هوئے سوره کے آخر میں ،خالص توحید ، خدا پر توکل، اوروں کے مقابل خدا هی کافی هے جیسے بهترین مطالب پر سوره کا خاتمه کیا هے یعنی اس بیان کے ذریعه که تم سے ایک رسول جو تمهارے لیئے هی آیا هے ،تمهارے دردو رنج اس پر سنگین اور گراں گذرتے هیں، وه تمهاری هدایت کا وه مشتاق هے ۔ صاحبان ایمان کے لیئے دلسوز اور مهربان هے اب اگر اس سے روگردانی کی تو اے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم آپ کهه دیجیئے همارے لیئے خدا کافی هے اسکے سوا کوئی خدا نهیں هے هم اسی پر بھروسه رکھتے هیں اور وه عرش عظیم کا مالک هے ۔
سوال کے جواب میں تمام مطالب پر روشنی ڈالنے سے پهلے ایک نکته کی جانب توجه کرنا ضروری هے که سائل کا "سند " کے سلسله میں سوال کرنے کا مقصد کلی طور پر معین و مشخص نهیں هے ۔ ظاهر هے که اس طرح کے سوال کا کوئی معقول اور خاص جواب نهیں هوتا هے لیکن شاید اس کا هدف، ان دو مذکوره آیتوں کی تفسیر یا شأن نزول یا بعض آیتوں میں قرائت کا اختلاف هوسکتا هے یا بعض وه روایتیں جو معصوم اماموں علیهم السلام سے آیت کی تفسیر و تطبیق کے لیئے نقل هوئی هیں جس کی انهوں نے مختلف انداز سے ان کی قرائت فرمائی هواس لیئے "سند" کے بارے میں سوال کیا گیا هے ۔
بهر حال جو ﻜﭽﻬ سوره توبه کی آخری آیتوں میں "سند" کے عنوان سے سوال هوا هے وه تمام الٰهی آیت کی سند کے مانند هی هے اور ان دو آیتوں اور دوسری آیتوں میں اس لحاظ سے کوئی فرق نهیں هے لهٰذا جو ﻜﭽﻬ کتاب الٰهی میں موجود هے وه سب قرآن مجید هے ۔ یه الٰهی کلام هے اور اس کی نسبت الله کی جانب هے[1] ۔اور موجوده قرآن مجید کا مجموعه عقلی اور شرعی دلیلوں کے ذریعه ثابت سے ،تحریف سے پاک اور منزه هے لهٰذا ایک مستقل عنوان "عدم تحریف قرآن " کی کوئی ضرورت نهیں هے [2] ۔
اگر چه بعض لوگوں نے "من اَنفُسِکم" کے بجائے "من اَنفَسَکُم " پڑھا هے [3] یا معصومین علیهم السلام نے بعض روایات میں آیت کی تفسیر اور تطبیق کے وقت کوئی مخصوص کلام یا قرائت فرمائی هے اسکے با وجود بھی آیات کے یقینی صدور میں کوئی خراش نهیں هے ۔
جیسا که کتاب"روضه کافی" میں امام جعفر صادق علیه السلام سے منقول هے آپ علیه السلام نے ارشاد فرمایا:که پروردگار نے قرآن مجید کو اس طرح نازل کیا هے : لَقد جائنا رسولُُ مِن انفسِنا عَزیزُُ علیه ما عَنََتنا حریصُُ علینا بالمومنین روؤف الرحیم:[4] که هم میں سے ایک رسول همارے لیئے آیا هے اور هماری مصیبت اور گرفتاری اس پر گراں هے۔
وه هماری هدایت کا مشتاق هے صاحبان ایمان کے لیئے وه دلسوز او مهربان هے۔
یاعبد الله سنان نے ابو جعفر علیه السلام سے نقل کیا هے که حضرت نے جب اس آیت " لقد جاءکم رسولُُ من انفسکم " کی تلاوت فرمائی تو آپ نے فرمایا "من انفسنا" مراد هے (یعنی هم هیں سے) اور عزیزٌ علیه ما عنتم یعنی "ما عنتنا" (جو هماری مصیبت هے) مراد هے اور حریصٌ علیکم یعنی "علینا" (هم پر) اور " "بالمؤمنین روؤف الرحیم " کے بارے میں آپ نے فرمایا "لشیعتنا روؤف رحیم" یعنی همارے شیعوں کے لیئے دلسوز و مهربان هے ،لهٰذا یه آیت همارے لیئے ¾ هے همارے شیعوں کے لیئے ¼ هے۔
اور یا تفسیر عیاشی [5] میں ثعلبه نے امام جعفر صادق علیه السلام سے ایک روایت نقل کی هے جس میں حضرت نے فرمایا هے : که یه آیت "لقد جاءکم رسول من انفسکم " "فینا" همارے بارے میں بھی "فینا" فرمایا یعنی هم مراد هیں "حریص علیکم"کے لیئے فرمایا "فینا" همارے متعلق هے اور "بالمؤمنین رؤوف رحیم"پر جب بات آئی تو آپ علیه السلام نے فرمایا اس چوتھے فقرے یعنی (مؤمنین کے لیئے دلسوز اور مهربان هے ) میں مؤمنین همارے ساﺗﻬ شریک هیں اور وی تین حصّے همارے لیئے مخصوص هیں [6] ۔
لهٰذا جو پورے قرآن کی سند هے وهی ان دو آیتوں کی سند هے اور وه وحی خدا اور قرآن هے آیت کی شأن نزول بھی خاص طور سے بیان نهیں هوئی هے لیکن جو ﻜﭽﻬ ان دو آیتوں کی تفسیر اور داستاں کے عنوان سے قابل بحث هے وه یه هے که بعض لوگ معتقد هیں که سوره توبه کی یه آخری آیتیں ،پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم پر نازل هونے والی آخری آیتیں هیں جیسا که سب سےآخرمیں نازل هونے والا سوره برائت (توبه) هے[7]
لیکن بعض محقق حضرات جیسے علامه طباطبائی نےاس نظریه کو قبول نهیں کیا هے [8]۔
بهر حال سوره توبه چند خاص حادثوں کی جانب توجه کرتا هے جو مندرجه ذیل میں مشرکین سے بیزاری اور ان کی حالت و کیفیت کو بتاتا هے ،کفار سے جنگ، مسئله نفاق اور منافقین کی انفرادی،اجتماعی، سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی رفتار کو بیان کرتا هے بالخصوص جنگ تبوک میں منافقوں کی حالت کا ذکر کرتا هے که خدا نے اپنے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم کو ان کی سازشوں کی خبر دی هے ۔
اسی طرح اور دوسرے مسائل کا تذکره بھی هے من جمله اس سوره کی وه آیتیں هیں جس میں منافقین نے رسول اکرم صل الله علیه و آله وسلم کی بعض خصوصیات اور صفات کا مزاق اڑایا هے [9] ۔البته اس سورے کے تمام موضوعات کے پهلو میں ایک اهم موضوع بھی هے جس پر الله کی توجه هے وه منافقین کی رفتار هے [10]
یه سوره فتح مکّه کے بعد سال نهم هجری میں نازل هوا هے [11] ۔ جس زمانے میں منافقین ایک طرف مسلمانوں کے در میان سازش اور روڑے اٹکانے میں مشغول تھے اور اندر اندر گروه کی صورت بنارهے تھے اور دوسری طرف اغیار اور اسلام کے دشمنوں سے رابطه برقرار کر رهے تھے لیکن ان کی ان تمام سازشوں ،جنگ تبوک میں شرکت ، اور پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم نیز مسلمانوں کی مالی اور فوجی اعتبار سے مدد نه کرنے اور رسول اکرم صل الله علیه و آله وسلم کو اذیت دینے کے باوجود پروردگار مختلف مواقع پر اپنے قهرو غضب کے ساﺗﻬ ساﺗﻬ صبرو رحمت اور توبه کا تذکره کرتا هے اور ان کے کارناموں سے آگاه تھے لیکن پھر بھی بیشتر مواقع پر ان کے ساﺗﻬ عام برتاؤ کرتے تھے ،لهٰذا وه پیغمبرصل الله علیه و آله وسلم کو اذیت دیتے اور کهتے تھے وه تو صرف کان هیں [12] جو ﻜﭽﻬ هم کهتے هیں سنتے هیں اور جلدی یقین کرلیتے هیں لهٰذا خدا نے اپنے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم سے فرمایا "قل اُذ ن خیر لکم۔ ۔ ۔ ورحمۃ " اے پیغمبر صل الله علیه و آله وسلم آپ کهه دیجئے که تمهارے حق میں بهتری کے کان هیں ۔ ۔ ۔ اور صاحبان ایمان کے لیئے رحمت هیں[13]۔
لهٰذا اگر سوره توبه کے مطالب پر توجه کی جائے تو اسکی آخری آیتوں سے یه نتیجه نکلتا هے که یه آیتیں پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم کی اخلاقی سیرت ،اس سے فائده حاصل کرنے، اس الٰهی صاحب منصب، اور الله کی عام رحمت سے توسل کو بیان کرتی هیں اسکے بعد مسئله توحید بیان کرتے هوئے اور یه که حتی پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم سے توسل بھی توحید کے سایه میں قرار پاتا هے اگر چه آنحضرت کثیر نیکیوں کا سر چشمه، خیر کے کان هیں لوگوں کی سختیاں اور رنج آپ پر گراں گذرتے هیں اور مؤمنین کے لیئے دلسوز و مهربان هیں لیکن اس حالت میں بھی مظهر الٰهی هیں [14] ۔ جیسا که پروردگار اپنے پیغمبرصل الله علیه و آله وسلم سے فرماتا هے که اب اس کے بعد بھی اگر یه لوگ ﻤﻧﻬ پھیرلیں، ایمان نه لائیں اور آپ کی پیروی نه کریں تو آپ بھی کهه دیجئے که میرے لیئے خدا کافه هے اس کے علاوه کوئی خدا نهیں هے میرا اعتماد اسی پر هے [15] اور کوئی بھی مخلوق ذرّه برابر خدا کے سامنے استقلال نهیں رکھتی هے۔ وه الٰهی تدبیر ،سلطنت، عظمت، اور قدرت کے بارے میں فرماتا هے : "و هوَ ربُّ العرشِ العظیم" اور وهی عرش عظیم کا پروردگار هے ، یهاں پر کرسی کے بغیر عرش کا ذکر هے یه کرسی که رتبه و مقام سے بلند و عظیم عرش کا ایک رتبه هے [16] جو مطلب کی اهمیت کو بیان کر رها هے ۔
[1] کتاب المیزان، جلد 2 / صفحه126 / مؤلف محمد حسین طباطبائی ۔
[2] کتاب المیزان،جلد 2 / صفحه 104,126 / مؤلف ، محمد حسین طباطبائی و قرآن در اسلام صفحه 196 ۔ کتاب قرآن در قرآن صفحه 315 /مؤلف آیت الله عبدالله جوادی آملی ۔ کتاب تفسیر تسنیم جلد1/ صفحه 98 ۔ کتاب مبانی کلام اجتهاد صفحه 33 / مؤلف مهدی هادوی و غیره
[3] کتاب الکشاف ، جلد 2 / صفحه 223 ، مؤلف ابوالقاسم محمد ابن عمر الزمخشری و کتاب مجمع البیان جلد 5 / صفحه128 ،مؤلف ابو علی الفضل بن الحسین ،الطبرسی ،و کتاب تفسیر القمی جلد 1/ صفحه 308 ،مؤلف علی ابن ابراهیم القمی
[4] کتاب روضه الکافی جلد 8/ صفحه 378 حاشیه 570 ،مؤلف ثقۃ الاسلام کلینی (رح)
[5] کتاب تفسیر العیاشی ،جلد 2/ صفحه 118 ، مؤلف محمد ابن مسعود
[6] کتاب تفسیر العیاشی ،جلد 2/ صفحه 118 ، مؤلف محمد ابن مسعود
[7] کتاب مجمع البیان ،جلد 2/ صفحه 128 ،مؤلف ابو علی الفضل بن الحسین الطبرسی و کتاب التمهید ،جلد 1/ صفحه 96 ، مؤلف هادی معرفت و غیره
[8] کتاب المیزان جلد 9/ صفحه 414 ،مؤلف محمد حسین طباطبائی ۔ التمهید جلد 1/ صفحه 96
[9] سوره توبه / آیت 61 و غیره
[10] المیزان ، جلد 9 / صفحه 146 ،مؤلف ،محمد حسین طباطبائی
[11] کتاب المیزان ،جلد 9 / صفحه 148 ،مولف محمد حسین طباطبائی
[12] سوره توبه / آیت 61
[13] سوره توبه / آیت 61 ، ترجمه قرآن کریم صفحه 196 ،مترجم محمد مهدی فولادوند
[14] کتاب سیره رسول اکرم صل الله علیه و آله وسلم ، تفسیر موضوعی قرآن ،ج 8 / صفحه 61 مؤلف، عبد الله جوادی آملی
[15] ترجمه قرآن کریم صفحه 207 ، مترجم محمد مهدی فولادوند/ ترجمه قرآن کریم ،مکارم شیرازی ۔ سوره توبه / آیت 128,129
[16] کتاب التوحید ،باب العرش و صفاته ،حاشیه 1 ،مؤلف شیخ صدوق علیه الرحمۃ