Please Wait
11844
سوال یھ ھے کھ حضرت علی علیھ السلام ییغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے زمانے میں غریب تھے۔ کیوں کھ آپ نے حضرت فاطمھ زھرا سلام اللھ علیھا کا مھر ایک زره بیچ کر ادا کیا۔۔۔ اور زکات بھی فقیروں پر واجب نھیں ھے۔ انھیں زکات نھیں دینی چاھئے تھی۔۔۔ لیکن اس کے باوجود کھ ان کے اوپر واجب نھیں تھی انھوں نے زکات دی ؟
حضرت علی علیھ السلام کبھی بھی فقیر اور تنگدست نھیں تھے۔ بلکھ ھمیشھ وه اپنی محنت سے کافی مال کمایا کرتے تھے۔ وه اس کو خدا کی راه میں انفاق کرتے تھے۔ وه اپنے آپ کے لئے کچھه باقی نھیں بچاتے تھے جو کچھه آیھ شریفھ میں ان کے زکات دینےکے بارے میں آیا ھے۔ وه بھی اس کے ایک موارد میں سے ھے ۔ اس کے علاوه قرآنی ثقافت میں بعض موارد مستحب صدقات کو بھی زکات سے تعبیر کیا جاتا ھے اور اس طرح کے صدقات کو سب افراد ادا کرسکتے ھیں۔
اولاً حضرت علی علیھ السلام کی سیرت پر نظر ڈالتے سے یھ بات واضح ھوتی ھے وه کبھی بھی غر یب اور تنگدست نھیں تھے۔ بلکھ ھمیشھ اپنی جد و جھد اور محنت سے کافی مال کماتے تھے، لیکن سب کو خدا کی راه میں انفاق کردیتے تھے۔ وه کوئی بھی چیز اپنےلئے باقی نھیں رکھتے تھے۔ بلکھ سارے واقعات، جیسے روٹی اور خرما کو اپنے کندھوں پر لےجاکر غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایسے مشھور واقعات ھیں جن کو یھاں پر ذکر کرنے کی ضرورت نھیں ھے اس طرح وه اپنے مال کا اکثر حصھ بندوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتے تھے۔ یھان تک کھ لکھا گیا ھے کھ انھوں نے اپنی کمائی سے ایک ھزار بندوں کو آزاد کیا ھے، اس کے علاوه جنگی غنیمتوں میں بھی ان کا حصھ قابل توجھ ھوتا تھا۔ مختصر ذخیره جس سے زکات تعلق پائے یا چھوٹا سا نخلستان جس کی زکات دینا واجب ھوتا، کوئی اھم چیزیں نھیں تھیں جو حضرت علی علیھ السلام نھ رکھتے تھے۔ [1]
پس اگر کھیں ان کے بارے میں غربت کی بات کی گئی ھے تو وه ان کے حد سےزیاده انفاق کرنے کی وجھ سے تھی۔ جو کچھه آیھ شریفھ میں ان کی زکات دینے کے بارے میں آیا ھے ایک مورد میں سے ھے جو بیان کرتا ھے کھ وه رکوع کی حالت میں بھی فقیروں کی مدد سے غافل نھ تھے۔
ثانیا : قرآن مجید میں بھت سے موارد میں مستحب صدقے کو بھی زکات کھا جاتا ھے، مثال کے طور پر بھت سی مکی سورتوں میں"زکات" کا لفظ آیا ھے، جس سے مراد مستحبی زکات ھے۔[2] کیوں کھ زکات کا وجوب رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ھجرت کے بعد ھوا تھا۔[3] ( زکات مدینھ کی جانب ھجرت کرنے کے بعد واجب ھوئی ) ھے ۔ علامھ طباطبائی المیزان میں فرماتے ھیں:
اگر آپ دیکھیں کھ آج کل جب زکات کھی جاتی ھے تو ذھن واجب زکات کی جانب جاتا ھےاور صدقھ ذھن میں آتا ھی نھیں ھے یھ اس لئے نھیں ھے کھ عربی لغت میں "صدقھ " زکات نھیں ھے۔ بکھ اس لئے ھے کھ اسلام کی عمر کے جو چوده سو سال گزرے ھے اس دوران مسلمانوں اور متشرعھ میں زکات کو اپنے واجب معنی میں استعمال کیا گیا ھے ورنھ خود آنحضرت(ص) کے زمانے میں زکات اپنے لغوی معنی میں استعمال ھوتی تھی اور زکات کے معنی اس کے اصطلاحی معنی سے اعم تھے جو صدقھ کو بھی شامل ھوتے تھے۔ حقیقت میں زکات اگر نماز کےمقابلے میں استعمال کی جائے تو وه خدا کی راه میں مال انفاق کرنے کے معنی میں ھے۔ جیسے کھ یھ معنی ان آیات سے جو انبیاء سلف کے احوال کو بیان کرتی ھیں آسانی سے استفاده ھوتے ھیں۔[4]
سوره مائده کی آیت ۵۵ جو اکثر مفسرین کی نقل کے مطابق [5] حضرت علی علیھ السلام کے اُس انفاق کے بارے میں ھے کھ جو رکوع کی حالت میں واقع ھوا ھے اور جس میں انھوں نے اپنی انگوٹھی، فقیر کو دے دی، وه بھی ممکں ھے ان ھی موارد میں سے ھو۔
پس اگر فرض بھی کریں کھ حضرت علی علیھ السلام سے واجب زکات تعلق نھیں پاتی تھی تو انگوٹھی کا انفاق فقیر کو صدقھ یا مستحب انفاق کے بارے میں استعمال ھوا ھے۔