Please Wait
13502
قتل کی مختلف جهتوں سے تقسیم بندی کی جا سکتی هے، هم ان میں سے بعض قسموں کی طر ذیل میں اشاره کرتے هیں:
۱۔ حق و ناحق کے لحاظ سے قتل کی قسمیں-
۲۔ زمان وقوع کے لحاظ سے قتل کی قسمیں-
۳۔ سزائے موت نافذ کرنے کے لحاظ سے قتل کی قسمیں- مثال کے طور پر اسلحه۔ پھانسی ، بعض مواقع پر سنگسار اور دوسرے طریقوں سے سزائے موت نافذ کرنا-
۴۔ عمد، شبه عمد اور خطائے محض کے لحاظ سے قتل کی قسمیں، ممکن هے آپ کا سوال قتل کی اس تقسیم بندی سے متعلق هو-
آپ کا سوال انتهائی اجمالی تھا اور واضح طور پر معلوم نهیں هوتا هے که قتل کی قسموں سے آپ کی مراد کیا هے اور آپ کس لحاظ سے قتل کی تقسیم بندی کی وضاحت چاهتے هیں- آپ کا یه سوال قدرے واضح تر هونا چاهئیے تھا تاکه اس کا مناسب جواب دیاجا سکے-
مثال کے طور پر ایک ایسا سوال نهیں کیا جا سکتا هے ، جس میں انسانوں کے جزئیات کے ساتھه ان کی مکمل تقسیم بندی کا مطالبه کیا گیا هو، کیونکه انسان مختلف لحاظ سے جیسے: مذهب، نسل، رنگ، جنسیت، تعلیم ، تابیعت، عمر اور دسیوں جهات سے قابل تقسیم هیں-
قتل کی قسموں کے بارے میں بھی، مختلف جهات سے تقسیم بندی کی جا سکتی هے که ان میں سے بعض کی طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:
۱۔ قتل کے حق اور ناحق هونے کے لحاظ سے تقسیم: جن افراد کو، قصاص کی وجه سے سزائے موت کا حکم دیا جاتا هے، یا اگر کسی ایک ایسے جرم کے مرتکب هوئے هوں، جس کی سزا موت هے، یا ایسے کفار جو اسلامی حکومت کے ساتھه جنگ میں هیں، یا ایسے افراد جو بظاهر مسلمان هوتے هوئے، اسلامی حکومت کے خلاف مسلحانه بغاوت کریں، ان افراد کو قتل کرنا حق هے، لیکن ان کے علاوه دوسرے افراد کو قتل کرنا، ناحق شمار هوتا هے-
۲۔ قتل، اس کے زبان وقوع کے لحاظ سے بھی تقسیم بندی کے قابل هیں، کیونکه حرام مهینوں میں دوسرے مهینوں کی به نسبت قتل کا حکم شدید تر هے-
۳۔ قتل کی سزا کو نافذ کرنے کے سلسله میں بھی، اسلحه، پھانسی یا سنگسار اور دوسرے طریقوں سے قتل کرنے کی طرف اشاره کیا جا سکتا هے-
۴۔ قاتل کے ساتھه برتاو اور سلوک کے لحاظ سے بھی قتل کی تقسیم بندی کی جا سکتی هے اور اس کی طرف بھی اشاره کیا جا سکتا هے-
بعض مواقع پر اگر قاتل نے کسی کو برحق قتل کیا هو، اس کے خلاف کوئی کاروائی نهیں کی جاتی هے، اور بعض مواقع پر اگر ایسا قتل اسلامی حکومت سے هم آهنگی کے بغیر انجام پائے اور امن و امان میں خلل پڑنے کا سبب هو، تو واجب القتل افراد کو قتل کرنے کی بھی سزا معین هے، بے گناه افراد کو عمداً قتل کرنے کی سزا قصاص هے، اور بعض مواقع پر، مقتول کا خاندان قاتل کے خاندان کو ایک رقم ادا کرنے کے بعد اس حکم کو نافذ کرنے کا مطالبه حاصل کر سکتا هے اور بعض مواقع پر اس رقم کو ادا کرنا ضروری نهیں هے- جن مواقع پر قصاص دیه میں تبدیل هوتا هے یا یه که پهلے سے هی دیه مقرر کیا گیا هو، دیه کی مقدار مواقع کے مطابق متفاوت هوتی هے، اکثر مواقع پر، خود قاتل کو دیه ادا کرنا چاهئیے، جب قتل خطائے محض کی وجه سے انجام پایا هو تو قاتل کے ولی اس کو ادا کرنے کے ذمه دار هیں که اس قسم کی رقم ادا کرنا، عام بیمه کے مانند هے-
۵۔ قتل کی ایک اهم تقسیم بندی ، قتل کی نوع پر مبنی هے، ممکن هے آپ کا سوال بھی اسی تقسیم بندی کے بارے میں هو- اس بنا پر قتل کی حسب ذیل قسمیں هیں:
الف: قتل عمد، اس میں قاتل، جس قسم کے هتھیار سے بھی استفاده کرے، شخص کو قصد واراده سے قتل کرتا هے یا یه که کسی مهلک هتھیار سے کسی پر حمله کرتا هے اور کوئی دوسرا شخص اس کی زد میں آکر قتل هوتا هے، خواه اس کو قتل کرنے کا اراده رکھتا هو یا اس کو قتل کرنا مقصد نه هو[1]-
عام طور پر، قتل عمد ایک کام کو انجام دینے سے واقع هوتا هے، لیکن بعض مواقع پر ایک کام انجام نه دینے کے نتیجه میں بھی قتل عمد واقع هو سکتا هے- مثال کے طور پر ایک نرس هسپتال میں موجود بیمار کو دوا اور غذا دینے سے اجتناب کرے اور اس کے نتیجه میں بیمار مر جائے، تو اس نرس پر قتل عمد کا حکم جاری هوگا، اگرچه اس نے کوئی کام انجام نهیں دیا هے-
قتل عمد میں اگر مقتول مومن هو، تو قتل کی مقرره سزا کے علاوه، ممکن هے قاتل آخرت میں همیشه جهنم میں باقی رهے[2]-
جس طرح ایک مقتول کے بارے میں ، ایک شخص کو قتل عمد کا الزام لگایا جا سکتا هے، یه بھی ممکن هے که ایک قتل کے بارے میں متعدد افراد کو قتل کے مجرم جانا جائے اور انهیں سزا دی جائے[3]-
قصاص کی سزا کو نافذ کرتے وقت، دین میں تشابه، جنسیت، آزاد اور غلام وغیره جیسے موارد کو بھی مدنظر رکھا جاتا هے-
ب: قتل، عمدنما قتل بھی هو سکتا هے، یعنی ایک شخص ، ظلم و جنایت کے قصد کے بغیر، ایک ایسے کام کو انجام دے، جس کے نتیجه میں مقابل کا انسان قتل هو جائے، مثال کے طور پر ، ایک سرجن کا اوپریشن ، بیمار کی موت کا سبب بن جاتا هے[4]-
عمدنما قتل کو، دوسری عبارت میں اس طرح بیان کیا جا سکتا هےکه کسی شخص کا رفتار، ممکن هے ایک قتل کا سبب بنے، جبکه اس کے مرتکب شخص نے آگاهانه اس رفتار کو انجام دیا هے لیکن جو نتیجه نکلا هے، وه هرگز اس کا مقصود نهیں تھا[5]-
عمدنما قتل میں، قصاص کی سزا نافذ نهیں کی جاتی هے، بلکه صرف دیه کا مطالبه کیا جا سکتا هے-
ج۔ قتل، خطائے محض بھی هو سکتا هے، که اس میں قاتل، مقتول کے بارے میں کوئی توجه اور اراده نهیں رکھتا هے ، لیکن اتفاق سے یه قتل انجام پاتا هے، یعنی ایسے مواقع، جن میں فعل کو انجام دینے میں اراده نه هو، لیکن اتفاق سے انجام پائے عمل کا نتیجه قتل هوتا هے[6]، مثال کے طور پر ایک شکاری کسی جانور پر گولی چلاتا هے، لیکن بے خبری کے عالم اور بالکل اتفاق سے، یه گولی وهاں پر موجود کسی انسان پر لگ کر وه قتل هوتا هے[7]-
اگر کوئی نابالغ یا دیوانه فرد عمداً کسی کو قتل کر ڈالے، یه عمد، قانون کے مطابق خطائے محض شمار هوتا هےاور ان کے ولی کو اس کا دیه ادا کرنا چاهئیے[8]- قتل کو ثابت کرنے میں بھی مختلف راهیں هیں،جیسے: ملزم کا اعتراف، گواهوں کی شهادت اور قسم-
جیسا که آپ مشاهده فرما رهے هیں، که هم نے قتل کے سلسله میں پانچ قسم کی تقسیم بندی بیان کی ، که ممکن هے، کوشش اور جستجو کرنے کے نتیجه میں کچھه اور قسمیں بھی پیدا هو جائیں- اس سلسله میں خاص کر موخرالذکر قسم کے بارے میں فقهی کتابوں میں تفصیلات بیان کیے گئے هیں اور اس سلسله میں خاص طور پر جزائی قوانین پر کتابیں بھی تالیف کی گئی هیں ، آپ کے سوال سے یه معلوم نهیں هوتا هے که آپ قتل کے کس قسم کے بارے میں وضاحت چاهتے هیں- اس بنا پر سزاوار هے که ، چونکه آپ قانون کے طالب علم هیں، آپ اپنے سوال کو واضح تر بیان کریں اور مورد ابهام نکات کو تحریر فرمائیں تاکه هم آپ کو مناسب تر جواب دے سکیں-
[1] - خمینی، روح الله، تحریر الوسیله، ج 2، ص 508 – 509، انتشارات دار العلم، قم، چاپ دوم؛ و نیز ماده 206 قانون مجازات اسلامی.
[2] - نسا، 93.( جو بھی کسی مومن کو قصداً قتل کردے گا اس کی سزا جهنم هے، اس میں همیشه رهنا هے اور اس پر عذاب کا غضب بھی هے اور خدا لعنت بھی کرتا هے اور اس نے اس کے لیے عذاب عظیم بھی مهیا کر کے رکھه دیا هے )؛ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج 29، ص 31، روایت 35074، مؤسسه آل البیت، قم، 1409 ه ق؛ طباطبایی، محمد حسین، ترجمه المیزان، ج 5، ص 62.
[3] - دفعه نمبر 212 قانون مجازات اسلامی.
[4] - تحریر الوسیله ، ج 2 ، ص 554 ، مسئلة 5؛ اوردفعه نمبر 295 قانون مجازات اسلامی.
[5] - گلدوزیان، ایرج، حقوق جزای اختصاصی، مؤسسه انتشارات جهاد دانشگاهی، طبع ششم، 1378، ص 108.
[6] - ایضاً ، ص 109.
[7] - تحریر الوسیله ، ج 2 ، ص 554 ، مسئلة 7؛ اور دفعه نمبر 296 قانون مجازات اسلامی.
[8] - دفعه نمبر 221 قانون مجازات اسلامی.