Please Wait
9348
اگرچہ سوال میں ایک قطرہ شراب پینے کے حکم کے بارے میں کوئی صراحت نہیں کی گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک قطرہ شراب پینے کے حکم کے بارے میں سوال ہے، ہم ذیل میں اس کا جواب دیں گے۔
شیعوں کے عقیدہ کے مطابق تمام احکام مصلحتوں اور مفسدوں پر مبنی ہیں کہ شارع مقدس نے اسی مصلحت یا مفسدہ کی بنیاد پر ہی مکلفین کے لیے احکام وضع کیے ہیں۔ لیکن وہ سب مصلحتیں اور مفاسد ہمارے لیے بیان نہیں کیے گیے ہیں[1] اور بعض احکام کے لیے جو علتیں بیان کی گئی ہیں، اکثر حکمت کا پہلو {علل ناقصہ} رکھتی ہیں نہ کہ علل تامہ ہیں، اس لحاظ سے ان کے عدم کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا حکم بھی معدوم ہوا ہے۔
آپ کی چاہت کے مطابق ہم اس مسئلہ کے عقلی پہلو پر بحث کریں گے نہ کہ اس کے تعبدی پہلو پر۔ مطلوبہ جواب حاصل کرنے کے لیے چند نکات کا ذکر کرنا ضروری ہے:
الف} جیسا کہ آپ نے اپنے سوال میں اشارہ کیا ہے کہ، شراب کے {من جملہ جسمانی اور روحانی} بہت سے نقصانات ہیں، لیکن اس نکتے سے غفلت نہیں کرنی چاہئیے، جس چیز کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہے ، اس کی کم مقدار بھی نقصان دہ ہوتی ہے، اگرچہ ان دونوں نقصان کی مقدار میں فرق ہوتا ہے۔
ب} تمام شیعہ فقہا کے فتویٰ کے مطابق، نجاسات میں سے ایک شراب ہے[2] اور نجس چیز کا کھانا حرام ہے[3]، خواہ وہ کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں ، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ابی الصباح، تفسیر عیاشی میں امام صادق{ع} سے نقل کرتے ہیں کہ:"۔ ۔ ۔ خداوندمتعال نے خمر{شراب} کو حرام قرار دیا ہے، خواہ کم مقدار میں ہو یا زیادہ، جس طرح سے مردار، خون اور سور کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ[4]۔" اور بدن کو نجاست ظاہری اور باطنی سے پاک کرنے کی غرض سے شراب پینا منع کیا گیا ہے[5]۔
ج} تمام حرام چیزیں، حرام ہونے کےلحاظ سے ایک رتبہ پر نہیں ہوتی ہیں۔ قانون بنانے والے کے مطابق بعض حرام چیزوں کی اہمیت زیادہ ہے اور بعض کی اہمیت کم تر ہے، اس لحاظ سے زیادہ اہمیت والے محرکات کو ترک کرنے کی شدید تر تدبیریں مدنظر رکھی گئی ہیں، مثال کے طور پر خداوندمتعال قرآن مجید میں زنا کے باب میں ارشاد فرماتا ہے "وَ لا تَقْرَبُوا الزِّنى إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَ ساءَ سَبيلا"[6]
یہ آیت زنا کی ممانعت کرتی ہے اور اس کو حرام قرار دینے میں صیغہ مبالغہ سے کام لیا ہے، کیونکہ یہ نہیں فرمایا ہے کہ اس کو انجام نہ دو، بلکہ فرمایا ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جانا[7]۔ یتیموں کے مال کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي هِيَ أَحْسَن"[8] اگر یتیم کے مال کو کھانے سے منع کرنے کے بجائے اس کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا ہے ، تو یہ اس لیے ہے کہ اس کے حرام ہونے کی شدت کو سمجھایا جائے[9]۔ اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ : نہ صرف یتیموں کے مال کو نہ کھائیے، بلکہ اس کے احترام کو مکمل طور پر مدنظر رکھئیے[10]۔
شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح زنا کے مرتکب ہونے اور مال یتیم کو کھانے کے شدید ترین گناہ ہونے کے سبب ان کے نزدیک بھی نہِیں جانا چاہئیے اور شراب پینے والوں کے ساتھ معاشرت بھی نہیں کرنی چاہئیے۔
نتیجہ: صرف اس صورت مِں شراب کا ایک قطرہ پینے کا قائل ہوا جاسکتا ہے، کہ اولاً: ثابت ہو جائے کہ شراب کے حرام ہونے کی علت تامہ اس کا نقصان دہ ہونا ہے اور ثابت ہو جائے کہ اس کا ایک قطرہ پینا نقصان دہ نہیںہے۔ ثانیاً: ثابت ہو جائے کہ شراب نجس نہیں ہے۔ ثالثاً: اس سے زیادہ پینے کے لیے راہ ہموار نہ ہو جائے۔ چونکہ ان تین مقدمات مِں سے کوئی ایک ثابت نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے، اس لحاظ سے شراب پینے کے حرام ہونے کا حکم ، حتی کہ ایک قطرہ پینے کے بارے میں بھی ظاہر اور بدیہی ہے اور اس سلسلہ مِں احکام و قوانین کو حاکم شرع کی طرف سے وضع کرنے یا شہری قوانین وضع کرنے والے اداروں نے، اس کے کلیات اور عام پہلووں کو مدنظر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر جب قانون وضع کرنے والا ٹریفک کنٹرول کے قانون کے بارے میں کہتا ہے کہ یکطرفہ سڑکوں پر مدمقابل سے گاڑی چلانا ممنوع ہے، تو اس قانون میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی ڈرائیور مدمقابل اور خلاف سمت حرکت کرے تو اس کے مالی اور جانی نقصانات ہوں گے۔ یہان پر کیا یہ معقول ہے کہ کوئی ڈرائیور یہ کہے کہ میں اس سڑک پر مخالف سمت مِں صرف چند میٹر آگے بڑھنا چاہتا ہوں؟ قدرتی بات ہے کہ اس چیز کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور قانون ہر ایک کے لیے یکساں ہے۔ لیکن اضطراری مواقع پر بہت سے احکام کی حرمت اٹھالی جاتی ہے، جیسے : مردار کا حرام ہونا، جہاں پر انسان کے اختیار میں کھانے کے لیے مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو تو اس صورت مِں مردار کے حرام ہونے کو اٹھالیا جاتا ہے۔
[1]ان میں سے بہت کچھ ہم تک نہیںپہنچا ہے.
[2] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج 1، ص 80، م 111، شراب اور ہر وہ چیز جو انسان کو مست کرتی ہو، اور خودبخود رواں ہو ، نجس ہے۔
[3] توضيح المسائل (المحشى للإمام الخميني)، ج 1، ص 94، م 141، نجس چیز کو کھانا اور پینا حرام ہے.
[4]ترجمه الميزان، ج 6، ص 201 مترجم: موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374 هـ ش، طبع پنجم، قابل توجه ہے کہ یہ حدیث، حدیث کے تعبدی ہونے کی وجہ سےنہیں ہے بلکہ تعلیلی وجہ سے ہے جو اس ذیل میں بیان ہوئی ہے.
[5]طبرسی، احتجاج، ترجمه، غفارى مازندرانى، ج 2، ص 32، ناشر، مرتضوى، تهران، طبع اول.
[6] إسراء، 32،"دیکحو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری ہے اور بہت برا راستہ ہے".
[7]ترجمه الميزان، ج 13، ص 117.
[8] "اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طرح جو بہترین طریقہ ہے"، انعام، 152؛ إسراء، 32.
[9]ترجمه الميزان، ج 13، ص 124.
[10]تفسير نمونه، ج 12، ص 109، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش، چاپ اول.