Please Wait
8679
اس سوال کا جواب حاصل کر نے کے لئے، درج ذیل چند مطالب بیان کا کر نا ضروری هے:
١- کیا ائمه اطهار علیهم السلام مکمل اور مطلق طور پر مستقبل کےتمام حوادث اور واقعات کے بارے میں ، من جمله اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم غیب رکھتے تھے ، قابل تحقیق امر هے-
٢- ائمه اطهار علیهم السلام کے اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم غیب رکھنے کے فرض کرنے ر کهنا چاهئے:
اولاً: هر انسان کو کسی دن مر نا هے ، اگر کوئی شخص اس سلسله میں جس قدر علم بھی رکھتا هو ، اس قاعدے سے مستثنی نهیں هے – پس انسان کا علم اس کی موت یاشهادت کے لئے رکاوٹ نهیں بن سکتا هے-
ثا نیاً: اگر خدا وند متعال کی قضا و قدر حتمی اور یقینی هو تو وه کسی صورت میں نهیں بدل سکتی هے-
ثالثاً: ائمه اطهار علیهم السلام کا غیب کے ذریعه اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھنا، صرف ایک حتمی واقعه کا علم هے اور ان بزرگوں کی اس قضا وقدر کے بارے میں رضا مندی ان کے درجات میں بلندی کا سبب بن جاتی هے-٠
نتیجه یه نکلاکه: بهترین موت ، یعنی شهادت جو خدا کی قطعی مرضی کے مطابق هو تی هے ، کو روکنا، خدا کی مرضی سے راضی نه هو نے کے علاوه اور کوئی معنی نهیں رکھتا هے، که اس قسم کاکام نه صرف ائمه اطهارع علیهم السلام سے بعید هے بلکه جو کچھـ ان کے طرز عمل اور بیانات سے معلوم هو تا هے، وه یه هے که وه قضا وقدر الهی پر راضی اور امر پرور دگار کے سامنے سر تسلیم خم کئے تھے-
جواب واضح کر نے کے لئے ضروری هےکه پهلے مختصر طور پر ائمه اطهار علیهم السلام کے علم کی کیفیت بیان کی جائے، اس کے بعد هم دیکھـ سکتے هیں که ائمه اطهار علیهم السلام اپنی موت اور شهادت کے بارے میں علم رکھنے کے باوجود اس سے بچنے کی کیوں کوشش نهیں کرتے تھے!
یه امر قابل بحث هے اور ایک اختلافی مسئله هے که کیا ائمه اطهار علیهم السلام تمام امور کے بارے میں مطلق طور پر علم غیب رکھتے تھے؟ یعنی ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات و حوادث ، من جمله اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھتے تھے ؟قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق ، مطلق اور مکمل صورت میں علم غیب صرف خدا وند متعال کے اختیار میں هے ، کیونکه صرف وهی هر جهت سے تمام کائنات پر حاوی هے- یه مطلب سوره رعد کی آیت نمبر٤، سوره یونس کی آیت نمبر ٢٠ اور سوره نحل کی آیت نمبر ٦٥ سے معلوم هو تا هے – اس بناپر، بعض لوگ اس قسم کی آیات سے اس ت فاده کر کے ، اهل بیت علیهم السلام کے وسیع پیمانه پر علم غیب رکھنے ، جیسے اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھنےک ے منکر هیں-
لیکن اکثر شیعه علما، قرآن مجید کی بعض آیات سے استفاده کر کے اعتقاد رکھتے هیں که اولیائے خدابھی اجمالی طور پر علم غیب رکھتے هیں- جیسا که سوره آل عمران کی آیت نمبر ١٧٩ اور سوره جن کی آیت نمبر ٢٦و ٢٧ میں ارشاد الهی هے که: " خدا وند متعال علم غیب کو انبیاء کے اختیار میں دیتا هے-" اس کے علاوه یه مطلب ائمه اطهار(ع) کی روایتوں سے بھی معلوم هو تا هے – حضرت امام صادق علیه السلام اس سلسله میں فر ماتے هیں :" جب امام کسی چیز کو جاننے کا اراده کر تا هے ، تو خدا وند متعال اسے اس کی تعلیم دیتا هے-" [1]
اس بناپر،مذ کوره آیت و روایت کے پیش نظر چونکه انبیائے الهی تمام مادی و معنوی جهات سے انسانوں کی هدایت کی ذمه داری رکھتے هپیں ، اس لئے وه کافی حد تک علم ودانش کے مالک هو نے چاهئ یں ، تاکه اس ذمه داری کو احسن طریقه پر انجام دے سکیں اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے جانشین ائمه اطهار علیهم السلام بھی اس حکم کے دائرے میں آتے هیں- پس وه بھی وسیع پیمانه پر علم غیب رکھتے هیں، من جمله اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھتے هیں- [2] بهر صورت اور ائمه اطهار علیهم السلام کے اپنی شهادت کے زمان و مکان کے بارے میں علم رکھنے کے فرض کے ثبوت میں درج ذیل مطالب قابل ذکر هیں:
الف) تمام انسان جو ایک دن پیدا هو تے هیں ایک دن اس دنیا سے رخصت هو جا تے هیں – هر وه شخص جو پیدا هو تا هے آخر کار ایک دن اس دنیا سے چلا جاتا هے-" هر نفس موت کا مزه چکھنے والاهے-" [3] پس هر زنده انسان ایک دن دنیا سے چلا جاتا هے ، لیکن بجز اولیائے الهی میں سے بعض خاص افراد کے ، کوئی بھی شخص اپنی موت کے وقت کے بارے میں آگاه نهیں هے اور اس کی موت کا وقت مخفی هے ، تاکه انسان اس فکر میں که هر لمحه موت ممکن هے، گناه کی طرف نه جائ ے یا توبه کر نے میں تاخیر نه کر ے - دوسری جانب خدا وند متعال کے نزدیک سب سے بهتر موت شهادت هے ، خدا وند متعال راه خدا میں قتل هونے والوں کو مرده نهیں کهتا هے ، بلکه انھیں زنده جانتا هے جو اس سے رزق حاصل کرتے هیں-" [4]
ائمه معصومین علیهم السلام ،جو صاحب علم غیب هیں، بھی اس قسم کی موت، یعنی شهادت کے ذریعه اس دنیا سے چلے گئے هیں- بهر حال جاننا چاهئے که کسی شخص کا علم اس کی موت یا شهادت کی راه میں رکاوٹ نهیں بن سکتا هے اور همیشه کے لئے موت کو نهیں روک سکتا هے-
ب) اگر خداوند متعال کی طرف سے قضا وقدر حتمی هو، تو کسی صورت میں اس میں تبدیلی رونما هو نے کا امکان نهیں هے- اب یه قضائے الهی انسانوں کی عمر کے بارے میں هو یا امتوں کی عمر کے بارے میں هو- خدا وند متعال کا ارشاد هے: " جب وه وقت(اجل) آئے گا تو ایک گھڑی کے لئے نه پیچھے ٹل سکتا هے اور نه آگے بڑھ سکتا هے-" [5]
ج) ائمه معصومین علیهم السلام بھی علم غیب رکھتے تھے ، اس طرح که جب جانتے تھے که قضا و حکمت الهی نهیں هے که وه شهید هو جائیں ، تو وه موت سے نجات پانے کے لئے هر وسیله سے استفاده کرتے تھے-
روایتوں میں نقل هوا هے که امام هادی علیه السلام نے اپنے کسی بیمار کی شفا کے لئے ایک شخص کو کر بلا بھیجا تاکه وهاں پر دعا کرے یا یه که امام موسی کاظم علیه السلام نے هارون رشید کی طرف سے دئے گئے زهر آلود خر ما کو نهیں کھایا اور فر مایا :" ابھی وقت نهیں آیا هے " اور امام محمد باقر علیه السلام فر ماتے هیں :" هم شیطان کے شر کو دور کر نے کے لئے فلاں دعا پڑھتے هیں" [6]
مذکوره آیات و روایات اس امر کی دلیل هیں که ائمه اطهار علیهم السلام اپنی جان کی حفاظت کے لئے کسی بھی کوشش سے کوتاهی نهیں کرتے تھے-
د) جس شهادت کے بارے میں انسان قبل از وقت آگاه هو اور خدا کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل میں اهم مسائل کا لحاظ رکھتے هوئے خود قتل گاه کی طرف بڑھے تو یه انسان کے درجه اور رتبه میں بلندی کے علاوه کچھـ اور نهیں -
انسان اگر رضائے الهی کے اس مقام پر پهنچ جائے تو بیشک وه انسانیت کے بلند درجات پر فائز هو تا هے – حضرت امام محمد باقر علیه السلام فر ماتے هیں :" یه جو مصیبتیں ائمه اطهار علیهم السلام کو پیش آئی هیں ، وه خدا وند متعال کی طرف سے حتمی قضا وقدر تھیں اور انهیں ائمه اطهارعلیهم السلام نے خود انتخاب کیا تھا اور وه سب ان کے بارے میں آگاه تھے--- اور یه سب ان درجات و کرام ا ت کے سبب ه یں جنھیں خدا وند متعال نے انھیں عطا کر نے کا اراده کیا هے- [7] خدا کی حتمی مرضی کے مطابق آنے والی بهترین موت کو روکنا ، رضائے الهی کی مخ ا لفت کر نے کے علاوه کوئی معنی نهیں رکھتا ، اس قسم کا امر ائمه اطهار علیهم السلام کے بارے میں نه صرف بعید اور خلاف عقل هے، بلکه اس قسم کی موت ، یعنی خدا کی راه میں شهادت ان کی سب بڑی آرزو تھی اور اس آرزو و تمنا تک پهنچنے کے لئے همیشه دعا اور انتظار کرتے تھے- مثلاً امام حسین علیه السلام باوجودیکه اپنی اور اپنےاصحاب کی شهادت کے بارے میں آگاه تھے، لیکن پھر بھی آپ (ع) نے اس کا استقبال کیا، کیونکه آپ(ع) کی شهادت کےعالم اسلام پر مثبت آثار و بر ک ا ت رونما هوئیں اور یه شهادت دین کو زنده کر نے کا سبب بن گئی- اگر امام حسین علیه السلام اس موت سے فرار کرتے تو پھر آپ کهاں پر شهید هو تے جس کے ایسے آثار و برک ا ت رونما هو ت ے ؟!
مذکوره مقدمات کے پیش نظر هم نتیجه حاصل کرتے هیں که : جن مواقع کے بارے میں ائمه اطهار علیهم السلام حتمی قضا وقدر کا علم رکھتے تھے ، اپنے اس تسلیم و رضا کے مقام ومنزلت کے پیش نظر ، اس امر پر راضی تھے اور ان مواقع کے علاوه اپنی جان بچانے کے لئے کافی کوشش اور محافظت فر ماتے تھے-
[1] - کلینی اصول کافی ،ج١،باب، ان الا ئمه اذا شاٶو ا ان یعلموا ،علموا،ح٣- مزید معلومات کے لئے ملاحظه هو ،عنوان:" انسان و آگاهی از علم غیب"، سوال 2298 (سائیٹ: 2421)
[2] - لیکن علم غیب کی آگاهی رکھنا ، هر جگه کمال کی علامت نهیں هے، بلکه بعض اوقات نقص بھی هے- مثلاً جس رات کو امام علی علیه السلام بستر رسول صلی الله علیه وآله وسلم پر سو گئے اور حضرت علًی (ع) علم رکھتے که خطره سے دو چار نهیں هوں گے توآپ(ع) کے لئے کوئی کمال نهیں تھا ، کیونکه اس صورت میں هر کوئی بستر رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم پر سونے کے لئےتیار هو تا – یهاں پر کمال علم غیب نه رکھنے میں هے-( قرائتی تفسیر نور،ج٤،ص٢٤٥-
[3] - آل عمران، ١٨٥-
[4] - آل عمران، ١٦٩-
[5] - سوره اعراف،٣٤
[6] - مقتل حسین مقرم،ص٥٧-
[7] - ایضاً ،ص٦١-