Please Wait
12500
آپ کے پیش کئے گئے موضوع کے بارے میں قابل ذکر ہے کہ آپ کا اس سلسلہ میں ماہرین کی طرف رجوع کرنا ایک اچھا طریقہ تھا، جس کا آپ نے انتخاب کیا ہے، لیکن اپ کو ھوشیار رہنا چاہیئے کہ آپ خرافات اور دھوکے بازوں کے دام میں پھنس کر اپنے موجودہ حالات کو بد تر نہ بنائیں-
لیکن یہ جو آپ مذکورہ سرد تعلقات کو مفسدہ سے دوچار ھونے کے سبب کی توجیہ کرتے ہیں اسے ہم صحیح اورقابل قبول بہانہ نہیں جانتے ہیں- کیونکہ ممکن ہے بعض پرہیزگار اور ایماندار مرد اور عورتیں اپنی آخری عمر تک ازدواج کرنے میں کامیاب نہ ھو پائیں، لیکن ا س کے باوجود جن حدود کو خداوند متعال نے معین کیا ہے، ان سے آگے قدم نہ بڑپائیں-[1] اور ایسا نہیں ہے کہ جو شخص اپنی جنسی پیاس کو جائز طریقے سے نہ بجھا سکے، اس کے لئے حدود کو پار کرنا جائز ھو- یہی وجہ ہے کہ آپ بھی اگر بالکل کنوارے ہی ھوتے، پھر بھی گناہ اور مفسدہ سے دو چار نہیں ھونا چاہیئے، جبکہ آپ کے لئے اس وقت جنسی خواہشات کو جائز طریقہ سے پورا کرنا، سرد مزاجی کے باوجود بھی ممکن ہے-
آپ دونوں کی ایک دوسرے سے جدائی کے بارے میں بھی قابل ذکر بات ہے کہ طلاق کے ایک قابل مذمت عمل ھونے کے پیش نظر تاکید کی گئی ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے، کیونکہ خداوند متعال کے نزدیک طلاق سب سے نا پسند ترین حلال کام ہے-[2] لیکن اس کے باوجود ہمیں جاننا چاہیئے کہ طلاق، ایک حلال حکم ہے اورایسے حالات میں کہ جب زندگی عسر وحرج سے دوچار ھوجائے، طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ہے- لیکن طلاق دینے کے سلسلہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیئے، بلکہ ہر کام انجام دینے سے پہلے تھوڑا سا غور کرنا چاہیئے اور مندرجہ ذیل سوالات کا اپنی جگہ پر جواب دے کر مسئلہ کو حل کرنا چاہیئے:
۱-کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ نے اس خاندانی مشکل سے نجات پانے کے لئے تمام طریقوں کو آزمایا ہے اور ایک دوسرے سے جدا ھونے کے لئے سرد مزاجی کے موضوع کو بہانہ نہیں بنایا ہے ؟
۲-کیا آپ مطمئن ہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دینے سے آپ کی مشکل حل ھوجائے گی؟ کیونکہ طلاق کے بعد آپ کے لئے دو راہیں قابل تصور ہیں:
۲-۱: یا آپ کنوارے ہی رہیں گے اور ا س صورت میں ہر قسم کے جنسی تعلقات سے محروم ھوں گے اور سرد مزاجی والے جنسی تعلقات کو بھی کھو دیں گے اور بعید ہے کہ وہ حالت آپ کے لئے موجودہ حالت سے بہتر ھو-
۲-۲: یا یہ کہ آپ دوسری شادی کرنے کی کوشش میں لگ جائیں گے- اس صورت میں چون کہ آپ پہلے شادی شدہ تھے، اس لئے کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ اپنے لئے کوئی من پسند اور آئیڈیل بیوی حاصل کرسکیں گے اور اپنی نئ بیوی کے ساتھ گرم جنسی تعلقات بر قرار کرسکیں گے؟ یا یہ کہ آپ کی دوسری شادی کا انجام بھی پہلی شادی کے مانند ھوگا اور اپنی نئی بیوی کو بھی نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل نہیں ھوگا؟
۳-اگر آپ اس نتیجہ پر بھی پہنچ جائیں کہ آپ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ مخلصانہ تعلقات بر قرار کرسکیں گےتو کیا آپ کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دیکر اسے ذہنی ضرر پہنچائے بغیر دوسری شادی بھی کریں؟ اور جیسا کہ آپ کے سوال سے معلوم ھوتا ہے کہ آپ کی بیوی سرد مزاجی کا سبب بنی ہے اور جدائی اختیار کرنے پر ر اضی ہے، کیا آپ اسے اس بات پر راضی نہیں کرسکتے ہیں کہ دوسری شادی {عارضی یا دائمی} کرنے کی صورت میں زندگی کو اسی طرح جاری رکھے؟ اگر چہ ہم ابتدائی مراحل میں آپ کو اس قسم کا اقدام کرنے کا مشورہ نہیں دیتے ہیں- لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کے تمام طریقوں سے نا امید ھونے کی صورت میں آپ اس جائز طریقہ{ یعنی طلاق} کو بھی مد نظر رکھ سکتے ہیں-
۴-اور سر انجام ، اگر آپ کی کوئی اولاد ہے تو کیا آپ نے ا س کے مختصر اور طولانی مستقبل میں اس کی تربیت اور اخراجات کے بارے میں کوئی مناسب چارہ جوئی کو مد نظر رکھا ہے ؟ کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ طلاق کے بعد اولاد، خاص کرآج کے زمانہ میں ، گونا گوں سماجی مشکلات سے دو چار ھوتی ہیں اور آخر کار ان کی ذمہ داری ان کے والدین پر ھوتی ہے، جنھوں نے ان کے بارے میں کسی تدبیر کو عملی جامہ نہیں پہنایا ہے؟
مذ کورہ بیان کے پیش نظر، ہم آپ کو قانونی اور شرعی لحاظ سے طلاق دینے سے منع نہیں کرسکتے ہیں، لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ اپنی زندگی کی مشکل کو حل کرکے زندگی کو جاری رکھنےکی کوشش کریں اور طلاق وجدائی کو فقط آخری راہ حل کے طور پر مد نظر رکھیں-
آخر میں آپ غورکریں کہ سرد مزاجی کے متعدد اسباب ھوتے ہیں، آپ کو اپنی بیوی میں اس قسم کی حالت پیدا ھونے کے باوجود اپنے بنیادی رول ادا کرنے سے غافل نہیں رہنا چاہیئے، اس بنا پر ضروری ہے کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ اپنے رفتار و کردار کے بارے میں تجدید نظر کریں اور اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کہیں ان حالات کو پیدا کرنے میں خود آپ کا کوئی قصور تو نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ پہلے مرحلہ میں مسائل کا حل طلاق نہیں ہے-
[1] - اس سلسلہ میں حضرت یوسف{ع} کی زندگی کو مد نظررکھنا مفید ھوگا-
[2]- کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج۶، ص۵۴، روایت۲، دارالکتب الاسلامیہ، تھران، ۱۳۶۵ہ ش-