اعلی درجے کی تلاش
کا
6036
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/05/19
سوال کا خلاصہ
میں ایک مدت تک ایک عورت کے ساتھ روابط قائم کرنے کے بعد، خاندان کی طرف سے اس کا منگیتر بن گیا، لیکن عدم تفاہم جیسی بعض وجوہات کی بنا پر اس سے جدا ہونا چاہتا ہوں، کیا میں حق الناس کے لحاظ سے مسئول ہوں گا؟
سوال
گزشتہ تین سال سے ایک ایسی عورت کے ساتھ میرے جائز تعلقات تھے، جو اعتقادات کے لحاظ سے میرے متناسب تھی اور اس وقت باضابطہ طور پر اس کا منگیتر ہوں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت بظاہر باہمی تفاوت، خاندانی تفاوت اور تعلیمی لحاظ سے ہم آہنگی کے باوجود بعض وجوہات کی بنا پر اس ازدواج سے منحرف ہونا چاہتا ہوں اور ممکن ہے کہ میری منگیتر میرے اس فیصلہ کے نتیجہ میں ذہنی طور پر شدید صدمہ سے دوچار ہو جائے پھر بھی بظاہر وہ زبان سے اس پر راضی ہے۔ چونکہ ابھی ہمارے درمیان باقاعدہ کوئی معاہدہ انجام نہیں پایا ہے بلکہ صرف اخلاقی حد تک معاہدہ ہے، تو کیا میں شرعی طور پر کسی فعل حرام کا مرتکب ہو جاوں گا اور بارگاہ الہٰی میں حق الناس کی وجہ سے مسئول ہوں گا؟
ایک مختصر

اگر آپ اپنی شریک حیات کے انتخاب کے سلسلہ میں ابتدائی منزل پر ہوتے تو ہم آپ کو ضرور مشترک زندگی کو جاری رکھنے کی نصیحت کرتے۔ لیکن جب آپ تین سال سے اس عورت کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں اور اسے بخوبی پہچانتے ہیں اور آپ کے ہی بقول اعتقادی لحاظ سے بھی آپس میں متناسب ہیں اور منگیتر بن گیے ہیں، تو آپ کے مذکورہ امور کی وجہ سے اس سے جدا ہونا اور اپنی اس نامزدگی کو توڑنا ، شاید بے مروتی ہوگی۔ جیسا کہ بعض مراجع محترم تقلید کے استفتاء میں آیا ہے کہ، اگرچہ شرعی طور پر آپ کسی گنا ہ کے مرتکب نہیں ہوں گے، لیکن اگر ایمان اور ایک صالح شخص کی حیثیت سے نگاہ کریں تو بہتر ہے کہ آپ اس عورت کے ساتھ ازدواج کا اقدام کریں۔

مراجع تقلید کے دفاتر سے آپ کے اس سوال کے موصولہ جوابات حسب ذیل ہیں:

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای {مدظلہ العالی}:

آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

دفتر حضرت آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی {مدظلہ العالی}:

اگر وہ ایک باایمان اور صالح لڑکی ہے تو اس کے ساتھ ازدواج کا اقدام کیجیے اور اسے نہ چھوڑئیے۔

حضرت آیت اللہ مھدی ہادوی تہرانی کا جواب:

۱۔ اگر دائمی نکاح پڑھے گیے ہیں، تو طلاق دینا چاہئیے تاکہ جدائی عمل میں آئے اور اگر متعہ { وقتی نکاح} ہے تو مدت تمام ہونے یا مرد کی طرف سے باقی ماندہ مدت بخشی جانے سے یہ عقد ختم ہوتا ہے اور طلا ق کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی قسم کا عقد نہیں پڑھا گیا ہے تو روابط منقطع کرنے سے مسئلہ ختم ہوگا۔

۲۔ اگر مرد طلاق دیدے یا باقی ماندہ مدت کو بخش دے ، تو کوئی گناہ نہیں ہے، اگرچہ "طلاق" مبغوض ترین حلال الہٰی ہے۔

۳۔ اخلاقی حد میں دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنا شرعی طور پر واجب نہیں ہے، البتہ انسان کی ذاتی زندگی میں ا سکے مثبت نتائج ہو سکتے ہیں۔ اپنی پوری زندگی میں موفق رہیں۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا