Please Wait
11016
مردوں کی عورتوں پر برتری کا مسئلہ قرآن مجید کی بعض آیات میں آیا ہے- اس موضوع کو پیش کرنا اس معنی میں نہیں ہے کہ مرد ہر لحاظ سے عورتوں پر برتری رکھتے ہیں- بہت سے علماء اور مفسرین کے مطابق عورتوں پر مردوں کی برتری کی وجہ، وہ خصوصیات ہیں جن سے مرد استفادہ کرتے ہیں تاکہ ان کی بنا پر خاندان کے نظم و نسق کو چلانے کی ذمہ داری نبھا سکیں، حقیقت میں یہ برتری ایک فریضہ ہے کہ مردوں پر ذمہ داری ہے جسے انھیں عدل و انصاف کے ساتھ انجام دینا ہے، یہ ہر لحاظ سےان کے لئے امتیاز نہیں ہےکہ جس پر وہ فخر و مباہات کریں اور عورتوں کے حقوق پامال کریں-
انسانوں کی ایک دوسرے کی بہ نسبت فضیلت اور برتری کا موضوع مختلف صورتوں اور مناسبتوں سے قرآن مجید کی بعض آیات میں بیان کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
۱- تمام مخلوقات پر انسان کی برتری: ارشاد الہی ہے کہ:" اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاوں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے-"[1]
۲- بعض انسانوں کی ایک دوسرے پر برتری: ارشاد ھوتا ہے:" اور اللہ ہی نے بعض کو رزق میں بعض پر فضیلت دی ہے"-[2]
۳- ایک قوم کی دوسری قوم پر برتری: " اے بنی اسرائیل ہماری نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تم پر نازل کی ہیں اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم نے تم کو لوگوں پر برتری عطا کی ہے"-[3]
۴- پیغمبروں کی ایک دوسرے پر برتری:" یہ سب رسول وہ ہیں جنھیں ہم نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے – ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ہے اور بعض کے درجات بلند کئے ہیں اور ہم نےعیسی بن مریم کو کھلی ھوئی نشانیاں دی ہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی ہے"-[4]
۵- مرد کی عورت پر برتری:" مرد، عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں اور فضیلتوں کی بنا پر جو خدا نے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انھوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے"-[5]
۶- مومنوں کی ایک دوسرے پر برتری:" اور ہر ایک کے لئے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہیں اور تمھارا پروردگار ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے"-[6]
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ خداوند متعال نے اپنے حکیمانہ ارادہ کے مطابق بعض افراد کو خصوصیات میں دوسروں پر برتری عطا کی ہے، لیکن یہ ضروری ہےکہ ہم جان لیں کہ جو برتریاں خداوند متعال نے بعض افراد کو عطا کی ہیں وہ کبھی مادی پہلو رکھتی ہیں ، جیسے انسانوں کی رزق کے سلسلہ میں دوسری تمام مخلوقات پر برتری، اور کبھی اس برتری کا پہلو معنوی ھوتا ہے، جیسے: انسانوں کے لئے انبیاء {ع} کی ہدایت کی برتری، کبھی ان درجات اور فضیلتوں سے مراد دنیا میں برتری ھوتا ہے اور کبھی یہ فضیلت آخرت میں ھوتی ہے-
البتہ مردوں کی عورتوں پر برتری، جو قرآن مجید کی بعض آیات میں بیان کی گئی ہے، علماء اور دانشوروں کے لئے مختلف نظریات پیش کرنے کا سبب بنی ہے – بعض مفسرین ظاہری معنی سے استفادہ کرکے مردوں کو تمام جہات سے برتری بخشنے کی کوشش کرتے ہیں-[7] اسی طرح بعض افراد جو مغربی طرز تفکر کے اثر میں قرار پائے ہیں اور حقوق انسان کے زاویہ سے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں، انھوں نے کوشش کی ہے کہ مردوں کی برتری کو مغربی معاشرہ میں رائج قوانین کے مطابق پیش کریں- اس سلسلہ میں ایک تیسرا نظریہ ہے جس میں مرد سالاری اور زن محوری سے بالاتر اس موضوع پر بحث کی گئی ہے-
مردوں کی برتری کے بارے میں جن آیات میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۷ ہے- اس آیہ شریفہ میں لفظ " درجہ" سے استفادہ کیا گیا ہے، جو برتری بیان کرتا ہے-
مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور لفظ " درجہ" سے مراد کے بارے میں کئی نظریات پیش کئے ہیں- ان نظریات میں سے مندرجہ ذیل دو اہم نظریات کے بارے میں اشارہ کیا جاسکتا ہے:
بعض افراد نے لفظ" درجہ" سے طلاق اور رجوع میں مرد کے حق کی تعبیر کی ہے-[8] اس کے علاوہ بعض نے کہا ہے کہ آیہ شریفہ میں " درجہ" سے مراد مردوں کی سرپرستی اور نظامت کا حق ہے کہ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۴ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے-[9]
اس بنا پر، اس آیہ شریفہ اور اس کے مانند دوسری آیات سے معلوم ھوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں کی بہ نسبت بیشتر امتیاز حاصل ہے- لہذا بعض افراد کے لئے یہ سوال پیدا ھوا ہے کہ یہ برتری کیسے عدالت کے موافق ہے؟
عورتوں اور مردوں کے جسمانی اور روحانی قوا میں پائے جانے والے وسیع اختلافات کے پیش نظر، اس سوال کا جواب واضح ہے – عورت ذات مردوں کے فرائض کی بہ نسبت متفاوت فرائض کی انجام دہی کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اسی وجہ سے، اس میں متفاوت جذبات پائے جاتے ہیں –خلقت کے قانون نے مامتا اور انسانی نسل کی پرورش کے حساس فرائض اس کے ذمہ رکھے ہیں اسی لئے اسے بیشتر جذبات اور احساسات عطا کئے گئے ہیں، جبکہ اس قانون کے مطابق مرد پر سخت اور سنگین تر اجتماعی فرائض عائد کئے گئے ہیں، اس بنا پر اگر ہم عدل و انصاف کی رعایت کرنا چاہیں، تو اجتماعی فرائض کا ایک حصہ، جس کے لئے زیادہ مقاومت و برداشت کی ضرورت ہے، مردوں پر ڈالا جانا چاہئے اور جن فرائض کے لئے زیادہ جذبات و احساسات کی ضرورت ہے، انھیں عورتوں پر ڈالا جانا چاہئے اور اسی وجہ سے گھر کی نظامت مرد کے ذمہ اور اس کا تعاون عورت کے ذمہ رکھا گیا ہے- بہرحال یہ فرائض اس امر میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ہیں کہ عورت معاشرہ کی ان ذمہ داریوں کو نبھائے جو اس کے جسم و جان کی بناوٹ کے مطابق اور ساز گار ھوں، اور مامتا کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ، دوسرے حساس اور مناسب فرائض کو بھی انجام دے- اس کے علاوہ یہ تفاوت ، اس امر میں بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے کہ معنوی مقامات ، علم و تقوی کے لحاظ سے بعض عورتیں مردوں سے برتر ھوں-
حکمت اور تدبیر الہی کا تقاضا ہے کہ جو شخص بھی معاشرہ میں کوئی ذمہ داری سنبھالے وہ اس کے جسم و جاں کی بناوٹ سے ہم آہنگ ھونی چاہئے، اور خداوند متعال کی حکمت کا تقاضا ہے کہ جو فرائض عورتوں پر ڈالے گئے ہیں، انھیں مسلم حقوق جاننا چاہئے تاکہ فریضہ اور حق کے درمیان توازن برقرارر ہے-[10]
اسی طرح جاننا چاہئے کہ کیفیت کے لحاظ سے برتری ایک الہی نعمت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا بعض دوسرے لوگوں پر تسلط، بذات خود انسانی معاشرہ کی مصلحتوں میں شمار ھوتا ہے، کیونکہ تسلط جمانے والا طبقہ اپنی طاقت کی وجہ سے، اپنے ماتحت طبقہ کے مسائل کو تدبیر سے حل کرتا ہے-[11]
اس کے پیش نظر کہ مرد اور عورت میں سے ایک شخص کو گھر کا نظم و نسق چلانا، چاہئے: اگر ہم یہ تصور کریں کہ یہ برتری مرد کے بجائے عورت سے مخصوص ھوتی، تو پھر بھی یہ سوال باقی تھا، لہذا مرد اور عورت کے درمیان بعض خصوصیات میں تفاوت اور مرد کی برتری، خداوند متعال کے حکیمانہ امور میں سے ہے اور خاندان کے امور کی مصلحت کا لازمہ بھی ہے، البتہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک اپنی خصوصیت کی بناپر خاندان کے نظام میں مشخص کار کردگی رکھتے ہیں اور ان کے حقوق معین اور مشخص ہیں-
مردوں اور عورتوں کے حقوق اور فرائض کے موضوع کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سائٹ کے عنوان:" وظائف زنان در برابر مردان" سوال: ۸۵۰ {سائٹ: ۹۲۵} کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
لیکن یہ مسئلہ کہ مردوں کو خدا کی طرف سے برتری عطا کرنا، ممکن ہے مردوں کے لئے فخر و مباہات، کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور بالآخر عورتوں کے حقوق سے چشم پوشی کرنے کا سبب بن جائے، اس کے بارے میں کہنا ہے کہ خداوند متعال نے انسانوں کے حق میں اپنی نعمتیں عطا کرنے کے سلسلہ میں، ان نعمتوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکان کے پیش نظر عمومی صورت میں تمام انسانوں کو اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا ہے،[12] البتہ قابل بیان ہے کہ انسان کے اعمال الہی نعمتوں کے جاری رہنے، اضافہ ھونے یا محروم ھونے میں بے اثر نہیں ہیں-[13]
اسی طرح مذکورہ جہات سے مردوں کی برتری ان کی اخروی برتری کا سبب نہیں بنتی ہے، یعنی انسانوں کو ایک دوسرے کی بہ نسبت زیادہ مال ملنا، زیادہ تنخواہ ملنا اور جسمانی طاقت کا زیادہ ھونا ، بارگاہ الہی میں ان کے لئے بلند مقام حاصل کرنے کا سبب نہیں بن سکتا ہے، قرآن مجید کے مطابق جو کچھ حقیقی برتری کا سبب بنتا ہے، وہ تقوی اور عمل صالح ہے-[14] یہی وجہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کے سلسلہ میں تکبر، خود خواہی اور دوسروں کی بے احترامی کرنے کو منع کرتا ہے-[15]
دوسری بات یہ کہ خداوند متعال نے مردوں کو عورتوں پر برتری دے کر اور اس خصوصیت کے مطابق انھیں مسئولیت دے کرآزاد نہیں چھوڑا ہے، بلکہ مکرر طور پر مردوں کو اس امر کی فہمائش کی ہے کہ ازدواجی زندگی کی تعلیمات پر عمل کرتے ھوئے عورتوں کے ساتھ کیسا برتاو کریں تاکہ انھیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں توجہ دلا کر ان تعلیمات کی بنیاد پر عدل و انصاف اور اخلاقی فضا قائم کرسکیں اور من مانیوں اور خود خواہی سے پرہیز کریں- قرآن مجید اس سلسلہ میں، یعنی مردوں کے عورتوں سے برتاو کے بارے میں، مردوں کو حاصل حقوق سے بہرہ مند ھونے کے پیش نظر چند اصولوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے:
۱- عدل و انصاف پر مبنی برتاو: اسلام میں قانون سازیہ کی بنیاد عدل و انصاف پر مبنی ہے-[16] دین اسلام نے انسانوں کی سماجی زندگی کے تمام پہلووں میں، من جملہ حکومتی یا اجتماعی جہات سے عدل و انصاف کی رعایت کرنے کی سفارش کی ہے-[17]
خاندان میں مرد کی مدیریت، جو معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر مدیریت و حاکمیت کا ایک چھوٹا نمونہ ہے، اسی اصول پر مبنی ہے، یعنی مرد گھر کے ماحول میں مختلف جہات سے نظم و انتظام اور ہم آہنگی بر قرار کرنے کی مسئولیت کے علاوہ، عدل و انصاف کو نافذ کرنے والا بھی شمار ھوتا ہے- حقیقت میں مرد حکومت کرنے کا حق رکھتا ہے، لیکن تحکم کا حق نہیں رکھتا ہے، {اسلام میں} حکومت یعنی عدل و انصاف پر مبنی نظم و نسق چلانا اور تحکم یعنی زور زبردستی سے کام لینا، اسلام نے مرد کو زور زبردستی کرنے کا حق نہیں دیا ہے، بلکہ اسے حکومت کرنے کا حق سونپا ہے، کہ جو ایک فریضہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے تاکہ اس پر مبنی ضرورتوں کے مطابق خاندان کا نظم و نسق چلائے- وہ خاندان کا سرپرست ہے، یعنی حق رکھتا ہے کہ خاندان کی مصلحتوں کی حد میں امر و نہی کرے، لیکن زور زبردستی کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے، یعنی اسے حق نہیں ہے کہ خاندان کی مصلحتوں کے خلاف عمل کرے-[18]
اس لئے مرد کو عدل و انصاف اور خدا کی رضامندی پر مبنی سر پرستی کرنے کا حق ہے- بہت سی آیات میں عورتوں کے ساتھ ظلم کرنے اور ایام جہالت کے رسوم کے مطابق برتاو کرنے کی ممانعت کی گئی ہے اور انھیں ان کے حقوق ادا کرنے کی فہمائش کی گئی ہے-[19]
۲- حسن سلوک کے اصول کی رعایت: قرآن مجید نے متعدد آیات میں اور مختلف مناسبتوں سے حسن سلوک کے مسئلہ کی یاد دہانی کی ہے اور مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو اس اصول کی رعایت کرنے کی فہمائش کی ہے- حسن سلوک کے اصول سے متعلق آیات کے بارے میں تحقیق کرنے کے دوران ہمیں ایسی باتیں ملتی ہیں، جن میں زندگی کے مختلف مراحل میں مردوں کی طرف سے عورتوں کے ساتھ تعامل کے طریقہ کار پر عمل کرنے کا اشارہ کیا گیا ہے- من جملہ ازدواج، طلاق،[20] معاشرت[21]، مہر جیسے[22] ان کے مالی حقوق ادا کرنے، اور بچے کو دودھ[23] پلانے جیسے امور بیان کئے گئے ہیں، اور مردوں کو حسن سلوک کے اصول کے برخلاف عورت پر اپنے نظریات کو زور زبردستی سے منوانے کا حق نہیں ہے-
لفظ " معروف"{ حسن معاشرت} ہر اس امر کے معنی میں ہے کہ لوگ اپنے معاشرہ میں اسے جانتے ہیں، اور اس سے انکار نہیں کرتے ہیں اور اس کے بارے میں بے خبر نہیں ہیں اور چونکہ خداوند متعال نے عورتوں کے ساتھ معاشرت کرنے کے حکم میں " معروف" {حسن معاشرت} کی قید سے مقید کیا ہے، اس لئے عورتوں سے معاشرت کرنے کا حکم ایک ایسی معاشرت ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے والے، یعنی مسلمانوں کے درمیان معروف ھو-[24]
البتہ لفظ" معروف" قانون مندی اور عدل و انصاف سے وسیع تر معنی رکھتا ہے- اسی طرح قانون اور عادلانہ حق پر بھی مشتمل ہے، اور قابل قدر اور اخلاقی کام بھی اس میں شامل ھوتے ہیں، یعنی خداوند متعال خاندان کی سرپرستی کو مردوں کے حوالہ کرتے ھوئے خاندان کے ماحول میں عدل و انصاف پر مبنی حسن معاشرت اور اخلاق پر مبنی قابل قدر برتاو کی سفارش کرتا ہے-
اس لیے حسن سلوک کی بنیاد پر عورتوں کے ساتھ معاشرت کرنا، یعنی عدل و انصاف پر مبنی برتاو کرنا ہے [25]اور بہ الفاظ دیگر یہ ایک ایسا حسن معاشرت ھونا چاہئے جو خدا کے حکم اور عورتوں کے حقوق کو ادا کرنے کی بنیاد پر ھو-
۳- مودت ورحمت کا اصول: مرد کی حکمرانی ہر قسم کی زور زبردستی سے عاری، مودت و رحمت پر مبنی ھونی چاہئے- قرآن مجید اس سلسلے میں ارشاد فر ما تا ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمھیں اس سے سکون حاصل ھو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں"-[26] مودت کی بنا پر مرد کا حسن سلوک اور نیک برتاو، اس کی شریک حیات کے لئے موثر ترین عامل ہے-
مذکورہ مطالب کے پیش نظر خداوند متعال نے مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کو کچھ توا نائیاں عطا کی ہیں اور ان توانائیوں کی بنیاد پر کچھ متقابل حقوق اور وظائف مقرر کئے ہیں- اسی طرح خداوند متعال نےاپنی حکمت کے پیش نظر عورتوں کی بہ نسبت مردوں کو بعض بیشتر توانا ئیاں عطا کی ہیں اور اس برتری کی بنیاد پر خاندان کی سرپرستی کی مسئولیت مردوں کو عطا کی ہے- اگر اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، تو معلوم ھوگا کہ یہ برتری مرد کے لئے ایک فریضہ کو قبول کرنے کا سبب بنی ہے تا کہ اس کے ذریعہ خاندان کا نظم و نسق چلا سکے- اس کے لئے یہ کوئی امتیاز نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ حکم رانی کرے اور اس پر فخر و مباہات کرے-
اس موضوع کے سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے آپ ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل عناوین کا بھی مطالعہ کرسکتے ہیں:
۱-عنوان: " فرمانبرداری زنان در برابر مردان"، سوال: ۱۶۷۴{ سائٹ: ۲۳۱۰}
۲-عنوان:" قرآن و قوامیت مردان بر زنان"، سوال: ۲۸۷{ سائٹ: ۱۸۸۱
[1] اسراء، 70.
[2] نحل ،71.
[3] بقره ،47.
[4]بقره ،253.
[5] نساء،34.
[6] انعام،132.
[7]ابن كثير دمشقى، اسماعيل بن عمر، تفسير القرآن العظيم، ج 1، ص 45، منشورات محمدعلى بيضون، دار الكتب العلمية، بيروت.
طبع اول، 1419ھ .
[8] نجفى خمينى، محمد جواد، تفسير آسان، ج 2، ص 62، انتشارات اسلامي، تهران ، طبع اول 1398 ھ.
[9] مكارم شيرازى ناصر،تفسير نمونه، ج 2، ص 158، دار الكتب الإسلامي،تهران ،طبع اول 1374 ھ ش.
[10] موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ترجمه الميزان، ج 12، ص 42، دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم، قم، طبع پنجم 1374ھ ش.
[11] اسراء، 20.
[12] ابراهیم، 7.
[13]حجرات، 13.
[14] اسراء، 37.
[15] حجرات، 11.
[16] نساء، 135.
[17] اعراف، 29.
[18] مطهرى، مرتضی، مجموعهآثار، ج 21، ص 117.
[19] نساء، 19.
[20] بقره، 231.
[21] نساء، 19.
[22] بقره، 236.
[23] بقره، 233.
[24]طباطبایی، محمد حسین، تفسیر الميزان، موسوى همدانى سيد محمد باقر ،ج 4، ص 405، دفتر انتشارات اسلامى جامعۀ مدرسين حوزه علميه قم،قم، طبع پنجم 1374 ھ ھش
[25] فيض كاشانى، ملا محسن ،تفسیر صافی، ج 1 ص 434 ، انتشارات الصدر، تهران ،طبع دوم، 1415 ھ.
[26]روم ،21.