Please Wait
5291
خدا وند متعال نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کو ولایت تشریعی ( قانون سازی اور چیزوں اور کام کو حلال و حرام قرار دینے) کے علاوه ولایت تکو ینی بھی عطا فر مائی هے اور وه کائنات میں هر قسم کے دخل و تصرف کی طاقت و توانائی رکھتے هیں – اس قسم کی ولایت و طاقت صرف ان کی ظاهری زندگی تک هی محدود نهیں هے کیو نکه وه ایسےذوات مقد سه هیں جو اپنی بر زخی زندگی میں بھی یه طاقت رکھتے هیں ، لیکن وه اس طاقت سے هر وقت اور هر جگه پر کام نهیں کرلیتے هیں ،بلکه اس جگه پر استعمال کر تے هیں جهاں پر خدا اور دین کی عظمت اور لو گوں کی هدایت کی مصلحت هو اور خدا کی ناقابل تغیر سنت کے خلاف نه هو-
دوسری جانب ائمه اطهار علیهم السلام کی زیارت گاهوں کا احترام راه هدایت اور ان کی بے احترامی ضلالت و گمراهی هے- اس کے علاوه سنت الهی کے طریقوں میں سے ایک طریقه یه هے که تمام لوگ هدایت اور ضلالت کی راهوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر نے میں قیامت تک آزاد اور مختار هیں ، اس بناپر وه اس طاقت سے همیشه اور هر جگه پر استفاده نهیں کرتے هیں ، جیسا که خدا وند متعال نے اپنی طاقت سے ھمیشھ کام نھیں لیا ھے اور نه لیتا هے ، جبکه وه سب سے بڑی طاقت کا مالک هے اور هر چیز پر قدرت و توانائی رکھتا هے – پوری تاریخ میں کئی بار ظالم اور سر کش گروهوں نے خانه کعبه پر حمله کیا هے اور اسے منهدم کر کے رکھدیا هے لیکن خدا وند متعال نے صرف ایک بار ابرهه کی سپاه کو معجزه نما صورت میں تهس نهس کر کے رکھدیا ،جس نے کعبه کو نابود کر نے کا فیصله کیا تھا-
خدا وند متعال نے پیغمبر اسلام صل الله علیه وآله وسلم اور دوسرے انبیاء وائمه اطهار علیهم السلام کو ولایت تشریعی کے علاوه ولایت تکو ینی بھی عطا کی هے اور وه ولایت تکوینی کی بنیاد پر کائنات میں هر قسم کے دخل وتصرف کر نے کی طاقت رکھتے هیں - امام محمد باقر علیه السلام نے فر مایا :" اسم اعظم ٧٢ حروف هیں ، " آصف بر خیا" کے پاس ان میں سے صرف ایک حرف تھا که اسی ایک حرف سے استفاده کر کے وه ایک لمحه میں تخت بلقیس کو لے آیا، جبکه همارے( ائمه اطهار علیهم السلام ) کے پاس اسم اعظم کے ٧٢ حروف مو جود هیں-"[1] اس حدیث شریف کی بناپر ائمه اطهار علیهم السلام کی طاقت و توانائی کا اندازه کیا جاسکتا هے- اس قسم کی ولایت و طاقت ان کی ظاهری زندگی سے هی مخصوص نهیں هے – یه وه ذوات مقدسه هیں جن کے لئے موت و حیات مساوی هے، یعنی شهادت و رحلت کے بعد اپنی بر زخی زندگی کے دوران بھی اس طاقت کے مالک هو تے هیں ، لیکن وه همیشه اس امر کے پابند تھے که اپنی روز مره زندگی کے کاموں میں اپنے عادتا علم و طاقت سے استفاده کریں اور معجزه اور غیر معمولی کام سے کام نھ لیں ، وه ، صرف مخصوص مواقع پر خدا کی اجازت سے دین خدا اور لو گوں کی هدا یت کے پیش نظر اپنی دنیوی زندگی میں اس غیر معمولی طاقت سے استفاده کرتے تھے-
اسی طرح خدا وند متعال سب سے بڑی اور مطلق طاقت رکھنے کے باوجود همیشه اپنی اس طاقت سے کام نهیں کر لیتا هے – پوری تاریخ میں کئی بار ظالم اور سرکش گروهوں نے خانه کعبه پر حمله کر کے اس کو منهدم کیا هے ، لیکن خدا وند متعال نے صرف ایک بار اپنی طاقت سے کام لے کر معجزه نما صورت میں ابرهه کی فوج کو تهس نهس کر کے رکھدیا ، (جس نے کعبه کو نابود کر نے کا مصمم اراده کیا تھا )، تاکه همیشه کے لئے تاریخ میں درج هو جائے اور سب جان لیں که خدا وند متعال ایسی طاقت رکھتا هے که اگر اراده کرے تو ایک هی لمحه میں تمام کفار، ظالموں اور فاسقوں کو تنبیه اور سزا دیکر نابود کر سکتا هے- لیکن وه اپنی مهر بانیوں کے یش نظر انھیں مهلت دیتا هے تاکه جهالت کی وجه سے برے اعمال انجام دینے والے افراد گمراهی کی را ه سے پلٹ کر واپس آجائیں اور قیامت کے دن ایسا کوئی بهانه نه لا سکیں که خدا وند متعال اگر همیں مهلت دیتا تو هم بھی هدا یت پاتے- بالکل اسی بنیاد پر انبیاء اور ائمه علیهم السلام بھی ظاهری اسباب کے مطابق اپنے فریضه پر عمل کرتے هیں تاکه تمام لوگوں کے لئے هدایت ممکن بن سکے – اسی طرح ائمه اطهار علیهم السلام کی طرف سے خاص مواقع پر اپنے دوستوں اور زیارت گاهوں کی حفاظت کے سلسله میں اس قسم کے معجزه و طاقت کا مظاهره کیاگیا هے اور تاریخ میں یه واقعات درج هو چکے هیں ، لیکن مذ کوره دلائل کی بناپر ایسے واقعات عام طور پر رونما نهیں هو تے هیں –
ائمه اطهار علیهم السلام کی زیارت گاهوں کا احترام هدایت و سعادت کی راه هے اور اس کے بر عکس ان کی بے احترامی ضلالت و گمراهی هے اور سنت الهی میں سے ایک یه هے که تمام لوگ قیامت تک هدایت اور ضلالت کی راهوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر نے میں آزاد اور مختار هوں اور اگر ائمه اطهار علیهم السلام همیشه اپنے الهی علم و طاقت سے کام لینا چاهیں اور مختصر زمانه میں اپنے دشمنوں ، (جو حقیقت میں خدا وند متعال کے دشمن هیں) ، کو نابود کر دیں-تو یه خدا وند متعال کی ناقابل تغیر سنت کے خلاف هے اور اس صورت میں انسان کی خلقت کا مقصد فوت هو جائے گا ، جو حقیقت میں انسان کا امتحانات سے گزر کر کمال تک پهنچنا هے –
بهت سے ایسے افراد جو تشدد اور دھشتگردی کی راه اختیار کر کے مظلوم اور نهتے مسلمانوں پر قاتلانه حمله کر تے هیں ، خود مسلمان هیں، لیکن افسوس که وه دھوکه میں آکر شیطانی طاقتوں کے آله کار بن چکے هیں اور گمراه هو کر بظاهر خدا کی مرضی اور پر وردگار سے تقرب حاصل کر نے کی غرض سے مسلمانوں کو نشانه بناتے هیں! ان کےعمل اور طرز فکر سے انسان کے دل میں خوارج نهروان کی یاد تازه هوجاتی هے ، جنھوں نے قصد قربت سے حضرت علی علیه السلام کو شب قدر میں مسجد کے اندر شهید کیا تاکه زیاده ثواب پاسکیں اور یزید کے لشکر کی یاد تازه هوجاتی هے جنھوں نے قصد قربت سے امام حسین علیه السلام کے ساتھـ جنگ کی ، کیو نکه وه دعوی کرتے تھے که حسین (علیه السلام ) اور ان کے اصحاب دین رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم سے خارج هو چکے هیں – خوارج نهروان ، حضرت علی علیه السلام کو کافر جانتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان مهر بان ائمه اطهار علیهم السلام نے ان کو نابود کر نے کے لئے اپنی قدرت الهی اور ولایت تکوینی سے کام نهیں لیا هے-
آخر میں اس نکته کی طرف توجه مبذول کرانا دلچسپی سے خالی نهیں هو گا که ائمه اطهار علیهم السلام نے اپنے دشمنوں کو نابود کر نے کے لئے اپنی الهی قدرت سے کام نھ لے کر ، ان کو فطری طور پر نابود کر نے کا طریقه سکھایا – یعنی اگر وه اپنی الهی طاقت سے کام لیتے تو وه همارے لئے نمو نه عمل نهیں بن سکتے تھے ، اور چونکه هم اس طاقت سے محروم هیں ، اس لئے همیں معلوم نهیں هوتا که ائمه اطهار علیهم السلام ، جیسے امام حسین علیه السلام کود رپیش حالات کے مانند حالات سے دو چار هو نے کی صورت میں ، اسلام کے تحفظ کے لئے کونسے اقدامات انجام دئے جانے چاهئیں-
اسی لئے ائمه اطهار علیهم السلام نے همیشه اور هر جگه پر اس طاقت سے استفاده نهیں لیا هے-