Please Wait
کا
9607
9607
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2016/07/19
سوال کا خلاصہ
مراجع کی تقلید کرنا کیوں واجب ھے؟
سوال
آپ کیسے ثابت کرسکتے ھیں که مراجع کی تقلید کرنا واجب ھے؟
ایک مختصر
تقلید کے معنی، ایک غیر ماھر شخص کا کسی تخصصی کام میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا ھے۔ دینی مسائل میں تقلید کرنے کی اھم ترین دلیل، یھی عقلائی نکتہ ھے کہ ایک غیر ماھر انسان کو کسی تخصصی کام کے سلسلہ میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا چاھئے۔
البتہ تقلید کے ضروری ھونے کے سلسلہ میں آیات و روایات بھی موجود ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: "فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون" "اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو عالموں سے سوال کرو۔"
لیکن قابل توجہ بات ھے کہ تقلید کی تمام لفظی دلالتیں وھی عقلا کی نظر میں قابل قبول امر ھے۔
اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔
البتہ تقلید کے ضروری ھونے کے سلسلہ میں آیات و روایات بھی موجود ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: "فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون" "اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو عالموں سے سوال کرو۔"
لیکن قابل توجہ بات ھے کہ تقلید کی تمام لفظی دلالتیں وھی عقلا کی نظر میں قابل قبول امر ھے۔
اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔
تفصیلی جوابات
اسلام نے انسان کی مادی و معنوی، انفرادی و اجتماعی اور سیاسی و اقتصادی ضرورتوں کے مطابق قوانین اور مقررات وضع کئے ھیں، جو فقہ کی مختلف کتابوں میں تدوین اور تالیف ھوئے ھیں اور علم فقہ کو تشکیل دیتے ھیں۔ حقیقت میں علم فقہ، بندگی کی اصلی روش ھے، زندگی کے عالی ترین ںظام کے انسانی اور اجتماعی روابط کی صحیح کیفیت ھے جو انسانی زندگی کے تمام ابعاد پر ناظر ھے اور امام خمینی [قدس سرہ] کی تعبیر میں: " فقہ، انسان و اجتماع کو گہوارہ سے لحد تک ادارہ کرنے کی حقیقی تھیوری ھے
[1]
"
فقہ اور شرعی احکام کی غیر معمولی اھمیت کے پیش نظر، ائمہ اطھار علیھ السلام اپنے پیرﺆں کو اس کی تعلیم حاصل کرنے کی سفارش کرتے تھے اور جو لوگ اس اھم فریضہ کے سلسلہ میں پھلو تھی کرتے یا احکام شرعی کی تعلیم حاصل کرنے میں سہل انگاری کرتے تھے، انھین سزا و سرزنش کا مستحق جانتے تھے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:" اگر کسی شیعہ نوجوان کو میرے پاس لایا جائے جو تفقہ[ غور وفکر] نھیں کرتا ھے، میں اس کی تادیب کروں گا! [2] "
اسلامی شریعت میں، کچھ واجبات اور محرمات ھیں کہ خداوند حکیم نے انھیں انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے تشریع کیا ھے اور اگر انسان ان کی اطاعت نہ کرے، تو نہ مطلوبہ سعادت تک پھنچے گا اور نہ ان کی نافرمانی کے عذاب سے بچ سکے گا۔
شرعی احکام کی پھچان حاصل کرنے کے لئے سالہا سال تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ھوتی ھے، اور ان احکام کی پھچان کے لئے آیات و روایات کو سمجھنا، صحیح اور غیر صحیح احادیث کی تشخیص، آیات و روایات کی ترکیب اور جمع کرنے کی کیفیت اور دسیوں دوسرے مسائل کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ھے۔ اس سلسلہ میں مکلف کے سامنے تین راستے ھیں:
1۔یہ کہ اس علم [اجتہاد] کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ھوجائے۔
2۔ یہ کہ ھرکام کے بارے میں موجود نظریات کا مطالعہ کرکے، اس طرح عمل کرے کہ تمام نظریات کے مطابق اس کا عمل صحیح ھو۔[ یعنی احتیاط کرے]
3۔ یہ کہ جس شخص نے ان علوم کی مکمل طور پر تعلیم حاصل کی ھے اور شرعی احکام کو پھچاننے میں ماھر ھے، اس کے نظریہ سے استفادہ کرے۔ بیشک اگر وہ پھلی راہ میں اجتہاد تک پھنچ جائے، تو وہ شرعی احکام کا ماھر بن جاتا ھے اور دوسری دوراھوں سے بے نیاز ھوتا ھے، لیکن اجتہاد حاصل کرنے تک باقی دوراستوں سے استفادہ کرنے کے لئے مجبور ھے۔
دوسری راہ کے سلسلہ میں ھر مسئلہ کے بارے میں موجود مختلف نظریات کے سلسلہ میں کافی اطلاعات رکھنا، احتیاط کی روش ھے اور بھت سے مواقع پر احتیاط کے سخت ھونے کی وجہ سے، اس کی عادی زندگی درھم برھم ھوتی ھے۔ اس لئے عوام الناس کے لئے "تقلید" کا راستہ انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں ھے اور یہ راستہ عام لوگوں کے لئے سہل و آسان ھے۔ یہ تین راستے صرف شرعی احکام سے ھی مخصوص نھیں ھیں، بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی ان کی ضرورت ھوتی ھے۔ مثال کے طور پر ایک ماھر انجینئر کے بارے میں فرض کریں کہ وہ بیمار ھوتا ھے۔ اسے اپنی بیماری کا علاج کرنے کے لئے، یا خود علم طبابت میں مہارت حاصل کرنی چاھئے، یا تمام طبیبوں کے نظریات کا مطالعہ کرکے ایسے عمل کرے کہ بعد میں پشیمان نہ ھوجائے اور یا ایک ماھر طبیب کی طرف رجوع کرے۔
پھلی راہ پر عمل کرنے سے وہ فوری طور پر اپنا علاج نھیں کرسکتا ھے۔ دوسری راہ بھی کافی دشوار ھے اور یہ راہ اس کے اپنے تخصصی کام یعنی انجینئرنگ میں بھی رکاوٹ کا سبب بن سکتی ھے۔ اس لحاظ سے وہ فوری طور پر ایک ماھر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرکے اس کے نظریہ پر عمل کرتا ھے۔
وہ ماھر طبیب کے نظریہ پر عمل کرکے، نہ صرف خود کو مستقبل کی پشیمانی سے بلکہ دوستوں کی ملامت سے بھی نجات دلاتا ھے، اور اکثر مواقع پر اپنا معالجہ کرنے میں بھی کامیاب ھوتا ھے، مکلف بھی اعلم مجتہد کے نظریہ پر عمل کرکے، نہ صرف اپنے آپ کو آخرت کی پشیمانی اور عذاب الھی سے نجات دلاتا ھے، بلکہ احکام شرعی کی مصلحتوں کو بھی حاصل کرتا ھے۔ [3]
پس،"تقلید کے معنی، ایک غیر ماھر شخص کا کسی تخصصی کام میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا ھے۔ دینی مسائل میں تقلید کرنے کی اھم ترین دلیل، یھی عقلائی نکتہ ھے کہ ایک غیر ماھر انسان کو کسی تخصصی کام کے سلسلہ میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا چاھئے۔
البتہ تقلید کے ضروری ھونے کے سلسلہ میں آیات و روایات بھی موجود ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: "فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون" "اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو عالموں سے سوال کرو۔ [4] "
یا روایتوں میں آیا ھے کہ:
" لیکن رونما ھونے والے واقعات کے بارے میں ھماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کریں کہ وہ میری طرف سے آپ پر حجت ھیں اور میں آپ پر خدا کا حجت ھوں [5] "
محقق کرکی فرماتے ھیں:" تمام شیعہ اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ عادل، امین، فتویٰ میں جامع الشرائط فقیہ، ائمہ ھدی[ع] کی طرف سے غیبت کے زمانہ میں، قابل مداخلت امور میں، ان کا نائب ھے۔
اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔
مزید آگاھی کے لئےملاحظہ ھو:
1. مرجعیت و تقلید، سؤال 276.
2. ولایت فقیه و مرجعیت، سؤال 2916 (سایت:3145)
3. ادله ولایت فقیه، سؤال 235.
فقہ اور شرعی احکام کی غیر معمولی اھمیت کے پیش نظر، ائمہ اطھار علیھ السلام اپنے پیرﺆں کو اس کی تعلیم حاصل کرنے کی سفارش کرتے تھے اور جو لوگ اس اھم فریضہ کے سلسلہ میں پھلو تھی کرتے یا احکام شرعی کی تعلیم حاصل کرنے میں سہل انگاری کرتے تھے، انھین سزا و سرزنش کا مستحق جانتے تھے۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:" اگر کسی شیعہ نوجوان کو میرے پاس لایا جائے جو تفقہ[ غور وفکر] نھیں کرتا ھے، میں اس کی تادیب کروں گا! [2] "
اسلامی شریعت میں، کچھ واجبات اور محرمات ھیں کہ خداوند حکیم نے انھیں انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کے لئے تشریع کیا ھے اور اگر انسان ان کی اطاعت نہ کرے، تو نہ مطلوبہ سعادت تک پھنچے گا اور نہ ان کی نافرمانی کے عذاب سے بچ سکے گا۔
شرعی احکام کی پھچان حاصل کرنے کے لئے سالہا سال تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ھوتی ھے، اور ان احکام کی پھچان کے لئے آیات و روایات کو سمجھنا، صحیح اور غیر صحیح احادیث کی تشخیص، آیات و روایات کی ترکیب اور جمع کرنے کی کیفیت اور دسیوں دوسرے مسائل کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ھے۔ اس سلسلہ میں مکلف کے سامنے تین راستے ھیں:
1۔یہ کہ اس علم [اجتہاد] کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ھوجائے۔
2۔ یہ کہ ھرکام کے بارے میں موجود نظریات کا مطالعہ کرکے، اس طرح عمل کرے کہ تمام نظریات کے مطابق اس کا عمل صحیح ھو۔[ یعنی احتیاط کرے]
3۔ یہ کہ جس شخص نے ان علوم کی مکمل طور پر تعلیم حاصل کی ھے اور شرعی احکام کو پھچاننے میں ماھر ھے، اس کے نظریہ سے استفادہ کرے۔ بیشک اگر وہ پھلی راہ میں اجتہاد تک پھنچ جائے، تو وہ شرعی احکام کا ماھر بن جاتا ھے اور دوسری دوراھوں سے بے نیاز ھوتا ھے، لیکن اجتہاد حاصل کرنے تک باقی دوراستوں سے استفادہ کرنے کے لئے مجبور ھے۔
دوسری راہ کے سلسلہ میں ھر مسئلہ کے بارے میں موجود مختلف نظریات کے سلسلہ میں کافی اطلاعات رکھنا، احتیاط کی روش ھے اور بھت سے مواقع پر احتیاط کے سخت ھونے کی وجہ سے، اس کی عادی زندگی درھم برھم ھوتی ھے۔ اس لئے عوام الناس کے لئے "تقلید" کا راستہ انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں ھے اور یہ راستہ عام لوگوں کے لئے سہل و آسان ھے۔ یہ تین راستے صرف شرعی احکام سے ھی مخصوص نھیں ھیں، بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل میں بھی ان کی ضرورت ھوتی ھے۔ مثال کے طور پر ایک ماھر انجینئر کے بارے میں فرض کریں کہ وہ بیمار ھوتا ھے۔ اسے اپنی بیماری کا علاج کرنے کے لئے، یا خود علم طبابت میں مہارت حاصل کرنی چاھئے، یا تمام طبیبوں کے نظریات کا مطالعہ کرکے ایسے عمل کرے کہ بعد میں پشیمان نہ ھوجائے اور یا ایک ماھر طبیب کی طرف رجوع کرے۔
پھلی راہ پر عمل کرنے سے وہ فوری طور پر اپنا علاج نھیں کرسکتا ھے۔ دوسری راہ بھی کافی دشوار ھے اور یہ راہ اس کے اپنے تخصصی کام یعنی انجینئرنگ میں بھی رکاوٹ کا سبب بن سکتی ھے۔ اس لحاظ سے وہ فوری طور پر ایک ماھر ڈاکٹر کی طرف رجوع کرکے اس کے نظریہ پر عمل کرتا ھے۔
وہ ماھر طبیب کے نظریہ پر عمل کرکے، نہ صرف خود کو مستقبل کی پشیمانی سے بلکہ دوستوں کی ملامت سے بھی نجات دلاتا ھے، اور اکثر مواقع پر اپنا معالجہ کرنے میں بھی کامیاب ھوتا ھے، مکلف بھی اعلم مجتہد کے نظریہ پر عمل کرکے، نہ صرف اپنے آپ کو آخرت کی پشیمانی اور عذاب الھی سے نجات دلاتا ھے، بلکہ احکام شرعی کی مصلحتوں کو بھی حاصل کرتا ھے۔ [3]
پس،"تقلید کے معنی، ایک غیر ماھر شخص کا کسی تخصصی کام میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا ھے۔ دینی مسائل میں تقلید کرنے کی اھم ترین دلیل، یھی عقلائی نکتہ ھے کہ ایک غیر ماھر انسان کو کسی تخصصی کام کے سلسلہ میں اس کام کے ماھر کی طرف رجوع کرنا چاھئے۔
البتہ تقلید کے ضروری ھونے کے سلسلہ میں آیات و روایات بھی موجود ھیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے: "فاسئلوا أهل الذکر إن کنتم لا تعلمون" "اگر کسی چیز کو نھیں جانتے ھو تو عالموں سے سوال کرو۔ [4] "
یا روایتوں میں آیا ھے کہ:
" لیکن رونما ھونے والے واقعات کے بارے میں ھماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کریں کہ وہ میری طرف سے آپ پر حجت ھیں اور میں آپ پر خدا کا حجت ھوں [5] "
محقق کرکی فرماتے ھیں:" تمام شیعہ اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ عادل، امین، فتویٰ میں جامع الشرائط فقیہ، ائمہ ھدی[ع] کی طرف سے غیبت کے زمانہ میں، قابل مداخلت امور میں، ان کا نائب ھے۔
اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔
مزید آگاھی کے لئےملاحظہ ھو:
1. مرجعیت و تقلید، سؤال 276.
2. ولایت فقیه و مرجعیت، سؤال 2916 (سایت:3145)
3. ادله ولایت فقیه، سؤال 235.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے