Please Wait
11301
خداوند عالم کی جانب سے انسان کے لئے بنائے جانے والے احکام وقوانین،انسان کے وجود کی ساخت ، کائنات کے حقائق اور تکوینی کے مطابق هیں،چونکه مرد اور عورت کے وجود کی جسمانی وروحانی ساخت مختلف هے لهٰذا دونوں کے احکام و فرائض بھی برابر نهیں هیں ، قاضی کے پاس جاکر گواهی دنیا بھی ایک فریضه هے حقیقت کے مطابق هونا چاهئے اور احساسات جذبات اور دوسرے غیر واقعی اسباب کے زیر اثر نهیں هونا چاهئے تاکه کسی کا حق ضائع نه هو، اسی لئے بعض مواقع پر عورتوں کی گواهی سرے سے قبول نهیں هوتی جیسا که بعض مواقع پر بنیادی طور سے مرد کی گواهی بھی قبول نهیں هوتی اورکبھی کبھی دو عورت کی گواهی ایک مرد کی جگه قبول هوتی هے وغیره وغیره ۔
اس کے علاوه یه بھی پیش نظر هونا چاهئے که گواهی دینا ایک فریضه اور ذمه داری هے نه که ایک حق ۔ لهٰذا اگر بعض افراد کی گواهی عدالت میں قبول نهیں کی جاتی یاکم قبول کی جاتی هے تو گویا یه ان کی ذمه داری اور فریضه کا آسان هونا هے نه که ان کے حقوق کو ضائع کرنا ۔
چند نکات کی طرف توجه حققیت تک رسائی میں هماری مدد کرسکتی هے :
۱۔ بهت سے اسلامی حقوق اور جزاء سے متعلق مرد اور عورت میں تفاوت هوتاهے مثال کے طور پر اگر کوئی مرد مرتد هوجاتاهے تو کچھ شرائط کے ساتھ اس کے لئے قتل کا حکم هے لیکن اگر عورت مرتد هوجائے تو اس کےقتل کا حکم نهیں هے یا اسلام نے کچھ فرائض و واجبات مردوں کے ذمه قرار دئے هیں جو عورت کے ذمه نهیں هیں یا عورتون کے لئے کچھ فرائض مقرر کئے گئے هیں جو مرد کے لئے مقر ر نهیں هوئے هیں۔اس اختلاف کی وجه مرد اور عورت کا خلقتی نظام هے اس لئے که مرد اور عورت کے نفسیات و اخلاق یکساں نهیں هیں اسی وجه سے خداوند عالم نے عورت کو ایک کام کے لئے پیدا کیا هے تومرد کو دوسرے مقصد کے لئے پیدا کیا هے ۔ یه دونوں هر چند ایک هی جنس سے هیں لیکن هر گز آپس میں برابر نهیں هیں لهٰذا عدالت کا تقاضا یهی هے که دونوں کے فرائض و واجبات بھی یکساں نه هوں ۔ اس لئے که اگر یکساں هوں گے تو یه پروردگار عالم کی عدالت کے خلاف هوگا ۔
۲۔ اسلام کی نظرمیں گواهی دینا اور قاضی تک خبر پهنچا نا کوئی امتیاز نهیں هیں بلکه ایک فریضه اور ذمه داری هے یعنی دوسروں کے حقوق پائمال نه هونے کی خاطر اسلام نے اس فریضه کو ان انسانوں کے ذمه قرار دیا هے جو لوگوں کے اختلاف کی صورت میں دقیق خبر رکھتے هیں تاکه قاضی کے حضور میں واقعیت اور حقیقت بیان کریں اور اس کی گواهی دیں اور اسی لئے قرآن مجید نے کتمان شهادت ( گواهی نه دینے ) کی حرمت کا اعلان کیا هے [1]
پس اگر عدالت میں کسی کی گواهی قبول نهیں کی جاتی یا بهت کم قبول کی جاتی هے توگویا که اس کی ذمه داری اور مسؤلیت آسان اور سبک هے نه کی اس کا حق ضائع کیا جا رها هے ۔
مسلم طور سے گواهی دینے کا فریضه مرد اور عورت کی خلقت ان کے نفسیات اور کردار سے براه راست مربوط هے ، هر چند ایک کے نقص اور دوسرے کے کمال سے اس کا کوئی تعلق نهیں هے ۔ اس لئے که بعض موارد میں جهاں گواهی عورتوں کے مخصوص مسائل سے مربوط هے وهاں مردوں کی گواهی اصلاً قبول نهیں هے اس لئے که ان موارد میں مرد گواه بن هی نهیں سکتا۔ اسی طرح بعض موارد میں عورتوں کو گواهی دینے سے معاف کردیا گیا هے اور مردوں میں منحصر کر دیا گیا هے اور بعض موارد میں دو عورتوں کی گواهی ایک مرد کے برابر قرار دے کر اسے قبول کیا گیا هے ۔یه تمام قوانین نظام تشریع [2] کے نظام تکوینی [3] سے هم آهنگ اور حمکت کی بنیاد پر وضع هوئے هیں البته نظام تشریع اگر نظام تکوینی فطرت کے مطابق اور اس سے هم آهنگ نه هوگا تو اس کی کوئی قدر و قمیت بھی نه هوگی ۔ نظام تشریع کی قدر و قمیت اور توانائی نظام تکوینی میں موجود ظر فیت سے مطابقت کی مقدار میں هوئی هے ۔
نظام تکوینی میں مرد اور عورت کے درمیان چند اعتبار سے بهت زیاده فرق موجود هونے کی وضاحت:
۱۔ اعضاء و جوارح کے اعتبار سے : جنس مرد اور عورت کے اعضاء و جوارح مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف هیں چاهے وه اعضاء و جوارح جنسی اور تولید مثل کے عضو سے مربوط هوں یا ا س کے علاوه مرد اور عورت کے بدن پر بال کااگنا کھال کے نیچے چربی ، کھال کی ضخامت ، ظرفیت اور ساخت ، هڈیوں کا وزن اور اس کی شکل هڈیوں میں موجود حیاتی مادوں کی مقدار ، عضلات کا استحکام ، بازو کا زور ، بھیجه کا وزن ، حجم اور شکل و صورت ، قلب کا وزن ، نبض کی رفتار ، فشار خون ، حرارت بدن ایک منٹ میں سانس لینے کی تعداد ، قد وقامت ، وزن ، آواز کا زیر و بم، ترشحات بدن ، خون کے اندر سفید و سرخ ذرات کی مقدار ، پھیپھڑوں کا حجم اور گجائش اور دونوں جنسوں کا ابتدا ء میں جسمانی رشد و نمو خلاصه یه که مرد اور عورت کی هر چیز یهاں تک که ایک بال بھی اختلاف هے [4]۔
۲۔ خواهشات ، احساسات جذبات اوراخلاق کے اعتبار سے :
اهل نفسیات کے نظریه کے مطابق محبت انفعالی اور جذباتی کردار اور مدد کرنا عورتوں کے خصوصیات میں سے هے اس کے مقابله میں ، سختی ، جنگ طلبی استقلال ، مقابله ،حاکمیت اور سلطنت کو مردوں کے خصوصیات میں شمار کرتے هیں [5] جلوه نمائی، دل ربائی ، زینت کرنا ، کپڑے ، سونے اور زینت کی چیزوں سے انس اور لگاؤ عورتوں کے امتیازات میں سے هے [6]۔
عورت تقلید کرنے، فیشن اپنا نے، تجمل کی طرف مائل هونے ،رونے اور هنسنے میں مردوں سے آگے هے [7] ۔
چونکه عورتوں کے اندر جذبات ومحبت کی توانائی زیاده هوتی هے لهٰذا وه اس قسم کے مناظرسے زیاده متاثر هو جاتی هیں [8] ۔
جب تکوینی میدان میں یه خصوصتیں موجود هیں تو تشریعی میدان میں استحکام کے لئے (خاص کو حق الناس سے مربوط) کوئی نه کوئی چاره سونچنا چاهئے تاکه گواهوں میں لوگوں کے حقوق ضائع نه هوں یهاں تین صورتیں قابل تصور هیں :
الف: جذبات ، پیار ومحبت کے غلبه کی وجه سے جو بعض جذباتی وهیجانی امور میں عورتوں کے لئے فراموشی کا زمینه فراهم کرتےهیں ، اسی طرح جو یه کها جاتاهے که عورتیں هر مسئله میں بهت جلد اطمینان کرلیتی هیں اور جلدی سے یقین کرلیتی هیں اور آسانی سے متأثر هوجاتی هیں لهٰذا همیں کهنا پڑے گاکه عورتوں کی گواهی کی کوئی قدر وقیمت نهیں هے تاکه اس گواهی کے ذریعے لوگوں کے حقوق ضائع نه هوں ۔
یه بات ممکن هے دوسرے لحاظ سے دوسروں کے حقوق ضائع هونے کا سبب بنے اور وه ان موارد میں گواهی دینا هے جب بات اور خبر عورتوں سے مخصوص هو۔
ب: هم یه کهیں که تمام موارد میں عورتوں کی گواهی مردوں کی طرح اور اسی مقدار میں معتبر هے ، یه قول اس کا باعث هوگا که مذکوره موارد کے سبب فیصله کا اعتبارکم هو جائے اور ایک طرح سے لوگوں کے حقوق ضا ئع هوں ۔
ج:معتدل حل: خداوند عالم جس نے انسان کو پیدا کیا اور رازوں سے با خبر هے فرماتاهے وه امور جو لوگوں کے حقوق ( حق الناس نه که حق [الله] )سے مربوط هیں ان میں عورتوں کی گواهی معتبر سمجھی جائے ، لیکن استحکام کی خاطر جهاں ایک مرد گواه ضروری هے وهاں دو عورت اور جهاں دو مرد گواه ضروری هیں وهاں چار عورتوں کی گواهی کچھ شرائط کے ساتھ معتبر اور قابل قبول هے ۔
اور یهی تیسرا نظر یه اور حل جو عین عدالت اور تکوینی یعنی فطرت کے مطابق هے اسلام نے قبول کیا هے ۔
[1] سورهٔ بقره 283 ۔
[2] تشریع نظام ، یعنی وه قوانین جو انسان کی اختیاری نقل وحرکت سے مربوط هیں ۔
[3] تکوینی نظام ، یعنی وه قوانین ، وظائف اور ذمه داریاں جو خلقت کی وجه سے انسان پر حکم فرماں هیں اور انسان کے اختیار سے مربوط نهیں هیں اس میدان میں دونوں ( نر اور ماده ) جنسوں کے لئے ان کے امکانات سے هم آهنگ خاص فرائض کو مد نظر رکھا گیا هے اس طرح که اس کا انکار کرنا کسی بھی فرد سے قابل قبول نهیں هے ۔
[4] پاک نژاد سید رضا ، اولین دانشگاه وآخرین پیامبران ج، 19، ص 280 ۔ 293
[5] روانشناسی رشد ج اول ص 330 از انتشارات سمت ۔
[6] پاک نژاد سید رضا گزشته حواله ص 281 ۔
[7] گذشته حواله ص 295 ۔
[8] کتاب نقد ، ش 12 ص 59 ۔