Please Wait
10945
اسلام میں "سید" کی اصطلاح کا ان افراد پر اطلاق ہوتا ہے، جن کے باپ کا شجرہ نسب، پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، اگرچہ حضرت زہراء{س} کی اولاد بھی نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر سادات سے مراد وہ افراد ہیں جن کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہو اور ضروری نہیں ہے کہ وہ حضرت زہرا{ع} کی اولاد ہوں۔ اس لیے ، حضرت زہرا{ع} کی اولاد ان سے نسبت رکھنے کی وجہ سے سادات نہیں ہیں، بلکہ اس لیے سید ہیں کہ باپ اور ماں دونوں کی طرف سے ان کا شجرہ نسب ہاشم تک پہنچتا ہے۔
جن افراد کی ماں سید ہے، وہ سیادت کے لحاظ سے حضرت زہراء{س} سے منسوب ہیں، لیکن اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ "سید" کی اصطلاح حضرت زہراء{ع} کی اولاد سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ وہ تمام افراد، جن کے باپ کا شجرہ نسب پیغمبراسلام{ص} کے جد امجد ہاشم تک پہنچتا ہو، سید شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام علماء کا اس مسئلہ پر اتفاق نظر ہے اور صرف اس مسئلہ سے متعلق بعض احکام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر سادات کو خمس دینا، کہ اکثر فقہا کی نظر میں جائز نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے ، کہ جن کی ماں سید ہے، یقیناً وہ رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں، کیونکہ ائمہ اطہار{ع} بھی اسی وجہ سے پیغمبراکرم{ص} کی ذریت شمار ہوتے ہیں۔ اس مسئلہ کی گواہ وہ روایت ہے، جو امام رضا{ع} نے عباسی خلیفہ مامون کے جواب میں فرمائی ہے:
" مامون نے حضرت{ع} سے کہا: میں تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسب و نسب کے لحاظ سے آپ{ع} اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی ہم دونوں گروہ یکساں ہیں اور ہمارے فضائل بیان کرنے میں جو اختلاف ہمارے پیرووں کے درمیان ہے، وہ نفسانی خواہشات اور تعصبات پر مبنی ہے۔
امام{ع} نے فرمایا: اگر اجازت دو تو میں تمھارے سوال کا جواب دوں اور اگر نہیں چاہتے ہو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ مامون نے کہا: میں نے یہ سوال اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ سے استفادہ کروں۔ حضرت{ع} نے فرمایا: اگر رسول خدا{ص} اس بید کے کھیت {نیزار} سے نکل کر آپ کی بیٹی کی خواستگاری کریں گے تو آپ کیا کریں گے؟ مامون نے کہا: سبحان اللہ؛ کیا کوئی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی رشتہ داری پر خوش نہ ہو؟؛ حضرت{ع} نے فرمایا: کیا میں بھی اس قسم کے رشتہ پر راضی ہوسکتا ہوں؟؛ مامون نے، ایک لمحہ رکنے کے بعد جواب دیا: خدا کی قسم آپ کی قرابت رسول خدا{ص} سے متصل ہے[1]۔
اس روایت سے نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ رسول خدا{ص} کی دختر کی نسبت سے اولاد اور نواسے بھی رسول خدا{ص} کی ذریت ہیں اور رسول خدا{ص} کے لیے ان سے ازدواج کرنا جائز نہیں ہے۔
لیکن باپ کی راہ سے نسل و قبیلہ کا انتساب، ایک رائج اور عرفی امر ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کے مانند، ہمارے ملک {ایران} میں بھی افراد کا باپ کی نسبت سے اندراج کرتے ہیں، اگرچہ ماں سے انتساب بھی ایک مسلم امر ہے۔ لیکن جس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قوموں کے بعض عرفی امور کو اسلام نے بھی ایک اصول کے عنوان سے قبول کیا ہے، اس مسئلہ کی دلیل بھی تعبدی ہے اور روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سوال میں بیان کیے گیے موضوع کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں امام کاظم{ع} مستحقین خمس کا بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں: جن کی ماں بنی ہاشم سے اور باپ قریش کے دوسرے قبائل میں سے ہوں، وہ صدقات سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن ان کے لیے خمس نہیں ہے، کیونکہ خداوندمتعال قرآن مجید میں فرماتا ہے: " ادعوھم لابائھم" یعنی لوگوں کو ان کے باپ سے پکارتے ہیں۔[2] ، [3]
[1]مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 10، ص 349، ح 9، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[2]کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج1، ص 539، ح4، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 ھ ش.
[3]الأحزاب، 5.