Please Wait
26301
رجعت شیعوں کے عقائد میں سے ایک عقیده هے جس کے معنی ، مرنے کے بعد اور قیامت سے پهلے دنیا میں واپس پلٹنا هے ، جو امام زمانه (عج) کے ظهور کے ﻜﭽﻬ دیر کے بعد سے آپ علیه السلام کی شهادت وقیامت سے ﮐﭽﻬ پهلے تک واقع هوگی ؛ رجعت عام نهیں هے خالص مؤمنین یا مشرک کامل کے لئے مخصوص هے ۔
رجعت کے معنی لغت میں پلٹنا یا واپس هونا هے [1] اور اصطلاح میں اس کے معنی(خالص مؤمنین اورمکمل مشرکین )میں سے ﮐﭽﻬ افراد مرنے کے بعد اور قیامت سے پهلے دنیامیں واپس آئیں گے ۔
رجعت پر عقیده ، مذهب اهلبیت علیهم السلام کے عقائد میںسے هے جس کی سند میں بهت سے آیتیں اور روایتیں هیں ۔
رجعت آیات و روایات میں :
الف) آیات:
قرآن مجید کی آیات میں غور کرنے سے یه نتیجه نکلتا هے که قرآن مجید نے دو طرح سے رجعت کے مسئله کی طرف اشاره کیا هے :
1) وه آیات جو آئنده رجعت کے واقع هونے کی طرف اشاره کرتی هیں ؛ جیسے سوره نمل کی آیت نمبر83 جس میں ارشاد خداوندی هوتا هے(( اور اس دن هم هر امت کے لوگوں میں سےجو هماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے ایک گروه محشور کریں گے یهاں تک که وه ایک دوسرے سے ملحق هوجائیں )) بهت سے بزرگ حضرات اس آیت کو رجعت کے مسئله اور قیامت کے نزدیک اچھے اور برے لوگوں کے ایک گروه کے اس دنیامیں واپس آنے کی طرف اشاره هے تو " من کلِّ امۃٍ فوجاً"(هر امت سے ایک گروه) سے تعبیر کرنا صحیح نهیں هے اس لیئے که قیامت میں سبھی محشور هوں گے جیسا که قرآن مجید سوره کهف آیت نمبر 47 میں ارشاد فرماتا هے : (( هم انهیں محشور کریں گے اور کسی ایک کو بھی نهیں چھوڑیں گے ))
2) وه آیت جو گذشته امتوں میں حوادث کی رونما هونے کی طرف اشاره کرتی هیں جو حقیقت میں ایک قسم کی رجعت شمار هوتی هے جیسے یه آیات :
۱) سوره بقره آیت نمبر 259 ایک نبی کے سلسله میں هے جو ایک ایسی آبادی سے گزرے جس کی دیواریں گری هوئی تھیں اور وهاں کے لوگوں کے جسم اور هڈیاں بکھری پڑی تھیں ،انهوں نے اپنے آپ سے سوال کیا :
خداوند عالم کس طرح انھیں مرنے کے بعد زنده کرے گا؟ تو خداوند عالم نے ان(نبی) کو ایک سو سال کی موت دے دی اور اس کے بعد زنده کیا اور ان سے پوچھا کتنی دیر پڑے رهے ؟ تو انھوں نے کهاں ایک دن یا ﻜﭽﻬ کم ۔ فرمایا نهیں ۔ سو سال[2]۔ یه نبی عُزیر هوں یا کوئی اور نبی فرق نهیں پڑتا ، اهم مرنے کے بعد اسی دنیا میں دوباره زنده هونے کے سلسلسه میں قرآن کا وضاحت کرنا هے[3] ۔
۲) سوره بقره آیت نمبر 248 میں ایک اور گروه کے سلسله میں گفتگو هوتی هے جو موت کے ڈر سے (اور مفسرین کے مطابق طاعون کی بیماری کے بهانه میدان جهادمیں نه جانے کے لیئے) اپنے گھروں سے باهر چلے گئے ، خداوند عالم نے ان کو موت دے دی اور پھر انھیں زنده بھی کیا [4]۔
۳) سوره بقره آیت 55-56 میں بنی اسرائیل سے متعلق هم پڑھتے هیں که ان میں سے ایک گروه خداوند عالم کے مشاهده کا تقاضا کرنے کے بعد موت کے کھاٹ اتارنے والی بجلی میں گرفتار هوکر مرگیا پھر اس کے بعد خداوند عالم نے انھیں زندگی کی طرف پلٹادیا تا که اس کی نعمتوں کا شکر اداکریں [5] ۔
۴) سوره مائده آیت نمبر 110 میں جناب عیسیٰ کے معجزات شمار کرنے کے ضمن میں ارشاد هوتا هے ((تم مردوں کو میرے اذن سے زنده کرتے تھے))[6] اس سے معلوم هوتا هے که جناب عیسیٰ نے اپنے اس معجزه (مردوں کو زنده کرنا) سے استفاده کیا هے ، بلکه فعل مضارع (تخرج) کی عبارت اس کے مکرر هونے کی دلیل هے اور یه بھی ﮐﭽﮭ لوگوں کے لیئے رجعت کی ایک قسم شمار هوتی هے ۔
۵) سوره بقره آیت نمبر 73 اس مرده کے متعلق هے جس کے قاتل کوڈھنڈنے کی خاطر بنی اسرائیل میں قتل و غارت مچی هوئی تھی ؛ قرآن مجید اس طرح فرماتا هے : ((حکم دیا گیا که ایک گائے کو ﮐﭽﻬ خصوصیات کے ساﭡﻬ ذبح کرکے اس کے ایک ٹکرے کو اس مرده پر ماریں تا که وه دوباره زنده هوجائے (اور مقتول اپنے قاتل کی خود هی خبر دے اور جھگڑا ختم هو)[7]
قرآن مجید میں ان پانچ موقع کے علاوه دیگر موارد بھی هیں جیسے اصحاب کهف کا قصه جو رجعت کے مشابه تھایا جناب ابراهیم کے چار پرندوں کا قصه جو ذبح کرنے کے بعد دوباره زنده هوئے تا که معاد (قیامت) کے امکان کو انسانوں کے لیئے مجسم کیا جا سکے جو رجعت کے سلسله میں بھی غور طلب هے[8] ۔
ب) روایات:
امام صادق(علیه السلام) رجعت سے متعلق فرماتے هیں ((خدا کی قسم شب و روز ختم نهیں هوں گے مگر یه که خداوند عالم مردوں کو زنده کرے اور زندوں کو موت دے اور حق کو مستحق تک پهنچائے اور اپنے منتخب کرده دین کو قائم کرکے دنیا پر حاکم کرے۔
اسی طرح مأمون امام علی رضا(علیه السلام) سے عرض کیا : اے ابوالحسن(علیه السلام) رجعت سے متعلق آپ کا کیا نظریه هے ؟ آپ(علیه السلام) نے فرمایا : ((رجعت حقیقت رکھتی هے ، گذشته امت میں بھی تھی ، قرآن میں بھی اس کے متعلق بیان هے اور رسول خدا(صل الله علیه وآله وسلم) نے بھی ارشاد فرمایا هے: (( جو ﮐﭽﻬ گذشته امت میں تھا و عیناً اور مو به مو اس امت میں بھی پیش آئے گا))[9]
البته اس سلسله میں روایتیں بهت زیاده هیں لیکن اختصار کے مدنظر انھیں دو روایت پر اکتفا کرتے هیں ۔
رجعت عقل اور فلسفه کی نگاه میں :
یهاں پر رجعت کے فلسفه اور حکمت سے متعلق اشاره کرنا ضروری هے:
1. کمال تک رسائی:
دنیا استعداد کی تکمیل اور قوتوں کو فعلیت دینے کی جگه هے اور آخرت تک پهنچنے کے لیئے پیدا کی گئی هے تا که موجودات عالم اپنے اندر پروان چڑھا کر مقصد تک پهنچائے؛مگر چوں که ﮐﭽﻬ خالص مؤمن غیر طبیعی موت اور دیگر مشکلات کی وجه سے اس معنوی راه کو طے نهیں کر سکے هیں لهذا حکمت خداوند عالم کا تقاضا یه هے که وه اس دنیا میں واپس آئیں اور اپنے کمال کے راسته کو پورا کریں ؛ جیسا که امام جعفرصادق(علیه السلام) فرماتے هیں : ((جو بھی مؤمن قتل هوگا وه دنیا میں واپس آئے گا تا که نئے سرے سے زندگی بسر کر کے طبیعی طور سے مرے اور جو بھی مؤمن مرگیا هوگا وه دنیا میں واپس آئے گا تا که قتل هو (اور شهادت کے درجه پر فائز هو)[10] ۔
2. دنیوی سزا:
دنیا میں ایسے بھی لوگ تھے جو مختلف عنوان سے اپنے پورے حقوق سے محروم رهے اور اپنا حق لئے بغیر مظلوم قتل کئے گئے ۔
رجعت کا فلسفه یه هے که خداوند عالم (ظالم و مظلوم) دونوں کو دنیامیں واپس بھیجے گا تا که مظلوم اپنے هی هاتھوں سے ظالم سے بدله لے ؛ امام جعفر صادق(علیه السلام) سے منقول هے ((جو لوگ مرچکے هیں وه دنیا میں واپس پلٹیں گے تا که اپنا انتقام لیں جسے جتنی اذیت پهنچی هوگی اسی مقدار میں وه بدله لےگا ، جس نے جیسی دشمنی کا مشاهده کیا هوگا وه اسی مقدار میں انتقام لے گا جو قتل هوا هوگا وه اپنے خون کے بدله میں قاتل کو خود هی قتل کرےگا اور اس مقصد کے پورا هونے کے لیئے اس کے دشمن بھی دنیا میں واپس آئیں گے تا که وه خود خون بهانے کا بدلا دیں اور انھیں قتل کرنے کے بعد 30مهینے زنده رهیں گے پھر سارے کے سارے ایک هی شب میں مرجائیں گے جب که ان کے دلوں کو شفا ملی هوگی اپنے خون کا بدله لے کر ؛اور ان کے دشمن جهنم کے سخت عذاب میں هوں گے))[11]
لهذا ان دونوں گروهوں کے اس دنیا میں دوباره واپس هونے کا مقصد ، پهلے گروه کے لیئے درجه کمال کی تکمیل اور دوسرے گروه کو ذلت ورسوائی کے پست ترین درجه تک پهنچنا هے چوں که رجعت عام نهیں هے اور خالص مؤمن اور کافر محض کے لیئے مخصوص هے جیسا که امام جعفر صادق(علیه السلام) نے فرمایا هے : ((رجعت عام نهیں هے بلکه ان لوگوں سے مخصوص هے جو کامل الایمان یا بالکل مشرک هیں))[12]۔ لهذا پتا چلا که یهی دو امر رجعت کا بنیادی فلسفه اور حکمت هیں ۔
3. دین کی مدد اور عادلانه عالم گیر حکومت کی تشکیل میں شرکت :
متعدد آیات و روایات سے یه پتا چلتا هے که دن اسلام اور عدل الٰهی کی حکومت قائم آل محمد(عجل الله) کے قوی دست مبارک سے عالم گیر سطح پر هوگی خداوند عالم ارشاد فرماتا هے[13] : (( بیشک هم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی اس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور جس دن گمراه (پیغمبر،فرشتے گواهی کو) اﭩﻬ کھڑے هوں گے اس دن بھی مددد کریں گے ))
اس آیت کے ظاهر سے معلوم هوتا هے که مدد اجتماعی هوگی نه که فرداً فرداً؛ چوں که یه نصرت ان تک واقع نهیں هوئی هے لهذ امستقبل میں یقیناً هوگی کیوں که الله کے یهاں وعده شکنی نهیں هے اسی لیئے امام جعفر صادق(علیه السلام) اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے هیں ((خدا کی قسم یه نصرت ، رجعت میں هے ؛ اس لیئے که بهت سے انبیاء اور ائمه (علیهم السلام) اس دنیا میں شهداء کئے گئے لیکن کسی نے ان کی مدد نه کی اور یه امر رجعت کے موقع پر انجام پائے گا))[14]
امام محمد باقر(علیه السلام) بھی آیت ((هو الذی ارسل۔ ۔ ۔ ؛ یعنی وه (خدا) هے جس نے دین حق کے ساﭡﻬ اپنے رسول(صل الله علیه وآله وسلم) کو انسانوں کی هدایت کی خاطر بھیجا تا که اسے تمام ادیان پر کامیاب و کامران فرمائے )) کی تفسیر کرتے هوئے فرماتے هیں (( یظهره الله عز وجل فی الرجعۃ؛یعنی خداوند عالم رجعت کے موقع پر دین حق کو دیگر تمام ادیان پر بلندی و برتری عطا فرمائے گا))[15]۔
رجعت کے واقع هونے کا زمانه:
اس سلسله میں روایتیں نقل هوئی هیں که رجعت امام زمانه (عج) کے ظهور کے ﮐﭽﻬ دیر کے بعد اور قیامت برپا هونے اور آپ کی شهادت سے پهلے واقع هوگی۔
امام صادق(علیه السلام) اس سلسله میں ارشاد فرماتے هیں ((جب قائم آل محمد(عج) کے قیام کا وقت نزدیک هوگا تو جمادی الثانی اور رجب المرجب کے مهینے میں ایسی شدید بارش هوگی که لوگوں نے اس سے پهلے ایسی بارش نه دیکھی هوگی پھر خداوند عالم اسی بارش کے ذریعه مؤمنین کی هڈیوں اور گوشت کو قبر کے اندر هی رشد و نمو دے گا ؛ گویا که میں انھیں ﺪﯿﮐﻬ رها هوں که وه ((جهینه))[16] کی طرف سے اپنے بالوں کے گرد و غبار کو چھاڑتے هوئے آرهے هیں ))[17]
آخری نکته :
روایات کے مطابق سب سے پهلے رجعت کرنے والے سید الشهداء امام حسین(علیه السلام) هیں خود آپ (علیه السلام) سے اس طرح منقول هے ((میں سب سے پهلا شخص هوں کو زمین کے شگافته هونے کے بعد باهر آوں گا اور اس کا زمانه امیر المؤمنین کی رجعت اور قائم آل محمد(عج) کے قیام سے ملا هوا هوگا[18] ۔
اسی مضمون میں امام جعفر صادق(علیه السلام) سے بھی روایت منقول هے که آپ(علیه السلام) فرماتے هیں ((سب سے پهلے دنیا میں واپس آنے والے حسین ابن علی (علیه السلام) هیں ، وه اس وقت تک حکمرانی کریں گے جب تک که آپ (علیه السلام) کی بھویں بڑھاپے کی وجه سے آنکھوں پر لٹک نه جائیں گی[19]۔
[1] فرهنگ معین ، ج 2 ، ص1640
[2] سوره بقره /259
[3] (( فامته الله مأ ۃ عام ثم بعثه ))
[4] (( فقا ل لھم الله موموا ثم احیاھم ))
[5] (( ثم بعثناکم من بعد موتکم لعلکم تشکرون))
[6] (( و اذ تخرج الموتی باذنی))
[7] (( فقلنا اضربوه ببعضها کذالک یحیی الله الموتی و یریکم آیاته لعلکم تعقلون))
[8] تفسیر نمونه ، ج 15 ، صص546-557
[9] عیون الاخبار الرضاء ، 2/201/1 ۔ به نقل از میزان الحکمۃ حدیث نمبر6924-6926
[10] بحار ، ج 53 ، ص40
[11] دوانی ، علی ، مھدی موعود ، ترجمه ، ج 13 ، ص 188 ، دارالکتب الاسلامیۃ ، طبع 27
[12] ضمیری ، محمد رضا ، رجعت ، ص 55 ، نشر موعود ، تهران ، طبع دوم ،1380 ھ ۔ ق
[13] سوره غافر/51
[14] یزدی ، حائری ، شیخ علی ، الزام الناصب ، قم ، موسسه مطبوعاتی حق بین ، 1397 ھ
[15] بحار ، ج 53 ، ص64
[16] ((جهینه)) مدینه سے دور ایک جگه کا نام هے اور ایک قبیله بھی اسی نام کا هے مجمع البحرین ، ج 6 ، ص 230
[17] میزان الحمکۃ ، حدیث نمبر 6928
[18] میزان الحکمۃ، حدیث نمبر 6937
[19] میزان الحکمۃ ، حدیث نمبر6935