Please Wait
4921
آپ کے سوال کا مراجع کرام کے دفتروں سے جو جواب آیا ہے وہ حسب ذیل ہے:
حضرت آیت۔۔۔ العظمی خامنہ ای (مدظلہ العالی):
طلب گار یوں پیسہ لینا اسی وقت جائز ہے جب دین دار اس سے انکار کرے یا اسے دینے میں کوتاھی کرے اور اپنے حق کے حصول کے لئے اس بدلہ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہو ۔ ورنہ دوسری صورت میں اس کا مال اٹھانا اور اسے استعمال
کرنا جائز نہیں ہے
حضرت آیت ۔۔۔ العظمی سیستانی (مدظلہ العالی) :
اگرآپ گردن پر دین یا حق رکھتے ہیں اور وہ اس کا اقرار کرنے کے باوجود اسے دینے سے انکار کرے تو بدلے عوض جو آپ کے ہاتھ لگے اسے اٹھا سکتے ہیں حضرت آیت ۔۔۔العظمی مکارم شیرازی( مدظلہ العالی)
مجھے اس ذاتی قضیہ کی اطلاع نہیں ہے لیکن کلی طور سے اگر کوئی دوسرے شخص کا حق ہٹرپ کر لے اور وہ شخص اس کے مال پر دسترسی رکھتا ہو تو صرف اپنے حق بقدر اس میں سے مال حاصل کر سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے فساد پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو
حضرت آیت ۔۔۔ صافی گلپایگانی (مدظلہ العالی) :
اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ دوکان دار کے پاس جا کر مسالمت کرے اور اس کے مناسب محکمہ کے ذریعہ اپنا مسئلہ حل کرائے ۔
حضرت آیت۔۔۔مہدی مھدوی تہرانی ( دامت برکاتہ) :
اگر قانونی طریقہ سے یا دوکان کے مالک سے دوستانہ گفتگو کے ذریعہ اسے اس کا حق نہیں ملتا ہے تو وہ اپنے حق کے بقدر وہاں ملازمت کے قرار داد کے مطابق مالک کے مال میں سے لے سکتا ہے