Please Wait
8530
عقل تمام انسانوں کے لیئے ایک اندورونی و پوشیده حجت هے جو کمال کی راه میں ان کی هداتیت کرتی هے اور شریعت (دین ) په بیرونی و ظاهری حجت هے جو انسانوں کو آدگیوں کے گرداب سے نجات دینے اور انهیں کمال سعادت انسانی تک پهنچانے کے لیئے هے پس اس بنیاد پر حجت ظاهر و باطن کے درمیان کوئی تعارض نهیں هونا چاهیئے ۔حجت کے معنی دلیل و رهنماکے هیں اور اس کو کهتے هیں جو راسته اور اس کے مقصد سے آشنا البته یه بھی معلوم هونا چاهیئے کے یه ظاهری و باطنی دونوں حجتیں مستقل اور ایک دوسرے سے بے نیاز نهیں هیں انسان اسی وقت مقصد تک رسائی حاصل کرسکتا هے جب ان دونوں رهنماوں کے درمیان مکمل طور سے هم آهنگی و اتحاد هو پس جب کوئی اصلی عقل ،دینی عقائد سے تطبیق نه کرے تو یا تو برهان و استدلال کے منطقی ضوابط کی رعایت نهیں کی گئی هے یا هم نے دینی حقیقت سے غلط نتیجه نکالا هے۔
اسلام اور عقلانیت کے درمیان کسی قسم کا تضاد جائز نهیں هے البته کبھی ایسا هوتا هے کے ایک غیر دینی بات کو دین میں داخل کر لیا جاتا هے یا عقلانی و استدلال کے شرائط و مقدمات صحیح نه هونے کی صورت میں یا هم اپنی عقل سے ایک خاص معنی کا انتخاب کرلیتے هیں تو ان صورتوں میں دونوں کے درمیان ناسازگاری پیداهوجاتی هے اس بحث کے مختلف وجوه سے آشنائی حاصل کرنے کے لیئے ضروری هے کے درج ذیل نکات کی طرف توجه کی جائے۔
۱)فلسفه اسلامی کی نظر میں عقل و عقلانیت:
انسان کا سب سے اهم امتیاز اس کی قوت فکر هے ،تفکر ایک ایسی اندرونی فعالیت هے جو مفاهیم کے اوپر انجام پاتی هے اور شناخته شده معلومات کی بنیاد پر نامعلوم مسائل حل هوجاتے هیں ۔تعقلی روش اس قیاس پر مبتنی هے جو مقدمات عقلی محض سے تشکیل پاتی هے جو مقدمات ،بدیهیات اولیه سے هیں یا ان کی طرف مبتنی هوتے هیں جیسے تمام برهانی قیا س جو فلسفه اولی اور ریاضیات میں اور علوم فلسفی کے بهت سے مسائل میں استعمال هوتے هیں ،تعقلی و تجربی روشوں کے درمیان یه فرق هے که روش تعقلی تکیه گاه ،بدیهیات اولیه هیں اور روش تجربی کی تکیه گاه،مقدمات تجربی هوتے هیں[1] اسلامی فلسفه ،هستی شناسی ،خدا شناسی اور انسان شناسی کو روش تعقلی کے ساﺘﻬ پیش کرتا هے ۔
۲)روش انبیاء و روش عقلانی:
انبیاء جو لوگوں کو حق و حقیقت کی دعوت دیتے هیں اور جو ﮐﭼﮭ انسان صحیح و منطقی استدلال کے ذریعه حاصل کرتا هے اصولی طور پر دونوں روشوں کے درمیان کوئی فرق نهیں هے هاں صرف اتنا فرق هے که انبیاء ،غیبی مبدأ سے استمداد کرتے تھے اور وحی کے شفاف چشمه سے استفاده کرتے تھے البته وه حضرات ملأ اعلی سے رابطه رکھتے تھے اس کے باوجود اپنے کو تنزل دیتے تھے اور لوگوں کی فهم اور ان کے ادراک کے مطابق کلام کرتے تھے اور ان کا مقصد یه هونا تھا کے لوگ اس فطری و عمومی قوت سے استفاده کرتے هوئے محکم استدلال پیش کرسکیں پس انبیاء کا درجه اس سے کهیں بلند هے که وه لوگوں کو بغیر بصیرت کے اور اندھی تقلید کرنے کی دعوت دیں اور انهیں اس پر مجبور کریں ،قرآن کریم میں خدا کا ارشاد هے:"کهه دو یه میری راه اور میرت تمام پیروکار افراد هم سب مکمل بصارت کے ساﺘﻬ تمام لوگوں کوخدا کی طرف دعوت دیتے هیں"[2] اس لحاظ سے دین و عقلانیت یا شریعت و حکمت جن کی غرض و غایت ،ان کا واعض اور ان کی روش یه سب ایک هیں ان میں آپس میں کوئی اختلاف نهیں هے ،دین حقیقی لوگوں کو دعوت دیتا هے تاکه دلیل عقلی کے ذریعه عالم ماورائے طبیعت پو یقین حاصل کرے ،عقل اور نقل په دونوں طول میں هیں ،کےاب و سنت کے مطالب کو بهت گهری فکر سے دیکھناهی حکمت و فلسفه کهلاتا هے ،فلسفه و دین یه دونوں ایک هی حقیقت کے دوطهرے هیں اور ایک هی واقعیت کے دوزخ هیں ،عقل انسانوں کی اندرونی حجت و رهنما هے انهیں کمال کی راه کی طرف هدایت کرتی هے اور شریعت ،بیرونی حجت و رهنما هے یه انسانوں کو الودگیوں کے گرداب سے نجات دے کر انهیں کمال اور انسانی سعادت کی طرف لے جاتی هے جب کے حضرت امام موسی کاظم علیه السلام فرماتے هیں:
"خدا نے لوگوں کے لیئے دوحجتیں قرار دی هیں:ظاهری اور باطنی۔انبیاء و مرسلین اور ائمه معصومین صلوات الله علیهم اجمعین یه تمام حضرات ظاهری حجت اور عقلیں باطنی حجت هیں"[3]
اس بنیاد پر یه ممکن هی نهیں هے که حجت ظاهر و باطن کے درمیان تعارض پایا جاتا هو کیونکه حجت کے معنی دلیل و رهنما کے هیں اور رهنما اسے کها جاتا هے جو راسته اور مقصد سے آشنا هے حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی روایت کے مطابق خدائے یکتا کی بارگاه تک پهنچنے کے لیئے دو رهنما موجود هیں :ایک رهنما( نفس کے) باهر کا هے اور ایک رهنما اندر کا البته اس نکته پر توجه رهے که دونوں ظاهری و باطنی حجت الگ الگ مستقل طور پر(کافی) نهیں هیں اور ایک دوسرے سے بے نیاز نهیں هیں انسان صرف اس وقت مقصد تک پهنچ سکتا هے جب ان دونوں رهنماوں کے درمیان مکمل طور سے هم آهنگی اوراتحاد برقرار هو۔
حجت ظاهر یعنی انبیاء اور ائمی علیهم السلام عقلانیت سے بے خبر نهیں هیں کیونکه فیض کا واسطه (معصوم)همیشه عقل کامل هوتا هے اور سوره یوسف کی آیت نمبر۱۰۸ میں "بصریت"کالفظ اچھی طرح اس مطلب کو بیان کرتا هے ،پیغمبر اسلام صل الله علیه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا هے : "جس کے پاس عقل نهیں هے وه بے دین هے"[4]
حجت باطن بھی شریعت و دین سے بے نیاز نهیں هے کیونکه حضرت امام حسین علیه السلام نے فرمایا هے :"عقل کا کمال حق کی پیروی کرنے میں هیں"[5] اور قرآن کریم میں خدا کا ارشاد هے :"خداوند عالم حق هے[6] اور حقیقت اسی کے جانب سے هیں۔[7] پس حق کی پیروی کرکے هی عقل درجه کمال تک پهنچ سکتی هے خدا نے جن چیزوں کا حکم دیا هے ان میں سے ایک یه هے که حجت ظاهری کی پیروی کی جائے چنانچه قرآن میں اس کا ارشاد هے :خدا کی اطاعت کرو اور خدا کے رسول کی نیز ان کے اوصیاء کی اطاعت کرو"[8] اهم نکته یه هے کے دین کے بلند حقائق کبھی عقل جز۴ی اور حسابگر دکارتی کے ساﺘﻬ تعارض کرتی هے (دکارت کے نظریه کے مطابق عقل کلی کے کوئی معنی نهیں هیں وه اس کی طرف اشاره نهیں کرتا هے اس کی پوری توجه عقل حسابگر اور دور اندیش کی طرف هے)کبھی اس عقل کے ساﺘﻬ تعارض کرتے هیں جو پراگماتیسم مکتب میں پائی جاتی هے (مکتب پراگماتیسم کے نظریه کے مطابق وه عقلانیت نتیجه بخش هے جو همارے تجربی مشکلات کی کوئی کره کھول دے) کبھی اس عقل نظری کے ساﺘﻬ تعارض کرتے هیں جو کانت کے نظریه کے مطابق هے(کانت کے نظریه کء مطابق عقل نظری ،مسائل کو حل نهیں کرسکتی هے اور اس میں عقلی احکام کی عملی طور پر کوئی اهمیت نهیں هے)
واضح هے که ارشاد و شهادت اور انفاق نیز غیب پر ایمان رکھنا اور هزاروں بنیادی اسلامی واقعیت ایسی هیں جو عقل جزئی و حسابگر کے ذریعه بیان نهیں کی جاسکتی هیں لیکن کوئی بھی دین ارزشمند حقیقت ،فلسفی عقلانیت کے ساﺘﻬ تضاد و تنافی نهیں رکھتی هے نتیجه یه هوا کے عقل و دین کے درمیان هماهنگی و اتحاد پایا جاتا هے نیز اسلام اور عقلی استدلال کے درمیان تضاد و تناقض نهیں پایا جات اهے کیونکه غرض و غایت مواضع اور روش کے در میان اتحاد پایا جاتا هے تو اگر کوئی عقلی اصل،دینی حقائق سے تطبیق نه کرے تو یا تو مقدمات اور برهان و استدلال عقلی کے منطقی ضوابط کی رعایت نهیں کی گئی هے یا هم نے دینی حقیقت سے غلط نتیجه نکالا هے ۔
چند تذکرات:
الف) چونکه برهان عقلی ،خدا کی حجت هے لهذا جو شخص عقلی سرمایه کے ساﺘﻬ متون کی تلاش میں جائے گا تو بهت سے مقدس و پاکیزه علوم سے بهره مند هوگا وه متن نقلی سے بهت آشنا هوگا اور برهان عقلی سے بھی ۔برهان عقلی بھی معتبر نقلی دلیل کے مانند الهی الهامات سے هے جو غور و فکر کے بعد متجلی هوتا هے بنا براین اگر کوئی شخص عقلی سرمایه لیکر مقدس و پاکیزه متون کی تلاش میں جاتا هے اور اس سے ﮐﭼﮭ استنباط کرتا هے مثلا کسی آیت کی مدد سے دوسری آیت کی معنی کو سمجھتا هے یا کسی روایت کی مدد سے کسی آیت کے معنی معلوم کرتا هے تو اس لحاظ سے ان امور میں سے کوئی ایک بھی متن نقلی سے اجنبی و بے ربط نهیں هے ۔
هاں ! اگر کوئی ناقص استقراء یا منطق تمثیلی یا مغالطه کے ذریعه پاکیزه متون کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو بشریت کا غبار ایک حلقه کے مانند پاکیزه دینی متن پر ﺒﻴﭨﻬ جائے گا اور اسے غبار آلود کردےگا۔
ب) اگر کائی کهے : کیا دین کے ساری کلی و جزئی مسائل کا عقلانی دفاع کیا جاسکتا هے ؟
جواب یه هے: دین کے شناخت کے لیئے عقل لازم و ضروری هے لیکن کافی نهیں هے اسی لیئے جزیئات دین کے بارے میں عقل کے ذریعه حمایت نهیں کی جاسکتی هے کیونکه جزئیات برهان عقلی کے دائرے میں قرار نهیں پاتے چا هے وه جزئیات طبیعت هوں یا جزئیات شریعت ۔دوسرے الفاظ میں یوں کها جائے :علمی ،عینی، حقیقی ،و اعتباری په تمام جزئیات ،برهان عقلی کی دسته میں نهیں هیں اور جو چیز عقلی کی دسترس میں نه هو اس میں عقلانی توجیه و تعلیل نهیں کی جاسکتی البته کلیات میں اور طبیعت و شریعت کے تمام کلی خطوط میں عقلانی تعلیل کی گنجائش هے ۔ وضاحت: چانکه عقل بهت سے امور میں اپنے کو راجل (پیدل) اور عاجز جانتی هے لهذا وحی کی محتاج هے ،عقل کی منطق یه هے که میں یه سمجھتی هوں که بهت سی چیزوں کو نهیں ﺴﻤﺠﮭ پاتی هوں اور مجھے وحی کی ضرورت هے۔
برهان نبوت عالم کی بنیاد پر عقل کهته هے: میں ایک بلند اور ابدی مقصد رکھتی هوں اور یه بھی جانتی هوں کے اس عام مقصد تک پهنچنے کے لیئے ایک راسته مقرر هے اور یه راسته طالانی هے اور اس راسته کا طے کرنا بغیر کسی رهبر کے ممکن نهیں هے اور غیبی رهبر وهی حضرت پیغمبر اکرم صل الله علیه و آله وسلم هیں ،تمام کلیات اور جزئیات میں رهبر کی باتیں سننا اور ان پر عمل کرنا ضروری هے اسی لیئے عقل یه نهیں پوچھتی که کیوں صبح کی نماز دو رکعت اور ظهر کی چار رکعت هے ؟
کیاں نماز مغرب کو بلند آواز سے اور نماز ظهر کو آهسته آواز سے پڑھنا چاهئے ؟کیوں فلاں مچھلی حلال هے اور فلاں حرام؟ چونکه عقل بهت سی جزئیات کو نهیں سمجھتی هے لهذا کهتی هے: مجھے پیغمبر کی ضرورت هے اسی لیئے وه جزئیات میں دخالت نهیں کرتی اور اگر عقل کے لیئے زبردستی ایسا دعوی کیا جانے لگے تو اسے ثابت نهیں کیا جاسکتا هے اور مقصد تک رسائی بھی نهیں هو سکتی هے۔[9]
مزید آگاهی کے لیئے درج کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں:
الف) علی فلسفه الهی ،علامه طباطبائی سید محمد حسین
ب) تفکر در قرآن ، علامه طباطبائی سید محمد حسین
ج)حکمت نظری و علمی در نھج البلاغه ،جوادی آملی عبد الله
د) شریعت در آینه معرفت ،جوادی آملی عبد الله ۔ص 224۔199
ه) باور ھا و پرسشها ،مهدی ھادوی تھرانی ،ص58۔51
و) مبانی کلامی اجتهاد مهدی ھادوی تھرانی ،ص284۔280
ز) نشریه پرسمان ،پیش شماره دوازدھم ،مرداد ماه سال 1381،مقاله :اسلام و عقل،ھمسوئی یا تضاد ،رضانیاحمیدرضا۔
[1] مصباح یزدی محمد تقی، آموزش فلسفه ،ج۱ ص۱۰۱
[2] سوره یوسف،آیه ۱۰۸
[3] ر۔ک:میزان الحکمۃ ، ری شهری محمد،ص 358،روایت شماره4387
[4] ر۔ک:میزان الحکمۃ ، ص357،روایت شماره4363
[5] ر۔ک:میزان الحکمۃ ، ص359،روایت شماره4407
[6] سوره لقمان آیه 30
[7] سوره آل عمران،آیه60
[8] سوره نساء،آیه 59
9] جوادی آملی عبد الله ،دین شناسی (سلسله بحث ھای فلسفه دین )،صص174۔127