Please Wait
6708
حقیقی سعادت تک پهنچنے کے لئے انسان کے تکاملی سفر کو چند محوروں میں بیان کیا جا سکتا هے، جو حسب ذیل هیں:
۱۔ انسان کا خدا سے رابطه کا محور-
۲۔ انسان کا اپنے آپ سے رابطه کا محور
۳۔ انسان کا دوسرے انسانوں سے رابطه کا محور-
چونکه ان محوروں میں سے هر ایک اپنی اهم خصوصیات رکھتا هے اور اس کے اپنے خاص حدود و قیود هیں اس لئے انسان کو اپنے مطلوبه محور میں حرکت کرنے کے لئے خاص طریقه کار کی ضرورت هے- اس اهمیت کے پیش نظر آسانی کے ساتھه معلوم هو سکتا هے که مذکوره تین پوشیده و آشکار روابط کے سلسله میں مختلف پهلووں کے حوالے سے کچھه بیان کرنے کے لئے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت هے، جس کی اس مقاله میں گنجائش نهیں هے- لیکن بقول شاعر:
آب دریا را اگر نتوان کشید هم به قدر تشنگر باید کشید
هم ان خصوصیات اور روابط میں سے بعض کی طرف اشاره کرنے پر اکتفا کرتے هیں-
پهلے محور کی خصوصیت، یعنی انسان کا اپنے پروردگار سے رابطه، بیشک یه خصوصیت خداوند متعال کی اطاعت و بندگی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم هونا هے، یعنی انسان قادر متعال کے حضور میں خاضعانه اور مخلصانه اور مکمل طور پر سراپا تسلیم هو جائے اور یه عمل انسان کے اپنے پروردگار کے ساتھه رابطه کی بنیاد کو تشکیل دیتا هے- اس لحاظ سے جس قدر انسان کا اپنے خالق سے رابطه محکم اور عمیق تر هوگا اُسی قدر خداوند متعال کے حضور بندگی اور اطاعت کا جذبه زیاده هوگا، اور انسان کے خداوند متعال سے رابطه کے مستحق هونے کی سب سے اهم چیز اور سبب خالق کائنات کی معرفت اور پهچان هے-
پس اگر انسان کائنات اور خالق کائنات کے بارے میں مکمل معرفت رکھتا هو تو اس میں اطاعت و بندگی کا جذبه زیاده هوگا، اس بنا پر نتیجه اخذ کیا جا سکتا هے که اس اهمیت کا معرفت کے ساتھه براه راست رابطه هے اور اس چیز کو بعید نهیں جاننا چاهئیے که انسان کے خداوند متعال سے رابطه میں خلل دوسرے روابط، یعنی انسان کے اپنے آپ سے رابطه اور انسان کے دوسرے انسانوں سے رابطه میں خلل پیدا هونے کا سبب بن جاتا هے- یعنی جب انسان کے خداوند متعال سے رابطه کی بات هوتی هے تو قطعاً انسان و عالم کو الهٰی منظر سے دیکھا جاتا هے اور انسان کو ایک الهٰی مخلوق جانا جاتا هے اور وه خداوند متعال کےجلال و جمال کا جلوه هوتا هے اور اگر اس قسم کی مخلوق کے ازلی و ابدی سرچشمه کائنات سے رابطه میں کوئی خلل پیدا هو جائے، تو قطعاً اس کے اپنے آپ اور دوسروں کے ساتھه رابطه میں بھی خلل پیدا هوگا-
اس طرح وه اپنی اصلی اور حقیقی زندگی کو جاری نهیں رکھه سکے گا بلکه اس کی زندگی حیوانون کی مانند مادّی اور شهوت رانی پر مبنی هوگی اور اس کا نتیجه تمام لوگوں کے لئے واضح هے-
انسان کے تکاملی سفر کا دوسرا محور، انسان کا اپنے آپ سے رابطه هے- انسان کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے میں اس کی کیفیت واضح اور روشن هے- یعنی انسان اپنی زندگی کے مقصد اور کیفیت کو اپنے لئے مشخص اور معلوم کر لے- به الفاظ دیگر یه جان لے که وه کس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا هے؟ اُسے چاهئیے که وه هستی شناسی، معرفت شناسی اور انسان شناسی کو اپنے لئے حل کر کے اپنے آپ کو تکلیف و زحمت اور سرگردانی و دربدری سے رهائی دلائے- البته شناخت اور اس کے ساتھه انسان کے رابطه کی قسم کو معین کرنے میں معنوی سیر و سلوک کے کردار اور اهمیت کو نظرانداز نهیں کیا جانا چاهئیے، حتی که یه بھی کها جا سکتا هے که اس کے بغیر انسان اپنے کو بھی نهیں پهچان سکتا هے-
یه اظهر من الشمس هے که عرفان و شناخت کے محقّق هونے اور حیرانی و پریشانی سے رهائی پانے کے نتیجه میں انسان نے اپنی اور معاشرے کی اصلاح کے لئے قدم بڑھایا هے، کیونکه انسان جب اپنے باطن کی اصلاح کرتا هے تو وه معاشره کی اصلاح بھی کر سکتا هے اِس طرح اُس کے اور خداوند متعال کے درمیان رابطه میں اصلاح کے سبب انسان کے دوسرے انسانوں سے رابطه میں اصلاح هو جائے گی- اس لحاظ سے ضروری هے که انسان هر اس چیز سے پرهیز کرے جو انسان کی باطنی اصلاح کو زک پهنچائے- تیسرے محور، یعنی انسان کے اپنے دوسرے هم نوعوں سے رابطه کے سلسله میں کهنا چاهئیے: که یه مسئله حسب ذیل دو بنیادوں پر استوار هے:
۱۔ دین اور اعتقادات میں هم سر اور خلقت میں هم نوع، جیسا که امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام نے نهج البلاغه میں یهی بات فرامائی هے[1]- یعنی انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھه رابطه یا تو اعتقادات اور مشترک یقین کے طریقه یعنی هم فکری سے هوتا هے یا اس کے دوسرے انسانوں کے ساتھه هم نوع هونے میں مشترک هونے سے، به الفاظ دیگر انسان هونے کے ناطے سے هوتا هے-
۲۔ مزکوره دو اسباب کے علاوه انسان محبت و دلبستگی سے بھی دوسرے انسانوں کے ساتھه رابطه برقرار کر سکتا هے اور اس کے توسط سے مخلوق اور آخرکار خالق کو اپنے سے راضی کرا سکتا هے اور یهاں پر خداوند متعال قرآن مجید میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی اس نیک صفت کی طرف اشاره کرتے هوئے ارشاد فرماتا هے:
" پیغمبر؛ یه الله کی مهربانی هے که تم ان لوگوں کے لئے نرم هو ورنه اگر تم بدمزاج اور سخت دل هوتے تو یه تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے هوتے----[2]"
ایک حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام " ایمان کو صرف خدا کی محبت هی سمجھتے هیں[3]" مومنین سے محبت رکھنے کے ساتھه ساتھه خدا کا عشق رکھنا انسان کی مشکلات کو آسان بناتا هے-
یه بات قابل ذکر هے که مذکوره تین محوروں میں سے هر ایک محور تین بنیادی حلقوں پر استوار هوتا هے اور نتیجه حاصل کرنے کے لئے هر حلقه کو مناسب طریقه کار اور وسائل کے ایک مجموعه کی ضرورت هوتی هے، جو حسب ذیل هیں:
۱۔ خدا کی پهچان
۲۔ انسان کی پهچان
۳۔ انسان کے مقصد اور وسائل کی پهچان جو اس مقصد تک پهنچنے میں اُس کی راهنمائی کرے-
قابل ذکر بات هے که مذکوره حلقوں کی تعریف و تحلیل کے دوران کچھه دوسرے فرعی حلقے بھی کُھلتے هیں جو بذات خود کچھه دوسری معنوی اور عقلی قدروں پر مشتمل هوتے هیں اور یه بذات خود حقیقت کے طلبگاروں کے سامنے ایک نئے افق کو کھولتے هیں- اور انسان مذکوره بنیادی اور اصلی محوروں اور حلقوں کو سرگرم کرنے میں جس قدر کامیاب و سعادتمند هو جائے، اس قدر وه کمال کے قریب تر هوگا اور جس قدر انسان کمال اور حقیقی سعادت کے نزدیک تر هوگا اس قدر معاشرے کی مشکلات میں کمی واقع هوگی یهاں تک که انسانی معاشرے کی مشکلات دور هو جائیں گی- یهاں پر امام خمینیرح کے بیانات قابل ادراک هیں وه فرماتے هیں: "اگر ایک لاکھه چوبیس هزار انبیاء ایک هی شهر میں هوتے تو وهاں پر کسی قسم کی کوئی مشکل نهیں پائی جاتی اور کسی عدالت اور محکمه کی ضرورت هی نهیں هوتی-" یا کسی فلاسفر نے فرمایا هے: " دو بادشاهوں کی حکمرانی کے لئے پوری دنیا چھوٹی هے، جبکه دس عارفوں اور فلسفیوں کے لئے ایک فرش بڑا هے-"
اس مقدمه کے بعد هم مذکوره تین حلقوں کے بارے میں ایک اجمالی بیان پیش کرتے هیں:
پهلا حلقه: خداوند متعال کی معرفت اور احکام و دستورِ شرعی کے فلسفه کی آگاهی:
چونکه توحیدی اور الهٰی تصور کائنات میں هستی و کائنات کا محور خداوند متعال هے اور هر ایک چیز اسی کے اراده اور قدرت پر استوار هے، اس لئے طالب حقیقت انسان کے کمال کی راه میں خدا کی معرفت کا کلیدی اور فیصله کن کردار هے- یهاں تک که یه معرفت انسان کی بهت سی مشکلات کو حل کر سکتی هے اور ممکن هے انسان کے بهت سے مصائب و آلام جهالت اور ظلم و جور پر هی ختم هو جائیں-
اس سلسله میں امام علی علیه السلام فرماتے هیں:
" شکر و ثنا اس خدا کے لئے که سخنور اس کی تعریف کرنے سے عاجز هیں، گننے والے اس کی نعمتوں کو گننے میں بے بس هیں---- اس کی صفتیں ایسی هیں جن کی تعریف و توصیف ممکن نهیں- جو کسی خاص زمانه یا وقت میں نهیں سما سکتا هے---- دین کا سرچشمه اس کی معرفت هے، اس کی معرفت اس پر صحیح یقین کرانے میں اور اس کا صحیح یقین اسے وحده لا شریک جاننے میں هے اور اس کو وحده لا شریک جاننا اس کی حقیقی معنوں میں اطاعت کرنے میں هے اور اس کی اطاعت کرنا اس سے صفتوں کو جدا کرنے میں مضمر هے[4]-"
پس خداوند متعال کی معرفت اور اس کی وحدانیت، حقیقی کمال کی طرف انسان کی راهنمائی کر سکتی هے، جس طرح شرائع و احکام کے علل اور فلسفه کی پهچان حقیقت کی طرف انسان کی راهنمائی کر سکتی هے، کیونکه خداوند متعال مکمل ترین موجود هے اور ایک مکمل موجود انسان کی سعادت کے لئے مکمل اور ناقابل خطا قوانین اور دستور پیش کرتا هے- اس لئے، احکام و شریعت کی ماهیت اور فلسفه کے بارے میں علم و آگاهی، حقیقی کمال و سعادت کے ناپنے کا پهلا قدم هے- اس لئے حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی دختر گرامی حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها اپنے ایک خطبه میں خدا کی معرفت اور شرائع و احکام کے فلسفه کی پهچان کے بارے میں یوں فرماتی هیں: " میں اس حقیقت کی گواهی دیتی هوں که خدائے واحد کے علاوه کوئی خدا نهیں هے، وه یکتا هے اور اس کے برابر کوئی نهیں هے، اس نے اخلاص کو تاویل قرار دیا هے، دلوں کو وسیع پیمانه پر اس کے ساتھه ملا دیا هے اور ذهنوں میں فکر و غور کی شمع کو روشن کیا هے، وه خدا، جسے آنکھیں دیکھه نهیں سکتی هیں اور زبانیں اس کی توصیف اور کیفیت کو بیان نهیں کر سکتی هیں----" اس کے بعد حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها خدا اور بندوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے واسطه قرار پانے کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتی هیں:
" میں اس حقیقت کی شهادت دیتی هوں که میرے والد محمد صلی الله علیه وآله وسلم خدا کے بندے اور رسول هیں، خداوند متعال نے انهیں مبعوث کرنے سے پهلے منتخب کیا هے----- خداوند متعال نے محمد صلی الله علیه وآله وسلم کو مبعوث کیا تاکه اپنے کام کو پائه تکمیل تک پهنچا دے، اور جو کچھه اس کے اراده اور فرمان کے تحت تھا اسے آگے بڑھا دیا اور تقدیر کی مضبوط کڑی میں جوڑے هوئے اپنے منصوبوں کو انجام تک پهنچا دیا- پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم نے دیکھا که هر فرقه نے دین بنا لیا هے، هر گروه ایک شعله بھڑکا رها هے اور هر پارٹی نے ایک بت کو چن لیا هے اور سب خدا سے روگردان هو چکے هیں، اس لئے خداوند متعال نے میرے والد کی برکت سے تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کیا، دلوں سے کفر کی سیاهی کو پاک کیا، آنکھوں پر پڑے حیرت کے پردوں کو هٹا دیا اور لوگوں کے درمیان هدایت کی روشنی پھیلی، انهوں نے لوگوں کو گمراهی سے بچا لیا اور دل کے اندھیرے پن کو ان سے دور کیا اور انھیں بینائی بخشی اور پائدار دین کی طرف راهنمائی کی اور صراط مستقیم کی طرف دعوت دی-----" اس کے بعد امامت کی قدرو منزلت اور فلسفه کے بارے میں یوں فرمایا: "خداوند متعال نے امت کو نظم و انتظام بخشنے کے لئے هماری پیروی کو، اور پراگندگی کو امن و امن میں تبدیل کرنے کے لئے هماری امامت کو قرار دیا هے-" اس کے بعد احکام و شرائع کا فلسفه اور انسان کی زندگی میں ان کی قدرومنزلت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتی هیں: " خداوند متعال نے آپ کے ایمان کو شرک سے پاک کرنے کا سبب قرار دیا، آپ کو تکبر سے بچانے کے لئے نماز کو، آپ کی روح کو پاک کرنے اور رزق بڑھانے کے لئے زکواۃ کو، اخلاص کو مستحکم کرنے کے لئے روزه کو، دین کو پائدار بنانے کے لئے حج کو، اسلام کی عزت و سربلندی اور کفر و نفاق کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے جهاد کو اور معنوی اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے صبر و شکیبائی کو قرار دیا- نا آگاه {لاعلم} لوگوں کی مصلحت کے لئے امربالمعروف کو، خداوند متعال کے قهر و غضب سے بچنے کے لئے ماں باپ کے ساتھه نیکی کرنے کو، طولانی زندگی اور نسل کی بقا کے لئے رشته داروں کے ساتھه پیوند کے تحفظ کو، خون کی پاسداری کے لئے قصاص کو، گناهوں کی بخشش کے لئے نذر کے پورا کرنے کو، دوسروں کے حقوق کو اور لوگوں کے اموال کو برباد هونے سے بچانے کے لئے ناپ تول میں دیانتداری کو، پلیدی{ گندگی اور نجاست} سے بچنے کے لئے شراب نوشی سے پرهیز کرنے کو، اپنے آپ کو خدا کی لعنت اور نفرین سے بچانے کے لئے دوسروں پر تهمت لگانے سے احتراز کرنے کو اور عفت کی حفاظت کے لئے چوری سے اجتناب کرنے کو قرار دیا گیا هے اور بندگی میں اخلاص کے لئے شرک کو حرام قرار دیا گیا هے، جس چیز کا خداوند متعال نے انجام دینے اور جس سے پرهیز کرنے کا حکم دیا هے اس کی پیروی کرو[5]، کیونکه " خدا کے بندوں میں صرف دانا لوگ هی هیں جو {خدا کے سوا} کسی سے نهیں ڈرتے هیں[6]-"
دوسرا حلقه: نفس کی پهچان:
دینی کتابوں، خاص کر قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے سے معلوم هوتا هے که انسان کے نفس اور نظام خلقت میں اس کے مقام و منزلت کے بارے میں متعدد آیات و روایات بیان هوئی هیں، حتی که قرآن مجید میں پهچان کے سلسله میں نفس کی پهچان کا ایک الگ محور کے طور پر ذکر آیا هے: " هم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکه ان پر یه بات واضح هو جائے که وه برحق هے[7]-"
اس سے معلوم هوتا هے که اسلام انسان کے نفس کے بارے میں غیر معمولی اهمیت کا قائل هے، یهاں تک که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نقل کیا گیا هے که آپ {صلی الله علیه وآله وسلم} نے فرمایا : " جس نے اپنے آپ کو پهچان لیا اس نے خدا کو پهچان لیا-[8]"
وثوق کے ساتھه کها جا سکتا هے که حضرت رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا یه کلام، عالم خلقت میں انسان کے نفس کی انتهائی قدرومنزلت اور اهمیت کو بیان کرتا هے، کیونکه کوئے دوست کے عاشقوں کی نظر میں، پوری کائنات، اسماء و صفات الهٰی کا نشانه، مظهر اور جلوه گاه هے وه کائنات کے آئینه میں منعکس هو رها هے- واضح تر الفاظ میں چونکه کائنات کی هر مخلوق اسماء و صفات الهٰی میں سے کسی صفت یا اسم کا مظهر هے، اس لئے خداوند متعال اپنے اسماء و صفات کو خلقت کے آئینه میں دیکھتا هے- اب جبکه آئینه کے سلسله مراتب میں بعض آئینے مکدّر اور بعض شفّاف اور حتی که بعض شفاف تر هوتے هیں، کها جا سکتا هے که کائنات کے آئینه میں بھی ایک قانون حاکم هے اور اسماء و صفات کے آئینه میں بعض مخلوقات مکدّر، بعض شفاف اور بعض شفاف تر هیں- اس کے علاوه خداوند متعال کے بعض اسماء و صفات دکھائی دیتے هیں، لیکن تنها مخلوق انسان هی هے جو الله تعالیٰ کے تمام اسماء و صفات کا شفاف ترین صورت میں مظاهره کرتا هے اس لئے انسان خداوند متعال کے اسماء و صفات کا مکمل مظهر اور پوری هستی کو منعکس کرنے والا آئینه هے- یهاں پر رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے فرمان کے مطابق نفس کی پهچان اور رب کی پهچان کے معنی واضح هو جاتے هیں، جس نے انسان کو پهچان لیا اس نے خدا کو پهچان لیا، کیونکه انسان خداوند متعال کا مظهر هے- اس معنی کی طرف امام علی علیه السلام کے مندرجه ذیل معروف شعر میں اشاره کیا گیا هے:
اے انسانو؛ تم خیال کرتے هو که تم بس یهی چھوٹا سا جسم هو
جبکه تمھارے اندر ایک بڑا عالم پنهان هے؟؛[9]
اس بنا پر، انسان کے نفس کی پهچان انسان کے کمال کی راه میں ایک مقدمه اور اس اس کے تمام کمالات و فیوض کے منبع کے ساتھه ایک هونا شمار هوتا هے که یه امر خود انسانی معاشروں کے مشکلات کو حل کرنے میں ایک کلیدی رول انجام دے سکتا هے-
تیسرا حلقه: انسان کا مقصد اور وه وسائل جو اس مقصد تک پهنچنے میں اُس کی راهنمائی کرتے هیں:
انسان کو اپنے پروردگار اور اس کے شرائع و احکام اور اپنے آپ کو پهچاننے کے بعد، نظام خلقت میں اپنے مقام و منزلت اور اپنی خلقت کے مقصد کو پهچاننے کے لئے اقدام کرنا چاهئیے- اس لحاظ سے مذکوره مطالب کے پیش نظر کها جا سکتا هے که، چونکه انسان عالم خلقت میں خداوند متعال کے اسماء و صفات کا مکمل مظهر هے، اس لئے خداوند متعال کے پاس اس کا ایک خاص مقام هے اور یه منفرد مقام وهی خلیفه الهی کا مقام هے جو خداوند متعال نے اسے عطا کیا هے اور اس سلسله میں واضح طور پرقرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے: " جب تمھارے پروردگار نے ملائکه سے کها که میں زمین میں اپنا خلیفه بنانے والا هوں[10]-" اس مقام و منزلت کے پیش نظر خدا کے خلیفه کا مقصد خدا کی خوشنودی اور رضامندی کے علاوه اور کچھه نهیں هو سکتا هے اور اس کی خوشنودی اور رضامندی اس کا آئینه اور هم صفت هونا هے- بهتر الفاظ میں، اس میں فنا هونا هے اور یه مقام راهِ کمال کو وسیلئه عشق سے طے کئے بغیر میسر نهیں هو سکتا هے-
خلاصه:
انسان، خود کو اور اپنے پروردگار کو پهچاننے کے بعد خلیفه الهٰی کے اپنے مقام اور مقصد تک پهنچنے کی کوشش کرتا هے اور قرآن و عترت کے ذریعه سنت رسول الله کے سلسله میں بیان کی گئ توصیف و تعریف سے آگاهی حاصل کرنے کے بعد خلیفه الهٰی کے مقام کی طرف ایک قدم آگے بڑھتا هے- چونکه مذکوره محوروں اور حلقوں کے بارے میں علم و آگاهی معنوی قدروں کے سرفهرست هے، جس کی انسان، خاص کر عصر حاضر کے انسان کو اشد ضرورت هے اور یهی چیز انسان کو زمین پر خدا کی جانشینی کے مقام کے نزدیک پهنچاتی هے اور پروردگار اور نفس کے بارے میں یهی علم و آگاهی علی علیه السلام جیسے انسان کو وجود میں لاتی هے، جس نے فرمایا هے: " اگر سات اقالیم بھی مجھے اس لئے بخش دئے جائیں که ایک چونٹی کے منه سے جَو کے ایک دانے کو چھین لوں ، تو میں هرگز ایسا نهیں کروں گا-[11]"
قابل ذکر بات هے که مذکوره معنوی قدروں کے علاوه اور بھی کچھه معنوی قدریں هیں، جن کا هر زمانے میں انسانی معاشروں کی مشکلات کو حل کرنے میں کلیدی اور ناقابل انکار رول رها هے- حضرت فاطمه زهراء سلام الله علیها ان میں سے بعض معنوی قدروں کی طرف اشاره فرماتی هیں، اور هم یهاں پر ان کا ایک خلاصه بیان کرنے پر اکتفا کرتے هیں:
۱۔ ذمه داری قبول کرنا: یه مسئله انسان کے مشکلات کے اهم حصه کو حل کر سکتا هے، کیونکه انسان ذمه داری قبول کرنے کے احساس کی صورت میں هی خداوند متعال، نیز اپنے اور دوسروں کے تئیں اپنے فرائض کی طرف متوجه هوتا هے-
۲۔ تقوٰی و پرهیزگاری: اگر انسانی معاشروں کے تمام افراد مختلف تهذیب و تمدن، جداگانه قومیتوں اور الگ الگ زبانوں کے باوجود اس مسئله کی طرف توجه کریں، تو وثوق کے ساتھه کها جا سکتا هے که انسانی معاشروں میں کسی قسم کی مشکل پیدا نهیں هوگی-
۳۔ امانت داری اور عدل و انصاف پر مبنی حکم جاری کرنا: حکام اور حکومتوں سے، انسان کے سب سے اهم مطالبات میں سے ایک مطالبه عدل و انصاف کو برقرار کرنا هے که اس کو نافذ کرنے کے نتیجه میں انسانی معاشروں سے ظلم، فساد اور امتیازی سلوک وغیره جیسے بعض مشکلات ختم هو جائیں گے-
۴۔ خدا کے لئے دوستی اور دشمنی: اگر تمام امور، خاص کر دوستی اور دشمنی خداوند متعال کے لئے هوں تو هر قسم کی گمراهی اور غیر خدا کی طرف دلی میلان سے بچ سکتے هیں-
۵۔ نصیحت، همدردی اور مهرومحبت:
نیک صفت انسان کے توسط سے پندو نصیحت، انسانی معاشروں کے امور کی ترقی اور معاشره کے افراد کے لئے اصلاح کا سبب بن سکتی هے- اسی طرح همدردی و مهربانی لوگوں کے غم و آلام کو کم کر کے معاشرے کو یکجهتی اور همدلی کی طرف راهنمائی کر سکتی هے-
۶۔ مقام رسالت کی عمیق و دقیق پهچان: یه مسئله، انسانوں کے لائحه عمل کو معین کرنے میں کلیدی رول ادا کرتا هے، کیونکه اگر انبیاء علیهم السلام خاص کر حضرت خاتم النبییّن صلی الله علیه وآله وسلم کے مقام و منزلت کو اچھی طرح سے پهچانا جائے گا، تو انسانی معاشروں کو کفروالحاد سے رهائی ملے گی، کیونکه انبیاء علیهم السلام کو مبعوث کرنے کا خدائی مقصد انسانی معاشروں کو حقیقی کمال و سعادت کی طرف هدایت کرنا هے-
۷۔ گناهوں کے خطرات اور ان کے منفی اثرات کو پهچاننا: اگر انسان کے نفس سے بری صفتیں دور نه هو سکیں تو انسان کی پاک فطرت گناهوں کے نیچے دب جائے گی- اس سلسله میں امام صادق علیه السلام فرماتے هیں: " جب انسان کسی گناه کا مرتکب هوتا هے تو اس کے دل میں ایک سیاه داغ پیدا هو جاتا هے، اگر وه توبه کر لے تو یه سیاه داغ زائل هو جاتا هے اور اگر گناه کو دهراے تو یه داغ رفته رفته پھیل جاتا هے، یهاں تک که اس کے پورے دل پر غلبه پا لیتا هے، اس حالت میں وه نجات نهیں پا سکتا هے[12]-"
۸۔ خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت و مقاومت: یه مسئله انسانی معاشروں میں مصلحانه تحریکوں کے پیدا هونے میں کلیدی رول ادا کرتا هے، جیسا که اس امر نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت میں بھی نا قابل انکار رول ادا کیا هے- آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے نا گفته به حالات اور دعوت سے روکنے کے لئے طرح طرح کی ریشه دوانیوں کے باوجود هرگز دشمنوں کے سامنے هتھیار نهیں ڈالے، بلکه اپنی دعوت کو گزشته کی به نسبت زیاده استحکام اور پائداری کے ساتھه جاری رکھا- جب اسلام پھیلا اور انسانی معاشروں کی معرفت اور ایمان کی طرف راهنمائی هوئی تو صحیح راه کے انتخاب اور اس پر گامزن هونے کے سلسله میں اس استقامت اور پائداری کی اهمیت اور قدرومنزلت معلوم هوئی-
۹۔ صالح اور نجات یافته نمونوں کی پیروی:
اس کی اهمیت اور انسانی معاشروں کے افراد کی سعادت اور خوش بختی میں اس امر کا رول کسی سے پوشیده نهیں هے- اس لحاظ سے صالح اور با تقویٰ نمونوں اور مثالوں کا انتخاب اور اُس کا اتباع معاشرے کو حق و حقیقت کی طرف هدایت کر سکتا هے-
۱۰۔ ایمان:
مومن انسان سے اسلام کا مطالبه یه هے که ایمان و عمل کو ایک ساتھه رکھتا هو اور ان میں سے ایک کا هونا اور دوسرے کا فقدان خدا اور اسلام کی چاهت کے مطابق نهیں هے- اس صورت میں کهنا چاهئیے که یه جدائی، قول و فعل کی جدائی کا واضح مصداق هے- جبکه ایمان کے ساتھه عمل کا هونا معاشره کو گمراهیوں اور برائیوں کے شر سے نجات دلا سکتا هے-
۱۱۔ حقیقت پسندی:
حقائق کو قبول کرنے سے ایک معاشرے کی سعادت کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا هے- حقائق کو قبول کرنا یعنی عیوب و نقائص کے بارے میں علم حاصل کرنا اور اسی طرح توانائیوں اور محاسن کے بارے میں آگاهی حاصل کرنا هے-
۱۲۔ مادی اور اخروی زندگی کے درمیان توازن برقرار کرنا:
انسان کو یه حق نهیں پهنچتا هے که وه آخرت کو ترک کر کے صرف دنیا اور دنیا کی لذتوں کی طرف رغبت پیدا کرے، اسی طرح وه حق نهیں رکھتا هے که دنیا کو ترک کر کے رهبانیت کو اختیار کرے اور صرف آخرت کی طرف رجحان پیدا کرے، کیونکه مادی اور معنوی امور میں افراط و تفریط انسان کو صحیح راه کے انتخاب اور معرفت سے روک کر اسے گمراهی سے دوچار کرتی هے-
قدروں اور خصوصیات کا یه ایک خلاصه تھا اگر انسان اس کا پابند هو جائے تو وه انسانیت کی چوٹی کو سر کر سکتا هے، خدا کرے ایسا هی هو؛
انسانی معاشروں میں معنوی قدروں کے فقدان کا نتیجه:
چونکه امور اپنے اضداد سے پهچانے جاتے هیں، اس لئے معنوی قدروں کے فقدان کے خطرے کے بارے میں کها جا سکتا هے اور اس کے حتمی اور قطعی نتیجه کا ایک جمله میں خلاصه هو سکتا هے که وه انسان اور انسانی معاشروں کا زوال هے- اس بنا پر، کها جا سکتا هے که اس صورت میں علم کی کرسی پر جهالت بیٹھه جائے گی اور سچائی کی جگه پر جھوٹ مسند نشین هوگا- خدا کے لئے حب و بغض کی جگه کو ریاکاری، لاابالی پن اور ملحدوں اور مشرکوں کی مرضی چھین لے گی- جیسا که مسئولیت سے آگاهی کی جگه پر اس کی عدم آگاهی قابض هے- اس طرح مذکوره دوسری صفات اور قدریں بدل کر ره جائیں گی- پس کها جا سکتا هے که قدروں کے فقدان کے نتیجه میں تمام مثبت صفات کی جگه پر ان کے مخالف بیٹھه جائیں گے اور یه واضح هے که اس قسم کی قدروں کا فقدان اور ان کی جگه پر منفی صفات کا آنا انبیاء علیهم السلام کی مصلحانه تحریک کے مخالف هے اور یه عمل انسانی معاشروں کو زوال و انحطاط کی طرف لے جائے گا- اس لئے سب پر لازم هے که معنوی قدروں کو تحفظ اور بقا بخشنے کے لئے کوشش کریں تاکه انسانی معاشروں کی هدایت و نجات کی طرف راهنمائی هو سکے-