Please Wait
12430
قرآن مجید کی بہت سی آیات کی صراحت کے مطابق اور عقل کے حکم سے نہ کوئی خداوندمتعال کے مانند ہے اور نہ کوئی اس کا شبیہ ہے[i] اور عربی ادبیات کے پیش نظر ، اس آیہ شریفہ کے بارے میں آپ کا ترجمہ صحیح نہیں ہے اور اس بنا پر خداوندمتعال کے مثل کے مثل کی جستجو کرنا بے فائدہ ہے۔
قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ میں موجود "کمثله" کی عبارت میں مثل صرف تاکید کے لیے تھا اور قرآن مجید کے دوسرے مواقع پر اور عربی ادبیات میں اس کی دوسری مثالیں بھی پائی جاتی ہیں جن میں اس لفظ سے اس قسم کا استفادہ کیا گیا ہے۔
البتہ بعض مفسرین نے، تاکید کو ایک قسم کا اضافہ سمجھا ہے کہ قرآن مجید میں ایسا نہیں ہونا چاہئیے، اس آیت کے لیے اور توجیہات بیان کی گئی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ تاکیدی عبارت کا اضافی نہ ہونا، اس توجیہ کی ضرورت نہ ہو۔
جواب کے آغاز میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق اس کی بعض آیات "محکم" یا واضح ہیں اور ان کے معنی عربی ادبیات سے واقفیت رکھنے والے ہر فرد کے لیے ظاہر ہیں۔ یہ آیات قرآن مجید کے اصلی ڈھانچہ کو تشکیل دیتی ہیں اور انہیں "ام الکتاب" کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض دوسری آیات بھی ہیں، جو "متشابہ" ہیں، جن کے بعض دقیق لفظی اور یا معنیاتی نکات، بعض افراد کے لیے شک و شبہہ پیدا ہونے کا سبب بن جاتے ہیں[1]۔ ایسے مواقع پر صحیح راستہ ، یہ ہے کہ دوسری آیات اور موجود شواہد و قرائن کے پیش نظر آیہ کے صحیح معنی کو حاصل کریں۔
مذکورہ مقدمہ کے پیش نظر ہم آپ کے سوال کی تحقیق و توضیح کر رہے ہیں:
جاننا چاہئیے کہ ایسی "محکم" اور واضح آیات پائی جاتی ہیں جو خداوندمتعال کے لیے ہر قسم کے مثل اور شریک کو منتفی جانتی ہیں، مثال کے طور پر:
۱۔ " نہ اس کا کوئی کفو و ہمسر ہے۔"[2]
۲۔ نہ کوئی اس کی فرمان روائی میں شریک ہے[3]۔
۳۔ {عیسائیوں سے مخاطب ہوکر} خبردار تثلیث کا نام بھی نہ لو۔ اس سے باز آجاو کہ اس میں بھلائی ہے، اللہ فقط خدائے واحد ہے[4]۔
اس بنا پر، پروردگار کا بے مثل ہونا بہت سی محکم آیات سے ثابت ہوتا ہے وغیرہ، لیکن یہ کہ آیہ شریفہ میں جملہ "کمثله" سے کیا مراد ہے؛ اس میں ایک ایسا ابہام پایا جاتا ہے جس سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے بھی دوچار ہوئے ہیں، اس کے جواب میں صرف "کاف" کے اضافہ ہونے کی دلیل پیش کی گئی ہے؛ ایک تفسیر میں لکھا گیا ہے:
"چونکہ جملہ {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} میں "کاف" تشبیہ کا "کاف" ہے اور مثل کے معنی میں آیا ہے، جملہ کے یوں معنی ہیں " اس کے مثل کے مانند کوئی چیز نہیں ہے" یہ تکرار اس امر کا سبب ہے کہ بہت سے مفسرین نے "کاف" کو زائد سمجھا ہے جو عام طور پر تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے اور فصیح کلام میں کافی استعمال ہوتا ہے۔[5]"
ایک اور تفسیر میں عرب شعراء کے چند اشعار سے استناد کیا گیا ہے، کہ انہوں نے بھی "کمثل" کی عبارت کو اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے، لیکن اس سے صرف "مانند" کے معنی کا ارادہ کیا ہے، نہ کہ "مثل کے مثل"؛ مثال کے طور پر، اوس بن حجر نے یہ شعر کہا ہے:
و قتلي كمثل جذوع النخيل يغشاهم سبل منهمر
{مقتولین کی حالت ان خرما کی شاخوں کے مانند تھی جو سیلاب کی لپیٹ میں آئے ہیں}۔
ایک دوسرے شاعر کا شعر یوں ہے:
سعد بن زيد إذا أبصرت فضلهم ما إن كمثلهم في الناس من أحد
{اگر آپ قبیلہ سعد کی برتری کے بارے میں غور کریں گے، تو لوگوں میں ان کے مانند کسی کو نہیں پائیں گے}[6]
یہ نکتہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی زبان اور اسلوب میں نازل ہوا ہے، جس کو عرب اقوام استعمال کرتے تھے[7]، چنانچہ ہر دوسرے نبی نے بھی اپنی کتاب کو اسی زبان میں پیش کیا ہے، جو اس کی قوم کی زبان تھی[8]۔ اس بنا پر قرآن مجید کے کلمات کو ادراک کرنے کے لیے ، عرب قوم، اور خاص کر اس قوم کے ادیبوں کے کلام پر خاص توجہ کی جانی چاہئیے، جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہ اپنے کلام میں لفظ "کمثل" کا استعمال کرتے ہوئے تاکید کے علاوہ کسی دوسرے معنی کو مدنظر نہیں رکھتے تھے اور ان کے کسی کلام میں ہم یہ نہیں پاتے ہیں کہ اس لفظ کو "مثل کے مثل" کے معنی میں استعمال کیا ہو اور اسی بنا پر آیہ شریفہ "لیس کمثله شیء" کی بہترین تفسیر وہ ہے جس میں عربوں کے کلام پر مبنی ترجمہ و تفسیر کر کے تاکید کے علاوہ اس کے کوئی اور معنی نہ لیے جائیں۔
اس کے علاوہ ہم قرآن مجید میں اس کے مشابہ اور بھی آیات کو پاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
"فإن آمنوا بمثل ما آمنتم به فقد اهتدوا"[9] یعنی " اب اگر یہ لوگ بھی ایسا ہی ایمان لے آئیں گے تو ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔" ذرا غور کیجئیے کہ آیہ شریفہ کے معنی، اس چیز کا ایمان ہے جس کا مومن ایمان رکھتے ہیں اور نہ اس کے مانند اور مشابہ کا ایمان؛ اس بنا پر اس آیہ شریفہ میں پائے جانے والے جملہ "بمثل ما اهتدوا" سے آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ آیہ شریفہ "لیس کمثله" بھی اس مذکورہ آیت کے مشابہ تھی اور یہاں پر لفظ "مثل" کا کوئی مستقل موضوع نہیں ہے اور صرف تاکید کی علامت ہے۔
البتہ بعض مفسرین کا کلام قابل تنقید ہے کہ گویا انہوں نے تاکید کو کلام میں زائد شمار کیا ہے، جبکہ پروردگار عالم کا کلام ہر قسم کے نقص و زائد سے پاک و منزہ ہے، شاید انھیں کلمات زائد کے قرآن مجید میں استعمال نہ ہونے کے ضروری ہونے کا مسئلہ ، اس کا سبب بنا ہےکہ ان مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی دوسری تفسیریں پیش کی ہیں جو عربی ادبیات اور اس میں موجود شواہد سے ہم آہنگ نہیں ہیں، من جملہ یہ کہ:
" کہا گیا ہے کہ آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر بفرض محال ، خداوندمتعال کا کوئی مثل بھی ہو، تو اس کے مثل کی کوئی شبیہ اور مانند نہیں ہے۔ ۔ ۔ اور ایک اور تفسیر جو پیش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مثل کو صفت کے معنی میں لے کر زائد کو تقدیر میں لے لیں اور کہِیں کہ بیشک خدا کی صفت کے مالک کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔[10]" اور یا یہ تفسیر کہ "کبھی کہا جاتا ہے کہ: تیرے مانند، میدان حوادث سے نہیں بھاگتا ہے، یعنی تیرے مانند شخص کو اس شجاعت اور اس عقل و ہوش کے ساتھ میدان حوادث سے نہیں بھاگنا چاہئیے {خلاصہ یہ کہ جس میں تیرے اوصاف ہوں اسے ایسا ہونا چاہئیے} مذکورہ آیہ شریفہ میں بھی یوں معنی ہیں کہ : "خدا کے مانند ، مذکورہ اوصاف اور وسیع و عظیم اور لامتناہی قدرت کے پیش نظر ، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔[11]"
لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان تفاسیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، اور کہنا چاہئیے کہ وہی تاکید معنی، جس کا عرب قبیلوں نے ایسے مواقع پر استعمال کیا ہے، یہاں پر بھی استعمال ہوتی ہے اور یہ تاکید بھی کلام میں زائد نہیں ہے کہ اس سے خائف ہو کر توجیہ کرنے لگیں، کیونکہ اگر ہم اس کو زائد جان لیں ، تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ اس کی توجیہ کے باوجود بھی ہم اس سے بڑی مشکل سے دوچار ہوں گے، اس طرح کہ ہمیں قرآن مجید میں موحود بہت سے تاکیدی کلمات جیسے "ان"، "انھا"، "لام تاکید" اور "ضمائر فصل" وغیرہ کو زائد کلمات ماننا پڑے گا جن سے قرآن مجید نے استفادہ کیا ہے جبکہ کوئی بھی مفسر اسے قبول نہیں کرے گا۔
واضح تر دلیل جو اس کی علامت ہے وہ یہ ہے کہ اس آیت میں استعمال شدہ تاکید کسی صورت میں خدا کا مثل ثابت کرنے کے اور اس کے مثل کے مثل کی نفی کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عصر جاہلیت کے اعراب جو پیغمبراسلام و قرآن مجید کے بارے میں نون میں نقطہ نکالنے اور اعتراض کرنے کے درپے ہوتے تھے انہوں نے کبھی اس نکتے پر اعتراض نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ اس آیت سے تاکید کے علاوہ کوئی معنی نہیں نکل سکتے ہیں۔
[1] آل عمران، 7، "هو الذی أنزل علیک الکتاب منه آیات محکمات هن ام الکتاب و أخر متشابهات...".
[2] توحید، 4، "و لم یکن له کفوا احد".
[3] اسراء، 111؛ فرقان، 2، "لم یکن له شریک فی الملک".
[4] نساء، 171، "لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیرا لکم إنما الله إله واحد...".
[5] مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 20، ص 371، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1374 ه ش.
[6] طبرسی، مجمع البیان، ج 9، ص 37، انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1372 ه ش.
[7] شعراء، 195؛ یوسف، 2؛ رعد، 37؛ طه، 113 و ...
[8] ابراهیم، 4، "و ما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومه...".
[9] بقره، 137.
[10] طبرسی، مجمع البیان، ج 9، ص 38.
[11] مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 20، ص 372.