Please Wait
9629
یہ سوال ان تفاوتوں پر مبنی ہے، جو انبیاء {ع} اور دوسرے لوگوں کے درمیان پائے جاتے ہیں اور ان کا عام مرد و زن کے درمیان جنسی روابط سے کوئی تعلق نہیں ہے {اس کی اپنی جگہ پر دلیل پیش کی گئی ہے}
اس بنا پر اجمالا کہنا لازم ہےکہ:
۱- پیغمبر اکرم {ص} کو دئے گئے یہ امتیازات، ان ذمہ داریوں کے پیش نظر ہیں، جو خصوصی طور پر آنحضرت{ص} کو ہی سونپی گئی ہیں-
۲-پیغمبر اکرم {ص} نے کبھی ان امتیازات سے حد سے زیادہ استفادہ نہیں کیا ہے-
۳-شیعوں کے عقیدہ کے مطابق متعہ کے لا محدود حد تک جائز ھونے سے، عملی طور پر، پیغمبر{ص} اور دوسرے لوگوں کے درمیان اس سلسلےمی کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا ہے-
۴-پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں پر عائد کی گئی محدودیتیں اگر چہ ان کے مقام و منزلت کے متناسب تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ زندگی جاری رکھنے پر مجبور نہیں تھیں، بلکہ انھوں نے اپنی مرضی سے اس محدودیت کو قبول کیا تھا-
حقیقت میں یہ سوال چند حصوں میں تقسیم ھوتا ہے اور اس بنا پر اس کا جواب بھی چند محوروں میں دیا جانا ہے:
۱-کیا سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۰ میں اشارہ کئے گئے تمام مطالب پیغمبر اکرم {ص} سے ہی مخصوص ہیں؟
۲-پیغمبر اکرم {ص} کے لئے شریک حیات منتخب کرنے کا کیوں مخصوص طریقہ تھا کہ اس کے مطابق با ایمان عورتیں مہر کو وصول کئے بغیر اپنے آپ کو پیغمبر {ص} کی خدمت میں پیش کرسکتی تھیں اور آپ{ص} کی بیوی بن سکتی تھیں؟
۳-پیغمبر اکرم {ص} کیوں دوسروں کی بہ نسبت جنسی خواہشات پوری کرنے کے لئے خاص امتیازات سے استفادہ کرنے کے حقدار تھے؟
۴-پیغمبر اکرم{ص} کی ذات کے لئے ان خصو صی امتیازات کے حاصل ھونے کے باوجود، آنحضرت {ص} کی بیو یاں د وسری عام عورتوں کو حاصل حقوق سے بھی محر وم تھیں اور پیغمبر{ص} کی وفات کے بعد کسی د وسرے سے ازدواج کا حق نہیں رکھتی تھیں؟
اب ہم اسی ترتیب سے مذکورہ سوالات کا جواب دیتے ہیں:
۱-سب سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کے سوال کے پہلے حصہ سے متعلق آیہ شریفہ پر بحث کریں:
خدا وند متعال نے اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اکرم {ص} سے خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے: "يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنا لَكَ أَزْواجَكَ اللاَّتي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَ ما مَلَكَتْ يَمينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَ بَناتِ عَمِّكَ وَ بَناتِ عَمَّاتِكَ وَ بَناتِ خالِكَ وَ بَناتِ خالاتِكَ اللاَّتي هاجَرْنَ مَعَكَ وَ امْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَها لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَها خالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنين." [1] " اے پیغمبر ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دے دیا ہے اور کنیزوں کو جنھیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کر دیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کی پھو پھی کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو آور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو ، جنھوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مو منہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے ، اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کر دیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے با قی مومنین کے لئے نہیں ہے- [2] "
شرعی احکام کے بارے میں معمولی اطلاع رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اشارہ کی گئی عورتیں، صرف ایک مورد کے علاوہ ، صرف پیغمبر{ص} سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس میں تمام افراد شامل ہیں اور "احللنا لک" کی عبارت سے آنحضرت {ص} کو مخاطب قراردینا حصر کی دلیل نہیں ہے، بلکہ دوسری آیات بھی پائی جاتی ہیں کہ جن کے ابتدائی مخاطب پیغمبر اکرم {ص} ہیں، لیکن ان میں موجو د حکم تمام لوگوں کے لیے ھوتا ہے- [3]
۲-مذکورہ آیہ شریفہ میں صرف ایک مورد ہے، جو" خالصۃ لک" کی عبارت سے رسول خدا{ص} کے لئے مخصوص ھوا ہے، اور وہ ایسا موقع ہے، جب کوئی خاتون اپنی مرضی سے اپنے آپ کو رسول خدا{ص} کی خدمت میں بخشدے- اس قسم کا ازدواج صرف آنحضرت {ص} سےمخصو ص تھا اور دوسروں کے لئے اس طریقہ سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے، آیہ شریفہ کے اس حصہ پر غو ر کرنے سے دلچسپ نتائج حاصل ھوتے ہیں:
اولا: ازدواج کا یہ طریقہ، عملا ممکن نہیں ہے کہ حقیقی معنوں میں صرف پیغمبر{ص} کے لئے ہی مخصوص ھو- بلکہ اگر کوئی خاتون کسی دوسرے کے پاس جاکر اس سے ازدواج کی خواہش ظاہر کرے، تو اس قسم کا ازدواج ممکن ہے- صرف ا س کا پیغمبر{ص] کے ساتھ اتنا فرق ہے کہ پیغمبر {ص} مہر ادا کئے بغیر ایسی عورت کے ساتھ ازدواج عمل میں لاسکتے ہیں اور دوسروں کو مہر ادا کرنا ضروری ہے- [4]
ثانیا: بعض مفسرین کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} نےاپنی پوری زندگی کے دوران اس مخصوص حق سے ہر گز استفادہ نہیں کیا ہے- [5]
لیکن مفسرین کے ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ صرف ایک عورت کا اس طریقہ سے آنحضرت {ص} سے ازدواج ہوا ہے اور روایات کے مطابق وہ بھی ایک بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون تھیں اور "شریک" نامی اولاد بھی رکھتی تھی- [6]
اس وجہ سے، آیہ شریفہ کے ایک حصہ کو پیغمبر اکرم {ص} کے لئے ایک غیر معمولی حق نہیں جانا جاسکتا ہے اور اسے پیغمبر {ص} کے لئے ایک قسم کا غیر معمولی جنسی امتیاز نہیں مانا جاسکتا ہے-
۳-اس سلسلہ میں کہ عام مرد کیوں بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ نہیں رکھ سکتے ہیں [7] ، لیکن پیغمبر اکرم {ص} کے لئے اس قسم کی پابندی نہیں ہے، کہنا چاہئیے:
۳-۱ پیغمبر اکرم {ص} کے لئے امتیازات کو مد نظر رکھنا، آپ {ص} پر دشوار اور سنگین ذمہ داریوں کے پیش نظر تھا- اسی وجہ سے ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اگر ایک مو قع پر "خالصتہ لک" کی عبارت سے آنحضرت {ص} کو کوئی خاص امتیاز بخشا گیا ہے، تو دوسری جانب "نافلۃ لک [8] " کی عبارت سے آپ {ص} پر نافلہ و شب زندہ داری بھی واجب قرار دی گئی ہے- یہ وہ موضوع ہے جو دوسروں کے لئے مستحب ھونے کے باوجود، اسے ترک کرنے پر اسے کوئی سزا نہیں ملتی ہے-
بعض افراد کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} چونکہ ایک طرف عرفان کے کمال اور مبداء ہستی سے رابطہ قرار پائے تھے اور دوسری جانب، مادی دنیا میں، عام لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے مکلف تھے، اس لئے آپ {ص} کو ایسے روابط کی ضرورت تھی جو اس کام میں اعتدال پیدا کریں ان روابط میں سے ایک بیویوں سے معاشرت بھی ہے-
۳-۲تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ھوتا ہے کہ فرماں روا دسیوں اور سیکڑوں بیویوں کی حرم سرا تشکیل دیتے تھے، لیکن اگر چہ پیغمبر{ص} تھیوری کے مطابق اس قسم کی حرم سرا تشکیل دینے کے مجاز تھے، لیکن مشہور نقل کے مطابق عملی طور پر آپ نے ایسا کام نہیں کیا ہے بلکہ آپ کی بیویوں کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے کی حدتک بھی نہیں تھی اور ایک مورد کے علاوہ آپ کی ساری بیویاں یا بیوہ تھیں یا طلاق شدہ تھیں-
یہ سب چیزیں اس امر کی دلیل ہیں کہ، ان ازدواج کا سبب جنسی مقصد نہیں تھا-
۳-۳شیعوں کے نظریہ کے مطابق، پیغمبر{ص} کے علاوہ دوسرے مردوں کے لئے بھی بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی محدودیت نہیں ہے، صرف چار بیویاں دائمی صورت میں ھو سکتی ہیں اور اس کے علاوہ باقی تمام عورتیں عارضی {متعہ کی} صورت میں بیویاں بن سکتی ہیں [9] - اس بنا پر اور عمل کے مقام پر پیغمبر {ص} اور دوسرے مردوں کے درمیان جنسی آزادی کے سلسلہ میں کوئی فرق نہیں ہے-
۳-۴ ہنگامہ بپاکرنے والے بعض فطری اختلاف سے صرف نظر کرتے ھوئے، آپ ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جنسی خواہشات پوری نہ ھو نے کی کوئی شکایت کی ھو اور بہ الفاظ دیگر، وہ سب اپنی موجودہ حالت پر راضی تھیں، جس طرح ہم بعد والے حصوں میں مشاہدہ کریں گے، کہ آ نحضرت {ص} کی بیویاں آپ{ص} سے کسی صورت میں جدائی اختیار کرنے کی درخواست نہیں کرتی تھیں- لیکن بہت ہی کم ایسے افراد ملیں گے جنھوں نے اپنی د و دائمی بیویوں کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لحاظ سے عدالت کی رعایت کی ھو، اور اس برتاو میں فرق کے پیش نظر عام لوگوں کے لئے بیویوں کی تعداد میں محدودیت قابل توجیہ ھوسکتی ہے-
۴-سوال کے آخری حصہ کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} اور آپ {ص} کی بیو یوں کے درمیان جنسی آزادی میں تفاوت، حقیقت میں مندرجہ ذیل دو مطالب میں سے کسی ایک سے متعلق ھوتا ہے:
۴-۱ اس تفاوت میں سے بعض کا سر چشمہ مرد و زن کے درمیان موجود فطری تفاوت ہے، جو صرف پیغمبر{ص} سے مخصوص نہیں ھوتا ہے او ر اس کی و جہ بھی اپنی جگہ پر بیان کی گئی ہے – اگر چہ آپ کے سوال کا یہ حصہ اصلی محور نہیں ہے، لیکن اس کے بارے میں حواشی میں بیان کئے گئے جوابات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے- [10]
اس سلسلہ میں، پیغمبر اکرم {ص} اور آپ {ص} کی بیویوں کے درمیان جنسی تفاوت، جہاں تک آنحضرت {ص} کی حیات سے تعلق ہے، اس سلسلہ میں کہا جاسکتا ہے کہ معاشرہ میں ایک خاص حیثیت کی مالک ھونے کے پیش نظر،آنحضرت {ص} کی بیویوں کے ساتھ عام خواتین کا جیسا ب رتاو نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لئے خداوند متعال ان سے مخاطب ھو کر ارشاد فر ماتا ہے:" اے زنان پیغمبر، تم اگر تقوی اختیار کرو تو تمھارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے { بلکہ اس صو رت میں تمھیں زیادہ اجر و ثواب ملے گا}" [11]
اور اس کے مقابلے میں ارشاد ھوتا ہے:
" جو بھی تم میں سے کھلی ھوئی برائی کا ارتکاب کرے گی اس کا عذاب بھی دہرا کر دیا جائے گآ"- [12]
ایسے اہم مقام پر فائز ھونے اور امہات المو منین{ مومنین کی ماں} کا خطاب حاصل کرنے کے لئے کسی کو اس کی رضامندی کے بغیر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے-
اسی وجہ سے پروردگار عالم نے اپنے پیغمبر{ص} کو یوں نصحیت فرمائی ہے:" پیغمبر، آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے- اے زنان پیغمبر؛ جو بھی تم میں سے کھلی ھوئی برائی کا ارتکاب کرے گی اس کا عذاب بھی دہرا کر دیا جائے گا اور یہ بات خدا کے لئے بہت آسان ہے "- [13]
اس کے بعد پیغمبر اکرم{ص} کی بیویوں کو یہ اختیار ملا تھا کہ مندرجہ ذیل دو راہوں میں سے کسی ایک کو چن لیں:
۱- گراں قیمت تحفوں کو حاصل کرکے اور کافی احترام کے ساتھ پیغمبر{ص} سے جدائی حاصل کرکے دوسری عورتوں کے مانند اپنی زندگی بسر کریں-قدرتی طور پر اس صورت میں وہ کسی دو سرے مرد کے ساتھ شادی کرسکتی تھیں-
۲-دنیوی لحاظ سے ممتاز مقام و منزلت اور اخروی اجر و ثواب کے پیش نظر، با تقوی رہنے کی صورت میں آنحضرت {ص} کی شریک حیات کے عنوان سے با قی رہیں-
قدرتی طور پر اس دوسری راہ کو چننے کی صورت میں کچھ محدودتیں برداشت کرنی تھیں-
تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} کی تمام بیویوں نے، ممکنہ محدودیتوں سے آگاہی رکھتے ھوئے، آنحضرت {ص} کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی اور بعض روایتوں کے مطابق، اس قسم کی رضامندی کا اعلان کرنے میں عائشہ پیش قدم تھیں- [14]
ان محدودیتوں میں سے ایک، آنحضرت{ص} کی رحلت کے بعد کسی دوسرے مرد سے ازدواج کی ممانعت تھی کہ جس کا اعلان سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ میں یوں کیا گیا ہے:" تمھیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے-"
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ ایک ایسے مرد کے بارے میں نازل ھوئی ہے، جس نے یہ ارادہ کیا تھا کہ پیغمبر اکرم {ص} کے بعد عائشہ سے شادی کرے{ عائشہ آنحضرت کی وہی بیوی تھیں جو پیغمبر سے وفاداری کا اعلان کرنے میں پیش قدم تھیں}- سدی نامی ایک دوسرے مفسر نے کہا ہے کہ عائشہ سے ازدواج کا ارادہ رکھنے و الا مرد طلحہ بن عبداللہ تھا- [15]
قابل غور بات ہے کہ اسی محترم صحابی{طلحہ} نے ام المومنین عائشہ کی حمایت اور پشت پناہی سے استفادہ کرکے جنگ جمل کے دوران ایک بڑا فتنہ برپا کیا؛
اگر یہ صحابی ام المومنین کا شوہر ھونے کا عنوان بھی حاصل کرتا تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس سے بھی بڑے فتنے پیدا کرتا اور اس عنوان سے کہ وہ پیغمبر کی سابقہ شریک حیات کا شوہر ہے، لوگوں کو فریب دے کر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ھوجاتا؟؛ [16]
اس وجہ سے اور اس سلسلہ میں ممکنہ ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکان کے پیش نظر پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کے لیے آنحضرت {ص} کی رحلت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} کی بیویاں آنحضرت{ص} کی زندگی میں آپ {ص} سے جدائی اختیار کرکے کسی دوسرے مرد سے ازدواج کا حق رکھتی تھیں، لیکن اب جبکہ انھوں نے آنحضرت {ص} کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے ضمنی طور پر انھوں نے ان محدودیتوں کو بھی دل و جان سے قبول کیا ہے-
[1] احزاب، 50.
[2] ترجمہ مکارم شیرازی
[3] اس سلسلہ میں ملاحظہ سورہ طلاق، 1.
[4] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 5، ص 384، ح 2، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365 هـ
[5] طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج 22، ص 17، دار المعرفة، بیروت، 1412 هـ
[6] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 22، ص 202، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هـ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 22، ص 202، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هـ
[7] اس سلسلہ میں آپ تفسیر کی مختلف کتابوں کا مطالعہ کر کے سورہ نساء کی تیسری آیت کے ذیل میں درج کئے گئے مطالب کا مطالعہ کر سکتے ہیں-
[8] اسراء، 79.
[9] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 5، ص 451، روایات موجود در باب"انهن بمنزلة الإماء و لیست من الأربع".
[11] احزاب، 32.
[12] احزاب، 30.
[13] احزاب، 29- 28.
[14] طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج 21، ص 100.
[15] ابن کثیردمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج 6، ص 403، دار الکتب العلمیة، بیروت، 1419 هـ
[16] اس سلسلہ میں ملاحظہ ہواسی سائٹ کاسوال:۶۶۴۴