Please Wait
11561
دین اور سائنس کے تعارض کی بحث ایک نئی بحث ھے، جوعیسائی دین میں رائج ھے۔ اور وھاں ھی سے یھ بحث اسلام میں آ ئی ھے۔ لیکن دین مبین اسلام نے اس مسئلھ کے حل کیلئے مندرجھ ذیل نکات کی جانب توجھ مبذول کی ھے:
۱۔ دینی علوم کی تعلیمات میں مقیدات اور مخصصات ( وه دلیلیں جو مطلق دلیلوں کیلئے قید کے مانند ھوں ، یا عام دلیلوں کیلئے خاص کے مانند ھوں ) کی طرف توجھ کرنی چاھئے، تا کھ ھر مطلب کو عام طور پر اسلام کی جانب نسبت نھ دی جائے اور بعد میں یھ معلوم ھوجائے کھ سائنس اس کی عمومیت سے مخالف ھے ، پس آیات اور روایات کے استعمال میں غور و خوض کرنا چاھئے۔
۲۔ اسلام میں عقل، خداوند متعال کی "حجت" ھے اور اگر سائنس نے کسی نظریھ کو دلیل و برھان سے ثابت کیا، تو دین اس کو قبول کرتا ھے اور وه آیات اور روایات کیلئے ایک مخصص لبی ( غیر لفظی مقید) کے مانند بنتا ھے۔
۳ ۔ تعارض کی صورت میں معنوی سبب ،جو دین کی زبان میں بعض چیزوں کیلئے ذکر ھوا ھے، مادی سبب کے ساتھه نھیں ملنا چاھئے۔
۴۔ علمی ایجادات ،انکشافات اور نظریات میں، تھیوری اور مفروضے ، اسی طرح ان نظریات جن کے سب مفروضے ابھی تک ثابت نھیں ھوئے ھیں، اور ان نظریات جس کے سب مفروضے ثابت ھوئے ھیں اور قانون کی شکل اختیار کر چکے ھیں، کے درمیان فرق رکھنا چاھئے۔ کیونکھ جو نظریات ھمیشھ تغییرپذیر ھیں، وه دینی قوانین کے ساتھه ،جو ثابت اور پایدار ھیں ، متعارض نھیں ھوسکتے ھیں۔ پس سائنسی اور علمی نتائج میں غور کرنا چاھئے تا کھ غیر قطعی اور غیر برھانی امور قطعی اور برھانی امور کی جگھ فرض نھ کئے جائیں۔
قرون وسطی اور یورپ کی نشاۃ ثانیھ کے بعد، نئے علوم کی پیدائش کے ضمن میں ، چرچ کے عمومی اور انجیل کی عیسائی تفسیر سے سائنسی مفاهیم سے ٹکراٶ کے نتیجه میں سائنس اور دین کے در میان تعارض کا مسئلھ پیدا ھوا۔ مروجھ علوم کی رونق اور ان کی ترقی کے سبب سے عیسائی دین کا چراغ گل ھونے لگا[1]، بعض نے اس تعارض کو حل کرنے کیلئے کها کھ " دین کی زبان عقل کے دائرے سے الگ اور استدالال اور برھان سے مافوق ھے۔ "کیرکگور" جیسے افراد اس نظریھ کے حامی تھے که جس چیز کا انسانی فکر اور عقل انکشاف کرتی ھے وه ایمان کے دائرے سے خارج ھے۔ [2]
سائنس او دین کے درمیان تعارض کی بحث ابتدا میں عیسائی دین، اوردین کی نسبت ان کے خاص نظریه، سے متعلق تھی۔ [3] یھ بحث بعض افراد کے ذریعے اسلامی تعلیمات میں داخل ھوئی ، اس کے بغیر کھ اسلامی یتعلیمات میں اس کی خاص ظرافتوں کو لحاظ میں رکھا جائے ۔
علم اور سائنس کے تعارض کے سوال کے جواب میں ابتدا میں دوبحثیں کی جائیں گی۔
پھلی بحث "دینی تعلیمات کے بارے میں" اور دوسری بحث " سائنسی ایجادات کے بارے میں" ھے۔
الف : دینی تعلیمات کے بارے میں:
علم اور دین کے تعاض کے سلسلے میں دینی تعلیمات کے دائرے میں بعض نکات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے :
۱۔ دینی منابع ( کتاب و سنت ) کی طرف رجوع کرتے وقت ایک حکم کے مخصصات اور اس کی پابندیوں کی طرف توجھ کرنی چاھئے، تا کھ ابتدائی طور پر ان نصوص ( دلیلوں ) کے مخصص اور مقید کی تلاش کئے بغیر ، اس حکم کے عموم یا مطلق ھونے پر حکم نھیں کرنا چاھئے۔
اس مطلب کی وضاحت کیلئے ایک مثال کا ذکر کرنا ضروری ھے ، قرآن کریم میں شھد کو لوگوں کیلئے شفاء قرار دیا گیا ھے۔ [4] اب اگر کوئی شخص خداوند متعال کے اس کلام سے یھ نتیجھ حاصل کرے کھ شھد ھر بیماری کیلئے شفا ھے اور دوسری طرف اگر یھ علم ثابت کرے کھ شھد فلاں بیماری کیلئے مضر ھے۔ آخر میں یھ نتیجھ لیا جائے گا کھ علمی انکشاف دینی تعلیم سے متعارض ھے جب کھ آیھ شریفھ نھیں کھتی ھے کھ شھد ھر بیماری کیلئے شفاھے۔
فخر رازی اس آیت کی ذیل میں اسی اشکال کا ذکر کرکے کھتے ھیں: خداوند متعال نھیں فرماتا ھے کھ شھد، تمام لوگوں کیلئے ، ھر درد کیلئے اورھر حال میں شفاء ھے بلکھ فی الجملھ شفاء ھے۔ [5]
اور فنی اور منطق کی اصطلاح میں " قضیھ مھملھ قضیھ جزئیھ کے حکم میں ھے"۔
اس نکتھ کو ان خطابوں اور بیانات میں ،جو ھمارے دین کے منابع میں آیا ھے مد نظر رکھنا چاھئے اور غور کے بغیر ان عموم یا اطلاق کا قائل نھیں ھونا چاھئے۔
۲۔ بعض مغربیوں کے نقطھ نظر کے بر خلاف ، اسلام نے عقل اور عقلی دلیلوں کوبلند مقام عطا کیا ھے اور عقل کو انسان کا باطنی رسول جانا ھے اور عاقل کی عبادتیں دوسروں کی عبادتوں پر فضیلت رکھتی ھیں ۔ [6]
اس لئے جو نقلی دینی دلائل دوسری دلیلوں کے ذریعے تخصیص یا تقیید قبول کرتی ھیں، جیسا کھ اصول فقھ میں آیا ھے ، مخصصات لبی (عقلی اور یقینی علمی دلیلوں) سے تخصیص اور تقییید ھوتی ھیں۔ مثال کے طور پر بعض روایات میں، (اگر ھم ان کی سند کو قبول کریں) آیا ھے کھ ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف بیماری نھیں پھیلتی۔[7] لیکن سائنس نے ثابت کیا ھے کھ بعض بیماریاں پھیلتی ھیں اس صورت میں کوئی تعارض موجود نھیں ھے بلکھ یھ قطعی علمی دلیلیں جو فکر اور تعقل اور انسان کی تشخیص کا نتیجه ھے ، مخصص لبی کے مانند عمل کرتی ھیں، یعنی ھم یوں کھیں کھ روایت کی مراد سب بیماریاں نھیں ھے بلکھ وه بیماریاں هیں جو پھیلتی نھیں ھیں ۔
اس بات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے کھ ان موارد میں عقل اور نقل کے درمیان تعارض مشاھده ھوتا ھے، نھ کھ عقل اور دین کے درمیان، کیونکھ دینی تعلیمات عقل اور نقل دونوں کے ذریعے حاصل ھوتی ھے۔
۳۔ کبھی بعض روایات کسی ردعمل کے مادی سبب کی وضاحت نھیں کرتیں بلکھ اس کے معنوی سبب کو بیان کرتی ھیں اور اگریھ مادی سبب کے ساتھه مشتبه ھوجائے تو علم اور دین کے تعارض کے وھم کا موجب بنتا ھے۔ معنوی اسباب ، مادی اسباب کی امتداد میں ھیں ، جس کا مطلب یھ ھے جب کسی چیز کا معنوی سبب پیدا ھوا اس کے بعد مادی سبب کا زمینھ فراھم ھوتا ھے اور وه چیز وجود میں آتی ھے - مثال کے طور پر روایات میں آیا ھے کھ بھونچال ، لوگوں کے گناھوں کی وجھ سے آتا ھے، جبکھ سائنس نے یھ ثابت کیا ھے کھ بھونچال زمین کے اندر کچھه طبیعی عمل اور رد عمل ( چاھے دفعتا ھو یا تدریجی ) کی وجھ سے آتا ھے ھے۔ یھاں پر تعارض کا وھم ایجاد نھیں ھونا چاھئے اور یھ کھا جائے کھ آخر کارکیا بھونچال لوگوں کے گناھوں کی وجھ سے آتا ھے؟ یا اس کے ساتھه اس کا کوئی ربط نھیں ھے اور فقط زمین کے اندرونی عمل اور رد عمل کے ذریعے آتا ھے؟
کیونکھ دینی بیان میں بھونچال کے معنوی سبب کو بیان کیا گیا ھے کھ بھونچال کا معنوی سبب لوگوں کے گناه ھیں اوریھ اس بات کے منافی نھیں ھے کھ جب مادی طبیعت میں ایسا کوئی حادثھ رونما ھوجائے، تواس کیلئے عمل اور عکس العمل صورت پانا چاھئے۔ پس مادی علل اور معنوی چیزوں کے درمیان فرق رکھنا چاھئے۔
ب :سائنسی ایجادات کے بارے میں:
سائنسی ایجادات کے متعلق سائنس و دین کے تعارض کے بارے میں بھی چند نکات کا بیان کرنا ضروری ھے:
۱ ۔ سائنسی بحثوں کے سلسلے میں تھیوری او ان مفروضات کے بارے میں جو ابھی تک ثابت نھیں ھوئے ھیں اور سائنس کے یقینی قوانیں کے درمیان فرق رکھنا چاھئے۔ ایک علمی مفروضھ یا سائنسی نظریھ جب تک کھ سو فیصد قطعی نھ ھو اور قانوں کی شکل اختیار نھ کرچکا ھو تو اس کا ایک دینی منبع اور دلیل سے تعارض پیدا کر نا صحیح نھیں ھے۔ کیونکھ وه ابھی مفروضےاور تھیوری کی حد میں ھے اور ممکن ھے آئنده اس کے بر عکس ( کوئی اور نظریھ ) ثابت ھوجائے، یا صرف اس نظریھ کی حد تک ھے کھ جس کا صحیح ھونا ان سب موارد اور مصادیق میں ، جو دینی تعلیمات میں آئے ھیں صادق نھیں آتا ھے۔ اور اس لئے بنیادی طور پر شریعت کی تعلیمات کے ساتھه کسی طرح کا تعارض اور منافات نھیں رکھتا ھے ۔
ھاں۔ اگر کبھی اس مفروضے کا صحیح ھونا ثابت ھوجائے اور دین کی تعلیمات میں سے کسی ایک تعلیم سے تعارض رکھتا ھو ھمیں اس تعارض کو برطرف کرنے کی کوشش کرنی چاھئے۔
۲۔ دوسرا نکتھ جس کے بارے میں سائنس میں توجھ کرنی چاھئے یھ ھے کھ فلسفھ سائنسی (Philosophy of Science) میں بعض لوگوں کا نقطھ نظر یھ ھے کھ سائنس نظریات عالم حقیقت، کی حکایت نھیں کرتے ، بلکھ وه صرف انسان کی ذھنی بناوٹوں پر قائم ھیں جو عالم کے حوادث کا تجزیھ کرنے میں فائده مند ثابت ھوتی ھیں۔ مثال کے طورپر ڈاروین کا "ارتقائی نظریھ" ایسی کوئی بات نھیں کرتا کھ حقیقت میں انسان ، بندر سے بنا ھے بلکھ وه صرف اتنا کھتا ھے کھ اگر ھم ایسا فرض کریں گے ، انسانی حیات کے بارے میں بعض مجھولات حل ھوجائیں گے۔ یھ نقطھ نظر جو آجکل کے سائنسی حلقوں میں رائج ھے اس کا نام "تصورانه بیان" [8]
رکھا گیا ھے۔ اس بنیاد پر بعض یھ دعوٰی کرتے ھیں کھ سائنس اور دین کے درمیان کوئی تعارض نھیں ھے کیونکھ جو کچھه دین کھتا ھے وه حقیقت ھے اور جو کچھه سائنس کھتا ھے وه ایک جعلی افسانھ ھے جوعمل میں فائده لینے کیلئےھے۔
۳۔ بعض نے کھا ھے کھ سائنس کی کارکردگی دین کی کارکردگی سے جملھ طور پر مختلف ھے اور دو چیزوں کے درمیان تعارض اس وقت پیش آتا ھے جب دونوں ایک ھی موضوع پر بحث کریں اور اس کے درمیان مختلف احکام بیان کریں اوریه بات سائنس اور دین کے درمیان موجود نھیں هے ۔
ایانباربور اس سلسلے میں رقمطراز ھے:
" سائنس کے بارے میں تجزیھ نگاروں کا نقطھ نظر عام طور پر " تصورانھ بیان" پر مبنی ھے یعنی وه نظریات کو صرف "مفید" جانتے ھیں نھ کھ واقعی، اور سائنسی زبان کا اصلی مقصد پیشنگوئی اور کنٹرول کرنا جانتے ھیں ، اور دینی زبان کو عام طورپر "خاص طرح کی زندگی گزارنے" اور " ایک خاص طرح کے اخلاقی اصول کے مطابق ھونا "جانتے ھیں۔ [9]
اس نقطھ نظر کے مثبت نکات کو مد نظر رکھتے ھوئے ، اس پر اصلی اشکال یھ ھے کھ اس میں دینی زبان کے ان حصوں کو نظر انداز کیا گیاھے جو طبعی حقایق کے بارے میں ھیں ۔ ھر آسمانی کتاب، من جملھ قرآن کریم میں طبیعی حقایق جیسے ھواؤں ، بارش اور دوسرے حقایق کے بارے میں بحث کی گئی ھے جو ناقابل انکار هے- ھم فرضی تعارض کو روکنے کیلئے ان دینی تعلیمات سے چشم پوشی نھیں کرسکتے ھیں ، جو کھ مقدس کتابوں میں ذکر ھوئی ھیں اور دینی زبان کے دوسرے پھلو کی کارکردگی پر تاکید کریں ، ٹھیک ھے کھ دین " خداوند متعال کی فرماں برداری کرنے" کیلئے آیا ھے یا ایک خاص طرح کی زندگی گزارنے کا نام ھے۔ لیکن اس دین میں کائنات کے بارے میں باتیں ھوئی ھیں اور کبھی ایسا لگتا ھے کھ یھ باتیں سائنسی نظریات سے متعارض ھیں پس اس سلسلے میں کوئی چاره جوئی کرنی چاھئے ۔ [10]
آخر میں جس نکتھ کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے وه یھ ھے کھ قرآن کریم جو دین اسلام کی آفاقی کتاب ھے ، نھ صرف سائنسی علوم کے ساتھه کوئی تعارض نھیں رکھتی بلکھ یھ ایک بھت بڑا علمی اور سائنسی معجزه ھے جس میں ایسے سائسی علوم کی جانب اشاره کیا گیا ھے جس کو صدیوں گزرنے کے بعد آج سائنس ثابت کر رها ھے ، مثال کے طورپر سوره مبارکھ انعام کی آیت نمبر ۱۲۵ میں گمراھوں کی تشبیھ ان سے کی جاتی ھے جن کے سینے تنگ ھوں ، ارشاد ھے: " پس خدا جسے ھدایت دینا چاھتا ھے اس کے سینے کو اسلام کیلئے کشاده کردیتا ھے اور جس کو گمراھی میں چھوڑنا چاھتا ھے اس کے سینے کو ایسا تنگ اور دشوا گزار بنادیتا ھے جیسے آسمان کی طرف بلند ھورھا ھو وه اس طرح بے ایمانوں پر ان کی کثافت کو مسلط کردیتا ھے۔ "
چند ھی سال پھلے تک سائنسی علوم کے ماھریں کا خیال یھ تھا کھ ھوا کا کوئی دباو نھیں ھے ۱۶۴۳ ء میں " توربچلی " نے ھوا ناپنے والا آلھ ایجاد کیا اور اس طرح اس نے ھوا کے دباؤ کا اندازه لگایا آج صدیوں گزرنے کے بعد اور زمین پر ھوا کا دباؤ موجو د ھونے کی ایجاد سے اور انسان کے خون کے دباٶ کا زمین کی سطح سے مناسب ھو، انسان کے اندرونی اور بیرونی حالت میں اعتدلال کا سبب بنتا ھے اور اس آیت میں وجھ تشبیھ روشن ھوتی ھے -[11]
سائنس میں وسیع ترقی اور دوسرے نکات کے بیان سے واضح ھوا کھ دین اسلام کی یقیینی اور معتبر تعلیمات کا قطعی اور برھانی علوم کےساتھه کسی طرح تعارض نھیں ھے اور استدلالی علوم اپنے اندر اور سائنسی علوم کے دائرے میں خداوند متعال کی حجت اور دلیل ھیں اور ان کا ان تعلیمات کے ساتھـ جو قرآن کے ذریعے یا ائمھ معصومین علیھم السلام کی روایات کے ذریعے بیان ھوئی ھیں کسی طرح کا تعارض نھیں ھے [12]
اس سلسلے میں مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں:
1- مقایسھ بین علم و دین سوال نمبر 11۔
۲۔ اسلام اور عقلانیت ، سوال ۹۸۷-
[1] مبانی کلامی اجتھاد ، ھادوی تھرانی ، ص ۳۱۳۔
[2] ایضا ص ۳۱۵۔
[3] ایضا ، ص ۳۱۵۔
[4] " شفاء للناس " ، سوره نحل / ۶۹۔
[5] تفسیر کبیر ، آیھ مربوط کے ذیل میں ، سفینۃ البحار، ج ۳ ص ۴۸۳۔
[6] سفینۃ البحار، ج ۳ ص ۵۴۱۔
[7] تلیخیض مقیاس الھدایۃ ، علی اکبر غفاری ، ص ۴۸۔
[8] جوادی محسن و امینی علی رضا، معارف اسلامی ، ج ۲ ص ۴۰۔
[9] ایان بار پور، علم اور دین ، ص ۱۵۳ ۔۔ ۱۵۵، منقول از معارف اسلامی ، ج ۲ ص ۴۳۔
[10] امینی ، علی رضا، جوادی محسن، معارف اسلامی ج ۲ ص ۴۳۔
[11] علوم قرآنی ، محمد ھادی معرفت، ص ۴۲۵۔
[12] علم و دین کے بحث سے اقتباس، استاد جوادی آملی (حفظھ اللھ ) تاریخ ، ۱ / ۱۲/ ۱۳۸۴، جلسھ تفسیر۔