Please Wait
9630
" رد الشمس" والی حدیث، ان مشہور احادیث میں سے ہے جو اسلامی منابع میں مختلف افراد سے نقل کی گئی ہیں، جیسا کہ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ " رد الشمس" کا واقعہ حضرت سلیمان {ع} کے لئے بھی پیش آیا ہے-
روایات کے مطابق، " رد الشمس" کا واقعہ، حضرت علی {ع} کے لئے دو بار واقع ھوا ہے، ایک پیغمبر اکرم {ص} کے زمانہ میں اور دوسرا جنگ نہروان سے لوٹتے وقت-
روایتوں میں شہرت کے پیش نظر اصل " رد الشمس" ، قابل استناد ہے اور اس پر اعتبار کرنا چاہئیے اور اس حدیث کی یہ شہرت ایک صورت سے اس کے سند کے اشکا لات کو دور کرتی ہے، یہاں تک کہ بعض افراد اس حدیث کو متواترات میں سے جانتےہیں-"رد الشمس" کے واقعہ کے بارے میں اکثر شبہات کا جواب دیا گیا ہے، کہ اس سلسلہ میں اس سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئیے، من جملہ یہ کہ یہ معجزہ امر خداوند متعال سے انجام پایا ہے، اور خداوند متعال کی قدرت الہی میں تمام عقلی ممکنات قابل وقوع ہیں- جیسا کہ حضرت موسی {ع} کا بے جان لکڑی کا عصا ایک سانپ میں تبدیل ھوا اور مصری ساحروں کے سحر کو نگل گیا، بنی اسرائیل کے لئے ایک بڑا دریا کھل گیا، مادر زاد اندھا شفا پا گیا وغیرہ، اسی طرح رد الشمس بھی قدرت الہی کے دائرے میں تھا اور واقع ھوسکتا تھا-
" رد الشمس" کی حدیث کے بارے میں بحث مندرجہ ذیل حصوں میں مرتب کی گئی ہے:
الف} احادیث " رد الشمس" پر ایک سر سری نظر:
" رد الشمس " والی حدیث، ان مشہور احادیث میں سے ہے جو اسلامی منابع میں مختلف افراد سے نقل کی گئی ہیں، جیسا کہ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ " رد الشمس" کا واقعہ حضرت سلیمان {ع} کے لئے بھی پیش آیا ہے- اور اس کی ان آیات شریفہ سے استناد کی جاتی ہے:" إِذْ عُرِضَ عَلَیْهِ بِالْعَشىِِّ الصَّافِنَاتُ الجْیَادُ فَقَالَ إِنىِّ أَحْبَبْتُ حُبَّ الخْیرْ عَن ذِکْرِ رَبىِّ حَتىَ تَوَارَتْ بِالحْجَابِ رُدُّوهَا عَلىََّ فَطَفِقَ مَسْحَا بِالسُّوقِ وَ الْأَعْنَاقِ".[1] بعض مفسرین نے " ردوھا" کی ضمیر کو " شمس" کی طرف پلٹا دیا ہے اور نتیجہ کے طور پر آیہ شریفہ کو حضرت سلیمان {ع} کے لئے رد الشمس جانا ہے-[2] بعض تفاسیر میں اس آیت کی تفسیر کی تائید میں بعض روایتیں بھی نقل کی گئی ہیں،[3] لیکن بعض مفسرین نے اس قول کی مخالفت کی ہے اور " رودھا" کی ضمیر کو" الصافنات"[4] اور یا " الحیاد"[5] کی طرف پلٹا دیا ہے- اس کے علاوہ اہل سنت کے منابع میں بھی بعض روایتیں موجود ہیں، جن میں " رد الشمس" کو پیغمبر اکرم {ص} کے لئے نقل کیا گیا ہے-[6] اس کے علاوہ رد الشمس کا واقعہ حضرت یونس{ع} کے لئے بھی پیش آیا ہے-[7]
روایتوں کے مطابق حضرت علی {ع} کے لئے بھی " رد الشمس" کا واقعہ دو بار پیش آیا ہے:
۱- پہلی بار حضرت رسول اکرم {ص} کے زمانہ میں پیش آیا ہے اور ایک قول کے مطابق یہ واقعہ، مدینہ منورہ کے مضافات میں واقع مسجد فضیع میں رونما ھوا ہے اور ایک قول کے مطابق مدینہ کے اندر پیش آیا ہے-
اس واقعہ کو بیان کرنے والی روایتوں میں سے ایک عمار بن موسی کی روایت ہے- عمار کہتے ہیں:" میں اور امام صادق {ع} مسجد فضیع میں داخل ھوئے- امام {ع} نے فرمایا: اے عمار؛ اس زمین کو دیکھ رہے ھو جو دھنس گئی ہے؟ عمار نے کہا: جی ہاں، امام {ع} نے فرمایا:" اسماء بنت عمیس[8] نے امیرالمومنین {ع} سے شادی کی تھی، اس جگہ پر بیٹھی تھیں- - -{ اس نے نقل کیا ہے} میں اور امیرالمومنین {ع} اس جگہ پر بیٹھے تھے انھوں { امیرالمو منین }نے فرمایا: کیا اس زمین کے ٹکڑے کو دیکھ رہی ھو جو دھنس گئی ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں، امام {ع} نے فرمایا: میں اور رسول خدا {ص}اس جگہ پر بیٹھے تھے، آپ {ص} اپنے سر مبارک کو میری آغوش میں رکھ کر سوگئے-[9] عصر کی نماز کا وقت آگیا، میں ان کو نیند سے بیدار کرکے انھیں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا تھا، اسی طرح وقت گزر تا گیا اور نماز عصر قضا ھوئی-[10] اس کے بعد پیغمبر اکرم {ص} بیدار ھوئے اور فرمایا: یا علی؛ کیا آپ نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے عرض کی : نہیں [11] آپ {ص} نے فرمایا: کیوں؟ میں نے کہا: میں آپ {ص} کے سر مبارک کو اپنی آغوش سے اٹھا کر آپ {ص} کو تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا تھا- آپ {ص} اٹھ کر قبلہ رخ کھڑے ھوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کرکے فرمایا: خداوندا؛ سورج کو پلٹا دینا تا کہ علی { ع} نماز پڑھ لے- اس کے بعد سورج اسی جگہ پر پلٹ گیا جو عصر کی نماز کا وقت تھا، اور میں نے جب نماز عصر پڑھی تو پھر سورج ڈوب گیا-[12]
قابل ذکر ہے کہ بعض کتابوں میں مذکورہ روایت کو دوسری صورت میں نقل کیاگیا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اکرم {ص} کے گھر میں رونما ھوا ہے-[13]
۲-بعض روایتوں کے مطابق رد الشمس کا واقعہ، امیرالمومنین {ع} کی خلافت کے دوران جنگ نہروان کے بعد رونما ھوا ہے- تحقیق کے مطابق اس سلسلہ میں موجود تمام روایتیں، جویریہ بن مسھر نامی ایک شخص سے نقل کی گئی ہیں، وہ کہتے ہیں: میں امیرالمومنین {ع} کے ہمراہ خوارج سے جنگ کے بعد لوٹ رہا تھا، یہاں تک کہ ہم بابل کی سر زمین پر پہنچے- آپ {ع} گھوڑے سے اترے، دوسرے لوگ بھی اترے- اس کے بعد فرمایا: یہ زمین ملعون ہے، جس پر تین بار بلا نازل ھوئی ہے- - - یہ پہلی سر زمین ہے جس پر بت پرستی کی گئی ہے- بیشک کسی پیغمبر اور کسی پیغمبر کے جانشین کے لئے یہاں پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پس لوگوں نے اس کے اطراف میں جاکر نماز پڑھ لی اور امام {ع} گھوڑے پر سوار ھوکر آگے بڑھے- - -میں ان کے پیچھے پیچھے گیا اور قسم کھائی کہ نماز ان کے ساتھ پڑھ لوں، سورج ڈوب گیا - - -[14] اس کے بعد امام {ع} نے ایک طرف جاکر وضو کیا اور کچھ جملے بیان کئے- خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ سورج دو پہاڑوں کے درمیان سے طلوع ھوا- - -اس کے بعد امام {ع} نے عصر کی نماز پڑھی اور میں نے بھی ان کی اقتدا کی، جب ہم نے نماز ختم کی دوبارہ اندھیرا چھا گیا - - - -[15]
کتابوں میں یہ داستان دوسری صورت میں بھی ذکر ھوئی ہے جسے یہاں پر اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے-[16]
نتیجہ یہ کہ، روایتوں میں شہرت کے پیش نظر اصل " رد الشمس" ، قابل استناد ہے اور اس پر اعتبار کرنا چاہئیے اور اس حدیث کی یہ شہرت ایک صورت سے اس کی سند کے اشکا لات کو دور کرتی ہے، یہاں تک کہ بعض افراد اس حدیث کو متواترات میں سے جانتےہیں-[17]
اس کے علاوہ احادیث کی کتابوں کے علاوہ " رد الشمس" کا واقعہ ابتدائی صدیوں کے دوران شعراء کے اشعار میں بھی ذکر کیا گیا ہے، جو بذات خود لوگوں کے درمیان اس واقعہ کی شہرت کی ایک واضح دلیل ہے-[18]
ب} رد الشمس کے واقعہ کی کیفیت:
جیسا کہ بیان کیا گیا، اصل واقعہ رد الشمس قابل قبول ہے اور اس سے متعلق اکثر شبہات کا جواب دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے-[19] یہاں پر ہم ان جوابات میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱-قابل توجہ بات ہے کہ یہ معجزہ امر خداوند متعال سے انجام پایا ہے، اور خداوند متعال کی قدرت الہی میں تمام عقلی ممکنات قابل وقوع ہیں- جیسا کہ حضرت موسی {ع} کا بے جان لکڑی کا عصا ایک سانپ میں تبدیل ھوا اور مصری ساحروں کے سحر کو نگل گیا، بنی اسرائیل کے لئے ایک بڑا دریا کھل گیا، مادر زاد اندھا شفا پا گیا وغیرہ، اسی طرح رد الشمس بھی قدرت الہی کے دائرے میں تھا اور واقع ھوسکتا تھا-
۲- اس واقعہ کو دوسری صورت میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے اور اس کی یوں تفسیر کی جاسکتی ہے کہ ضروری نہیں ہے رد الشمس کے یہ معنی ھوں کہ سورج اپنی راہ سے منحرف ھوا ھو اورپیچھے آیا ھو[20] تاکہ تمام کرات سماوی کا نظام درہم برہم ھو جائے اور سورج اپنے سفرکو کھو دے اور کرہ زمین کے بعض علاقوں میں رات دن میں اور دن رات میں تبدیل ھو جائے اور اس طرح محاسبات بالکل درہم برہم ھوجائیں-
۳- یہ بھی ممکن ہے کہ قدرت الہی سے ان کی نظروں سے پردے ہٹائے گئے ھوں اور وہ سورج کو دیکھ سکے ھوں، اس قسم کے معجزے دوسری داستانوں میں بھی پائے جاتے ہیں، جیسے کہ کوئی شخص بہت دور فاصلے پر ھوتا ہے لیکن ایک الہی انسان اسے دیکھ سکتا ہے، اور یہ رفع حجاب صرف چند خاص افراد کے لئے واقع ھوتا ہے، اس لئے بہت سے دوسرے افراد نزدیک تر ھوکر بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں-
مجلسی اول نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے:" لیکن حضرت سید المرسلین{ص} کے خواب کے بارے میں بہت سی احادیث نقل کی گئی ہیں کہ آنحضرت {ص} کی نیند اور بیداری مساوی تھی اور خواب میں آپ {ص} کا علم ویسا ہی تھا جیسا بیداری میں ھوتا تھا پس ممکن ہے کہ آنحضرت {ص} چونکہ علم رکھتے تھے کہ حضرت امیرالمو منین {ع} نے نماز نہیں پڑھی ہے اس لئے نہیں اٹھے اور وہ جانتے تھے کہ دعا کرسکتے ہیں یا کریں گے اور حضرت علی نماز کو وقت کے اندر پڑھیں گے، اس صورت میں تاخیر میں کوئی نقصان نہیں تھا بلکہ مطلوب ھوگا تاکہ حضرت علی {ع} کی فضیلت واضح ھو جائے اور ممکن ہے کہ خواب نہ ھو اور اسماء نے تصور کیا ھو آنحضرت {ص} سوئے ہیں بلکہ غش کی حالت طاری ھوئی ھو، جو حضرت علی {ع} کے لئے قرب الہی کی حالت میں طاری ھوتی تھی اور چونکہ حضرت{ع} اس وقت اختیاری حالت میں نہیں تھے اور عالم قدسی کی حالت میں تھے اور اس عالم سے بے خبر تھے، لیکن بظاہر حضرت علی {ع} ہمیشہ جمع الجمع کے مقام پر ھوتے تھے اور دوسری جانب توجہ کرنا اس جانب توجہ کرنے کے لئے رکاوٹ نہیں ھوتی تھی لیکن بظاہر ایسا ھو کہ ان کے اس عالم کے لئے عدم توجہ پیش نہ آتا ھو، کیونکہ وہ ہر حالت سے استفادہ کرتے تھے، کہ حضرت سید المرسلین {ص} نے فرمایا ہے کہ میرے لئے قدس الہی اس وقت ہے جب ملک مقرب اور نبی مرسل کے لئے بھی اس بلند مقام تک پہنچنا ممکن نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت سید المرسلین{ص} کے مقامات کو کمزور عقلیں ادراک نہیں کرسکتی ہیں، چنانچہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ عام لوگ فاضل افراد کے مراتب کو ادراک نہیں کرسکتے ہیں اور اسی طرح علوم ظاہری کے فضلا علوم و کمالات باطنیہ کے فضلا کو درک نہیں کرسکتے ہیں- - -[21]
اس احتمال کے پیش نظر، نماز کے لئے سورج کو دیکھناکافی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ حقیقت میں سورج اس جگہ پر پلٹ گیا ھو، پس ان کی نماز کے لئے کوئی حرج نہیں ہے-
۴-زمین سے سورج تک فاصلہ کے پیش نظر، سورج کی کرنیں تقریبا ۷ منٹ کی تاخیر سے زمین تک پہنچتی ہیں، یعنی ہم ہمیشہ سورج کی ۷منٹ پہلے والی تصویر کو آسمان پر دیکھتے ہیں اور حقیقت میں جس سورج کو ہم دیکھتے ہیں وہ سات منٹ پہلے والا ہے- اس بنا پر اگر نور کی رفتار میں تبدیلی پیدا ھوجائے اور نور تھوڑی سی سستی کے ساتھ ہم تک پہنچے یا اس کی کرنوں کے زاویہ میں کوئی فرق آجائے اور اس کی کرنیں براہ راست کے بجائے منحنی حالت میں قابل دید ھوں، تو سورج کو غروب ھونے کے چند منٹ بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے- اور یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس کرامت اور معجزہ میں ، سورج اپنی جگہ سے نہیں ہٹا ہے کہ اجرام آسمان کی حرکت اور رابطہ میں کوئی مشکل پیش آئے- بلکہ نور کی رفتار میں تیزی اور آہستگی اور اس کی تپش میں کچھ لمحات کا فرق پیدا ھوا ھو اور سورج کی جوتصویر چند منٹ پہلے دیکھی گئی تھی، دوبارہ دکھائی دے- نتیجہ کے طور پر سورج دوبارہ اپنے افق پر دکھائی دیا ہے اور حضرت علی {ع} اپنی نماز بجا لائے ہیں-[22]
[1]. ص، 31 - 33: " جب ان کے سامنے شام کے وقت بہترین اصیل گھوڑے پیش کئے گئے تو انھوں نے کہا کہ میں ذکر خدا کی بنا پر خیر کو دوست رکھتا ھوں یہاں تک کہ وہ گھوڑے دوڑتے دوڑتے نگاھوں سے اوجھل ھوگئے-.
[2] سبزوارى نجفى، محمد بن حبیب الله، ارشاد الاذهان الى تفسیر القرآن، ص 460، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، طبع اول، 1419ھ ؛ طباطبایى سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، ج 17، ص 203 و 204، انتشارات جامعهى مدرسین حوزه علمیه، قم، طبع پنجم، 1417 ھ.
[3]بحرانى، سید هاشم، البرهان فى تفسیر القرآن، ج 4، ص 653و 654، بنیاد بعثت، تهران، طبع اول، 1416ھ .
[4] بیضاوى، عبدالله بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، تحقیق: المرعشلی، محمد عبد الرحمن، ج 5، ص 29، دار احیاء التراث العربى، بیروت، طبع اول، 1418ھ ؛ فخر رازى، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 26، ص 390 و 391، دار احیاء التراث العربى، بیروت، طبع سوم، 1420ھ؛ مکارم شیرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 19، ص 273، دار الکتب الإسلامیة، تهران، چاپ اول، 1374ش.
[5]عکبرى، عبدالله بن حسین، التبیان فى اعراب القرآن، ص 327، بیت الافکار الدولیه، عمان، ریاض، طبع اول، بی تا؛ مدرسى، سید محمد تقى، من هدى القرآن، ج 11، ص 358، دار محبى الحسین، تهران، طبع اول، 1419ھ .
[6] ملاحویش آل غازى، عبدالقادر، بیان المعانى، ج 1، ص 312، مطبعة الترقى، دمشق، چاپ اول، 1382ق؛ مفاتیح الغیب، ج 26، ص 390.
[7] ملا حظہ ھو: شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 203، جامعه مدرسین قم، 1413ھ ؛ بیان المعانی ج 1، ص 312.
[8] اصلی روایت میں یوں تبدیلی ہے: «کَانَتِ امْرَأَةُ جَعْفَرٍ الَّتِی خَلَفَ عَلَیهَا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ» که مقصود همان اسماء بنت عمیس است که امام علی(ع) پس از حضرت زهرا(س) با او ازدواج کرد.
[9] بعض کتابوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم {ص} پر وحی نازل ھوئی اور آپ {ص} کا بدن وحی نازل ھونے کی وجہ سے تھک گیا اس لئے اپنے سر کو علی {ع} کے زانو پر قرار دیا- - -طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری با علام الھدی، ص ۱۷۸، دار الکتب الاسلا میہ ، تہران-
[10] -بعض منابع کا اعتقاد ہے کہ سورج نہیں ڈوب گیا تھا بلکہ ڈوبنے کے نزدیک تھا، صرف وقت فضیلت کے لئے سورج تھوڑا سا پلٹ گیا ہے، نہ یہ کہ رات ھوچکی تھی اور پھر سے اجالا ھوا ہے ملاحظہ ھو: شریف مرتضى، على بن حسین موسوى، رسائل الشریف المرتضی، ج 4، ص 79، دار القرآن الکریم، قم، طبع اول، 1405ھ .
[11] -سید مرتضی {رح} امام علی {ع} کی نماز ترک ھونے کے اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں: اگر امام علی {ع} اشارہ کی صورت میں نماز بجالائے ہوں تو وہ اس صورت میں ہے کہ حضرت {ع} بیٹھے تھے، کیونکہ کھڑے ھوکر نماز پڑھنے کے لئے معذور تھے- اور یہ امام علی {ع} کے لئے ایک فضیلت ہے، کیونکہ امام {ع} نے کھڑے ھوکر نماز پڑھنے میں عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھی ہے رسائل الشریف المرتضی، ج ۴، ص ۷۹-
[12] کلینى، الکافی، ج 4، ص 562 ، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1365ش.
[13] إعلام الورى بأعلام الهدی، ص 178.
[14] - بعض محقیقین نے پہلی روایت کے مانند یہ احتمال دیا ہے کہ یہاں پر سورج غروب نہیں ھوا ہے، بلکہ اول وقت کی نماز سے تھوڑا آگے بڑھا تھا اور رد الشمس کی وجہ سے تھوڑا سا پلٹا نہ یہ کہ اندھیرا چھا گیا تھا اور پھر سے اجالا ھوا- ملاحظہ ھو: رسائل الشریف المرتضی ج ۴، ص ۸۱-
[15] من لا یحضره الفقیه ، ج 1، ص 203 و 204.
[16] إعلام الورى بأعلام الهدی، ص 178 و 179.
[17] شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج 1، ص 345،کنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، 1413ھ ؛ ابن عطیه، جمیل حمود، أبهى المراد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، ج 1، ص 791 و 792، مؤسسة الأعلمی، بیروت، طبع اول، 1423ھ؛ مجلسى اول، محمد تقى، روضة المتقین فی شرح من لا یحضره الفقیه، محقق و مصحح: موسوى کرمانى، سید حسین، علىپناه اشتهاردى، طباطبائى، سید فضل الله، ج 2، ص 25 و 26، مؤسسه فرهنگى اسلامى کوشانبور، قم، طبع دوم، 1406ھ ؛ وحید بهبهانى، آقا محمد على، مقامع الفضل، ج 1، ص 559 و 560، مؤسسه علامه مجدد وحید بهبهانى، قم، چاپ اول، 1421ق؛ کاشف الغطاء، على بن محمد رضا، کتاب الصلاة، ص 15، مؤسسه کاشف الغطاء،
[18] ملاحظہ ھو: ابن شهرآشوب مازندرانى، مناقب آل أبی طالب(ع)، ج 2، ص 317 و 318، مؤسسه انتشارات علامه، قم، 1379ق.
[19]ملا حظہ ھو : أبهى المراد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، ج 1، ص 793 – 803؛ گنجی شافعی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب فی مناقب على بن أبى طالب، ص 381 – 388، دار إحیاء تراث أهل البیت علیهم السلام، تهران، طبع دوم، 1362ش؛ مظفر، محمد حسین، دلائل الصدق، ج 6، ص 207 – 223، مؤسسة آل البیت(ع)، قم، طبع اول، 1422ھ .
[20] -رد الشمس کی تعبیر حقیقت میں سورج کا پلٹا نہیں ہے، بلکہ ایک عرفی تعبیر ہے ورنہ سورج ثابت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے، اور اسے سب مانتے ہیں-
[21] مجلسى اول، محمد تقى، لوامع صاحبقرانى، ج 3، ص 61، مؤسسه اسماعیلیان، قم، طبع دوم، 1414ھ .