Please Wait
کا
10732
10732
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/10/06
سوال کا خلاصہ
مہربانی کرکے علامہ مجلسی کی سوانح حیات کا ایک خلاصہ بیان کیجئے؟
سوال
مہربانی کرکے میرے لئے علامہ مجلسی کی سوانح حیات بھیج دیجئے ؟
ایک مختصر
پیدائش اور خاندان:
محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی مجلسی، جو " علامہ مجلسی" اور " مجلسی ثانی" کے نام سے مشہور تھے، سنہ ۱۰۳۷ہجری میں شہر اصفہان میں پیدا ھوئے ہیں۔
علامہ مجلسی کا خاندان حالیہ صدیوں کے دوران شیعوں کے قابل فخر خاندانوں میں سے ایک خاندان ہے۔ اس خاندان میں تقریبا ایک سو نامور علماء اور دانشور پیدا ھوئے ہیں۔ علامہ مجلسی کے جد بزرگ، ابو نعیم اصفہانی کے نام سے ایک بڑے عالم اور "تاریخ اصفہان" اور " حلیتہ الاولیاء" جیسی متعدد کتابوں کے مولف ہیں۔
علامہ کے باپ، محمد تقی مجلسی، " مجلسی اول" (۱۰۰۳- ۱۰۷۰ھ) کے نام سے مشہور اور صاحب کرامات اور معنوی مقا مات کے مالک تھے۔ وہ ایک بڑے محدث اور فقیہ تھے اور کئی کتابوں کے مولف ہیں۔
محمد تقی مجلسی(علامہ کے باپ)، شیخ بھائی اور میر داماد کے شاگرد تھے۔ وہ مختلف اسلامی علوم میں صاحب نظر تھے اور اپنے زمانہ کے مرجع تقلید تھے۔ مجلسی اول، مرجعیت کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ و جماعت قائم کرنے سے بھی کوتاہی نہیں کرتے تھے اور اصفہان کے امام جمعہ بھی تھے۔
علمی مقام و منزلت
علامہ مجلسی من جملہ ان بزرگوں میں سے ہیں جو ایک جامعیت کے مالک تھے۔ وہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، رجال اور درایہ جیسے اسلامی علوم میں اپنے زمانہ کے ممتاز عالم تھے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب " بحار الانوار"[1] پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت ظاہر ھوتی ہے۔
مذکورہ علوم کے علاوہ، فلسفہ، منطق، ریاضیات، ادبیات، لغت، جغرافیہ، طبابت، نجوم اور علوم غریبہ جیسے علوم میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت بے مثال بن گئی ہے۔ ان کی کتاب بحارالانوار میں" کتاب السماء و العالم" پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ان کی جامعیت معلوم ھوتی ہے۔
علامہ، مشکل روایات کے بارے میں بہت ہی خوبصورت انداز میں نکتہ بین تھے۔ آیات و روایات کے ذیل میں علامہ کے بیانات کافی دقیق اور زیبا ہیں۔
علامہ مجلسی کو روایات اہل بیت (ع) کے علوم کے مانند فقہ میں بھی کمال حاصل تھا۔
معنوی شخصیت:
دینی علماء، اپنے استادوں سے صرف علم و دانش کا سبق نہیں سیکھتے ہیں، بلکہ اپنے عارف استاتذہ کے زیر نظر معنوی سیر و سلوک کا سفر بھی طے کرتے ہیں۔ علامہ مجلسی نے اپنے علمی مدراج طے کرنے کے ضمن میں ان سے تیز تر رفتار میں معنوی کمالات کے مدارج بھی طے کئے تھے، کہ یہ دعویٰ، ان کی اخلاقی سیرت پر نظر ڈالنے سے واضح طور پر ثابت ھوتا ہے۔ علامہ کی اخلاقی خصلتوں میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ زیارت: علامہ ائمہ اطہار (ع) کی زیارتوں کو کافی اہمیت دیتے تھے اور مسافرت کے لئے اس زمانہ میں ابتدائی وسائل فراہم نہ ھونے کی مشکلات کے باوجود کئی بار زیارت کے لئے عراق، بقیع اورمشہد مقدس کا سفر کیا ہے۔ اور ہر بار ایک طولانی مدت تک ان مقدس مقامات پر سکونت کرتے تھے۔ وہ کئی بار زیارت خانہ خدا سے شرفیاب ھوئے ہیں۔
۲۔ توسل: معصومین علیہم السلام کی طرف خاص توجہ، اس امر کا سبب بنا ہےکہ علامہ مجلسی نے ادعیہ اور زیارات کے بارے میں بہت سے مطالب، بحارالانوار میں لائے ہیں اور ان کے علاوہ، کئی مستقل کتابیں بھی ادعیہ اور زیارات کے موضوع پر تالیف کی ہیں، من جملہ: " زاد المعاد"، متاخر دعا کی کتابوں میں ایک اہم مرجع ہے۔ " تحفۃ الزائر"، زیارت جامعہ کبیرہ اور دعائے سمات وغیرہ کے ترجمے قابل ذکر ہیں۔
۳۔ زہد و تقویٰ: اس عظیم شخصیت کی زندگی میں ایک خاص امتیاز، ان کا زہد و تقویٰ اور سادہ زندگی بسر کرنا ہے۔ باوجودیکہ وہ صفوی دور میں زندگی بسر کرتے تھے، اور صفوی حکومت کی طرف سے انھیں" شیخ الاسلام" کا خطاب ملا تھا، مختصر یہ کہ تمام حکومتی امکانات ان کے اختیار میں تھے، لیکن پھر بھی وہ اپنی ذاتی زندگی نہایت سادگی اور زہد و تقویٰ میں گزارتے تھے۔[2]
۴۔ تواضع: علامہ مجلسی کی دوسری امتیازات میں، تواضع اور انکساری تھی۔ علامہ کبھی کسی فرد کے بارے میں اس کے سماجی مقام و منزلت، اس کی حیثیت کے بالا یا پائین ھونے یا اس کی عمر کو نہیں دیکھتے تھے۔ انھوں نے، صحیفہ سجادیہ کے گراں قدر شارح سید علی خان مدنی کے بارے میں بحارالانوار میں بہت سے مطالب ذکر کئے ہیں، جبکہ سید علی خان علامہ سے پندرہ سال چھوٹے تھے اور سماجی مقام و منزلت کے لحاظ سے بھی ان کے برابر نہیں تھے۔
مختصر یہ کہ ان تمام خصوصیات کا علامہ کے معنوی کمالات سے جمع ھونا اسے ایک ممتاز شخصیت میں تبدیل کرنے کا سبب بنے تھے۔
سیاسی حالات:
شیعہ علماء نے پوری تاریخ میں، کافی دباؤ اور گونا گون محرومیتوں کے باوجود قابل قدر محنتیں کی ہیں اور اپنے پیچھے گراں قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ انھوں نے خون جگر پی کر اور ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھا کر تشیع کے پودے کی آبیاری کی ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی اس عظیم میراث کو ہم تک پہنچایا ہے۔
اس دوران اگر حالات نسبتا مناسب پیدا ھوتے اور شیعوں کے خلاف دباؤ قدرے کم ھوتا، تو شیعوں کے فقہا، علماء اور فلاسفہ میں بے مثال شگو فائی دیکھنے کو ملتی۔
ان حالات میں آل بویہ کی حکومت کے دوران شیخ مفید اور شیخ طوسی کا زمانہ قابل ذکر ہے، اسی طرح صفوی دور حکومت میں علامہ مجلسی کا زمانہ اس بات کا گواہ ہے۔ صفوی بادشاھوں کے تشیع سے منتسب ھونے اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو ائمہ اطہار (ع) سے منسوب جانتے تھے، علامہ مجلسی نے اس سے پورا پورا استفادہ کیا ۔ حدیث شیعہ کے سب سے بڑے دائرۃ لمعارف،یعنی "بحار الانوار" کی تالیف اس زمانہ کے علاوہ کسی اور زمانہ میں اور اقتصادی امکانات کے فقدان کی حالت میں بہت مشکل تھی۔
اجتماعی مقام و منزلت:
علامہ مجلسی کا لوگوں میں اثر رسوخ بے مثال تھا۔ انھوں نے اپنے سرشار علم اور اثر و رسوخ سے لوگوں کو مسجد کی طرف ترغیب دلائی۔ صفوی سلاطین میں علامہ کا خاص اثر و رسوخ تھا۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی اور تدبیر سے صفوی دور میں ملک کو دشمنوں کی جارحیت سے محفوظ رکھا۔ علامہ مجلسی کی رحلت کے بعد ہی جب ملک حرج و مرج سے دوچار ھوا اور افغانوں نے اس حالت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ایران پر حملہ کیا اور صفوی حکومت کو سرنگون کرنے میں کامیاب ھوئے۔ علامہ مجلسی نے اپنے اجتماعی اور سیاسی اقتدار سے استفادہ کرکے بہت سی قدیمی کتابوں کی نسخہ برداری کرکے شیعوں کی ایک عظیم میراث کو نابودی سے بچایا۔
علمی مسلک:
علامہ مجلسی اصولی اور اخباری مکتب کے سلسلہ میں ایک معتدل روش رکھتے تھے۔ وہ ایک عظیم محدث ھونے کے ساتھ ساتھ علوم عقلی پر بھی خاص توجہ رکھتے تھے۔
وہ ان بزرگوں میں سے ہیں، جو فلسفہ جیسے علوم عقلی کو پڑھ چکے تھے اور ان علوم کے اساتذہ میں شمار ھوتے تھے اور انھوں نے معصومین (ع) کی روایتوں کی نشر و اشاعت میں اپنی پوری ہمت صرف کی۔ علامہ صرف دین میں گمراہی اور انحرافات کے بارے میں سخت حساس تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں صوفی گری کے شاہد تھے، انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ تصوف کی بعض گمراہ کن تعلیمات سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس جنگ میں اہل بیت اطہار (ع) کی مدد سے قابل توجہ کامیابی حاصل کی۔
اصفہان کے شیخ الاسلام
علامہ مجلسی، سنہ ۱۰۹۸ ھ میں، شاہ سلیمان صفوی کی طرف سے " شیخ الاسلام " کے عہدے پر منسوب ھوئے۔" شیخ الاسلام " کا عہدہ اس زمانہ کے اہم ترین نظامتی عہدوں میں شمار ھوتا تھا۔
وہ مشاجرات اور لڑائی جھگڑوں کے سلسلہ میں قاضی بھی تھے۔تمام دینی امور ان ہی کے زیر نظر انجام پاتے تھے اور تمام وجوہات شرعی ان ہی کی خدمت میں بھیجے جاتے تھے۔ شیخ الاسلام بے سہاروں اور یتیموں کے سر پرست بھی ھوا کرتے تھے۔
یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ علامہ نے اس منصب کو، شاہ کی طرف سےاصرار اور التماس کرنے کے بعد قبول کیا اور اسی مجلس میں شاہ نے کئی بار لفظ " التماس" کو زبان پر لایا تاکہ علامہ اسے قبول کرنے پر راضی ھو جائیں۔ علامہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس اہم مسئولیت کے عہدہ دار تھے۔
علامہ کے اساتذہ :
باوجودیکہ علامہ مجلسی کی سوانح حیات کے بارے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہیں، لیکن افسوس کہ ان کے اساتذہ کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ہیں۔ البتہ علامہ کی روایت کے مشایخ کو ہم جانتے ہیں، لیکن یہ کہ علامہ نے کن اساتذہ سے درس حاصل کیا ہے، مبہم ہے۔
علامہ کےچند اساتذہ اور روایات کے مشایخ حسب ذیل ہیں:
۱۔ ان کے باپ، محمد تقی مجلی (متوفی: ۱۰۷۰ھ)، علوم نقلی میں علامہ کے استاد۔
۲۔ مرحوم آقا حسین خونساری (متوفی: ۱۰۹۸ھ )بن آقا جمال، علوم عملی میں علامہ کے استاد۔
۳۔ مولا محمد صالح مازندرانی (متوفی: ۱۰۸۶ھ)
۴۔ ملامحسن فیض کاشانی (متوفی: ۱۰۹۱ھ)
۵۔ شیخ حرعاملی، مولف کتاب" وسائل الشیعہ" (متوفی: ۱۱۰۴ھ )
علامہ کے شاگرد:
ایک ہزار سے زائد طلبہ اور محقیقین علامہ مجلسی کے علمی کمالات سے فیضیاب ھوئے ہیں۔ علامہ نے اپنے شاگردوں کو بہت سے اجازت نامے دیئے ہیں۔
علامہ کے شاگردوں میں حسب ذیل افراد بھی شامل ہیں:
۱۔ سید نعمت اللہ جزائری ۲۔ جعفر بن عبداللہ کمرہ ای اصفہانی ۳۔ زین العابدین بن شیخ حرعاملی ۴۔ سلیمان بن عبداللہ ماجوزی ۵۔ شیخ عبدالرزاق گیلانی ۶۔ عبدالرضا کاشانی ۷۔ محمد باقر بیابانکی ۸۔ میرزا عبداللہ افندی اصفہانی، " ریاض العلماء" کے مولف ۹۔ سید علی خان مدنی، " ریاض السالکین" (شرح صحیفہ سجادیہ) کے مولف ۱۰۔ شیخ حرعاملی ۱۱۔ ملا سیما، محمد بن اسماعیل فسایی شیرازی۱۲۔ محمد بن حسن، فاضل ہندی وغیرہ
علامہ کی تالیفات:
علامہ مجلسی کی ایک طولانی اور با برکت عمر تھی۔ انھوں نے ۳۷ سال کی عمر میں ایک سو سے زائد فارسی اور عربی کتابیں تالیف کی ہیں، ان میں سے صرف " بحار الانوار" نام کی ایک کتاب ۱۱۰ جلدوں پر مشتمل اور " مراۃ العقول" نامی کتاب ۲۶ جلدوں پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ تقریبا ۴۰ کتابوں کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ کی سب سے پہلی تالیف " کتاب الاوزان و المقادیر" یا " میزان المقادیر" ہے، جو سنہ ۱۰۶۳ھ میں تالیف کی گئی ہیں۔ ان کی آخری تالیف" حق الیقین" ہے اور یہ کتاب ۱۱۰۹ھ سے متعلق ہے، یعنی وفات سے ایک سال قبل۔
علامہ کی بعض کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ بحارالانوار، یہ روایات اور تاریخ پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ ہے اور اس کے ضمن میں قرآن مجید کی بہت سی آیتوں کی تفسیر بھی آئی ہے۔
۲۔ " مراۃ العقول" ثقہ الاسلام کلینی کی کافی کی شرح ہے، جو ۲۶ جلدوں پر مشتمل ہے۔
۳۔ " ملاذالاخبار" شیخ طوسی کی " تہذیب" کی شرح ہے، جو ۱۶جلدوں پر مشتمل ہے۔
۴۔ " الفرائد الطریقہ"، " صحیفہ سجادیہ" کی شرح ہے۔
۵۔ " شرح اربعین حدیث"، کہ اس موضوع پر بہترین کتاب ہے۔
۶۔ " حق الیقین"، یہ اعتقادات کی کتاب ہے اور فارسی میں لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ علامہ کی کئی کلامی کتابیں بھی ہیں۔
۷۔ " زاد المعاد"، اعمال و ادعیہ پر مشتمل ہے۔
۸۔ " تحفۃ الزائر"، زیارات پر مشتمل ہے۔
۹۔ " عین الحیاۃ" آیات اور معصومین (ع) کی روایتوں پر مشتمل موعظے اور احکام سے متعلق ہے۔
۱۰۔ صراۃ النجاۃ۔
۱۱۔ "حلیۃ المتقین۔" پوری زندگی میں روزانہ آداب اور مستحبات پر مشتمل ہے۔
۱۲۔" حیاۃ القلوب" انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی تاریخ پر مشتمل ہے اور یہ کتاب تین جلدوں میں ہے۔
۱۳۔ " مشکاۃ الانوار"، حیات القلوب کا خلاصہ ہے۔
۱۴۔ " جلا ء العیون" تاریخ اور مصائب اہل بیت (ع) پر مشتمل ہے۔
۱۵۔ " توقیعات امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف" ، ان کے ترجموں کے ساتھ۔
۱۶۔ ترجمہ حدیث توحید مفضل کے مانند بہت سی احادیث کے ترجموں کے عنوان سے بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں۔
علامہ مجلسی کی تالیفات میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کی اکثر تالیفات فارسی زبان میں ہیں اور یہ نکتہ علامہ کے اپنے معاشرہ کی طرف توجہ دینے کی نشانی ہے کہ ان کا معاشرہ فارسی زبان تھا۔ (اگر چہ " بحار الانوار" اور " مراۃ العقول" جیسی اہم کتابیں عربی میں ہیں)
وفات:
علامہ مجلسی، ۷۳ سال کی با برکت عمر گزارنے کے بعد ۲۷ رمضان المبارک ۱۱۱۰ھ کو شہر اصفہان میں رحلت کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔[3]
محمد باقر بن محمد تقی بن مقصود علی مجلسی، جو " علامہ مجلسی" اور " مجلسی ثانی" کے نام سے مشہور تھے، سنہ ۱۰۳۷ہجری میں شہر اصفہان میں پیدا ھوئے ہیں۔
علامہ مجلسی کا خاندان حالیہ صدیوں کے دوران شیعوں کے قابل فخر خاندانوں میں سے ایک خاندان ہے۔ اس خاندان میں تقریبا ایک سو نامور علماء اور دانشور پیدا ھوئے ہیں۔ علامہ مجلسی کے جد بزرگ، ابو نعیم اصفہانی کے نام سے ایک بڑے عالم اور "تاریخ اصفہان" اور " حلیتہ الاولیاء" جیسی متعدد کتابوں کے مولف ہیں۔
علامہ کے باپ، محمد تقی مجلسی، " مجلسی اول" (۱۰۰۳- ۱۰۷۰ھ) کے نام سے مشہور اور صاحب کرامات اور معنوی مقا مات کے مالک تھے۔ وہ ایک بڑے محدث اور فقیہ تھے اور کئی کتابوں کے مولف ہیں۔
محمد تقی مجلسی(علامہ کے باپ)، شیخ بھائی اور میر داماد کے شاگرد تھے۔ وہ مختلف اسلامی علوم میں صاحب نظر تھے اور اپنے زمانہ کے مرجع تقلید تھے۔ مجلسی اول، مرجعیت کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ و جماعت قائم کرنے سے بھی کوتاہی نہیں کرتے تھے اور اصفہان کے امام جمعہ بھی تھے۔
علمی مقام و منزلت
علامہ مجلسی من جملہ ان بزرگوں میں سے ہیں جو ایک جامعیت کے مالک تھے۔ وہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، رجال اور درایہ جیسے اسلامی علوم میں اپنے زمانہ کے ممتاز عالم تھے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب " بحار الانوار"[1] پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے یہ حقیقت ظاہر ھوتی ہے۔
مذکورہ علوم کے علاوہ، فلسفہ، منطق، ریاضیات، ادبیات، لغت، جغرافیہ، طبابت، نجوم اور علوم غریبہ جیسے علوم میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت بے مثال بن گئی ہے۔ ان کی کتاب بحارالانوار میں" کتاب السماء و العالم" پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ان کی جامعیت معلوم ھوتی ہے۔
علامہ، مشکل روایات کے بارے میں بہت ہی خوبصورت انداز میں نکتہ بین تھے۔ آیات و روایات کے ذیل میں علامہ کے بیانات کافی دقیق اور زیبا ہیں۔
علامہ مجلسی کو روایات اہل بیت (ع) کے علوم کے مانند فقہ میں بھی کمال حاصل تھا۔
معنوی شخصیت:
دینی علماء، اپنے استادوں سے صرف علم و دانش کا سبق نہیں سیکھتے ہیں، بلکہ اپنے عارف استاتذہ کے زیر نظر معنوی سیر و سلوک کا سفر بھی طے کرتے ہیں۔ علامہ مجلسی نے اپنے علمی مدراج طے کرنے کے ضمن میں ان سے تیز تر رفتار میں معنوی کمالات کے مدارج بھی طے کئے تھے، کہ یہ دعویٰ، ان کی اخلاقی سیرت پر نظر ڈالنے سے واضح طور پر ثابت ھوتا ہے۔ علامہ کی اخلاقی خصلتوں میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ زیارت: علامہ ائمہ اطہار (ع) کی زیارتوں کو کافی اہمیت دیتے تھے اور مسافرت کے لئے اس زمانہ میں ابتدائی وسائل فراہم نہ ھونے کی مشکلات کے باوجود کئی بار زیارت کے لئے عراق، بقیع اورمشہد مقدس کا سفر کیا ہے۔ اور ہر بار ایک طولانی مدت تک ان مقدس مقامات پر سکونت کرتے تھے۔ وہ کئی بار زیارت خانہ خدا سے شرفیاب ھوئے ہیں۔
۲۔ توسل: معصومین علیہم السلام کی طرف خاص توجہ، اس امر کا سبب بنا ہےکہ علامہ مجلسی نے ادعیہ اور زیارات کے بارے میں بہت سے مطالب، بحارالانوار میں لائے ہیں اور ان کے علاوہ، کئی مستقل کتابیں بھی ادعیہ اور زیارات کے موضوع پر تالیف کی ہیں، من جملہ: " زاد المعاد"، متاخر دعا کی کتابوں میں ایک اہم مرجع ہے۔ " تحفۃ الزائر"، زیارت جامعہ کبیرہ اور دعائے سمات وغیرہ کے ترجمے قابل ذکر ہیں۔
۳۔ زہد و تقویٰ: اس عظیم شخصیت کی زندگی میں ایک خاص امتیاز، ان کا زہد و تقویٰ اور سادہ زندگی بسر کرنا ہے۔ باوجودیکہ وہ صفوی دور میں زندگی بسر کرتے تھے، اور صفوی حکومت کی طرف سے انھیں" شیخ الاسلام" کا خطاب ملا تھا، مختصر یہ کہ تمام حکومتی امکانات ان کے اختیار میں تھے، لیکن پھر بھی وہ اپنی ذاتی زندگی نہایت سادگی اور زہد و تقویٰ میں گزارتے تھے۔[2]
۴۔ تواضع: علامہ مجلسی کی دوسری امتیازات میں، تواضع اور انکساری تھی۔ علامہ کبھی کسی فرد کے بارے میں اس کے سماجی مقام و منزلت، اس کی حیثیت کے بالا یا پائین ھونے یا اس کی عمر کو نہیں دیکھتے تھے۔ انھوں نے، صحیفہ سجادیہ کے گراں قدر شارح سید علی خان مدنی کے بارے میں بحارالانوار میں بہت سے مطالب ذکر کئے ہیں، جبکہ سید علی خان علامہ سے پندرہ سال چھوٹے تھے اور سماجی مقام و منزلت کے لحاظ سے بھی ان کے برابر نہیں تھے۔
مختصر یہ کہ ان تمام خصوصیات کا علامہ کے معنوی کمالات سے جمع ھونا اسے ایک ممتاز شخصیت میں تبدیل کرنے کا سبب بنے تھے۔
سیاسی حالات:
شیعہ علماء نے پوری تاریخ میں، کافی دباؤ اور گونا گون محرومیتوں کے باوجود قابل قدر محنتیں کی ہیں اور اپنے پیچھے گراں قدر تالیفات چھوڑی ہیں۔ انھوں نے خون جگر پی کر اور ناقابل برداشت تکلیفیں اٹھا کر تشیع کے پودے کی آبیاری کی ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی اس عظیم میراث کو ہم تک پہنچایا ہے۔
اس دوران اگر حالات نسبتا مناسب پیدا ھوتے اور شیعوں کے خلاف دباؤ قدرے کم ھوتا، تو شیعوں کے فقہا، علماء اور فلاسفہ میں بے مثال شگو فائی دیکھنے کو ملتی۔
ان حالات میں آل بویہ کی حکومت کے دوران شیخ مفید اور شیخ طوسی کا زمانہ قابل ذکر ہے، اسی طرح صفوی دور حکومت میں علامہ مجلسی کا زمانہ اس بات کا گواہ ہے۔ صفوی بادشاھوں کے تشیع سے منتسب ھونے اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو ائمہ اطہار (ع) سے منسوب جانتے تھے، علامہ مجلسی نے اس سے پورا پورا استفادہ کیا ۔ حدیث شیعہ کے سب سے بڑے دائرۃ لمعارف،یعنی "بحار الانوار" کی تالیف اس زمانہ کے علاوہ کسی اور زمانہ میں اور اقتصادی امکانات کے فقدان کی حالت میں بہت مشکل تھی۔
اجتماعی مقام و منزلت:
علامہ مجلسی کا لوگوں میں اثر رسوخ بے مثال تھا۔ انھوں نے اپنے سرشار علم اور اثر و رسوخ سے لوگوں کو مسجد کی طرف ترغیب دلائی۔ صفوی سلاطین میں علامہ کا خاص اثر و رسوخ تھا۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی اور تدبیر سے صفوی دور میں ملک کو دشمنوں کی جارحیت سے محفوظ رکھا۔ علامہ مجلسی کی رحلت کے بعد ہی جب ملک حرج و مرج سے دوچار ھوا اور افغانوں نے اس حالت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ایران پر حملہ کیا اور صفوی حکومت کو سرنگون کرنے میں کامیاب ھوئے۔ علامہ مجلسی نے اپنے اجتماعی اور سیاسی اقتدار سے استفادہ کرکے بہت سی قدیمی کتابوں کی نسخہ برداری کرکے شیعوں کی ایک عظیم میراث کو نابودی سے بچایا۔
علمی مسلک:
علامہ مجلسی اصولی اور اخباری مکتب کے سلسلہ میں ایک معتدل روش رکھتے تھے۔ وہ ایک عظیم محدث ھونے کے ساتھ ساتھ علوم عقلی پر بھی خاص توجہ رکھتے تھے۔
وہ ان بزرگوں میں سے ہیں، جو فلسفہ جیسے علوم عقلی کو پڑھ چکے تھے اور ان علوم کے اساتذہ میں شمار ھوتے تھے اور انھوں نے معصومین (ع) کی روایتوں کی نشر و اشاعت میں اپنی پوری ہمت صرف کی۔ علامہ صرف دین میں گمراہی اور انحرافات کے بارے میں سخت حساس تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں صوفی گری کے شاہد تھے، انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ تصوف کی بعض گمراہ کن تعلیمات سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس جنگ میں اہل بیت اطہار (ع) کی مدد سے قابل توجہ کامیابی حاصل کی۔
اصفہان کے شیخ الاسلام
علامہ مجلسی، سنہ ۱۰۹۸ ھ میں، شاہ سلیمان صفوی کی طرف سے " شیخ الاسلام " کے عہدے پر منسوب ھوئے۔" شیخ الاسلام " کا عہدہ اس زمانہ کے اہم ترین نظامتی عہدوں میں شمار ھوتا تھا۔
وہ مشاجرات اور لڑائی جھگڑوں کے سلسلہ میں قاضی بھی تھے۔تمام دینی امور ان ہی کے زیر نظر انجام پاتے تھے اور تمام وجوہات شرعی ان ہی کی خدمت میں بھیجے جاتے تھے۔ شیخ الاسلام بے سہاروں اور یتیموں کے سر پرست بھی ھوا کرتے تھے۔
یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ علامہ نے اس منصب کو، شاہ کی طرف سےاصرار اور التماس کرنے کے بعد قبول کیا اور اسی مجلس میں شاہ نے کئی بار لفظ " التماس" کو زبان پر لایا تاکہ علامہ اسے قبول کرنے پر راضی ھو جائیں۔ علامہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس اہم مسئولیت کے عہدہ دار تھے۔
علامہ کے اساتذہ :
باوجودیکہ علامہ مجلسی کی سوانح حیات کے بارے میں ہمارے پاس کافی معلومات موجود ہیں، لیکن افسوس کہ ان کے اساتذہ کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ہیں۔ البتہ علامہ کی روایت کے مشایخ کو ہم جانتے ہیں، لیکن یہ کہ علامہ نے کن اساتذہ سے درس حاصل کیا ہے، مبہم ہے۔
علامہ کےچند اساتذہ اور روایات کے مشایخ حسب ذیل ہیں:
۱۔ ان کے باپ، محمد تقی مجلی (متوفی: ۱۰۷۰ھ)، علوم نقلی میں علامہ کے استاد۔
۲۔ مرحوم آقا حسین خونساری (متوفی: ۱۰۹۸ھ )بن آقا جمال، علوم عملی میں علامہ کے استاد۔
۳۔ مولا محمد صالح مازندرانی (متوفی: ۱۰۸۶ھ)
۴۔ ملامحسن فیض کاشانی (متوفی: ۱۰۹۱ھ)
۵۔ شیخ حرعاملی، مولف کتاب" وسائل الشیعہ" (متوفی: ۱۱۰۴ھ )
علامہ کے شاگرد:
ایک ہزار سے زائد طلبہ اور محقیقین علامہ مجلسی کے علمی کمالات سے فیضیاب ھوئے ہیں۔ علامہ نے اپنے شاگردوں کو بہت سے اجازت نامے دیئے ہیں۔
علامہ کے شاگردوں میں حسب ذیل افراد بھی شامل ہیں:
۱۔ سید نعمت اللہ جزائری ۲۔ جعفر بن عبداللہ کمرہ ای اصفہانی ۳۔ زین العابدین بن شیخ حرعاملی ۴۔ سلیمان بن عبداللہ ماجوزی ۵۔ شیخ عبدالرزاق گیلانی ۶۔ عبدالرضا کاشانی ۷۔ محمد باقر بیابانکی ۸۔ میرزا عبداللہ افندی اصفہانی، " ریاض العلماء" کے مولف ۹۔ سید علی خان مدنی، " ریاض السالکین" (شرح صحیفہ سجادیہ) کے مولف ۱۰۔ شیخ حرعاملی ۱۱۔ ملا سیما، محمد بن اسماعیل فسایی شیرازی۱۲۔ محمد بن حسن، فاضل ہندی وغیرہ
علامہ کی تالیفات:
علامہ مجلسی کی ایک طولانی اور با برکت عمر تھی۔ انھوں نے ۳۷ سال کی عمر میں ایک سو سے زائد فارسی اور عربی کتابیں تالیف کی ہیں، ان میں سے صرف " بحار الانوار" نام کی ایک کتاب ۱۱۰ جلدوں پر مشتمل اور " مراۃ العقول" نامی کتاب ۲۶ جلدوں پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ تقریبا ۴۰ کتابوں کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ کی سب سے پہلی تالیف " کتاب الاوزان و المقادیر" یا " میزان المقادیر" ہے، جو سنہ ۱۰۶۳ھ میں تالیف کی گئی ہیں۔ ان کی آخری تالیف" حق الیقین" ہے اور یہ کتاب ۱۱۰۹ھ سے متعلق ہے، یعنی وفات سے ایک سال قبل۔
علامہ کی بعض کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ بحارالانوار، یہ روایات اور تاریخ پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ ہے اور اس کے ضمن میں قرآن مجید کی بہت سی آیتوں کی تفسیر بھی آئی ہے۔
۲۔ " مراۃ العقول" ثقہ الاسلام کلینی کی کافی کی شرح ہے، جو ۲۶ جلدوں پر مشتمل ہے۔
۳۔ " ملاذالاخبار" شیخ طوسی کی " تہذیب" کی شرح ہے، جو ۱۶جلدوں پر مشتمل ہے۔
۴۔ " الفرائد الطریقہ"، " صحیفہ سجادیہ" کی شرح ہے۔
۵۔ " شرح اربعین حدیث"، کہ اس موضوع پر بہترین کتاب ہے۔
۶۔ " حق الیقین"، یہ اعتقادات کی کتاب ہے اور فارسی میں لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ علامہ کی کئی کلامی کتابیں بھی ہیں۔
۷۔ " زاد المعاد"، اعمال و ادعیہ پر مشتمل ہے۔
۸۔ " تحفۃ الزائر"، زیارات پر مشتمل ہے۔
۹۔ " عین الحیاۃ" آیات اور معصومین (ع) کی روایتوں پر مشتمل موعظے اور احکام سے متعلق ہے۔
۱۰۔ صراۃ النجاۃ۔
۱۱۔ "حلیۃ المتقین۔" پوری زندگی میں روزانہ آداب اور مستحبات پر مشتمل ہے۔
۱۲۔" حیاۃ القلوب" انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی تاریخ پر مشتمل ہے اور یہ کتاب تین جلدوں میں ہے۔
۱۳۔ " مشکاۃ الانوار"، حیات القلوب کا خلاصہ ہے۔
۱۴۔ " جلا ء العیون" تاریخ اور مصائب اہل بیت (ع) پر مشتمل ہے۔
۱۵۔ " توقیعات امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف" ، ان کے ترجموں کے ساتھ۔
۱۶۔ ترجمہ حدیث توحید مفضل کے مانند بہت سی احادیث کے ترجموں کے عنوان سے بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں۔
علامہ مجلسی کی تالیفات میں اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کی اکثر تالیفات فارسی زبان میں ہیں اور یہ نکتہ علامہ کے اپنے معاشرہ کی طرف توجہ دینے کی نشانی ہے کہ ان کا معاشرہ فارسی زبان تھا۔ (اگر چہ " بحار الانوار" اور " مراۃ العقول" جیسی اہم کتابیں عربی میں ہیں)
وفات:
علامہ مجلسی، ۷۳ سال کی با برکت عمر گزارنے کے بعد ۲۷ رمضان المبارک ۱۱۱۰ھ کو شہر اصفہان میں رحلت کرکے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔[3]
[1]۔ ملاحظہ ھو: ویژگی ھا و امتیازات بحار الانوار"، سوال ۱۴۵۸۱۔
[3]۔ ملاھضہ ھو: امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، ج ۹، ص ۱۸۲- ۱۸۴، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق؛ حسینی جلالی، سید محمد حسین، فھرس التراث، ج ۲، ص ۲۳- ۲۷، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۴۲۲ق؛ سبحانی، جعفر،، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج ۱۲، ص ۳۵۰- ۳۵۴، قم، مؤسسۃ امام صادق (ع)، ۱۴۱۸ق۔
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے