اعلی درجے کی تلاش
کا
6437
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2008/06/18
 
سائٹ کے کوڈ fa1014 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 2653
سوال کا خلاصہ
معنوی امور اور آخرت کی جانب رغبت سے زیاده آسان دنیا کے ظاهر اور مادیات کی جانب رغبت کیوں هوتی هے؟
سوال
معنوی امور اور آخرت کی جانب رغبت سے زیاده آسان دنیا کے ظاهر اور مادیات کی جانب رغبت کیوں هوتی هے؟
ایک مختصر

جس طرح عالم طبیعت میں نزولی سیر ( پستی کی جانب سیر) عمودی(طولی اور اوپر کی جانب سیر) سے زیاده آسان هے اسی طرح اخلاقی اور معنوی امور میں سیرو سلوک کی یهی حال هے ۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں تلاش و کوشش اور رنج و مصیبت سے بھری عمودی سیر کو "کدح" کهتے هیں سوره انشقاق آیت نمبر6 میں پروردگار فرماتا هے: اے انسان تو اپنے ربّ کی طرف جانے کی کوشش کر رها هے جو رنج و مصیبت کے همراه هے[کدح] جبکه دنیا کو دنیا اس لیئے کها جاتا هے که وه هر چیز سے زیاده پست هےاور هوا و هوس کے درّه میں گرنے کے لیئے یهی کافی هے که انسان کمالات،پاکیزگی، فطرت اور عقل کی جانب سے اپنی آنکھیں کو بند کرلے معنویت کی جانب حرکت اور سیر ایسی هے جیسے سخت اور مشکل پهاڑ پر چڑھنا ،لیکن خواهشات نفس کی طرف پڑھنا پستی اور نشیب کی طرف جانا هے جو سهل اور آسان هے کیونکه آخرت اور معنوی امور کی جانب رغبت الٰهی فطرت کی جانب سیر هے اور انسان ،عالم مادّه اور ظاهری چیزوں سے زیاده انس ،محبت اور تعلّق رکھتا هے۔

تفصیلی جوابات

جس طرح عالم طبیعت میں نزولی سیر عمودی سیر سے زیاده آسان هے اسی طرح اخلاقی اور معنوی امور میں بھی حرکت اور سیر جاری هے جیسا که قرآن مجید میں ارشاد هوتا هے : اے انسان تو اپنے پرودگار کی طرف جانے کی کوشش کر رها هے "یا ایُّها الأنسان انّکَ کادحٌ الٰی ربِّکَ " [1] جو رنج و زحمت کے همراه هے۔

یعنی اے انسان تو رنج و مشقت کے ساﺗﮭ پانے پروردگار کی جانب جانے کی کوشش کر رهاهے ۔ کلمه"کدح" عرب کی لغت میں تلاش و کو شش کے معنی میں استعمال هوتا هے اور سخت تلاش و کوشش اسکے مفهوم میں پوشیده هے [2] انسان کے پست اور ذلیل هونے کے لیئے یهی کافی هے که وه اپنی خواهشات نفس کا تابع هوجائے کیوں کے خواهشات نفسانی کی طرف جانا پستی کی طرف جانا هے جو سهل اور آسان هے لیکن حکم عقل اور شریعت کے مطابق ،دنیا وشیطان اور خواهشات نفس کے مخالف سفر کرنا ، بلند و سرفراز سفر هے۔ جس طرح سے پهاڑ پر چڑھنا دشوار اور سخت هے لیکن انسانی یقین اور سعادت کے احساس کے همراه وه بلندی کی طرف جاتا هے۔

قرآن مجید کی نگاه میں انسان ایسی مخلوق هے جس کا ایک حصّه الٰهی فطرت اور دوسرا حصّه مادی طبیعت سے وابسته هے فطرت اس کو بلند معارف و نیکیوں اور معنویات کی جانب دعوت دیتی هےاور طبیعت اس کو پستی ،مادیات و شهوات اور برایئوں کی جانب دعوت دیتی هے اس لیئے حیات انسان همیشه طبیعت اور فطرت کے در میان جنگ میں مصروف هے اگر انسان کی طبیعت اس کی فطرت پر غلبه پاتی هے تو وه طبیعت کی طرف جاتا هے ۔ قرآن کی نگاه میں ایسا انسان منحرف اور پست انسان هے اور اگر اس کی فطرت طبیعت پر غالب آجاتی هے اور اس کی طبیعت، فطرت کی جانب چلتی هے تو اس صورت میں یه انسان ایسا انسان هے جو راه حق و هدایت پر چل رها هے [3] ۔

لغت میں دنیا کے معنی پستی کے هیں اور دنیا طلبی کے لیئے یهی کافی هے که هم آسمان کی جانب سے آﻨﮐﮭ بند کرلیں ۔ لیکن دنیا طلبی سے نکلنے اور معنویت کی جانب سیر کرنے کے لیئے صرف باطنی لگاؤ ،دعویٰ اور گفتار کافی نهیں هے بلکه خواهشات نفس کی مخالفت ،شیطان اور اسکے وسوسوں سے جنگ کرنا، بری عادتوں اور آداب و رسوم سے چھٹکارا پانا ، روزمرّه کے وه امور جو انسان کو کسی نه کسی طرح اسیر و گرفتار کر لیتے هیں ان سے نجات پانا بھی ضروری هے۔ اس لیئے عملی عرفان اور اخلاق کے علماء نے کبھی سو(۱۰۰) میدان، یا هزار(۱۰۰۰) منزلیں اور یا آداب سیر و سلوک کے عنوان سے رشد و کمال کی منزلوں میں ،برتر راستے اور بلند معنوی حقائق بیان کیئے هیں تا که انسان آخر میں نفسیاتی قید و بند سے نجات پالے اور الله کا مطیع و فرمانبردار بنده بن جائے ۔ اس لیئے خدا کی جانب بنده کی سیر و سلوک عمودی سیر هے افقی (سطحی) سیر نهیں هے ،یهاں پر عمودی سیر کا مطلب الٰهی نقشه میں عمودی سیر هے نه که دنیاوی اور ظاهری نقشه میں یعنی " برتر مقام ومنزلت" کی جانب راسته پانا هے۔ "برتر مکان" کی جانب جانا مراد نهیں هے اسی لیئے زاد راه ،اور توشه سفر مطلب کیا گیا هے تا که انسان کو بلند مقام و منزلت اور برتر درجات کی جانب سیر کرنے مدد کرے اور پروردگار سیر و سلوک کو عمودی اور صعودی (طولی) سفر کے عنوان سے یاد کرتا هے اس لیئے سوره مجادله میں فرماتا هے: خدا ان صاحبان ایمان کے درجات کو بلند کرنا چاهتا هے جن کو علم دیا گیا هے[4] ۔ جو شخص صعودی سیر (بلند معنوی سیر) کرتا هے وه بلند هو جاتا هے اور پروردگار اس سیر کو کلمه "رفع" (بلند) کے عنوان سے یاد کیا هے جیسا که سوره فاطر میں اس سیر کو کلمه "صعود" (بلند) سے تعبیر کیا هے اور فرماتا هے : پاکیزه کلمات اسی کی جانب بلند هوتے هیں اور عمل صالح انهیں بلند کرتا هے[5] ۔ لهٰذا ان دو تعبیروں یعنی" رفع"اور "صعود" سے معلوم هوتا هے که سیر و سلوک عمودی اور درجه طلبی هے نه که افقی اور مکان خواهی ۔ کیونکه کسی مکان کی جانب سیر اگر چه برتر مکان هی هو وه افقی (سطحی) هے عمودی نهیں هے ۔

اس لیئے جو لوگ بلند درجات کے حامل هیں جیسے جناب ادریس علیه السلام جنھوں نے اس سفر کو ملے کیا هے اس کے بارے میں پروردگار یوں فرماتا هے" وَرَفعناهُ مکاناً علیّا [6] ،اور هم نے ان کو بلند جگه تک پهونچا دیا هے "جس کا مطلب بلند جگه اور بلند مقام هے ظاهری مکان مراد نهیں هے اور خود پروردگار اپنی توصیف میں اپنے آپ کو بلند درجات کے عنوان سے یاد کرتا هے " رفیعُ الدَّرجاتِ ذوالعرشِ[7] وه خدا بلند درجات کا مالک اور صاحب عرش هے" اس بنا پر "سیر الیٰ الله " الله کی جانب سیر کا مطلب بلند درجات اور علماء بیشتر اور برتر درجات سے سے سرشار هیں ا ور الله پاکیزه کلمات ان کی جانب بلند کرتا هے [8] اور دوسری تعبیروں میں اس طرح بیان کیا هے که خدا طلبی ،رفعت اور بلند سیر هے اور دنیا طلبی نزول سیر اور ذلّت و خواری هے اور دنیا کو دنیا اس لیئے کها جاتا هے کیونکه وه هر چیز سے پست تر هے [9] اس لیئے دنیا انسان کو ذلیل کرتی هے[10] ۔

قربت خدا اور معنوی درجات کی جانب بلند هونے کے لیئے انسان اگر اپنی اولاد اور اپنے مال کو بھی چھوڑدیتا هے تو یه اس کے حق میں بهتر هے[11] اور یه بھی کها گیا هے که با مروّت لوگوں کی لغزشوں سے در گذر کرو کیونکه صاحب مروّت لغزش نهیں کھاتا هے بلکه خدا اس کو بلند مرتبه پر فائز کرتا هے[12]

لهٰذا آخرت اور معنوی امور کی جانب لگاؤ ،الٰهی فطرت کی طرف سیر هے ،دنیا اور دنیاوی اسباب سے تعلّق،مادی زندگی اور معمولی و ابتدائی انسان کی جانب سیر هے۔ انسان دنیا اور اس کے ظواهر پر زیاده توجه رکھتا هے اور اسی میں مشغول رهتا هے" یَعلمونَ ظاهراً منَ الحیوٰۃِالدُّنیا و هُم عَنِ الآخرۃِ غافِلون"یه لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاهر کو جانتے هیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل هیں [13] اور جس چیز میں لوگوں کو فائده اور منافع جلدی ملتا هے اور نقد ملتا هے لوگوں کا مطلوب اور مراد وهی هوتا هے "کلّا بَل تُحِبُّونَ العاجِلۃ و تذرونَ الآخرۃ " جیسا که اس آیت شریفه میں اشاره کیا گیا هے که نهیں بلکه تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے هو اور آخرت کو نظرا نداز کئے هوئے هو[14] ۔ اسی وجه سے امیر المؤمنین علیه السلام فرماتے هیں : آثروا عاجلاً و اَخّروا آجلاً[15] (گمراه) لوگوں نے دنیا کو اختیار کر لیا هے اور دیر میں آنے والی آخرت کو پیچھے هٹا دیا هے۔ نتیجه میں دنیا اور مادیات کی جانب انسان کا لگاؤ زیاده آسان نظر آتا هے ۔



[1]  سوره انشقاق آیت/6

[2]  کتاب الفروق فی اللغۃ – مؤلف عسکری ابو الهلال۔ صفحه 369 ناشر، آستان قدس رضوی

[3]  کتاب باورھا و پرسش ھا ۔ مؤلف مهدی هادوی تهرانی – صفحه 84 ۔ناشر مؤسسه فرهنگی خانه خرد

[4]  سوره مجادلۃ آیت /11 (یرفعُ اللهُ الّذینَ آمنوا منکُم و الّذین اولواالعلم درجات)

[5]  سوره فاطر آیت /10 (الیهِ یصعد الکلم الطّیب و العمل ِ الصّالح یرفعه)

[6]  مریم آیت /57

[7]  غافر آیت /15

[8]  جوادی آملی ،عبد الله ،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،مراحل اخلاق در قرآن ، بخش سوم ،ص223 ،مرکز نشر اسراء

[9]  ری شهری، محمد،(حسینی سید حمید) منتخب میزان الحکمۃ ،روایت نمبر2171 امام (ع)

[10]  کتاب منتخب المیزان محمد ری شهری (سید حمید حسینی) روایت منبر 2192 امام (ع)

[11]  نهج البلاغه خطبه52

[12]  نهج البلاغه حکمت 20

[13]  سوره روم آیت /7

[14]  سوره قیامت آیت /20-21

[15]  نهج البلاغه خطبه 144

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا