Please Wait
9436
١.اسلامی دانشوروں کی نظر میں عالم میں حقیقی عشق صرف ایک کےعلاوه نهیں هےاور وه خدا سےعشق هےاور دوسرے تمام عشق، کاذب یاغیر حقیقی یامجازی هیںبلکه خدا کے علاوه کسی پر عشق کا اطلاق صحیح نهیں هے ،چونکه یه سب شوق هیں نه عشق .ان کی خصوصیت یه هے که انسان جب تک ان معشوقوںکو نهیں پاتا هے ،ان سے لگاٶاورعشق رکھتا هے ،لیکن ان کو حاصل کر نے کے بعد رفته رفته ان کی نسبت لگاٶکم هوکراس کا یه عشق ختم هو تا هے، جبکه عشق حقیقی وه هے که جو معشوق کے مل جانے کے بعدنه صرف کم نهیں هوتا هےبلکه زیاده بهی هوتا هے.
٢.عشق مجازی،سالک وعارف کی روح کو لطیف بنانے میں مدد کرتا هے ،کیوکه عاشق همیشه معشوق کی فکرمیں هوتا هےاور اس کےدل کوجیتنےکی کوشش میں رهتا هے اور اس کی خوشنودی اوررضامندی کو حاصل کر نے کے لئےسب کچهـ قربان کر نے کے لیے تیار هوتا هے.
٣.عشق مجازی انسان کو اس دنیا کی وابستگی اور روابط سے آزاد کر کے اس کی تمام خواهشات کو ایک جهت میں متمرکز کر تا هے اور یهی کام سبب بن جاتا هے تاکه حقیقی معشوق کی طرف اس کی توجه دوسروں کی نسبت آسان تر هو جائے،کیونکه دوسروں کو هزاروں آرزٶںاور مقاصد کو چھوڑ نا هو تا هے لیکن وه ان سب چیزوں کو چھوڑچکا هے اور اب صرف ا یک چیز کویعنی عشق مجازی کوچھوڑ کر معشوق حقیقی کی چوکھٹ پر پهنچنا هے.
٤.بعض لوگوں میں یه استعداد نهیں پایی جاتی هے که عشق الهی ان کے وجود میں براه راست شعله ور هو جایے،لیکن عشق مجازی میں مبتلا هونے اورمعشوق کو پانے کےبعد پیاس نه بجھنے کے نتیجه میں عشق حقیقی کی طرف متوجه هوتے هیںاور سمجھتے هیں که ان کے عشق اور محبت کے لایق صرف ایک معشوق هے اوروه خداوند متعال هے.
٥.علمایے اسلام نےعشق مجازی کے بارے میں اغلب کویی واضح نظریه پیش نهیں کیا هے.البته عام طور پرعرفا اورصوفی عشق مجازی کے حامی هیں،لیکن بعض فقها اور متکلمین نے عشق مجازی کی سختی سے مخالفت کی هےاور اسے عشق حقیقی سے منحرف هو نے کی ایک قسم بلکه دین سے منحرفهونا شمار کر تے هیں.اور اصولی طور پرخدا پر لفظ عاشق کا اطلاق صحیح نهیں جانتے هیںاورعشق کے بارے میں صوفیوں کے منظوم کلام کو بالکل جنسی رجحانات یامادی عشق میں ناکامی کا نتیجه جانتے هیں.
عشق حقیقی،ذات پروردگارکا عشق هے اور دوسرے تمام عشق،حقیقی عشق نهیں هیں،اس قسم کےعشق بنیادی طورپرعشق نهیں هیںبلکه حقیقت میںیه"شوق"یں.
عشق وشوق میں یهی فرق هے که شوق اس چیز کی چاهت هے جوانسان کے پاس نهیں هوتىاور اسے اس کی طلب هوتی هے،لیکن جب وه چیزاسے مل جاتی هےتو ایک مدت کے بعداس کے بارے میں اس کی دلچسپی اور لگاٶختم هو جاتا هےاور تمام شوق یهی خصوصیت رکھتے هیں.
لیکن عشق وه هےجو معشوق کے ملنے سے پهلے یابعد میں نه صرف اس کے ملنے سے سیر نهیں هو جاتااور اس کی دلچسپی کم نهیں هوتی هے بلکه اس میں اضافه هو تا هے . یه عشق خداوند متعال کی ذات سے مخصوص هے،ورنه جو بهی اس کے علاوه انسان کو ملتا هے،ایک مدت گزرنے کے بعد احساس کر تا هے وه چیز اس قدر محبت کے قابل نهیں تهی بلکه بعض اوقات انسان اپنی نادانی اور هلکے پن پر هنستا هےکه کیوں اس نے اس قدر اس حقیر چیزسے دلبستگی کی تهی.[1] پس عشق حقیقی اوراصلی صرف خدا کا عشق هے.
لیکن یه که بعض عرفا عشق الهی تک پهنچنے کی راه،عشق مجازی یا غیر خدا کا عشق جانتے هیں،اس کی کچھـ تو جیهات هیں.ابن سینا اپنی کتاب "اشارات"کے نویںطریقه میں عارفوں کے مقامات کے بارے میں بحث کرتے هویےکهتے هیں:"مرید کو ریاضت کی ضرورت هے اور ریاضت کے تین مقصد هیں:اول،حق کو غیر حق سے الگ کر نا،دوسرا،نفس اماره پر کنٹرول حاصل کر نا...تیسرا،اپنے آپ کو انتباه وآگاهی کے لیے لطیف بنانا."
پھر فرماتے هیں که:اس تیسرے مقصد کی دو امر مدد کرتے هیں:
پهلا:لطیف اور پاک فکر واندیشه ،دوسرا:پاک وپاکیزه عشق،جس میں معشوق کی تصویریں حاکم هوں،نه سلطان شهوت.[2] پس ابن سینا کے کلام میں شاید عشق مجازی کی طرف "پل"کے عنوان سے ابتدایے اشاره اسی بات کی دلیل هے که مریدوں کو عرفان کے بلند مقام تک پهنچنے کے لیےعشق خدا کی راه موجود هے.
امام فخررازی ابن سینا کے کلام کی تشریح میں کهتے هیں:
"اسرارکولطیف بنانےمیں عشق کااثراس جهت سے هے که،اس قسم کا عاشق،معشوق کے حالات کو همیشه،حرکات وسکنات اورحاضروغا یب اورغصه وخوشنودی سےمورد توجه قراردیتاهےاور عاشق کا ذهن دایمی طورپرمعشوق کےافعال کواخذ کرنے اوراقوال کی اطاعت کر نےکی فکرمیں هوتا هےاوراس طرح اسرارکو لطیف بنانےکی راه پرملکه حاصل کرتا هے.لهذا نقل کیاگیا هےکه"مجنون"کو خواب میں دیکهاگیااور اسےپوچھا گیا:خدانے تیرے ساتهـ کیسا سلوک کیا؟اس نے جواب میں کهاکه خدانے مجھےاس کی محبت کا دعوی کر نے والوں پرحجت قراردیا."
"عشق مجازی،انسان کےدل کونرمی،وجداوررقت بخشتاهےاورانسان کودنیا کی محبت اوردلبستگیوںسےرهایی بخشتاهےاوراسے اپنےمعشوق کےعلاوه هرچیزسےمنه موڑنےپر مجبور کرتا هےتاکه وه اپنے تمام هم و غم،میلانات اورآرزٶںکو صرف ایک نقطه پر متمرکز کرے.اس کا یهی کام سبب بنتا هےتاکه دوسروں کی به نسبت حقیقی معشوق کی طرف اس کی توجه آسان تر هو جایے،کیونکه دوسروں کو هزاروں هم وغم اور آرزٶںاور مقاصد سےهاتهـ کھینچناهےیعنی دل سےعشق مجازی کو دور کر کے اس دل کو حقیقی معشوق کی چوکھٹ پرپهنچاکراس محبت کو حقیقی معشوق سےملحق کردے".[3]
پس اس بناپر عشق مجازی ایک عارف کے ابتدای کام پر اس کے لیےایک وسیله هے،جواسےمعنوی سفر ، بیداری اور توجه حاصل کر نے میں مدد کرتا هے.لیکن امام فخر رازی کے مطابق اس مدد کی کیفیت زیاده ترعاشق کے معشوق کی طرف توجه پر منحصر هے کیونکه یه توجه اسرار کی پاکیزگی کا سبب بن جاتی هے.خواجه نصیرالدین کے نظریه کے مطابق یه اس لئےهے که عشق مختلف وابستگیوں اور رشتوں کو توڑ نے کا سب بن جاتا هے ،اس طرح حقیقی اور اصلی معشوق کی طرف توجه کر نا آسان تربن جاتا هے اور بهر حا ل اس کے لئے اصلی معشوق کی طرف توجه کر نے کا ماحول ساز گار ھوجاتا هے.
شایدیه کهاجاسکتا هےکه"المجازقنطره الحقیقه "کی تعبیر اس لیے هےکه معنوی کمالات تک پهنچنےکےلئےمختلف انسانوں کی صلاحیتیں جدا جدا هیںاور هر ایک کو عشق حقیقی،یعنی عشق الهی،کی طرف هدایت نهیں کی جاسکتی هے.لهذا عشق مجازی،سالک کوجال میں پھنسانے کے لیے ایک پھندا هے تاکه سیر وسلوک تک پهنچنےکی راه کی مختلف رکاوٹوں سےبچنے کا سبب بنےاور اسے معنوی راسته پر گامزن کرے.چنانچه عین القضاه همدانی کهتے هیں:
"اےعزیز!لیلی کےحسن وجمال کودامن پر ایک دانه کے مانند جان لو.تم کیاجانتےهو که دام کیا چیزهے؟صیاد ازل(خداوند)نے چونکه اراده کیا هے تاکه مجنون کی سرشت سےاپنے عشق کے لیے ایک مرکب بنایے،لیکن اس میں وه استعدادنهیں تھی که جمال الهی کے دام میں پھنس جایے،وه تو اس کی جھلک سے هلاک هوجاتا هےاس لیے عشق لیلی کو کچھـ مدت کے لیے مرکب بنایا تاکه عشق لیلی میں گرفتار هو جایے،اور اس کے بعد عشق الهی کے بوجھـ کو قبول کرسکے. "[4]
عشق مجازی کے بارے میں علمایے اسلام کا نظریه:
عرفا اور فلاسفه کے کلام میں عام طور پر عشق مجازی کی کوئی مخالفت نهیں پایی جاتی هے،بلکه اسے حقیقی معشوق تک پهچنے کے لیےایک پل اور قنطره جانتے هیں.
لیکن بهت سے اسلامی دانشوروں نےاس سلسله میں اپنے نقطه نظر کا اظهار نهیں کیا هے یا اس سلسله میں قطعی طورپر نفی و اثبات میں کوئی بات نهیں کهی هے.
لیکن بعض فقها اور متکلمین نے اس سلسله میں مخالفت کی هےاورعشق مجازی کو عشق حقیقی سے ایک انحراف اور معنویات اور خدا سےدور هو نے کا سبب جانتے هیں،اور اس قسم کے عشق کو صوفیوں کی ایک بدعت سمجھتے ھیں .یا یه که خدا کی محبت اور معنویات کے بارے میں لفظ عشق کااستعمال جایز نهیں جانتے هیںاور خدا پر لفظ معشوق کا اطلاق پسند نهیں کرتے هیں،بلکه اسے قبیح تصور کرتے هیں.چنانچه بعض لوگ کلی طور پر صوفیوں اور ان کے عاشقانه اشعار کو اچھی نظر سے نهیں د یکھتےاور ان کے منظوم اشعار کو جنسى رجحانا ت یا مادی عشق میں ناکامی کا سبب مانتے هیں.[5]
[1] اس سلسله میں ملاحظه هو:مطهری،مرتضی،تفسیر سوره حمد،انتشارات صدرا.
[2] دکتر حسینی ملکشاهی ،ترجمعه وشرح انتشارات وتنبهات ابن سینا ،ص٤٤٦،،الفضل الثامن،انتشارات سروش،١٣٧٥هش.
[3] سید ییحی یثربی،فلسفه عرفان ،ص٣٣٢،دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم،١٣٧٤،ش.
[4] عین القضاه همدانی ،تمهیدات،ص٩٦،سید ییحی یثربی،فلسفه عر فان،ص٣٢٦.
[5] اس سلسله میںملاحظه هو:داود الهامی ،ابن عربی کے بارے میں متضاد فیصلےانتشارات مکتب اسلام ،قم،١٣٧٩ش،سید ییحی یثربی ،فلسفه عرفان،دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم ،١٣٧٤،هش،ص٣٥١.