Please Wait
6476
خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کو ولایت تشریعی ( قانون سازیه اور اشیاء اور کاموں کو حلال وحرام کر نے ) کے علاوه ولایت تکو ینی بهی عطا فر مائی هے اور وه عالم کے امور میں هر قسم کی مداخلت و تصرف کی تو انائی رکهتے هیں – اس قسم کی ولایت و قدرت ان کی ظاهری زندگی سے هی مخصوص نهیں هے ، کیونکه وه ایسی مقدس ذاتیں هیں که اپنی بر زخی زندگی کے دوران بهی یه طاقت رکهتے هیں ، لیکن وه همیشه اور هر جگه پر اس طاقت سے استفاده نهیں کرتے هیں ، بلکه ایسی جگه پر استفاده کرتے هیں ، جهاں پر دین خدا کی اور لوگوں کی مصلحت هو اور خداوند متعال کی ناقابل تغییر سنت کے خلاف نه هو-
دوسری جانب سے ائمه اطهار علیهم السلام کی زیارت گاهوں کا احترام راه هدایت هے اور ان کی زیارت گاهوں کی بے احترامی راه ضلالت و گمراهی هے – اور دوسری جانب سے سنت الهی میں سے ایک یه هے که تمام لوگ قیا مت تک راه هدایت و راه ضلالت میں سے ایک کا انتخاب کر نے میں آزاد اور مختارهیں – اس بنا پر وه همیشه اور هر جگه پر اس طاقت سے استفاده نهیں کرتے هیں – جس طرح خداوند متعال نے همیشه اپنی طاقت سے استفاده نهیں کیا هے اور نهیں کرتا هے ، باوجودیکه وه سب سے بڑی طاقت والا هے اور هر چیز پر طاقت و توانائی رکهتا هے – پوری تاریخ میں کئی بار ظالم اور سر کش گروهوں نے خانه کعبه پر حمله کیا هے اور اسے منهدم کر کے رکهدیا هے ، لیکن خداوند متعال نے صرف ایک بار ابر ھھ کی فوج کو معجزانه صورت میں نابود کر کے رکهدیا ، جنهوں نے کعبه کو نابود کر نے کا قطعی فیصله کیاتها-
خداوند متعال نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ، دوسرے انبیاء اور ائمه اطهار علیهم السلام کو ولایت تشریعی[1] کے علاوه ولایت تکوینی بهی عطا کی هے اور وه ولایت تکوینی کے مطابق عالم میں هر قسم کے دخل وتصرف کی توانائی رکهتے هیں – امام محمد باقر علیه السلام نے فر مایا : " اسم اعظم کے ٧٣ حروف هیں ، " آصف بر خیا" کے پاس صرف ایک حرف تها اور اسی ایک حروف سے استفاده کر کے وه ایک لمحه میں تخت بلقیس کو لے آیا اور همارے (ائمه کے) پاس اسم اعظم کے ٧٢ حروف هیں [2]-" اس حدیث شریف کے مطابق ائمه اطهار علیهم السلام کی طاقت کا اندازه کیا جاسکتا هے – اس قسم کی ولایت اور قدرت ان کی ظاهری زندگی سے هی مخصوص نهیں هے- وه ایسی مقدس ذاتیں هیں که ان کی زندگی اور موت یکساں هے، یعنی اس مادی دنیا سے شهادت یا رحلت کے بعد اپنی برزخی زندگی میں بهی یه طاقت رکهتے هیں ، لیکن ان کے لئے همیشه اپنی روز مره زندگی میں عادی اور عام علم و طاقت سے استفاده کر نا ضروری تها اور هر کام میں معجزه اور غیر معمولی اقدام نهیں کرتے تهے، مگر یه که خاص موقع پر خداوند متعال کے حکم اور دین کی مصلحت اور لوگوں کی هدایت کے پیش نظر ایسا کام انجام دیتے تهے- یعنی ان بزرگ شخصیتوں نے اپنی دنیوی زندگی میں همیشه اس طاقت سے استفاده نهیں کیا هے-
جس طرح خداوند متعال نے سب سے بڑی طاقت هو نے کے باوجود همیشه اپنی قدرت سے استفاده نهیں کیا هے اور نهیں کرتا هے- پوری تاریخ میں کئی بار ظالم اور سر کش گروهوں نے خانه کعبه پر حمله کیا هے اور اسے منهدم کر کے رکهدیا هے، لیکن خداوند متعال نے صرف ایک بار ابرهه کی فوج، جس نے کعبه کو نابود کر نے کا حتمی فیصله کیا تها، کو معجزانه طور پر نابود کر کے رکهدیا تاکه تاریخ میں همیشه کے لئے ثبت هو جائے اور تمام لوگ جان لیں که خداوند متعال جو سب سے بڑی طاقت هے، اگر چاهے اور اراده کرے تو تمام کافروں کو ایک هی لمحه میں تنبیه اور سزا دیکر نابود کر سکتا هے، لیکن وه لطف و مهر بانی کی وجه سے انهیں مهلت دیتا هے تاکه جو جهالت کی وجه سے کسی برے اعمال کے مرتکب هو جائیں اپنی ضلالت کی راه سے پیچهے هٹیں اور قیامت کے دن کوئی بهانه نه لاسکیں که خداوند متعال اگر همیں مهلت دیتا تو هم بهی هدایت پاتے – بالکل اسی بنیاد پر انبیاء وائمه علیهم السلام بهی ظاهری اسباب کے مطابق اپنا فریضه انجام دیتے هیں ، تاکه تمام افراد کی هدایت ممکن بن سکے- البته خاص مواقع پر ائمه اطهار علیهم السلام نے بهی اپنی، اپنے دوستوں اور زیارت گاهوں کی حفاظت کے سلسله میں اس معجزه اور طاقت کا مظاهره کیا هے ، اور یه واقعات تاریخ میں درج هوچکے هیں ، لیکن مذکوره بیان شده دلیل کی وجه سے وه عام طور پر ایسا نهیں کرتے تهے-
ائمه اطهار علیهم السلام کی زیارت گاهوں کا حترام هدایت و سعادت کی راه هے اور اس کے بر عکس ان کی بے احترامی ضلالت و گمراهی کی راه هے اور سنت الهی میں سے ایک یه هے که قیامت تک تمام لوگ راه هدایت یا گمراهی کی راه میں سے کسی ایک کا انتخاب کر نے میں آزاد اور مختارهیں اور اگر ائمه اطهار علیهم السلام همیشه اپنی خدائی طاقت و علم سے استفاده کرتے تو وه آناً فاناً اپنے مخالفین اور دشمنوں ، جو در اصل خدا کے دشمن تهے ، کو نابود کرسکتے تهے، یه خداوند متعال کی ناقابل تغییر سنت کے خلاف هے، اس صورت میں تخلیق و خلقت کا مقصد، یعنی امتحان وآزمائشوں کے ذریعه انسان کا کمال تک پهنچنا محقق نهیں هوتا-
بهت سے افراد،جوآجکل مظلوم اور بے دفاع مسلمانوں کے خلاف ٹروریسٹی اقدامات کر رهے هیں ، خود مسلمان هیں، لیکن افسوس که وه شیطانی طاقتوں کے هاتهوں فریب کها کر ان کے آله کار بن چکے هیں اور گمراه هو کر اپنے خیال خام کے مطابق خدا کی رضا اور پروردگار کا تقرب حاصل کر نے کی نیت سے مسلمانوں کو نشانه بناتے هیں ! ان کا یه عمل اور طریقه کار انسان کے لئے خوارج نهروان کی یاد تازه کرتا هے، جنهوں نے قصد قربت سے اور زیاده سے زیاده ثواب حاصل کر نے کی غرض سے شب قدر میں حضرت علی علیه السلام کو مسجد میں شهید کیا –اس کے علاوه ان کا یه عمل انسان کو یزید کے لشکر کی یاد تازه کرتا هے، جنهوں نے قصد قربت سے امام حسین علیه السلام سے جنگ کی ، کیونکه وه دعوی کرتے تهے که امام حسین علیه السلام اور ان کے ساتهی ( نغوذبالله)دین اسلام سے بهٹک گئے هیں – اسی طرح خوارج نهروان بهی حضرت علی علیه السلام کو کافر جانتے تهے - لیکن اس کے باوجود ان مهر بان ائمه اطهار علیهم السلام نے خداکی قدرت اور ولایت تکوینی سے ان کو نابود کر نے میں استفاده نهیں کیا-
آخر پر اس نکته کا ذکر دلچسپی سے خالی نهیں هوگا که، اس قسم کے افراد اور جریانات کو نابود کر نے کے لئے ائمه اطهار علیهم السلام نے اپنی قدرت الهی و ولایت تکوینی کا استفاده نه کر کے ، بشریت کو ان کی نابودی کی فطری راه سکهادی، یعنی اگر وه اپنی الهی طاقت سے استفاده کرتے تو وه همارے لئے نمونه عمل نهیں بن سکتے تھے، هم چونکه اس طاقت سے محروم هیں ، اس لئے نهیں جانتے که امام حسین علیه السلام کے جیسے حالات رونما هو نے کی صورت میں کیسے اسلام کی حفاظت کریں-
اسی لئے وه همیشه اور هر جگه پر اپنی اس الهی طاقت کا استفاده نهیں کرتے تهے-