Please Wait
8833
فرقه بهائیت کے بانی، میرازا حسین علی بهاء کا عقیده اس کی کتابوں میں اس اصل پر مبنی هے که "اس" کے اور اسی طرح" علی محمد باب" کے ظهور کر نے کے بعد ، دین اسلام منسوخ هو گیا هے اور حضرت محمد( صلی الله علیه وآله وسلم ) کی رسالت کا دور ختم هو گیا هے ، اس قسم کا تفکر" باب" کی غیبت کو قبول کر نے کے بعد پیش کیا گیا اور یه دعوی کیا گیا که" وه" وهی هے جس کے ظهور کا باب نے وعده کیا هے ( من یظهره الله)
اس کا اعتقاد تها که خدا وند متعال بار ها زمین پر اتر آیا هے ، من جمله" باب" اور خود" اس" میں مجسم هوا هے – نئی شریعت کو پیش کر نے کے سلسله میں بیٹی ،بهن اور دوسرے نزدیکی اقارب سے شادی کر نا مباح اور پیشاپ ، پاخانه، کتا اور سور وغیره جیسی چیزوں کے پاک هو نے کا اعلان کیا... ان عقائد میں سے کوئی بھی عقیده صحیح عقائد پر منبی نهیں هے ، کیونکه:
١- امام زمانه عجل الله تعالی فر جه الشریف کی خصوصیات، روایات میں ایسے بیان هوئی هیں که، اس سے ناجائز فائده اٹھانے کے تمام راستے بند هو گئے هیں اور یه خصو صیات با ب اور بها سے مطابقت نهیں رکھتی هیں-
٢- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خاتمیت کا مسئله ، ایک مسلم امر هے جو نقلی و عقلی دلائل سے ثابت هے – قرآن مجید نے پیغمبرا سلام صلی الله علیه وآله وسلم کو" خاتم النبیین" کے عنوان سے یاد کیا هے ، جس کے معنی دوسرے انبیاء کی رسا لت و نبوت کا خاتمه هے – اس کے علاوه اسلام ایک ایسا مکمل دین هے که جس کے بارے میں نه پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی طرف سے تمام حقائق تک پهنچنے میں کوئی حد بندی تھی اور نه مخاطبین میں کوئی ایسا تھا ، جس نے حقائق کے گوهر و جوهر کو نه پایا هو – دوسری جانب سے اسلام تحریف سے محفوظ هے ، اس لئے کسی ایسے جدید دین کی ضرورت نهیں هے جو تصحیح یا مکمل کر نے والاهو – اسی لحاظ سے هم کهتے هیں که:" اسلام ایک ایسا دین هے ، جس کی روشنی میں انسان تمام زمانوں میں اپنی ضروریات کو پورا کر کے هدایت پاسکتا هے-
٣- خدا کا تجسد وتجسم کی شکل ، شکل اعلی(بهاء) اختیار کرنا ایسی بات هے جس کا باطل هو نا اظهر من الشمس هے- یه اعتقادات بهائیت کو دینی لوازم کے منکر هونے کے زمرے میں قرار دینے کا سبب بنے هیں اور یهی امر اس کے معتقدین کے نجس هو نے کا سبب بنا هے – البته جو شخص بها ئیت کا اعتقاد پیدا کر چکا هو، توبه کر نے سے اس کو خداوند متعال بخش دے گا اور اس کا دوسروں کے سامنے اس چیز کا اعتراف و اقرار کر نا نه صرف ضروری نهیں هے بلکه جائز بهی نهیں هے –
بهائیوں کے هاں ، میرزا حسین علی بهاء( فرقه بها یت کے بانی) کی دو کتابیں نھائیت اهمیت والی هیں اور انهیں وه " کتاب شریعت و وحی" شمار کر تے هیں : الف) " ایقان" خیال کرتے یں که یه کتاب اس پر بغداد میں نازل هوئی هے- ب) " اقدس" تصور کرتے هیں که یه عکا میں اس پر نازل هوئی هے – البته اس کے علاوه بعض مکتوبات اور تحریروں ، جیسے: "کلمات مکنونه " " هفت وادی" اور "کتاب مبین" وغیره کو بھی اس سے نسبت دی گئی هے-
ان کتابوں میں ، بهاء کے عقائد کا خلاصه ،اس اصل پر مبنی هے که "اس " کے اور"باب" کے ظهور کے بعد اسلامی شریعت منسوخ هوکر حضرت محمد صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا دور اختتام کو پهنچا هے اور جمال اقدس الهی کی رسالت و سربراھی اور دین کا دور شروع هوچکا هے، اور اس کی مقدس کتاب تمام کتابوں کی محافظ اور تمام صحف کو منسوخ کرنے والی اورتمام احکام کی مرجع هے،[1] اور خداوند متعال حسین علی کی شکل میں مجسم هواهے اور اس کے بعد بھی خداوند متعال زمین پر اتر آئے گا اور جلوه گر هوتا رهےگا- البته حضرت محمد(ص)، باب اور میرزا حسین علی کے بعد ایک هزار سال تک دنیا میں خدا کا ظهور نهیں هوگا.[2]
اور کتاب "مبین" میں وه اپنے آپ کو خداٶں کے خدا کے عنوان سے پھچنواتا کرتا هے،[3] اور کتاب"اقدس" [4]میں کهتا هے:" سب سے پهلی چیز جسے خدانے اپنے بندوں پر واجب قراردیا هے، اس کی وحی کا منبع اور اس کی روشنی کی معرفت هے که وه "میں هوں" جو کائنات کو خلق کرنے اور اس کے نظم ونسق کو چلانے کے سلسله میں خدا کا جانشین تھا. اور کتاب " ایام تسعه" میں اپنی پیدائش کے دن کے بارے میں کهتا هے:" مرحبا هو اس صبح کا جس میں" لم یلدولم یولد" پیدا هوا"[5] اور کتاب"ایقان" میں کهتا هے: [6]"اگر ملاحسین بشرٶیه ای[7] نه هوتا، تو خدا عرش پر قرار نهیں پاتا" اور"رحیق مختوم" اشراق خاوری میں آیا هے: " محمد رسول جو خاتم النبیین تھے، کے ظهور سے نبوت ختم هوگئی، یه اس بات کی علامت هے که بها الله کا ظهور خداوند متعال کا ظهور تھا"[8]
بهاالله کے چند احکام:
کتاب" اقدس" میں آیا هے:" باپ کی بیوی سے ازدواج کرنا حرام هے اور بیٹی، بهن اوردوسری اقارب سے مباح هے.[9] زنائے محسنه کوئی جرم نهیں هے.[10] تمام اشیا، یهاں تک پیشاب، پاخانه، کتا اور سور و غیره پاک هیں.[11]حج صرف مردوں پر واجب هے اور اس کی جگه بیت اعظم بغداد اور بیت نقطه شیراز هے- [12] اوران کا قبله عکامیں موجود میرزا حسین علی کی قبر هے-[13] اس کے علاوه هم کتاب اقدس میں پڑھتے هیں که:" بهائیوں کو حکام اور حکومتوں کے خلاف اعتراض کر نے کا حق نهیں هے اور انهیں اس کے بجائے اپنے دلوں پر توجه کرنی چاهئے-"[14]
البته، بهائیوں کے اعتقادات کے بارے میں قابل توجه نکته حسب ذیل هے که: بهائیت، اقتضائے زمان ومکان کے مطابق مختلف رنگوں اور شکلوں میں ظاهر هوئی هے- مثلا، " هندوستان "میں هندوٶں کے عقیده(تجلی وتجسم خدا) کے همرنگ هے اور "امریکه" و " یورپ" میں " آزادی حقوق کے مساوات " کا دم بهرتی هے اور جاپان کے " شنویستوں" کے هم فکر هو کر " خداٶں کے تعدد" کی بات کرتی هے اور اسلامی ممالک میں " توحید" کا دم بهرتی هے اور "مسیحیت" کے ماحول میں " خدا کے زمین پر اتر نے اور تجسم هو نے" کی بات کرتی هے وغیره-[15]
بهاهیت کے رد میں دلائل:
١- چنانچه واضح هوا که میرزا حسین علی ، باب کا پیرو تھا اور اس کی "غیبت: کو قبول کر چکا تھا،جبکه اسلامی احادیث میں حضرت مهدی (عجل الله تعالی فرجه الشریف) کی خصوصیا ت اس طرح بیان هوئی هیں که هر قسم کے بے جا دعوی اور ناجائز فائده اٹھانے کی تمام راهیں بند هو چکی هیں-[16]
احادیث میں آیا هے که: " امام مهدی کے باپ کا نام حسن(ع) هے (١٤٧ احادیث) ، ان کی والده کنیزوں کی سردار اور ان میں بهترین هیں( ٩ احادیث) وه بارهویں امام و خاتم الائمه(ع) هیں (١٣٦ احادیث)، امیرالمٶمنین کے فرزند هیں (٢١٤ احادیث) ، حضرت فاطمه(ع) کے فرزند هیں (١٩٢ احادیث) ، حسن(ع)اورحسین(ع) کے فرزند هیں (١٠٧ احادیث) [17] ، حسین (ع) کے فرزند هیں(١٨٥ احادیث) حضرت امام محمد باقر(ع) کے ساتویں فرزند هیں(١٠٣ احادیث)، حضرت امام صادق علیه السلام کے چھٹے فرزند هیں ( ٩٩ احادیث) ، موسی بن جعفر (ع) کے پانچویں فرزندهیں (٩٨ احادیث) ، حضرت امام رضا (ع) کے چو تھے فرزند هیں (٩٥ احادیث)، امام محمد تقی (ع) کے تیسرے فرزند هیں(٦٠ احادیث) امام علی نقی(ع) کے جانشین کے جانشین اور امام حسن عسکری (ع) کے بیٹے هیں( ١٤٦ احادیث) ، وه دو بار غیبت کریں گے( ١٠ احادیث ) و...
اس سلسله میں باب و بها مذکوره خصوصیات میں سے کسی ایک کے بھی مصداق نهیں تھے ، اور سید علی محمد باب کے ساتھـ علماء کی مخالفت کا راز بھی یهی هے-
٢- میرزا حسین علی نے ، سید علی محمد باب کی غیبت اور اس کے توسط سے جدید دین لانے کو قبول کر نے کے علاوه خود کو " من یظهرالله " کا نام رکھـ کر دعوی کیا هے که اس نے بشریت کے لئے ایک نئی شریعت لائی هے- جبکه تمام مسلمان پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی خاتمیت کو مسلم جانتے هیں اور نه صرف اس کے ثبوت میں منقولی دلائل سے استفاده کرتے هیں بلکه عقلی دلائل کو بھی نبوت وشریعت کی خاتمیت کا ثبوت و دلیل جانتے هیں-
نقلی دالائل:
قرآن مجید میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو خاتم النبین [18] کے عنوان سے یاد کیا گیا هے اور خاتم کے معنی اختتام کو پهنچانا هیں ،اس لئے خطوط پر دستخط کی جگه پر استعمال هو نے والی مهر کو خاتم کهتے تھے اور چونکه انگوٹھی پر موجود نگین پر کنده کاری کر کے کوئی نقشه یا نام لکها جاتا تھا اور اسے مهر کے عنوان سے استعمال کیا جاتا تھا اس لئے اسے بھی خاتم کهتے تھے ، اور جس انگوٹهی پر یه حالت نه هو تی ، اسے " فتخه" کهتے تھے-[19]
ابن کثیر ، اپنی تفسیر میں مذکوره آیت کے ذیل م یں ، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے ایک روایت نقل کر تے هوئے کهتا هے که آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم خاتم النبیین هو نے کو دوسرے انبیاء پر اپنی برتری جانتے تھے-
نهج البلاغه میں بھی کئی مواقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کو" خاتم الرسل" کے عنوان سے یاد کیا گیا هے -[20] لیکن قرآن مجید میں اور بھی کئی آیات هیں ، جن کو ختم نبوت اور اسلام کے دوام کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا هے –
الف: وه آیات، جن میں بیان هوا هے که اسلام پوری بشریت کے لئے هے- [21]
ب: وه آیات جن میں اسلام کو تنها برحق دین الهی کے عنوان سے پھچنوایا گیا هے-[22]
ان آیات سے استفاده کیا جاتا هے که اسلام کے مقابله میں حال وآئنده کے زمانه کی نسبت کسی استثنا کے بغیر دوسرے تمام ادیان باطل هو گئے هیں – اور اس کے سبب بهائیوں کے اس دعوی کی کوئی دلیل نهیں هے که خاتم الانبیاء ، انبیاء کی زینت اور نگین کے معنی میں هے ، اور ان کا یه دعوی لغت کی کتابوں کے موافق بھی بھی نهیں هے اور نه مفسرین واصحاب نظر کی سوچ سے مطابقت رکھتا هے-[23]
اس کے علاوه، پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم سے بعض ایسی روایتیں نقل کی گئی هیں جن میں بیان هوا هے که :" پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نهیں هوگا اور ان میں لفظ خاتم استعمال نهیں هوا هے تاکه بهائی اس سے ناجائز فائده نه اٹھاسکیں-[24] مثال کےطورپرایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله نے امام علی (ع) سے فرمایا هے:" انت منی بمنزله هارون من موسی الا انه لا نبی بعدی"[25]
عقلی دلیل:
انسان فطرتا خدا کو تلاش کرنے والا هے.[26] لیکن اس کی یه فطرت اس سلسله میں کافی نهیں هے که جس چیز کو وه منتخب کرے اور جس دین پر وه اعتقاد رکھتا هو، وه حق هے. بلکه یه فطرت، ایک ایسا رجحان هے، که بصیرت کی روشنی میںصراط مستقیم کی طرف انسان کی هدایت هوجائے اور خداوند متعال نے انسان کے باطنی پیغمبر، یعنی عقل کے علاوه ، ظاهری پیغمبروں کو بهی همارے لئے بهیجاهے تا که جس چیز کا هماری عقل درک نهیں کرسکتی هے[27] اسے وه همارے لئے بیان کریں. یه انبیا آگئے تا که همیں هدایت کی واضح راه کو د کھلا دیں[28]. ان انبیا میں سے هر ایک دو محدودیتوں اور ایک خطره سے دوچار تھا، خود نبی میں محدودیت [29] اور مخاطبین میں مهدویت[30] اور تحریف کا خطره[31]، اس لئے غا لبا نیا دین پهلے دین کی مکمل اور تصحیح کرنے والا تھا. معرفت کے کمال پر قرار پائے ایک پیغمبر (ص) کے مبعوث هونے سے، انبیا کے آنے کا سلسله ختم هوگیا. انبیا علیهم السلام اپنی امت کے امام تھے اور وه یعنی نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم انبیا کے امام تهے. دوسری طرف ، لوگوں میں فهم وادراک کی بساط پیدا هوچکی تھی ، یعنی لوگ ، کم ازکم ان میں سے بعض اپنے اندر یه آمادگی پیدا کرچکے تھے که اعلی الهی معرفت کو اسی معرفت کی بلندی کے ساتھـ حاصل کریں.[32]
ان دو محدودیتوں کے ختم هونے سے، اسلام اپنے پورے پیغام ، یعنی پوری هدایت الهی کو، که جس کے ایک حصه کو گزشته ادیان بیان کرچکے تھے، پیش کرے اور حقیقت میں دین مکمل اور خاتم هو.[33]دوسری جانب دین خاتم کو تحریف سے محفوظ هوناچاهئے تھا اور اسلام میں تحریف سے یه تحفظ دو عوامل کی روشنی میں حاصل هوسکتا هے:
الف) اصلی منبع کا تحریف سے محفوظ رهنا.[34]
ب) ایک ایسی روش کی بنیاد ڈالنا جس سے آشنا هوئے هر شخص کے لئے هر زمانه مین اس روش کے ذریعه منابع کی طرف رجوع کرنے سے حقیقت کو سمجھنا ممکن بن جائے.[35]
٣- میرزاحسین علی نے نه صرف ایک نئی اور مستقل شریعت کا دعوی کیا، بلکه وه مدعی هوگیا که خدا وند متعال نے اس میں حلول کیا هے ( یه دعوی عرفا کے کلام سے کافی تفاوت رکھتا هے) اور خدا کے تجسد وتجسم هو نے کو واضح طور پر بیان کرتا هے – اس عقیده کا باطل هو نا اس قدر واضح هے که هم اس کا جواب دینا ضروری نهیں سمجھتے هیں-
بهرحال یه عقائد اس امر کے سبب بنے که عام مسلمان، فرقه بهایت کو لوازم دین کا منکر جاننے پر مجبور هوئے،[36] اور لوازم دین کا منکر کافر هے اور کافر نجس هے-[37] کفار کے نجس هو نے کے فقهی دلائل کو فقه کی کتابوں میں پڑھا جاسکتا هے-[38] اس پر بحث وتحقیق کر نے کے لئے مزید فرصت کی ضرورت هے-
البته جو شخص بهایت کا معتقد هو گیا هے ، اس کے لئے نه صرف یه که دوسروں کے پاس اعتراف کر نے کی ضرورت نهیں هے ، بلکه یه عمل جائز بھی نهیں هے اور خدا کی مرضی کے خلاف هے – امید هے ایسا شخص توبه کر کے اپنے گزشته اعمال کی تلافی کرے اور خدا وند متعال کی طرف سے لطف ورحمت اور عفو وبخشش کا مستحق قرار پائے-
[1] ـ مکاتیب عبدالبهاء ءج١ ،ص٣٤٣-
[2] - خاتمیت پیا مبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم، ص٧٢ و ٧٥
[3] - ایضا،ص ٢٢٩- البته خدائی کا یه دعوی کتاب مبین ، کے صفحه نمبر ٣٢٣میں تکرار هوا هے-
[4] - ایضا، ص١-
[5] -ایضا، ص٥٠-
[6] -ایضا، ص١٧٣-
[7] - ملاحسین بشرویه ای ،وه شخص هے که بهاء الله اس کی تبلیغ کے نتیجه میں باب کا گرویده هو کر اس پر ایمان لا چکا تھا- دانشنامه جهان اسلام ، ج٤، ص٧٣٣-
[8] - ایضا ،١، ص٧٨-
[9] - ایضا ،ص٢٥٣-
[10] - ایضا ،ص٣٠٠-
[11] - ایضا، ص١٤٢-
[12] - ایضا، ص٦٨-
[13] - خاتمیت پیا مبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ، ص٨٢-
[14] -ایضا،ص٢٢٥-
[15] - ملاحظه هو :خاتمیت پیامبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ، ص٧٢- ٨٥فرق ومذاهب کلامی،ص٣٤٣- ٣٥٠-
[16] - ملاحظه هو: لطف الله، صافی گلپایگانی ، امامت و مهدویت، ج٣، ص٦٣- ٧٠- اس کتاب میں امام عصر حجه بن الحسن عجل الله تعالی فرجه الشریف کی چالیس خصوصیتیں بیان هوئی هیں که ان میں سے ایک بھی " باب" پر صادق نهیں آتی هے-
[17] - چونکه امام محمد باقر علیه السلام کی والده فا طمه بنت امام حس علیه السلام تھیں ، اس لحاظ سے امام زمان عجل الله تعالی فرجه الشریف امام حسن(ع) کی نسل سے بھی هیں -
[18] - سوره احزاب ،٤٠-
[19] - اعراب القرآن و بیانه ، ج٣، ص٤٤، اقرب الموارد ، ج١، ص٢٥٧ و ج٣، ص ٣١٩-
[20] -اجعل شرائف صلواتک... علی محمد عبدک و رسولک الخاتم لماسبق (خ٧١) ...امین وحیه و خاتم رسله (خ ١٧٢)... فقفی به الرسل و ختم به الوحی(خ ١٣٣)-
[21] - " لیکون للعالمین نذیرا" (فرقان، ١) اور اس طرح هے " وما ارسلنا الا کافھ للناس بشیرا و نذیرا" (٣٤/٢٨)-
[22] - " ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منه" (٨٥/٣) ، "والذی ارسل رسوله بالهدی و دین الحق لیظهره علی الدین کله"( ٩/٦١)-
[23] - ملاحظه هو: المیزان ، ج١٦، ص٣٤٥، خرد در ضیافت دین، ص ٢٤٨-
[24] - ایسی روایتیں اس قدر زیاده هیں ، که مرحوم میر حا مدحسین نے انهیں اپنی کتاب "عبقات الانوار میں پوری ایک جلد میں درج کیا هے-
[25] -" مجھـ سے تیری نسبت هارون (ع ) سے موسی(ع) کی نسبت کے مانند هے، صرف یه که میرے بعد کوئی پیغمبر نهیں آئے گا"
[26] - اس دعوی کے سلسله میں قرآنی، برهانی، نفسیاتی اور تاریخی دلائل کو کتاب " باورها وپرسشها" تالیف مهدی هادوی تهرانی، ص١٧- ٢١میں پڑھـ سکتے هیں ، ملاحظه هو: علامه مجلسی ،بحارلانوار ، ج٨،ص١، حدیث١-
[27] - ملاحظه هو:" باور ها و پرسشها" مهدی هادوی تهرانی ص٤٦-٥٨
[28] - ملاحظه هو:"باورها و پرسشها" مهدی هادوی تهرانی ص٢١-٢٤
[29] - انبیا وحی کو حاصل کرنے اور حقیقت کو پانے میں ، محدویت رکھتے تھے، کچھـ ایسے مراتب کو درک نهیں کرسکتے تھے، جن تک وه ارتقا پیدا نه کرسکے تھے. ایضا ص٤٤
[30] - مخاطبین علم و دانش ، ثقافت اور معرفت کے بارے میں ایک حد تک ادراک کی توانائی رکھتے تھے اور حقیقت کو قبول کرنے میں اسی حد تک بهره مند تھے اس لئے انبیا اس سے زیاده حقیقت بیان نهیں کرسکتے تھے. ملاحظه هو " باورها پرسشها" ص٢٤
[31] - جب کسی دین کو لانے والا پیغمبر، دنیا سے رخصت هوتا تھا، غلط تفسیروں سے ... وحی کا متن یا دین کا چهره، مسخ هوتاتها... ملاحظه هو: باور ها و پرسشها، ص٢٥
[32] - لهذا کها جاسکتا هے که دین خاتم لوگوں کے دینی امور سے متعلق اجتماعی ثقافتی اور علمی حالات سے رابطه رکھتا هے. اس معنی میں که لوگوں میں بعض افراد کے ذریعه اس دین کی حفاظت اور بقا کا زمینه ، جو دین کے جوهر و گوهر تک خود کو پهنچا سکے اور اس جوهر وگوهر کو دوسروں کی اختیار میں قرار دے ، موجود هے، نه یه که دین ایک ایسی جگه پر پهنچے جهاں پر اس کی تعلیم وتربیت عام هوجائے اور لوگ دین کی ضرورت کے بغیر اس کی طرف رجوع کریں اور حتی خود بھی غیر شعوری طورپر دین کی حفاظت کریں. لهذا خاتمیت کا اختتام یه نکته نهیں هوسکتا هے که لوگ بلوغیت کے ایک مرحله پر پهنچ جائیں که دین سے مستغنی هوجائیں یا اس نبی کی تعلیمات لوگوں میں اس طرح پھیل جائیں که لوگ کسی دوسری تعلیم اور نبی کی ضرورت کا احساس نه کریں. ملاحظه هو باورها و پر سشها، مهدی هادوی تهرانی، ص ٣٣-٤٣
[33] - دین کا مل میں وه سب کچھـ هونا چاهئے جس کی بشر کو حقیقی هدایت کے لئے ضرورت هو، اسلام ان خصوصیات کا مالک هے. ملاحظه هو: باورها وپرسشها ب ص ٨١-٥٩، خرد در ضیافت دین،ص٢٤٣-٢٤٦.
[34] - ملاحظه هو: مبانی کلامی اجتهاد، مهدی هادوی تهرانی، ص٤٥-٥٩.
[35] - اس روش کے بارے میں امام خمینی (رح) کے کلام میں" فقه جواهری" و" فقه سنتی" کی تعبیر کی گئی هے. ملاحظه هو: باورها و پرسشها، ص٢٨- ٣١ -
[36]- مجمع فقه اسلامی ،ص٨٤-٨٥، مصوه به ی شورای مجمع فقه اسلامی ،٧ تا ١٢ فروری ١٩٨٩ء ، سازمان کنفرنس اسلامی-
[37] - تحریر الوسیله امام خمینی(رح) ، ج١، ص١١٨- ١١٩-
[38] - المعلقات علی العروه الوثقی ، محمد علی گرامی، ج١،ص٨٦-٩٠-