Please Wait
10236
فرقه بهائیت کا بانی میرزا حسین علی نوری تھا، جو باب کے ظهور اور هنگامه آرائی کے بعد ، ملا حسین بشرویه ای کی تبلیغ کے ذریعه با ب کا گرویده بن کر اس کے دعوی پر ایمان لایا اور باب کی موت کے بعد اس کے جانشین اور بهائی " یحیٰی صبح ازل" کی اطاعت سے نافرمانی کر کے خود مدعی بن گیا که وه وهی شخص هے جس کے بارے میں باب نے ظهور کا وعده کیا تھا (من یظهرالله) اس کے دعوی میں روزبه روز اضافه هوتا جارهاتھا، یهاں تک که اس دعوی کا سلسله اس کی رسالت اور حلول خدا ( اس میں خدا کا تجسد وتجسم هو نے ) پر اختتام پزیر هوا-
حسین علی نوری ١٢٦٩ھ میں بغداد جلا وطن کیا گیا اور ١٢٧٩ھ تک وهیں پر تھا ، یهاں تک که عثمانی حکومت نے اسے اپنے پیرٶں کے همراه " عکا" بهیجدیا – ١٣١٠ھ میں اس کے مرنے کے بعد اس کےبیٹے" عباس افندی" ملقب به " عبدالبها" نے بهائیت کی ترویج میں بهت کوششیں کیں اور حکومت بر طانیه کی حمایت کو حاصل کر نے میں کامیاب هوا- اس کے بعد ١٩٢١ ء میں "عبدالبها" کا نواسه ، شوقی افندی نے بهائیت کی قیادت سنبهالی اور اسرائیل کی حمایت اورمدد کے بل بوتے پر اپنی سر گر میوں کو جاری رکها – وه ١٩٥٧ء میں اس دنیا سے چل بسا- پھر بهائیوں کی قیادت ایک ٩ رکنی ٹیم نے سنبهالی، جس کانام " بیت العدل" تھا ، اس کا مرکز مقبوضه فلسطین میں "حیفا" کے مقام پر هے-
بهائیت اگر چه سیاسی لحاظ سے استعمار کی پیداوار هے، یا یه که استعماری سیاست کی همنوا اور اسے ان کی طرف سے کهلی حمایت حاصل هے ، لیکن فکری اور تاریخی لحاظ سے فرقه " شیخیه" کی پیرو هے ، کیونکه بهائیت ، بابیت کی پیداوار هے اور بابیت ، کشفیه کی پیداوار هے ، اور کشفیه ، شیخیه کی پیداوار هے – شیخیه،" رکن رابع" کے معتقد تهے اور یهی عقیده اور سید کاظم رشتی کے کلام میں ظاهر کئے گئے عقائد ، علی محمد باب کے " باب امام زمان" کا دعوی کر نے کا سبب بنا – اور میرزا حسین علی نے بھی باب کے دعوی کو قبول کر کے " شریعت کو منسوخ" کر نے کا اعلان کیا اور اس طرح ایک نیا دعوی کیا- اس کے بارے میں آگاهی حاصل کر نے کے لئے مذکوره سوال کے درج ذیل تفصیلی جواب کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے:
بهائیت ایک ایسا فرقه هے ، جس کا بانی میرزا حسین علی نوری تها – وه میرزا عباس نوری کا بیٹا تها اور ١٢٣٣ھ کو تهران میں پیدا هوا – اس کا خاندان نور، مازندران کے "تاکر" نامی ایک چھوٹے پهاڑی گاٶں سے تعلق رکهتا تها – اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کر نے کے بعد ، قاجاریه حکومت کے " امام وردی میرزا" کے دفتر میں اپنے والد کے مانند منشی کا عهده سنبهالا اور عدالت میں نوکری کر نے لگا ـ چونکه اس کا بهنوئی روس کے قونصل خانه میں منشی تھا ، اس لئے سفار تخانوں سے رابطه پیدا کر نے میں کامیاب هوا-[1]
"علی محمد باب" کے ظهور اور هنگامه آرائی کے بعد وه (یعنی حسین علی) ، اس کا سوتیلا بهائی اور اس کے خاندان کے چند افراد " باب" سے جاملے- جب میرزا تقی خان امیر کبیر کے حکم سے " باب" کو تبریز میں سزائے موت سنا کر پهانسی پر لٹکایا گیا ، تو "باب" کا بهائی ،" یحیٰی صبح ازل" جو اپنے بهائی سے ١٣ سال چھوٹا تها ، باب کا جانشین مقرر هوا- البته میرزا حسین علی بھی ابتداء میں اس کا پیرو بن گیا، لیکن کچھه مدت کے بعد اس کی اطاعت سے روگردانی کی – [2]اس نے پهلے " مهدویت" کا دعوی کیا اور مدعی هوا که وه، وهی هےجس کے بارے میں باب نے ظهور کا وعده کیا هے – [3]وه زمانه کے گزر نے کے ساتهـ ساتھـ اپنے دعوی میں اضافه کرتا رھا – "رجعت حسینی" اور " رجعت مسیحی" کے دعوی سے لے کر " رسالت اور شارعیت" کے دعوی تک پهنچااور اس کے بعد سر انجام" اس میں خدا کے حلول" کر نے اور تجسد و تجسم خدا کے دعوی اور " انا الهیکل الاعلی" کے دعوی تک پهنچ گیا – هم اس کے ان دعوٶںمیں سے بعض کی طرف اشاره کریں گے-
١٢٦٩ھ میں، لوگوں کے مطالبه اور دینی علما کے دباٶ کے نتیجه میں وقت کی حکومت نے مجبور هو کر میرزا حسین علی کےاس گروه کو بغداد جلا وطن کیا – اس زمانه میں بغداد ، حکومت عثمانی کے تحت تها- حکومت عثمانی نے ١٢٧٩ ھ میں انهیں پهلے " استامبول" اور پهر" ادرنه" بهیجدیا – یه وه زمانه تھا جب بابیوں کی قیادت کے سلسله میں دو بهائیوں ، یحیٰی صبح ازل اور حسین علی کے در میان اختلافات عروج پر پهنچے تھے اور اس لئے عثمانی حکومت نے انهیں عدالت میں حاضر کیا اور عدالت نے حکم دیا که دونوں میں سے هر ایک بهائی کو اپنے پیرٶں کے همراه ایک دوسرے سے دور مختلف جگهوں پر بهیجدیا جائے- اس حکم کے نتیجه میں " یحیی صبح ازل" کو اپنے مریدوں کے همراه " قبرس" اور" میرزا حسین علی" اور اس کے پیرٶں کو مقبوضه فلسطین میں " عکا" نامی جگه پر بهیجدیا-
میرزا حسین علی نے " عکا" میں رهایش اختیار کی اور ١٣١٠ھ میں بیماری کے نتیجه میں اس دنیا سے چل بسا اور وهیں پر اسے سپرد خاک کیا گیا – اس کے بعد اس کا بیٹا " عباس افندی" ، جس کا لقب " عبدالبها" تها، نے بهائیت کی ترویج کے لئے بڑی کوششیں کیں- اس نے ١٩١١ ء میں یورپ کا سفر کیا اور اس سفر کے دوران بر طانیه اور امریکه کے ساتھـ خصوصی روابط بر قرار کر نے میں کامیاب هوا-
پهلی عالمی جنگ میں حکومت عثمانی کے زوال کے بعد ، حکومت برطانیه نے عبدالبها ، جو اس وقت" حیفا" میں رهائش پزیر تها، اس کی حمایت کا اعلان کیا اور اس کی نمایاں خدمات کے پیش نظر انگلستان کی خدمت گذاری کے صله میں عالی ترین اعزاز عطا کیا ، جسے اس نے جنگ کے بعد حاصل کیا- [4]وه اپنی تحریروں میں فلسطین کے مقبوضه علاقوں پر سلطنت انگلستان کے تسلط کے بر قرار رهنے کی آرزو اوردعا کرتا هے –[5]
١٩٢١ء میں عبدالبها کے مر نے کے بعد ، میرزا حسین علی کے نواسے [6]شوقی افندی نے بهائیوں کی رهبری اور سربراھی کو سنبهالا – اس نے اسرائیل کی حکومت تشکیل پانے کے بعد ، اسرائیل کے صدر مملکت کے ساتھـ ملاقات کی اور اسرائیل کی مملکت کی ترقی کے لئے اپنی دوستی اور آرزٶں کا اظهار کیا [7]اور بهائیوں کے نام اپنے ١٣٢٩ھ کے پیغام نوروز میں اسرائیل کی حکومت کی تشکیل کو وعده الهی کا مصداق قرار دیا – ١٩٥٧ء میں شوقی افندی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد، بظاهر ٩ ارکان پر مشتمل " بیت العدل" نامی ایک کمیٹی نے بهائیوں کی قیاد ت کی ذمه داری سنبهالی –ان کا مر کز مقبوضه فلسطین کے " حیفا" نامی جگه پر هے- [8]
بهائیت کا سیاسی موقف:
مذکوره مطالب سے هم عباس افندی اور شوقی افندی کے سیاسی موقف سے اجمالی طور پر واقف هوئے اور جوکچھـ یهاں پر ضروری هے اس کی طرف هم اشاره کرتے هیں ، وه یه هے که اس قسم کی پالیسی صرف ان دو افراد سے مخصوص نهیں تھی ، بلکه اس کا سر چشمه اس فرقه کا بانی میرزا حسین علی هے ،اس سلسله میں، نمونه کے طور پر مندرجه ذیل تاریخی رپورٹ پڑھنے کے قابل هے[9]:
١٢٦٨هـ میں بابیت کے دو پیرٶں نے ناصر الدین شاه پر گولی چلائی – اس کے بعد اس فرقه کے بعض افراد کوگرفتارکر کے انھیں موت کی سزا دی گئی اور چونکه مرکزی حکومت کی نظر میں شاه کو قتل کر نے کے اس منصوبه میں میرزا حسین علی کا هاتھـ هو نے کے شواهد و قرائن موجود تھے ، اس لئے میرزا حسین علی کو گرفتار کر نے کا فیصله کیا گیا-
تاریخی رپورٹیں اس امر کی حکایت کرتی هیں که میرزا حسین علی، اپنی گرفتاری سے بچنے کے لئے روس کے گر مائی سفارت خانه میں جانے آنے لگا اور اس کے نتیجه میں روس کے سفیر نے وزیر اعظم سےایک خط کے ذریعه تقاضاکیا که میرزا حسین کی حفاظت کر نے میں کسی قسم کی کوتاهی نه کرے-جب اسے بغداد جلا وطن کیا گیا ، تو اس نے سفیر روس کے نام ایک خط لکها ، جس میں اس حمایت کے سلسله میں اس کا اور روسی حکومت کا شکریه ادا کیا تھا-[10]
بغداد میں بھی برطانیه کے قونصل خانه کے انچارچ نے اس سے ملاقات کی اور حکومت بر طانیه کی طرف سے اس کی حمایت کا اعلان کیا-[11]
قابل توجه بات یه هے که بغداد کا گورنر بھی حکومت عثمانی کی طرف سے اسے ایک وظیفه ادا کرتا تھا - [12]جس وقت بهائیت روس کے دامن سے نکل کربرطانیه کی آغوش میں چلی گئی، توروسی سفارت کے قونصلرdalgoroukiنے احساس کیا که اس کی حکومت کی تمام زحمتیں بر باد هو رهی هیں ، اس لئے اس نے غصه میں آکر ، فرقه بابی اور بهائیت کے وجود میں آنے کے تمام اسرار کوفاش کردیا- [13]ان حالات کے پیش نظر ذهن میں یه احتمال تقویت پاتا هے که بهائیت یا سامراج کی پیداوار هے یا استعماری سیاست کی هاں میں هاں ملانے والی هے- بهر حال، بهائیت کی پیدائش وبقا استعمار کی مرهون منت هے-
بهائیت کے اعتقادات کا سر چشمه:
چنانچه واضح هوا که بهائیت ، بابیت کی پیداوار تھی ، لیکن یه که بابیت نے کس فرقه سے ترقی پائی هے ، اس سلسله میں قابل ذکر بات هے که: بابیت، "کشفیه" کی پیداوار هے اور "کشفیه" ، " شیخیه" کی پیداوار هے- شیخیه کا بانی " شیخ احمد احسائی" تها جو ١١٦٠ھ میں پیدا هوا، وه اخباری مسلک سے تعلق رکهتا تها اور اس کے ا اعتقادات کے سبب علماء کی طرف سے اس کے خلاف حکم کفر دیاگیا تها [14]- مثلااس کے اعتقادات کےچند نمونے حسب ذیل هیں:
١- ائمه، علل اربعه عالم هیں
٢- اصول دین چار هیں (خداکی معرفت، انبیاء کی معرفت، ائمه کی معرفت اور رکن رابع کی معرفت، اور رکن رابع سے مراد فرقه شیخیه کے شیوخ اور بزرگ هیں )
٣- قرآن نبی کا کلام -
٤- خدا انبیاء کے ساتھـ ایک شے هے-
٥- شیخیه کے شیوخ اور بزرگ رکن رابع هیں-
٦- امام عصر ڈر کے مارے عالم حور قلیابی کی طرف بهاگ گئے هیں-
٧-عدل، اصول شیعه میں سے نهیں هے وغیره-
شیخ احمد احسائی نے اپنی ایک کتاب میں خلفاء پر حمله کیاتها، جوکربلا پردهاوابولنے اور لوگوں کے قتل عام کا سبب بنا- لیکن قابل غور بات هے که اس حمله اور قتل عام میں صرف شیخ احمد کے شاگرد" سید کاظم رشتی" کا گهر بچ گیا – بهر حال، کچھـ مدت کے بعد شیخ احمد حجاز چلا گیا ، اور وهاں پر عثمانی حکومت کے ماتحت حکام کی طرف سے حمایت اور احترام کا حامل قرار پایا-
وه ١٢٤١ھ میں اسی سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا اور اس کے بعد" سید کاظم رشتی" نے اس کے افکار کی ترویج شروع کی اور فرقه کشفیه کی داغ بیل ڈالی-
سید کاظم رشتی ١٢١٢ھ میں پیدا هوا اور ١٢٥٩ھ میں اس دنیا سے رخصت هوا اور بیس سال تک اپنے پیرٶں کے در میان رکن رابع کے عنوان سر گرم عمل رها – اس کا اعتقاد تها که حضرت مهدی (عجل الله تعالی فرجه الشریف )همارے در میان موجودهیں اور اپنے مبلغین کو اطراف میں بهیجتے هیں تاکه لوگوں کو آماده کریں وغیره- اسی اعتقاد کی بنیاد پر اس کے ایک معروف شاگرد " علی محمد باب" نے دعوی کیا که میں " باب امام زمانه " هوں – لیکن بعد میں اس نے اسی پر اکتفا نهیں کیا بلکه دعوی کیا که وه خود " مهدی موعود "ے- [15]
"باب" اپنی تحریروں میں کبهی صراحت کے ساتھـ اور مکررطور پر قیامت تک پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی ختم نبوت اور رسا لت کا اور اسی طرح باره اماموں ، من جمله امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف یعنی حجه بن الحسن(عج) کے تئیں اپنے ایمان کا اظهار کرتا هے ، لیکن بعد میں اپنے لئے راه هموار کر نے کی غرض سے، اضافه کرتا هے که، قیامت تک ختم نبوت سے مراد ظهور قیامت یعنی اس کا اپنا ظهور هے-
"بیان" نامی اس کی کتاب ، بابیوں میں خصوصی حیثیت اور اهمیت کی حامل هے اور
"وحی" کے عنوان سے محسوب هوتی هے ، یه کتاب اس امر کی حکایت کرتی هے که وه عمیق حد تک " حروفیاں" اور "نقطویان" کے اثر ورسوخ میں قرار پایا هے[16] اور اس لحاظ سے بهی شیخ احمد احسائی کی پیروی کرتا هے-
اس نے اپنی کتاب "بیان" کو ابجد کے محور پر مطابق کر کے " ١٩کےعدد" سے تالیف کیا هے - وه اس کتاب میں هرسا ل کو١٩ مهینے اور هر ماه کو ١٩ دن جانتا هے[17]، اور خود کو نقطه اولی اور باب خدا [18]کے عنوان سے پھچنواتا اور اپنے اولین ١٨ ساتهیوں کے ساتھـ ، جو حروف حی هیں ( ح ی ٨ ١٠) کو ١٩ افراد تک پهنچ کر " واحد" کو تشکیل دیتا هے ، چونکه حروف ابجد کے لحاظ سے "واحد"١٩ کے برابر هے، اس لئے وه اپنی کتاب "بیان" کو واحد اول، واحد دوم... پر تقسیم کرتا هے-[19]
البته کتاب "بیان" کے آخر پر حروف کی لغت کی تشریح کرتے هوئے عدد ١٩ کے انتخاب کے بارے میں لکهتا هے که چوده معصوم اور امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کے چار نا ئب اور باب کو ملا کر ١٩ افراد هو تے هیں – جبکه هم باب کے بعض ادعا کی طرف توجه کرتے هیں تو معلوم هو تا هے که وه خود کو مهدی موعود جانتا هے، اس لئے کهنا چاهئے که اس کے ١٩ عدد کا رمز مشکل سے دو چار هوا هے، اور اسے اس کو صحیح کر نے کے لئے کوئی نئی تد بیر کرنی چاهئے-
وه بهشت، دوزخ ،صراط ، میزان اور ساعت کی تاویل و تفسیر کرتا هے اور رجعت کی اصل اور مقام امامت اور خدا کو اپنے اولیاء میں ظهور وتجسم بیان کرتے هوئے ایسی باتیں کرتا هے جو غلاه ، قرامطه اور شیخیه کے کلام اور تعبیرات کی ایک ترکیب هے-[20] اس نے بعض مناسک جیسے، نماز ، روزه، اور قبله میں تبدیلی پیدا کی هے – اس کے احکام میں سے چند حسب ذیل هیں:
١- اگر کسی بابی کی بیوی اس سے حامله نه هوسکی تو اس کے لئےحلال هے که وه حامله هو نے کے لئے کسی دوسرے بابی سے مدد لے لےلیکن غیر بابی سے یه کام انجام نهیں دیا جاسکتا هے -[21]
٢- استمنا ء مباح هے-[22] و...-
[1] - ملاحظه هو : یحیی نوری ،خاتمیت پیامبر اسلام ، ص٦٢- ٦٣-
[2] - ملاحظه هو: دانشنا مه جهان اسلام ، ج٤، ص٧٣٤، مقاله آقای محمود صدری-
[3] - میرزا حسین علی کے توسط سے ناجائز فائده اٹهائے جانے والی باب کی تعلیمات میں اس کی وه بشارت بهی تهی جو اس نے ظهور موعود کے سلسله میں " من یظهرالله" کے عنوان سے دی تهی، یعنی وه جسے خداوند متعال ظاهر کرے گا-( دانشنامه جهان اسلام ، ج٤، ص٧٤٣)
[4] - شوقی افندی ، قرآن بدیع، ج٣، ص٢٩٩-
[5] - مکاتیب، ج٣، ص٣٤٧، به نقل از کتاب خاتمیت پیامبر اسلام (ص) ، ص٦٨-[6] - وه عبدالبهاء کی بیٹی کا بیٹا تها-
[7] - مجله اخبار امری تیر ماه ١٣٣٣، (جولائی ١٩٤٤ء) به نقل از دانشنامه ی جهان اسلام ، ج٤، ص٧٤٢-
[8] - ملاحظه هو: دانشنامه ی جهان اسلام ، ج٤، ص٧٣٣- ٧٤٤، خاتمیت پیامبر اسلام (ص) ،ص٦٢- ٦٩-
[9] - بیان کیا گیا هے که سفیر روس نے بهاء کو شاه کے ما مورین کے حواله کر نے سے انکار کیا اور وزیر اعظم کے نام ایک خط لکها اور اس کی حفاظت کا تقاضا کیا (رساله تسعه عبدالحمید خاوری ، ص٣٨٧) جب بهاء کو گرفتار کیا گیا ، تو سفیر نے عدالت میں حاضر هو کر یوں کها:... میں نے فیصله کیا هے که اس شریف زاده ، بے گناه(بهاء) کو حکومت روسیه کی حمایت کے تحت قراردوں ، لهذا اگر اس کا ایک بال بهی بیکا هو جائے تو تمهاری تنبیه کے عنوان سے یهاں پر خون کی ندیاں به جائیں گی –( کتاب خاتمیت پیغمبر اسلام (ص) کے ملحقات،جس میں میرزا حسین علی کے روس کے ساتھـ روابط کے بارے میں مدارک اور روس کے شهنشاه کے نام اس کا خط هے)
[10] - قرن بدیع ، ج٢، ص٤٩، دانشنامه ی جهان اسلام ، ج٤،ص٧٣٥- اس سے مربوط مدارک کے سلسله میں معلومات حاصل کر نے کے لئے کتاب خاتمیت پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے صفحه نمبر ١٠٩ کے بعد کا مطالعه کیا جاسکتا هے – نمونه کے طور پر کتاب " مبین" میں درج کئے گئے بهاء کے نیکا لا ویچ کے نام لکهے گئے خط کے متن کی طرف اشاره کیا جاسکتا هے:
"اے روس کے بادشاه! ملک قدوس کے خداوند (میرزا بهاء ) کی ندا کو سن لو اور بهشت کی طرف دوڑ پڑو، وه جگه جس میں وه لوگ ساکن هیں جنهیں ملاء وبلاء کے درمیان اسمائے حسنی کها جاتا هے اور انشاء کے ملکوت میں خدا کے نام سے روشن هوا هے (شهر عکا) – ایسا نه هو که تمھاری نفسانی خواهشات تمھیں خداوند غفار و رحیم کی طرف توجه کر نے سے روک لیں ، هم نے وه سب سنا هے جو تم نے مخفی طور پر اپنے مولاسے کها هے اس لئے میرے جذبات کی مهربانیاں جوش میں آگئیں اور دریائے رحمت متلاطم هوگیا اور تمھیں بحق جواب دیدیا، یقینا تمھارا خدا دانا وحکیم هے – بیشک تمھارے ایک سفیر نے میری مدد کی ، جب میں جیل میں زنجیروں میں جکڑا هواتها ، اس کام کے لئے خداوند متعال نے تمھارے لئے ایک ایسا مقام عطا کیا هے، که کسی کا علم وهاں تک نهیں پهنچ سکتا هے ..."
[11] -قرن بدیع ،شوقی افندی،ج٢، ص٧٣٦-
[12] - دانشنا مه ی جهان اسلام ، ج٤،ص٧٣٦-
[13] - خاتمیت پیامبر اسلام، ص٧٨-
[14] - مرحوم صاحب جواهر اور شریف العلماء مازندرانی وغیره وه علما تھے جنهوں نے اس کے خلاف حکم کفر کی حمایت کی تهی – (خاتمیت پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم )،ص٤١-
[15] - ملاحظه هو: مجله انتظار، شماره اول ، سال ١٣٨٠، جعفر خوشنویس، ص٢٤٠-٢٥٠، فرق ومذاهب کلامی ، علی ربانی گلپایگانی ، ص٣٣٦- ٣٤٢، فرقه شیخیه کے بارے میں مزید معلو مات حاصل کر نے کے لئے ملاحظه هو: حیاه شیخ احمد احسائی، تالیف فرزند شیخ احمد، تاریخ نبیل، زرندی، ، رد شیخیه، محمد بن سید صالح، قزوینی موسوی، اسرار پیدائش شیخیه، بابیه، بهاییه، محمد کاظم خالصی، کشف المراد(بررسی عقایدشیخیه) ، الف حکیم هاشمی-
[16] - "حروفیان" اور " نقطویا ن" کے عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کر نے کے لئے ملاحظه هو: خاتمیت پیامبر اسلام (ص) ،ص٤٦-٤١-
[17] - بیان الواحد الخامس ، ص١٨، البته باقیمانده چار دنوں کو ، ایام شکر گزاری کے عنوان سے مقرر کیا گیا ، ملاحظه هو: دانشنا مه جهان اسلام ،،ج٤،ص٧٤٢-
[18] - باب الله سات حروف پر مشتمل هے اور علی محمد بهی سات حروف سےتشکیل پاتاهے-
[19] -ملاحضه هو: خاتمیت پیامبر اسلام ، ص٥٢- ٥٣-
[20] - خاتمیت پیامبر اسلام، ص٥٨-
[21] - بیان ، باب خامس عشر از واحد هشتم-
[22] - بیان باب عاشر از واحد هشتم-