Please Wait
کا
7457
7457
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/09/14
سوال کا خلاصہ
شیعہ، کیوں اپنے نام عبدالحسین (حسین کا بندہ) اور عبدالعلی (علی کا بندہ) کے ما ننند رکھتے ہیں؟! جبکہ خداوند متعال فر ما تا ہے کہ صرف میری بندگی کرواور میرے بندے رہو۔
سوال
انسان صرف خدا کا بندہ ہو سکتا ہے ۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:" صرف خدا کی بندگی کرو" پس شیعہ کیوں اپنے نام عبدالحسین (حسین کا بندہ) ، عبدالعلی (علی کا بندہ)، عبدالزہراء اور عبدالامام رکھتے ہیں؟! ائمہ نے اپنے بیٹو کے نام کے نام کیوں عبدالحسین اور عبدالزہراء نہین رکھے ہیں؟ کیا یہ صحیح ہے کہ ہم امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کہیں عبدالحسین، یعنی خادم حسین(ع)؟ خادم وہ ہے جو کھانا پانی آمادہ کرتا ہے اور خدمت کرتا ہے، کیا یہ معقول ہے کہ کوئی امام حسین (ع) کے لئے کھانا پانی لے جائے اور قبر میں آپ (ع) کے لئے وضو کا پانی آمادہ کرے، تاکہ خادم حسین کہا جائے؟
ایک مختصر
1۔ "عبد" کے عربی زبان میں کئی معنی ہیں: اول: وہ جو پرستش، خضوع و عبادت کرتا ہے، دوم: مملوک و غلام
2۔ ائمہ اطہار(ع) کا عظیم مقام اور بلند و بالا شان اس امر کا سبب بنا ہے تاکہ ان کے ارادتمند کبھی اظہار محبت کے لئے عبدالحسین اور عبدالعلی جیسے ناموں، یا ان کے فارسی معادل غلام حسین اور غلام علی وغیرہ سے استفادہ کریں۔
3۔ خدمت و نوکری صرف دنیوی امور اور روزمرہ کاموں کے سلسلہ میں مدد تک محدود نہیں ہے، بلکہ جو چیزاس سے اہم تر وگرامی تر ہے، وہ مولاکی راہ و روش کو احیاء کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہے، کیونکہ اگر چہ ان کا جسم ہمارے درمیان میں نہیں ہے، لیکن ان کی روح زندہ اور ہمارے اعمال پر ناظر ہے۔
4۔ مذکورہ نام گزاریوں میں (عبدالحسین کے مانند) لفظ"عبد" کا استفادہ صرف اظہار ارادت اور مناسب خدمات کے لئے آمادگی کے معنی میں جائز ہے، کیونکہ اگر عبدالحسین جیسے نام رکھنا پرستش و بندگی کے معنی میں ہوتو وہ شرک ہے اور غضب پروردگار کا سبب بن جاتا ہے۔
5۔ اس قسم کے نام تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور ائمہ اطہار (ع) کی سفارش زیادہ تر عبدالرحمن، محمد اورعلی جیسے ناموں کے سلسلہ میں ہے۔
2۔ ائمہ اطہار(ع) کا عظیم مقام اور بلند و بالا شان اس امر کا سبب بنا ہے تاکہ ان کے ارادتمند کبھی اظہار محبت کے لئے عبدالحسین اور عبدالعلی جیسے ناموں، یا ان کے فارسی معادل غلام حسین اور غلام علی وغیرہ سے استفادہ کریں۔
3۔ خدمت و نوکری صرف دنیوی امور اور روزمرہ کاموں کے سلسلہ میں مدد تک محدود نہیں ہے، بلکہ جو چیزاس سے اہم تر وگرامی تر ہے، وہ مولاکی راہ و روش کو احیاء کرنا اور اس کی پیروی کرنا ہے، کیونکہ اگر چہ ان کا جسم ہمارے درمیان میں نہیں ہے، لیکن ان کی روح زندہ اور ہمارے اعمال پر ناظر ہے۔
4۔ مذکورہ نام گزاریوں میں (عبدالحسین کے مانند) لفظ"عبد" کا استفادہ صرف اظہار ارادت اور مناسب خدمات کے لئے آمادگی کے معنی میں جائز ہے، کیونکہ اگر عبدالحسین جیسے نام رکھنا پرستش و بندگی کے معنی میں ہوتو وہ شرک ہے اور غضب پروردگار کا سبب بن جاتا ہے۔
5۔ اس قسم کے نام تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور ائمہ اطہار (ع) کی سفارش زیادہ تر عبدالرحمن، محمد اورعلی جیسے ناموں کے سلسلہ میں ہے۔
تفصیلی جوابات
"عبد" لغت میں کئی معنی میں آیا ہے: اول، پرستش کنندہ اور عبادت کرنے والا، یعنی وہ جو اپنے معبود کے سامنے، عبودیت، ذلت و طاعت کا اظہار کرتا ہے۔ دوم، غلام اور مملوک کے معنی میں۔[1] ( ایک اور جگہ پر عابد خادم کے معنی میں آیا ہے)۔ عربی ادبیات میں یہ دو معنی رائج اور مصطلح ہیں، من جملہ قرآن مجید ۔۔ جو عربی ادبیات کا بے مثال نمونہ ہے۔۔ میں مذکورہ دونوں معنی استعمال ہوئے ہیں:
الف) پہلے معنی:" یا ایھا الناس اعبدوا ربم الذی خلقکم۔ ۔ ۔"[2] " قال انی عبداللہ آتانی الکتاب۔ ۔ ۔"[3]
اس قسم کی آیات میں خداوند متعال پرستش اور عبادت صرف اپنے لئے شائستہ جانتا ہے۔
ب) دوسرے معنی:" ضرب اللہ مثلاً عبداً مملوکا لا یقدر علی شیء۔ ۔ ۔"[4]
اس آیہ شریفہ میں پروردگار کی کبریایی کی قدرت کے سامنے بتوں کی کمزوری اور ضعف کو ایک آزاد اور مالدار مرد، جو ہمیشہ اپنے مال سے انفاق کر رہا ہے کے سامنے ایک ناتوان اور بے اختیار غلام کی تشبیہ دی گئی ہے۔
ائمہ اطہار (ع) کی عظمت اور ان کی شان کی بلندی، مسلمانوں، خاص کر شیعوں کے لئے ان کے تئیں ہمیشہ تجلیل اور مختلف طریقوں سے اظہار محبت کا سبب بنتی ہے۔ عبدالعلی اور عبدالحسین یا ان کے فارسی معترادف یعنی غلام علی اور غلام حسین کے مانند نام گزاری ، خاندان عصمت و طہارت کے لئے اسی اظہار محبت و ارادت کی نشانی ہے لیکن اس سوال کے جواب میں کہ ائمہ کی شہادت کے بعد اس نام گزاری کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ کہنا چاہئیے کہ: اول یہ کہ امامان معصوم (ع) کی خدمت گزاری اور غلامی ضروری نہیں ہے کہ صرف ان کی دنیوی حیات میں انجام پائے، بلکہ ان کی یاد کی پاسداری، ان کی راہ کا احترم اور ان کے مسلک اور روش کی پیروی بھی ان کی خدمت گزاری اور غلامی ہے، اور ممکن ہے یہ خدمت اس خدمت سے کافی گراں قدرتر ہو جو ان کا ایک غلام ان کی زندگی میں دنیوی امور کے سلسلہ میں انجام دیتا تھا۔ دوسرا یہ کہ امام معصوم (ع) کی شہادت سے صرف ان کا جسم ہم سے جدا ہوتا ہے، لیکن ان کی بلند روح بدستور موجود اور حاصر ہے۔ چنانچہ ہم ائمہ اطہار کی(ع) کی زیارتوں میں پڑھتے ہیں:" و اشھد انّک تسمع کلامی وترد سلامی۔"[5] یعنی" آپ ہماری بات کو سن رہے ہیں اور ہمارے سلام کا جواب دے رہے ہیں"۔ پس ان غلاموں کے ارباب و مالک نیست و نابود نہیں ہوئے ہیں کہ ان کے غلام، غلامی انجام دینے سے پیچھے ہٹیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اور ہم سب کے اعمال کے بارے میں آگاہ و ناظر ہیں۔ تیسرا یہ کہ کسی شخص کے مہمانوں، مجاوروں اور زائروں کی خدمت کرنا بھی خود اس کی خدمت شمار ہوتی ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا نہ۔ پس جو افراد، ائمہ اطہار (ع) کے زائرین اور مہمانوں کی جس صورت میں بھی کوئی خدمت انجام دیں، وہ ان کے عبد و غلام ہوں گے۔
قابل ذکر ہے کہ پرستش، خضوع و عبادت کے معنی میں، عبودیت صرف خالق کائنات اور صاحب ملک و ملکوت، خداوند متعال کے لئے پسندیدہ اور جائز ہے، اور مذکورہ پہلی آیہ شریفہ ( یا ایھا الناس۔ ۔ ۔) کے پیش نظر، پرستش اور عبادت کی شائستگی کا فلسفہ اسی سے مخصوص ہے کہ اولاً: جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور ثالثاً: ہماری پرورش و تربیت کی ہے۔ پس اگر مذکورہ نام گزاری سے کسی شخص کا مقصد پہلے معنی( پرستش)ہوں، تو وہ اسلام اور ایمان کے دائرہ سے خارج ہوکر شرک سے دوچار ہوا ہے۔ اس بنا پر، جس ماحول می ایسے نام رکھنے سے الزام ، تہمت اور بد ظنی کا احتمال ہو، وہاں پر ائمہ اطہار (ع) کی سفارش شدہ نام رکھنا ضروری لگتا ہے۔ مثال کے طور پر امام صادق(ع) کی ایک روایت میں آیا ہے:" (راوی سے مخاطب ہوکر) اپنے بیٹے کے لئے ایسا نام انتخاب کرنا، جس سے خداوند متعال کی بندگی معلوم ہوجائے۔ ۔ ۔ مثال کے طور پر عبدالرحمن"[6] اس کے علاوہ ایک روایت میں " محمد" نام رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔[7] مشہور ہے کہ امام حسین (ع) نے اپنے تین بیٹوں کے نام " علی" رکھا ہے۔[8]
جو کچھ تاریخی اورعلم رجال کی کتابوں کی طرف رجوع کرنےسے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ عبدالعلی، عبدالمجید اور عبدالسلام جیسے نام کافی تعداد میں ذکر ہوئے ہیں۔[9] لیکن عبدالحسین کے مانند نام قدیم زمانہ میں مرسوم نہیں تھے اور علم رجال کی کتابوں میں ان کا ذکر نہیں ایا ہے، لیکن ائمہ اطہار(ع) کی عظمت اور بلند مرتبہ و مقام واضح ہونے اور بیان کی آزادی حاصل ہونے کے بعد ان کے تئیں اظہار محبت و ارادت کے طور پر بہ نام رکھے جانے لگے ہیں۔
نتیجہ:
جو کچھ آخر پر نتیجہ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ عبدالعلی، عبدالرضا وغیرہ جیسے نام، معصوم (ع) کی خدمت کرنے کی آمادگی او اظہار محبت و ارادت کے عنوان سے ہیں، کہ ان کی وفات کے بعد بھی بہ نام رکھے جاتے ہیں اور جہاں پر شرک کا لزام لگنے کا خوف نہ ہو اس قسم کی نام گزاری میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر چہ خود ائمہ (ع) کی طرف سے سفارش کئے گئے نام رکھنا بہتر ہے تاکہ دشمنوں کو شرک و کفر کا الزام لگانے کا بہانہ نہ ملے۔
الف) پہلے معنی:" یا ایھا الناس اعبدوا ربم الذی خلقکم۔ ۔ ۔"[2] " قال انی عبداللہ آتانی الکتاب۔ ۔ ۔"[3]
اس قسم کی آیات میں خداوند متعال پرستش اور عبادت صرف اپنے لئے شائستہ جانتا ہے۔
ب) دوسرے معنی:" ضرب اللہ مثلاً عبداً مملوکا لا یقدر علی شیء۔ ۔ ۔"[4]
اس آیہ شریفہ میں پروردگار کی کبریایی کی قدرت کے سامنے بتوں کی کمزوری اور ضعف کو ایک آزاد اور مالدار مرد، جو ہمیشہ اپنے مال سے انفاق کر رہا ہے کے سامنے ایک ناتوان اور بے اختیار غلام کی تشبیہ دی گئی ہے۔
ائمہ اطہار (ع) کی عظمت اور ان کی شان کی بلندی، مسلمانوں، خاص کر شیعوں کے لئے ان کے تئیں ہمیشہ تجلیل اور مختلف طریقوں سے اظہار محبت کا سبب بنتی ہے۔ عبدالعلی اور عبدالحسین یا ان کے فارسی معترادف یعنی غلام علی اور غلام حسین کے مانند نام گزاری ، خاندان عصمت و طہارت کے لئے اسی اظہار محبت و ارادت کی نشانی ہے لیکن اس سوال کے جواب میں کہ ائمہ کی شہادت کے بعد اس نام گزاری کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ کہنا چاہئیے کہ: اول یہ کہ امامان معصوم (ع) کی خدمت گزاری اور غلامی ضروری نہیں ہے کہ صرف ان کی دنیوی حیات میں انجام پائے، بلکہ ان کی یاد کی پاسداری، ان کی راہ کا احترم اور ان کے مسلک اور روش کی پیروی بھی ان کی خدمت گزاری اور غلامی ہے، اور ممکن ہے یہ خدمت اس خدمت سے کافی گراں قدرتر ہو جو ان کا ایک غلام ان کی زندگی میں دنیوی امور کے سلسلہ میں انجام دیتا تھا۔ دوسرا یہ کہ امام معصوم (ع) کی شہادت سے صرف ان کا جسم ہم سے جدا ہوتا ہے، لیکن ان کی بلند روح بدستور موجود اور حاصر ہے۔ چنانچہ ہم ائمہ اطہار کی(ع) کی زیارتوں میں پڑھتے ہیں:" و اشھد انّک تسمع کلامی وترد سلامی۔"[5] یعنی" آپ ہماری بات کو سن رہے ہیں اور ہمارے سلام کا جواب دے رہے ہیں"۔ پس ان غلاموں کے ارباب و مالک نیست و نابود نہیں ہوئے ہیں کہ ان کے غلام، غلامی انجام دینے سے پیچھے ہٹیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اور ہم سب کے اعمال کے بارے میں آگاہ و ناظر ہیں۔ تیسرا یہ کہ کسی شخص کے مہمانوں، مجاوروں اور زائروں کی خدمت کرنا بھی خود اس کی خدمت شمار ہوتی ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا نہ۔ پس جو افراد، ائمہ اطہار (ع) کے زائرین اور مہمانوں کی جس صورت میں بھی کوئی خدمت انجام دیں، وہ ان کے عبد و غلام ہوں گے۔
قابل ذکر ہے کہ پرستش، خضوع و عبادت کے معنی میں، عبودیت صرف خالق کائنات اور صاحب ملک و ملکوت، خداوند متعال کے لئے پسندیدہ اور جائز ہے، اور مذکورہ پہلی آیہ شریفہ ( یا ایھا الناس۔ ۔ ۔) کے پیش نظر، پرستش اور عبادت کی شائستگی کا فلسفہ اسی سے مخصوص ہے کہ اولاً: جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور ثالثاً: ہماری پرورش و تربیت کی ہے۔ پس اگر مذکورہ نام گزاری سے کسی شخص کا مقصد پہلے معنی( پرستش)ہوں، تو وہ اسلام اور ایمان کے دائرہ سے خارج ہوکر شرک سے دوچار ہوا ہے۔ اس بنا پر، جس ماحول می ایسے نام رکھنے سے الزام ، تہمت اور بد ظنی کا احتمال ہو، وہاں پر ائمہ اطہار (ع) کی سفارش شدہ نام رکھنا ضروری لگتا ہے۔ مثال کے طور پر امام صادق(ع) کی ایک روایت میں آیا ہے:" (راوی سے مخاطب ہوکر) اپنے بیٹے کے لئے ایسا نام انتخاب کرنا، جس سے خداوند متعال کی بندگی معلوم ہوجائے۔ ۔ ۔ مثال کے طور پر عبدالرحمن"[6] اس کے علاوہ ایک روایت میں " محمد" نام رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔[7] مشہور ہے کہ امام حسین (ع) نے اپنے تین بیٹوں کے نام " علی" رکھا ہے۔[8]
جو کچھ تاریخی اورعلم رجال کی کتابوں کی طرف رجوع کرنےسے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ عبدالعلی، عبدالمجید اور عبدالسلام جیسے نام کافی تعداد میں ذکر ہوئے ہیں۔[9] لیکن عبدالحسین کے مانند نام قدیم زمانہ میں مرسوم نہیں تھے اور علم رجال کی کتابوں میں ان کا ذکر نہیں ایا ہے، لیکن ائمہ اطہار(ع) کی عظمت اور بلند مرتبہ و مقام واضح ہونے اور بیان کی آزادی حاصل ہونے کے بعد ان کے تئیں اظہار محبت و ارادت کے طور پر بہ نام رکھے جانے لگے ہیں۔
نتیجہ:
جو کچھ آخر پر نتیجہ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ عبدالعلی، عبدالرضا وغیرہ جیسے نام، معصوم (ع) کی خدمت کرنے کی آمادگی او اظہار محبت و ارادت کے عنوان سے ہیں، کہ ان کی وفات کے بعد بھی بہ نام رکھے جاتے ہیں اور جہاں پر شرک کا لزام لگنے کا خوف نہ ہو اس قسم کی نام گزاری میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر چہ خود ائمہ (ع) کی طرف سے سفارش کئے گئے نام رکھنا بہتر ہے تاکہ دشمنوں کو شرک و کفر کا الزام لگانے کا بہانہ نہ ملے۔
[1]۔ معنای اول: «ان العامة اجتمعوا علی تفرقه مابین عبادالله والعبید المملوکین» مقاییس اللغة، ج 4، ص 205؛
«وحده وخدمه و خضع و ذل و طاع له»، المنجد، ص 486؛
معنای دوم: «العبد و هو المملوک»، مقاییس اللغة، ج 4، ص 205؛
«المملوک» المنجد، ص 483؛
العابد، الخادم. مقاییس اللغة، ج 4، ص 205 و المنجد، ص 483.
«وحده وخدمه و خضع و ذل و طاع له»، المنجد، ص 486؛
معنای دوم: «العبد و هو المملوک»، مقاییس اللغة، ج 4، ص 205؛
«المملوک» المنجد، ص 483؛
العابد، الخادم. مقاییس اللغة، ج 4، ص 205 و المنجد، ص 483.
[2]۔ بقره، 21 " اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا ہے۔"
[3]۔ مریم، 30 " اس نے کہا: بیشک میں خدا کا بندہ ہوں۔"
[4] ۔ نحل، 75 " ا للہ نے خود اس غلام مملوک کی مثال بیان کی ہے جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔"
[5] ۔ زیارت امام رضا (ع)، مفاتیح الجنان.
[6] ۔ وسائل الشیعة، ج 7، ص 125.
[7] ۔ ایضاً۔
[8] ۔ علی اکبر، علی اوسط و علی اصغر.
[9] ۔ معجم الثقاة، ج 9، ص 356-254. در جلدهای 10 و 11 نیز ادامه دارد.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے